ہم نہیں بدلے
ٹی ایس ایلیٹ کہتا ہے ’’ہمارا شعور و ادراک جیسے جیسے ہمارے گردوپیش کی دنیا بدلتی ہے خود بھی بدلتا رہتاہے ۔
ٹی ایس ایلیٹ کہتا ہے ''ہمارا شعور و ادراک جیسے جیسے ہمارے گردوپیش کی دنیا بدلتی ہے خود بھی بدلتا رہتاہے ۔مثلاً اب ہمارا شعور و ادراک وہ نہیں ہے جو چینیوں کا ہندوئوں کا تھا بلکہ وہ اب ویسا بھی نہیں ہے جیسا کہ کئی سو سال قبل ہمارے آبا واجداد کا تھایہ ویسا بھی نہیں ہے جیسا ہمارے اپنے با پ دادا کا تھا بلکہ ہم خود بھی وہ شخص نہیں ہیں جو ایک سال پہلے تھے ۔'' اگر میں آپ سے یہ سوال کروں کہ بادشاہ جہانگیر اور آج کے دور میں کیا فرق ہے تو آپ ایک دو نہیں بلکہ سیکڑوں طریقوں اور مثالوں سے یہ ثابت کر نے میں کامیاب ہو جائیں گے کہ آج کے دور اور بادشاہ جہانگیر کے دور میں زمین وآٓسمان کا فرق ہے انسان نے آج سماجی، ثقافتی، معاشی، سائنس، تہذیب و تمدن ، سوچ و فکر، رہن سہن میں ترقی کی ان گنت منزلیں عبورکرلی ہیں۔
انسان کا حلیہ اور طور طریقے یکسر تبدیل ہوچکے ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود میں یہ ثابت کردوں کہ یہ تو سچ ہے کہ معاشرہ بدل گیا ہے انسان بدل گیا ہے لیکن انسان کے اندر بیٹھا ہوا انسان بالکل نہیں بدلا ہے تو پھر آپ کیا کہیں گے۔ آئیں سب سے پہلے تو آپ بادشاہ جہانگیر دور کے ایک یورپی سیاح پیلسے ٹرٹ کے سفر نا مے کے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیں جو اس نے 1626 میں تحریر کیے تھے پیلسے ٹرٹ ایک ڈچ فیکٹر کے طورپر ہندوستان میں مقیم تھا وہ لکھتا ہے ''عدالت میں ہر شخص ہاتھ پھیلائے مانگنے کے لیے کھڑا ہوتا ہے کسی پر اس وقت تک نہ تو رحم کیا جاتا ہے اور نہ ترس کھایا جاتا ہے کہ جب تک وہ شخص رشوت نہ دے دے اس سلسلے میں اعلی عہدیداروں کو ہی قصور وار ٹہرانا مناسب نہیں ہے بلکہ یہ وبا پلیگ کی طرح ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔
چھوٹے سے لے کر بڑے تک اس میں ملوث ہیں ہر شخص دولت کی ہوس میں اس قدر گرفتار ہے کہ اس کی خواہش کبھی پوری ہونے کا نام ہی نہیں لیتی اس لیے اگر کسی شخص کو عامل سے یا سر کار سے کچھ کام ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ رشوت کے لیے پیسوں کا بندوبست کرے ۔''
یہ سیاح آگے چل کر ملک کی امن وامان کی صورتحال کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ کئی مشہور شہروں میں چور ، ڈاکو اور لٹیرے دن یا رات کسی بھی وقت آکر لوٹ مار کرتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر چوروں اور ڈاکوئوں کی جانب سے گورنر کو رشوت دے دی جاتی ہے کہ وہ تماشائی رہے اور انہیں کچھ نہ کہے حکومت کے عملے کے لیے دولت کا لالچ اس قدر حاوی ہے کہ وہ اپنی عزت و نام کا بھی کچھ خیال نہیں کرتے اور ہر حیلے بہانے اور نا جائز طریقے سے دولت اکٹھی کر کے اپنے محلات تعمیر کرتے ہیں ۔ان میں خوبصورت عورتوں کو جمع کرتے ہیں اس طرح وہ اپنے گھروں کو عیاشی کا ایسا نمونہ بناتے ہیں کہ شاید دنیامیں اس کی مثال نہ ہو۔ اس دور میں محنت کشوں کے بارے میں پیلسے ٹرٹ لکھتا ہے۔
