کاش کہ ایسا ہوتا جو نہیں ہوا
16 ماہ تک وزیر اعظم رہنے والے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ میں مطمئن ہوں اور اپنی ذمے داریاں نبھا کر رخصت ہو رہا ہوں
16 ماہ تک وزیر اعظم رہنے والے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ میں مطمئن ہوں اور اپنی ذمے داریاں نبھا کر رخصت ہو رہا ہوں۔
انھیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ جب جی ایچ کیو کے الوداعی دورے پر گئے تھے تو وہاں آرمی چیف نے آنر پیش کیا تھا اور فوجی سلامی سے انھیں رخصت کیا تھا اور یہ اعزاز صرف وزیر اعظم شہباز شریف کو ملا تھا اور جشن آزادی کے موقع پر نگراں وزیر اعظم کی ایوان صدر میں منعقدہ حلف برداری میں بھی وہ صدر مملکت کے ہمراہ بیٹھے تھے جس کے بعد وہ ایوان وزیر اعظم آ کر لاہور روانہ ہوئے تھے۔
قومی اسمبلی سے بقایا مدت کے لیے 16 ماہ قبل منتخب ہونے والے وزیر اعظم شہباز شریف سے تو پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے موجودہ صدر ڈاکٹر عارف علوی نے حلف نہیں لیا تھا اور وہ بیماری کا بہانہ کر گئے تھے جس کی وجہ سے منتخب وزیر اعظم سے صدر مملکت کے ایوان صدر میں موجود ہوتے ہوئے بھی چیئرمین سینیٹ نے حلف لیا تھا جو ایک ریکارڈ رہے گا اور صدر علوی نے چند ماہ بعد اپنی پارٹی کے منتخب وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی سے رات گئے ایوان صدر میں حلف لیا تھا اور یہ بھی ایک انوکھی مثال تھی کہ صدر مملکت نے اپنی پارٹی سے تعلق نہ رکھنے والے منتخب وزیر اعظم سے حلف لینے سے انکار کر دیا تھا مگر انھوں نے 16 ماہ کے بعد ایک نگران وزیر اعظم سے ضرور حلف لیا مگر سبکدوش ہونے والے وزیر اعظم کے اعزاز میں کوئی الوداعی تقریب کا بھی اہتمام نہیں کیا جب کہ دس سال قبل ایوان صدر سے رخصت ہونے والے پیپلز پارٹی کے صدر مملکت آصف زرداری کو ایوان وزیر اعظم میں نواز شریف نے عشائیہ دیا تھا جب کہ پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت میں میاں نواز شریف میموگیٹ کے سلسلے میں سپریم کورٹ گئے تھے جس پر پیپلز پارٹی ان سے ناخوش تھی مگر بعد میں جب نواز شریف وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے تو ان سے حلف بھی صدر آصف زرداری نے لیا تھا اور ان کی مدت ختم ہونے پر وزیر اعظم نواز شریف نے انھیں عزت سے رخصت کیا تھا جو ایک اچھی مثال تھی اور اس سے قبل کسی صدر مملکت کو ایوان وزیر اعظم میں ایسی عزت نہیں ملی تھی۔
1977 کے بعد سے غیر جمہوری دور کے علاوہ کسی سیاسی حکومت میں ایوان وزیر اعظم میں کسی بھی سویلین صدر کی رخصتی پر کوئی عشائیہ نہیں دیا جاتا تھا۔ سیاسی دور میں الگ الگ سیاسی پارٹی کے صدر اور وزرائے اعظم بھی رہے اور ان میں باہمی و سیاسی رنجشیں بھی رہیں اور صدر جنرل پرویز مشرف کے علاوہ کسی اور سویلین صدر مملکت کو یہ اعزاز نہیں ملا کہ اسے ایوان صدر میں الوداعی گارڈ آف آنر دے کر رخصت کیا گیا ہو۔
