سچائی کی جیت

صدیاں گزرگئیں، ہزارے گزرگئے۔ لیکن یہ چاردن ختم ہونے میں نہیں آرہے ہیں

barq@email.com

وہ ایک پشتو کا ٹپہ ہم اکثر سناتے ہیں کہ ابھی میں اپنے باپ کا پنگوڑاجھلارہا تھا کہ اچانک آوازآئی کہ تیرادادا بھی پیدا ہوگیا۔

ابھی ہم یہ معمہ حل نہیں کرپائے تھے کہ انصاف کی دیوی یا دیوتا جو دکھایا جاتا ہے اس کی آنکھوں پر پٹی کیوں باندھی جاتی ہے جب ہاتھ میں ترازو ہوتاہے تو اس کامطلب یہی ہے کہ وہ کچھ تول رہاہے اورتولنے کے لیے ترازو اورباٹوں کو صرف دیکھتا نہیں بلکہ غورسے دیکھنا پڑتا ہے لیکن یہاں جناب یاجنابہ کے ہاتھ میں ترازو دے کر اس کی آنکھوں پر کالی پٹی باندھی گئی ہے کہ چل۔ جیسا ترازو ویسا تول بلکہ اگر تول کے ساتھ ''مول '' بھی کرو تو کوئی بات نہیں اور اب اس کے اوپر ایک اورمسئلہ پیدا ہوگیا یعنی باپ ابھی جھولے سے اترا نہیں کہ دادا بھی تشریف لے آئے اوریہ ''دادا'' اس ایک فقرے کی شکل میں ہے جو پڑوسی ملک کی عدالتوں یاان کے بقول ''نیائے آلیہ'' کی دیوار پر لکھا ہوتاہے ۔ستیہ مے وجپتے۔مطلب ہے جیت ہمیشہ سچائی کی ہوتی ہے یا سچ کی جیت ہوگی۔

فلموں، ڈراموں یا ویسے ہی جہاں بھی عدالت کاسین ہوتاہے یہ فقرہ لکھا ہوا نظر آتاہے ، چلیے درست ہے مان لیتے ہیں کہ جیت ہمیشہ سچائی کی ہوتی ہے اورسامنے کھڑے ہوئے بلیک اینڈ وائٹس کے باوجود ہوتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ فقرہ ججوں کے پیچھے کیوں لکھا ہوتا ہے۔

ان کے آگے یا سامنے کیوں نہیں؟کیوں کہ ہار جیت کافیصلہ تو انھی کوکرنا ہوتاہے تو پھر وہ اس کی طرف پیٹھ کیے ہوئے کیوں ہوتے ہیں یہ تو وہی بات ہوئی کہ گاڑی آگے اورگھوڑا پیچھے ۔ کسی کی طرف پیٹھ کرنا صاف صاف ناپسندیدگی یاناقبولیت کامظاہرہ ہوتاہے۔

یہاں ہوسکتا ہے کہ کچھ دانشور اپنی دانائی دکھاتے ہوئے بات کو مذہبی دائرے میں گھسیٹ لیں اور حق و باطل کی بات کریں۔ان سے گزارش ہے کہ یہاں ہم مذہبیات کی بات نہیں کرتے وہ حق وباطل اورچیزہے ، ہم پڑوسی ملک کی بات کررہے ہیں بلکہ تعزیرات ہند اینڈ وغیرہ وغیرہ کی بات کررہے ہیں جس کی سربراہ وہ انصاف والی اندھی دیوی ہے اوجس کے ہاتھ میں 'بنیوں ساہوکاروں کامشہور آلہ ضرر یاآلہ واردات ''ترازو''ہے ، اصل میں دونوں ہی جھوٹے ہیں ، انصاف کی دیوی بھی اورستیہ مئے وجپتے بھی ۔ سچ صرف وہ ہے کہ جو ایک بندر کی حکایت میں ہے ۔

کہتے ہیں، دوبلیوں نے گوشت کا یا روٹی کاایک ٹکڑا پایا، دونوں ایک بندر کے پاس گئیں جس کی پیٹھ کے پیچھے ستیہ مئے وجپتے لکھاتھا اورآگے ترازو لٹکاہوا تھا۔دونوں نے اس سے درخواست کی کہ ان کے لیے گوشت یاروٹی کے معاملے میں انصاف کرے ۔بندر نے وہ روٹی یاگوشت ان سے لیا اورجان بوجھ کردوایسے حصوں میں تقسیم کیا جن میں ایک کم دوسرا زیادہ تھا۔

