شعور مطلق کی جہتیں
ہماری عقل محدود ہے مگر ہم ایک لامحدود عقل سے وابستہ ہیں۔ ہمارا لاشعور مقید ہے،
گزشتہ کالم کا اختتام شعور مطلق پر بحث سے ہوا تھا۔ ذرا موضوع کو ذہن میں تازہ کرتے ہیں۔ شعور کل اس مخفی مگر خبیر و بصیر قوت کو کہتے ہیں جو پورے نظام کائنات کو (ذرے سے لے کر سورج، قطرے سے لے کر سمندر اور جمادات سے لے کر انسان تک کو) نہایت حسن و خوبی کے ساتھ چلا رہی ہے۔ ہم سب کے ذہن اس ہمہ گیر کائناتی شعور سے جڑے ہوئے ہیں۔ جب انفرادی ذہن کا براہ راست رشتہ اس ہمہ گیر کائناتی شعور سے قائم ہوجاتا ہے تو حیرت ناک کرشمے ظہور میں آتے ہیں۔ جن لوگوں نے زندگی کے مختلف شعبوں میں غیر معمولی کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ شعور مطلق ہی سے فیضان حاصل کرکے اس منصب پر فائز ہوسکے ہیں۔ وجدان، القا اور الہام اسی شعور مطلق کے فیوض اور کرامات ہیں۔
یہ شعور مطلق (جو پوری کائنات کے عقب میں اور اس کے اندر رواں دواں ہے) اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار انفرادی ذہن کے ذریعے کرتا ہے۔ شاعری، مصوری، موسیقی، مجسمہ تراشی، فلسفہ طرازی، تاریخ نگاری،سیاست کاری، سائنسی ایجادات، علمی نظریات غرض فرد کے ذہن کا ہر تخلیقی کارنامہ شعور مطلق کی دین اور اس کا عطیہ ہے۔ شعور مطلق سے ایک برقی مقناطیسی رو لاشعور سے ہوتی ہوئی شعور تک آتی ہے اور ہم عظیم الشان کارنامے انجام دینے کی امنگ اپنے اندر پاتے ہیں۔
ایک مثال سے اس حقیقت کو سمجھیں۔ ایک بڑا سا صاف کاغذ لے کر اس میں پانچ سوراخ کریں اور اپنی پانچوں انگلیاں ان سوراخوں میں ڈال دیں، جو شخص آپ کے سامنے کھڑا ہے، اسے یہ پانچوں انگلیاں الگ الگ معلوم ہوں گی اور چونکہ ہر انگلی الگ الگ حرکت بھی کرسکتی ہے، اس لیے اپنے ساتھ والی انگلی سے بالکل الگ نظر آئے گی، لیکن آپ جو پردے کے پیچھے کھڑے ہیں بخوبی واقف ہیں کہ یہ ایک ہی ہاتھ کی پانچ انگلیاں ہیں جو ایک دوسرے سے وابستہ ہیں اور ایک ہی مرکز سے قوت حاصل کرتی ہیں۔ دراصل ہماری بھول یہ ہے کہ جب ہمیں کوئی دکھ پہنچتا ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ یہ دکھ سہنے کے لیے ہم دنیا میں اکیلے ہیں اور کوئی ہمارا حامی و مددگار نہیں لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے ذہن کے عقب میں ایک ہمہ گیر عظیم الشان ذہن مطلق کام کر رہا ہے اور وہ ہر لمحہ ہماری مدد کے لیے تیار ہے۔
ہماری عقل محدود ہے مگر ہم ایک لامحدود عقل سے وابستہ ہیں۔ ہمارا لاشعور مقید ہے، مگر ایک غیر مقید اور آزاد کائناتی شعور ہماری دستگیری کے لیے کمربستہ ہے۔ ہمارا ذہن پابہ زنجیر ہے لیکن جس ذہن سے ہمارا مخفی رابطہ ہے وہ ہر قسم کی قید و بند سے ماورا اور مبرا ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے ذہن کو اس طرح تربیت دیں کہ وہ براہ راست ذہن مطلق سے فیضان حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے۔ صحت مند فکر کو بروئے کار لانا دقت طلب سہی ناممکن نہیں۔ کردار سازی اور تنظیم شخصیت کے طالب علم ارتکاز توجہ کی مختلف مشقوں کے ذریعے رفتہ رفتہ ذہن کو تربیت یافتہ بناسکتے ہیں اور لاشعور کے ذریعے ذہن مطلق سے مکمل توانائی حاصل کرسکتے ہیں۔