تین بار ملک کا وزیر اعظم، دو بار ملک کے وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف اور بے نظیر بھٹو اور ایک ایک بار منتخب ہونے والے کسی بھی وزیر اعظم کی ایوان وزیر اعظم سے ایسی باعزت واپسی نہیں ہوئی کہ اسے منتخب یا نگران وزیر اعظم نے گارڈ آف آنر کے بعد میاں شہباز شریف کی طرح عزت سے رخصت کیا ہو۔ ماضی میں دو وزرائے اعظم عدالتی نااہلی سے اقتدار سے محروم ہوئے۔
بے نظیر بھٹو اور نواز شریف دو بار اپنے ہی سویلین صدور کے ہاتھوں برطرف ہوئے۔ میاں نواز شریف اور محمد خان جونیجو غیر سول صدور کے ہاتھوں اقتدار سے نکالے گئے۔ صدر جنرل پرویز مشرف نے اپنی ہی پارٹی کے وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی سے استعفیٰ لیا تھا۔
1970 سے قبل بھی دو غیر سول صدور اقتدار میں آئے تھے اور اس سے قبل گورنر جنرل غلام محمد اور صدر اسکندر مرزا بھی آئے دن وزیر اعظم بدلا کرتے تھے۔ صدر جنرل ایوب خان نے اقتدار جنرل یحییٰ کے سپرد کیا تھا جس کے بعد 1970 کے انتخابات کے نتائج تسلیم نہیں کیے جانے پر اقتدار کے لیے ملک دولخت کرایا گیا جس کے بعد دنیا کی تاریخ میں پاکستان میں پہلی بار ایک سیاستدان ذوالفقار علی بھٹو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور بعد میں صدر بنائے گئے جنھوں نے ملک کو 1973 کا متفقہ آئین دلایا جس میں مارشل لا روکنے کی دفعہ شامل کی گئی جس کے بعد میں دو غیر سول صدر بیس سال اقتدار میں رہے اور 2007 میں غیر سول صدر کی وردی اتری اور 2008 کے بعد سے ملک میں چار قومی اسمبلیوں نے اپنی 5 سالہ مدت مکمل کی جس میں 2002 سے 2023 تک سات وزرائے اعظم اقتدار میں آئے۔
تین قومی اسمبلیوں میں ارکان نے صدر مملکت اور وزرائے اعظم منتخب کیے مگر صدور کے علاوہ کوئی ایک بھی وزیر اعظم اپنی آئینی مدت پوری نہ کرسکا اور اسمبلیوں نے پانچ پانچ سالوں کے لیے ایک غیرسویلین اور تین سویلینز کو صدر منتخب کیا تھا جنھوں نے اپنی مدت مکمل کی اور موجودہ صدر ڈاکٹر علوی واحد صدر ہیں جو مدت ختم ہونے کے بعد بھی نئے صدر کے انتخاب تک صدر رہیں گے۔
اپریل 2022 میں ملکی تاریخ میں پہلی بار پی ٹی آئی کے وزیر اعظم کو آئینی طور پر تحریک عدم اعتماد کے ذریعے سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ہٹایا گیا توانھوں نے تحریک عدم اعتماد سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی مگر ناکام رہے تھے۔
44 ماہ اقتدار میں رہ کر من مانیوں کے عادی وزیر اعظم نے سیاسی انتقامی کارروائیوں کا ریکارڈ بنایا۔ اپنے تمام سیاسی مخالفین کو جیلوں میں قید رکھا اور اب خود ایک عدالتی فیصلے کے تحت جیل بھگت رہے ہیں جن پر مقدمات ہیں۔
2018 سے 2023 تک دو وزیر اعظم اقتدار میں رہے جن کے دور میں مہنگائی کا ریکارڈ قائم ہوا، دونوں نے عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا۔ پہلے نے اقتدار بچانے اور انتقام میں مدت گزاری دوسرے نے عزت سے 16 ماہ کی مدت مکمل کی۔ اگر ماضی میں منتقلی اقتدار کی کوئی اچھی مثال کی جاتی ایک دوسرے کی عزت کی جاتی تو صورتحال مختلف ہوتی۔ کاش اگست 2023 جیسی اقتدار کی منتقلی ہوتی مگر افسوس ماضی میں ایسا نہیں ہوا۔