حکمرانی کا نظام اور اعتماد کا بحران

سیاسی نظام ہویا غیرسیاسی نظام ہماری ترجیحات میں کبھی حکمرانی کے نظام کی مضبوط بنیادوں پرترجیحات دیکھنے کو نہیں ملتیں

salmanabidpk@gmail.com

ہمارا حکمرانی کا نظام اعتماد کے بحران کا شکار ہے۔ مسئلہ کسی ایک حکومت کا نہیں بلکہ مجموعی طور پر حکمرانی کے نظام کی حکمت عملی یا اس کا طور طریقہ ہی عوام دشمنی سے جڑا ہوا ہے۔

سیاسی نظام ہو یا غیر سیاسی نظام ہماری ترجیحات میں کبھی حکمرانی کے نظام کی مضبوط بنیادوں پر ترجیحات دیکھنے کو نہیں ملتیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ایک عمومی رائے عامہ موجودہ حکمرانی کے نظام کو ہر سطح پر چیلنج کرتی ہے یا اس پر اپنے شدید تحفظات رکھتی ہے۔ سیاسی ، سماجی ، معاشی ، انتظامی اور قانونی محاذ پر عوامی مفادات کے تناظر میں ایک ہیجانی سی کیفیت طاری ہے۔

ایک عمومی رائے یہ بنتی جا رہی ہے کہ سیاست ، جمہوریت ، آئین اور قانون کی حکمرانی کا تصور محض کتابوں یا لفظوں تک محدود ہو گیا ہے اور عملی سطح پر ایک طبقاتی حکمرانی کا نظام ہے جو کمزور طبقات کے مقابلے میں طاقت ور طبقات کے مفادات کے گرد گھومتا ہے ۔ یہ ہی خلیج ہے جو اس وقت حکومتی نظام اور لوگوں کے درمیان پائی جاتی ہے۔

حالیہ دنوں میں ہمیں عوامی محاذ پر بجلی کی قیمتوں میں بدترین اضافہ کی صورت میں جو غم و غصہ دیکھنے کو مل رہا ہے وہ محض ایک ہی مسئلہ تک محدود نظر نہیں آتا بلکہ دیگر روزمرہ کے معاملات یا بنیادی حقوق کی فراہمی کے معاملات میں بھی سخت گیر ردعمل دیکھنے کو مل رہا ہے۔

بجلی یا گیس کی قیمتیں ہوں یا پٹرول یا ڈیزل کی قیمتیں یا ادویات سمیت روزمرہ کے کھانے پینے کی اشیا سب ہی محاذ پر بڑھتی ہوئی قیمتوں یا مہنگائی عوام کے لیے نئی نئی مشکلات پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ آمدن اور اخراجات میں جو عدم توزان دیکھنے کو مل رہا ہے یا جو بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے اس کی موجودگی میں خاندانوں کی سطح پر معاشی انتشار کا بڑھنا فطری امر ہے۔

عمومی طور پر سیاسی، جمہوری حکمرانی پر مبنی نظام کی پہلی ترجیح ہی عوام سے جڑے معاملات اور ان میں زیادہ سے زیادہ ریلیف دینا ہوتا ہے۔ جب کہ اس کے برعکس ہمارا حکمرانی کا نظام محض طاقت کے نظام کے گرد گھومتا ہے اور طاقت کی یہ کنجی عوامی مفادات کے مقابلے میں اہل اقتدار یا طاقت ور طبقات کے ذاتی مفادات کے گرد گھومتا ہے جس کی بنیاد پر قومی سطح پر انتشار کی کیفیت یا سیاست نمایاں ہے ۔

اس حالیہ حکمرانی کے نظام پر یا سیاسی جماعتوں، سیاسی قیادتوں یا سیاسی نظام پر عوامی اعتماد کی ایک جھلک ہمیں عوامی ردعمل میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اس ردعمل میں سیاسی جماعتوں یا ان کی سیاسی قیادتوں کے مقابلے میں عوام ہی بغیر کسی سیاسی سہارے کے سڑکوں پر ہیں۔ صرف جماعت اسلامی کی جانب سے دو ستمبر کو ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا گیا ہے۔

جب کہ باقی سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت پر خاموشی طاری ہے یا ان کے بقول اس کے ذمے دار ہم نہیں بلکہ دیگر جماعتیں ہیں۔عوام کے ساتھ کھڑے ہونے یاان کے دکھ میں اپنی آواز ملانے کے لیے کوئی بھی بڑی سیاسی جماعت نمایاں نظر نہیں آتی۔

بجلی کے بحران کو ہی دیکھ لیں جب ایک بیس سے پچیس ہزار آمدنی والے فرد کے گھر 12ہزار یا 15 ہزار کا بجلی کا بل آئے گا تو وہ کیسے اس پر صبر وشکر ادا کرسکتا ہے۔ 1994سے بجلی کے معاملات کو جب آئی پی پیز کے ماتحت کیا گیا۔


اسی وقت سے یہ بحران تواتر کے ساتھ جاری ہے۔ اسی بحران میں ایک بڑی وجہ اس نظام میں موجود گورننس کی شفافیت کا بھی ہے جو ہمیں بجلی چوری، اقرباپروری، بدعنوانی، کرپشن، لائن لاسز، مختلف علاقہ جات میں بجلی کے بل نہ جمع کروانے کی روایت، بجلی کے محکموں میں ہی موجود خرابیاں یا صلاحیتوں کا فقدان کا بھی ہے۔