دنیا کے تمام دماغ، خواہ وہ چیونٹی کا دماغ ہو یا انسان کا، ایک مخفی ذریعے سے بیکراں ذہانت کے اس عظیم الشان سورج سے نور و حرارت حاصل کررہا ہے، جس سے تمام کائنات زندہ و تابندہ ہے۔ ٹیلی پیتھی یا دو دماغوں کا اتصال اسی شعور مطلق کے ذریعے ایک دوسرے سے ہوتا ہے۔ ہم جو کچھ سوچتے ہیں، اس کی لہریں شعور کل کے توسط سے دوسرے دماغوں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے ہم نے ان ہی کالموں میں انگریزی فلم سیریز ایکس مین کا تذکرہ کیا تھا جس کا کردار ''پروفیسر ایکس'' ٹیلی پیتھی کا حامل ہے۔ فلم کی کہانی کے مطابق پروفیسر ایکس ایک ایسی مشین تیار کرتا ہے جس کی آہنی ٹوپی سر پر پہننے کے بعد وہ ان میوٹنٹس سے بھی رابطہ کرنے کا اہل ہوجاتا ہے جنھیں نہ تو اس نے کبھی دیکھا ہوتا ہے نہ ہی ان کی آواز سنی ہوتی ہے۔ جب کہ ایک عام تاثر یہی ہے کہ ٹیلی پیتھی کے ذریعے کسی دوسرے دماغ سے رابطہ کرنے کے لیے اس کی آواز یا آنکھوں کا دیکھا جانا لازم ہے۔ لیکن حقیقتاً ایسا نہیں، جیسا کہ ہم تذکرہ کررہے ہیں کہ دنیا کے تمام دماغ شعور مطلق کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس لیے بنا کسی میڈیم کے بھی دوسرے دماغ سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
پروفیسر ایکس کی اس ایجاد کے ذریعے وہ اپنی ٹیلی پیتھی کی لہروں کو دنیا میں موجود کسی بھی دماغ سے جوڑ سکتا ہے اور اس سے ہم کلام ہوسکتا ہے۔ یہ محیر العقل مشین اس میڈیم کا کام کرتی ہے جو دوسرے دماغ سے رابطہ کرنے کے لیے ضروری ہے لیکن ہمارا علم ہمیں بتاتا ہے کہ اگر واقعی کوئی ٹیلی پیتھی کا ماہر ہے تو وہ مستقل پریکٹس سے اپنی صلاحیتوں پر اس قدر قادر ہوسکتا ہے کہ فضا میں موجود مقناطیسی لہروں کے ذریعے ہی دنیا کے کسی بھی دماغ سے رابطہ کرسکتا ہے، اس کے لیے کسی اور میڈیم یا مشین کی ضرورت نہیں۔ یاد رہے کہ ہر ذی شعور، (انسان، حیوان، نباتات) میں ٹیلی پیتھی کی صلاحیت موجود ہے، یہ اور بات کہ ہم اس پر قادر نہیں ہیں، لیکن ارتکاز توجہ اور دیگر مشقوں کے ذریعے ٹیلی پیتھی کی ان خوابیدہ صلاحیتوں کو بیدار کیا جاسکتا ہے۔
ہم نے ایکس مین سیریز کا تذکرہ بطور خاص کیا ہے کیونکہ اس فلم سیریز کا ساتواں حصہ ''ڈیز آف فیوچر پاسٹ'' 23 مئی کو ریلیز ہوگی۔ محیر العقل اور ماورائی واقعات میں دلچسپی رکھنے والے لوگوں کو یہ فلم ضرور دیکھنی چاہیے۔ ہم نے اس سے پہلے بھی تذکرہ کیا تھا کہ کہانی اور حقیقت میں فرق ہوتا ہے، شائقین کے لیے دلچسپی کا عنصر برقرار رکھنے کے لیے کہانی میں بہت سی فینٹسی بھی شامل کی جاتی ہے اس کے باوجود کہانی کا اصل موضوع سے رشتہ برقرار رکھنا لازم ہوتا ہے۔ ایکس مین سیریز میں بہت سی فینٹسی موجود ہونے کے باوجود اس میں شامل کردار اور واقعات ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں، خاص کر محیر العقل واقعات اور ماورائی علوم سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے اس فلم میں بہت کچھ ہے۔