دونوں ٹکڑے ترازو میں ڈالے تو فرق تھا چنانچہ بندرنے اس بھاری ٹکڑے کو لے کر ایک بڑا سا لقمہ بھرا، اب دونوں ٹکڑے ترازو میں ڈالے تو وہ دوسرا ٹکڑا زیادہ نکلا ، بندر نے اس سے بھی لقمہ بھرا تو اب کے وہ پہلے والا ٹکڑا بھاری نکلا، یوں لقمے بھر بھر کر بندرٹکڑے برابرکرتارہا، آخر میں صرف دولقمے ہی رہ گئے ، بندر نے کہا یہ ٹکڑے میں مزدوری کے رکھ لیتا ہو، جاؤ تمہارے درمیان انصاف کردیا ۔


ویسے بھی عام طور پر تقریباً ہرکوئی کہتاہے کہ جیت ہمیشہ سچائی کی ہوتی ہے جو ایک بڑا بین الاقوامی ، بین التاریخی، بین الجغرافیائی اوربین السیاسی جھوٹ ہے کیوں کہ جیت ہمیشہ جھوٹ کی ہوتی رہی ہے، انسانی تاریخ اٹھاکردیکھیے ، سچائی ہمیشہ گھائل اورخون آلود کہیں کسی کونے میں منہ چھپاکر روتی رہتی ہے اور جھوٹ ہمیشہ تخت پر بیٹھ کر تاج پہن کر قہقہے لگاتا اوردھڑلے سے حکومت کرتا رہتاہے لیکن لٹے پٹے سچ کی تسلی کے لیے پھر ایک اوربانسری بجائی جاتی ہے ۔

گرآج تجھ سے جدا ہیں تو کل بہم ہوں گے

یہ چاردن کی جدائی تو کوئی بات نہیں

گرآج اوج پہ ہے طالع رقیب تو کیا

یہ چاردن کی خدائی تو کوئی بات نہیں

صدیاں گزرگئیں، ہزارے گزرگئے۔ لیکن یہ چاردن ختم ہونے میں نہیں آرہے ہیں۔کیابخت نصر سچائی پر تھا جس نے یروشلم اور بنی اسرائیل کو نابود کر دیا، کیاکورش سچائی پر تھاجس نے آدھے ایشیا پر قبضہ کیا، کیا سکندر سچائی پر تھا ، چنگیزو ہلاکو سچائی پر تھے، کیاتیمور سچائی پر تھا، کیا جنگ عظیم اول ودوم کے فاتح سچائی پر تھے اورجو مر کر ملیامیٹ ہوئے وہ ''جھوٹ''تھے ، کشمیر وفلسطین جھوٹ ہیں اوریہود وہنود سچائی ہیں ،کیاہیروشیما اور ناگا ساکی والے جھوٹ تھے اورایٹم بم گرانے والے سچائی پر تھے ۔

ہاں دانا دانشورباتوں کے بتنگڑ بناکر ''سچائی'' کو کسی نہ کسی طرح جتا دیتے ہیں ،چاہے اس کاکچومر ہی کیوں نہ نکالاگیاہو، سچائی تو یہ ہے کہ سچائی صرف ''طاقت'' ہوتی ہے، چاہے وہ جھوٹ کاپلندہ ہی کیوں نہ ہو، وہ دن دورنہیں گیا ہے جب تمام''سچائیوں'' نے مل کرعراق اور افغانستان کا بینڈ بجادیاتھا اوردونوں ممالک کو آج تک ''سچائی'' سے سیراب کررہے ہیں ۔

جہاں تک ستیہ مئے وجپتے کاتعلق ہے تو اس کے زیرسایہ تو وہ سچائی جتنی ہے جسے پیسہ کہتے ہیں، مہنگا وکیل ہمیشہ ''سچائی''ہوتا ہے اورسستا وکیل جھوٹ۔ ستیہ مئے وجپتیویسے انسان کرے بھی کیا، یہی تو انسان کی سب سے بڑی خوبی ہے کہ ہرقسم کے حالات میں اپنے دل کو خوش رکھنے کے لیے کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈلیتا ہے ۔
Load Next Story