ایسے میں عوام دشمنی پر مبنی بجلی کے بلوں میں لاتعداد ٹیکس کی بھرمار اورایسے ایسے ٹیکس کہ عقل بھی دنگ رہ جائے کہ حکومت کیسے لوگوں کا معاشی استحصال کرتی ہے۔ایسے میں دس ارب روپے سے مختلف سرکاری یا غیر سرکاری طاقت ور افراد کو مفت بجلی کی فراہمی خود ایک بڑا مجرمانہ فعل ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا حکمرانی کا نظام لوگوں میں بلاوجہ کا اشتعال ، نفرت اور غصہ کی سیاست کو پیدا نہیں کررہا تو جواب مثبت ہوگا ۔کیونکہ یہ جو ہمیں عوامی سطح پر لاتعلقی اور بیزاری سمیت غصہ کی سیاست یا اشتعال نمایاں نظر آتا ہے یا لوگ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں یا کرپشن یا بدعنوانی کا سہار ا لیتے ہیں تو ان وجوہات میں حکمرانی کے نظام کی عدم شفافیت یا بے انصافی بھی ہے ۔

ہماری سیاسی جماعتوں یا ریاستی نظام میں کوئی ایسا شفافیت پر مبنی روڈ میپ موجود نہیں جو لوگوں میں حقیقی طور پر اعتماد کو ہی بحال کرے کہ ہم بحران کے حل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ جو آج مشکلات ہیں کل اس سے بھی زیادہ مشکلات ہونگی اور ہم کو کوئی ریلیف نہیں مل سکے گا۔

ووٹ کو عزت دو، تبدیلی کی سیاست ، روٹی کپڑا اور مکان یا اسلامی اور جمہوری انقلاب کے نعروں میں سوائے جذباتیت کے کچھ نظر نہیں آتا ۔جمہوریت ، آئین اور قانون کی حکمرانی یا منصفانہ نظام کے سیاسی نعرے بھی اپنی اہمیت کھورہے ہیں اور اسی کی بنیاد پر سیاسی نظام مضبوط ہونے کے بجائے مزید کمزوری کی جانب بڑھ رہا ہے۔ جب سیاسی تحریکیں یا سیاسی جماعتیں کمزور ہونگی تو اس کا نتیجہ بیوروکریسی اور طاقت ور سیاسی و غیر سیاسی اشرافیہ کی صورت میں دیکھنے کو ملتا ہے ۔

ہمیں اپنے سیاسی یا معاشی نظام میں ایسی جکڑ بندی سے گریز کرنا چاہیے جہاں لوگوں کا غصہ کسی نفرت کی سیاست کی صورت اختیار کرجائے یا لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لیں۔ ہمیں اپنے اس نظام میں رہتے ہوئے عام لوگوں کی آوازوں کو سننا ہوگا اور ان پر توجہ دینی ہوگی۔ محض جذباتیت اور نعروں کی بنیاد پر لوگوں کو گمراہ کرنے کے بجائے واقعی عملی بنیادوں پر ان کے ساتھ کھڑے ہوکر مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے ۔

یہ ہی اندازو فکر یا سوچ وفکر لوگوں کو ریاستی اور سیاسی نظام کے قریب لائے گی اور ان کے اعتماد کو بحال کرے گی کہ طاقت ور طبقات ہمارے مسائل پر نہ صرف سنجیدہ ہیں بلکہ ان کی عملی کوشش بھی ان مسائل کے حل میں واضح اور شفاف نظر آتی ہیں۔

اسی طرح حکمران اور طاقت ور طبقات کو لوگوںکے بنیادی مسائل پر مذاق اڑانے کی پالیسی سے بھی گریز کرنا چاہیے۔ یہ کہنا کہ لوگ اگر باہر جارہے ہیں یا ملک چھوڑ رہے ہیں تو کیا فرق پڑتا ہے یا لوگ سادہ زندگی گزاریں اور آسائشوں کو قربان کریں یا لوگ خو دہی اپنے مسائل کے ذمے دار ہیں جیسے باتیں لوگوں کے دکھوں کو اور زیادہ بڑھاتی ہیں۔مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہمیشہ عوام اور کمزور طبقات سے قربانی مانگتے ہیں لیکن اس ملک کی سیاسی طاقت ور اشرافیہ خود کتنی قربانی دینے کے لیے تیار ہے۔

عوام کے مقابلے میں اس طاقت ور اشرافیہ کا رہن سہن اور حکمرانی کا انداز جو انداز ریاستی سطح کے وسائل سے جڑا ہے اس کی تلافی کیسے ہوگی۔اس لیے بنیادی مسئلہ حکمرانی کے نظام میں لوگوں کے اعتماد کی بحالی کا ہے۔ یہ کام مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں کیونکہ اگر ہم نے حکمرانی کے نظام میں شفافیت کے اصول اور عام یا کمزور آدمی کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنالیا تو عوامی اعتماد کی ساکھ بحال ہوسکتی ہے ۔
Load Next Story