(نوٹ: گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کریں www.facebook.com/shayan.tamseel)
یہ شعور مطلق (جو پوری کائنات کے عقب میں اور اس کے اندر رواں دواں ہے) اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار انفرادی ذہن کے ذریعے کرتا ہے۔ شاعری، مصوری، موسیقی، مجسمہ تراشی، فلسفہ طرازی، تاریخ نگاری،سیاست کاری، سائنسی ایجادات، علمی نظریات غرض فرد کے ذہن کا ہر تخلیقی کارنامہ شعور مطلق کی دین اور اس کا عطیہ ہے۔ شعور مطلق سے ایک برقی مقناطیسی رو لاشعور سے ہوتی ہوئی شعور تک آتی ہے اور ہم عظیم الشان کارنامے انجام دینے کی امنگ اپنے اندر پاتے ہیں۔
ایک مثال سے اس حقیقت کو سمجھیں۔ ایک بڑا سا صاف کاغذ لے کر اس میں پانچ سوراخ کریں اور اپنی پانچوں انگلیاں ان سوراخوں میں ڈال دیں، جو شخص آپ کے سامنے کھڑا ہے، اسے یہ پانچوں انگلیاں الگ الگ معلوم ہوں گی اور چونکہ ہر انگلی الگ الگ حرکت بھی کرسکتی ہے، اس لیے اپنے ساتھ والی انگلی سے بالکل الگ نظر آئے گی، لیکن آپ جو پردے کے پیچھے کھڑے ہیں بخوبی واقف ہیں کہ یہ ایک ہی ہاتھ کی پانچ انگلیاں ہیں جو ایک دوسرے سے وابستہ ہیں اور ایک ہی مرکز سے قوت حاصل کرتی ہیں۔ دراصل ہماری بھول یہ ہے کہ جب ہمیں کوئی دکھ پہنچتا ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ یہ دکھ سہنے کے لیے ہم دنیا میں اکیلے ہیں اور کوئی ہمارا حامی و مددگار نہیں لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے ذہن کے عقب میں ایک ہمہ گیر عظیم الشان ذہن مطلق کام کر رہا ہے اور وہ ہر لمحہ ہماری مدد کے لیے تیار ہے۔
ہماری عقل محدود ہے مگر ہم ایک لامحدود عقل سے وابستہ ہیں۔ ہمارا لاشعور مقید ہے، مگر ایک غیر مقید اور آزاد کائناتی شعور ہماری دستگیری کے لیے کمربستہ ہے۔ ہمارا ذہن پابہ زنجیر ہے لیکن جس ذہن سے ہمارا مخفی رابطہ ہے وہ ہر قسم کی قید و بند سے ماورا اور مبرا ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے ذہن کو اس طرح تربیت دیں کہ وہ براہ راست ذہن مطلق سے فیضان حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے۔ صحت مند فکر کو بروئے کار لانا دقت طلب سہی ناممکن نہیں۔ کردار سازی اور تنظیم شخصیت کے طالب علم ارتکاز توجہ کی مختلف مشقوں کے ذریعے رفتہ رفتہ ذہن کو تربیت یافتہ بناسکتے ہیں اور لاشعور کے ذریعے ذہن مطلق سے مکمل توانائی حاصل کرسکتے ہیں۔
دنیا کے تمام دماغ، خواہ وہ چیونٹی کا دماغ ہو یا انسان کا، ایک مخفی ذریعے سے بیکراں ذہانت کے اس عظیم الشان سورج سے نور و حرارت حاصل کررہا ہے، جس سے تمام کائنات زندہ و تابندہ ہے۔ ٹیلی پیتھی یا دو دماغوں کا اتصال اسی شعور مطلق کے ذریعے ایک دوسرے سے ہوتا ہے۔ ہم جو کچھ سوچتے ہیں، اس کی لہریں شعور کل کے توسط سے دوسرے دماغوں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے ہم نے ان ہی کالموں میں انگریزی فلم سیریز ایکس مین کا تذکرہ کیا تھا جس کا کردار ''پروفیسر ایکس'' ٹیلی پیتھی کا حامل ہے۔ فلم کی کہانی کے مطابق پروفیسر ایکس ایک ایسی مشین تیار کرتا ہے جس کی آہنی ٹوپی سر پر پہننے کے بعد وہ ان میوٹنٹس سے بھی رابطہ کرنے کا اہل ہوجاتا ہے جنھیں نہ تو اس نے کبھی دیکھا ہوتا ہے نہ ہی ان کی آواز سنی ہوتی ہے۔ جب کہ ایک عام تاثر یہی ہے کہ ٹیلی پیتھی کے ذریعے کسی دوسرے دماغ سے رابطہ کرنے کے لیے اس کی آواز یا آنکھوں کا دیکھا جانا لازم ہے۔ لیکن حقیقتاً ایسا نہیں، جیسا کہ ہم تذکرہ کررہے ہیں کہ دنیا کے تمام دماغ شعور مطلق کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس لیے بنا کسی میڈیم کے بھی دوسرے دماغ سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
پروفیسر ایکس کی اس ایجاد کے ذریعے وہ اپنی ٹیلی پیتھی کی لہروں کو دنیا میں موجود کسی بھی دماغ سے جوڑ سکتا ہے اور اس سے ہم کلام ہوسکتا ہے۔ یہ محیر العقل مشین اس میڈیم کا کام کرتی ہے جو دوسرے دماغ سے رابطہ کرنے کے لیے ضروری ہے لیکن ہمارا علم ہمیں بتاتا ہے کہ اگر واقعی کوئی ٹیلی پیتھی کا ماہر ہے تو وہ مستقل پریکٹس سے اپنی صلاحیتوں پر اس قدر قادر ہوسکتا ہے کہ فضا میں موجود مقناطیسی لہروں کے ذریعے ہی دنیا کے کسی بھی دماغ سے رابطہ کرسکتا ہے، اس کے لیے کسی اور میڈیم یا مشین کی ضرورت نہیں۔ یاد رہے کہ ہر ذی شعور، (انسان، حیوان، نباتات) میں ٹیلی پیتھی کی صلاحیت موجود ہے، یہ اور بات کہ ہم اس پر قادر نہیں ہیں، لیکن ارتکاز توجہ اور دیگر مشقوں کے ذریعے ٹیلی پیتھی کی ان خوابیدہ صلاحیتوں کو بیدار کیا جاسکتا ہے۔
ہم نے ایکس مین سیریز کا تذکرہ بطور خاص کیا ہے کیونکہ اس فلم سیریز کا ساتواں حصہ ''ڈیز آف فیوچر پاسٹ'' 23 مئی کو ریلیز ہوگی۔ محیر العقل اور ماورائی واقعات میں دلچسپی رکھنے والے لوگوں کو یہ فلم ضرور دیکھنی چاہیے۔ ہم نے اس سے پہلے بھی تذکرہ کیا تھا کہ کہانی اور حقیقت میں فرق ہوتا ہے، شائقین کے لیے دلچسپی کا عنصر برقرار رکھنے کے لیے کہانی میں بہت سی فینٹسی بھی شامل کی جاتی ہے اس کے باوجود کہانی کا اصل موضوع سے رشتہ برقرار رکھنا لازم ہوتا ہے۔ ایکس مین سیریز میں بہت سی فینٹسی موجود ہونے کے باوجود اس میں شامل کردار اور واقعات ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں، خاص کر محیر العقل واقعات اور ماورائی علوم سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے اس فلم میں بہت کچھ ہے۔
(نوٹ: گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کریں www.facebook.com/shayan.tamseel)