یہاں پر مزدوروں اور دست کاروں کے لیے دو عذاب ہیں، پہلا عذاب تو یہ ہے کہ ان کی تنخواہیں بے انتہا کم ہیں۔ ستار ، رنگریز ، کشیدہ کاری کرنے والے ، قالین بننے والے ، جولاہے ، لوہار ، درزی ، علماء ، پتھر توڑنے والے اور اس طرح کے دوسرے پیشہ ور دستکار اور ہنر مند یہ اس کام کو جو ہالینڈ میں ایک آدمی کرتا ہے یہ چار مل کرکرتے ہیں ۔صبح سے شام تک کام کرنے کے بعد ان کی روزانہ کی کمائی مشکل سے 5 سے 6 ٹکہ ہوتی ہے۔ ایک دوسرا عذاب ان کے لیے گورنر ، امراء ، دیوان ، کوتوال بخشی اور دوسرے شاہی عہدے داروں کی شکل میں آتا ہے ۔
اگر ان میں سے کسی کو کام کروانے کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ کام کرنے والے کو چاہے وہ چاہے یا نہ چاہے زبردستی پکڑ کر بلوا لیتے ہیں ایک مزدور یا کاریگرکی یہ ہمت نہیں ہوتی کہ وہ اس پر ذرا بھی اعتراض کرے، پورے دن کے بعد شام کو یا تو اسے معمولی سی اجرت دی جاتی ہے یا بغیر کسی ادائیگی کے اسے رخصت کر دیاجاتا ہے ان حالات کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کا کھانا کس قسم کا ہوگا وہ گوشت کے ذائقہ سے بہت کم واقف ہوتے ہیں ان کے روز کے کھانے میں سوائے کھچڑی کے اور کچھ نہیں ہوتا جسے چاول اور مونگ کو ملا کر پکایا جاتاہے دن کے کھانے میں بھنے ہوئے چنے کھالیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے لیے یہ غذا کافی ہے۔
حکمرانوں کے ملازمین کے بارے میں پیلسے لکھتا ہے اگر مالک یا آقا کسی اہم عہدے اور منصب پر فائز ہوتا ہے تو اس صورت میں اس کے ملازمین بھی بدتمیز اور مغرور ہو جاتے ہیں یہ بھی معصوم لوگوں پر ظلم ڈھاتے ہیں اور اپنے مالک کی طاقت اور اختیارات کا فائد ہ اٹھاتے ہوئے کئی برائیوں کے مرتکب ہوتے ہیں جب بھی انہیں موقع ملتا ہے اپنا حصہ دستوری یاکمیشن کے رکھ لیتے ہیں ۔
ان چار سو سالوں میں دنیا بدل گئی لیکن ہم نے نہ بدلنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ چار سو سال بعد بھی آج اسلامی جمہوریہ پاکستان میں انسان انسان کا استحصال کررہاہے عام انسان کے لیے بادشاہ جہانگیر کا دور بھی بدترین تھا اور اس کے لیے آج کا دور بھی بدترین ہے۔ ہم ہندوستان پر اپنی ایک ہزار سالہ حکمرانی پر بڑے اتراتے ہیں بڑے فخر سے مثال دیتے ہیں ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اپنے بادشاہوں کی شاہانہ زندگی کا تو بار بار مطالعہ کرکے لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن ان کے ادوار میں عام انسانوں پر کیا بیتی اس کی طرف جھانکنا بھی گوارہ نہیں کرتے۔
ہم ان عقائد و تاریخی حقائق کو جو ہمیں ورثے میں ملتے ہیں بغیر سوچے سمجھے قبول کرلیتے ہیں۔ اس کی ایک تو یہ وجہ ہے کہ انسان غورو فکر سے جی چراتا ہے اور دوسری یہ کہ ان کی جانچ پرکھ کا عمل خاصا اذیت ناک ہوتا ہے غوروفکر نہ کرنے کی وجہ سے ہمارے ذہن میں ان گنت جالے بن جاتے ہیں اور ہم ان جالوں سے اس قدر مانوس ہوجاتے ہیں کہ ہم انہیں صاف ہی نہیں کرنا چاہتے ۔ترقی اور خوشحالی کے لیے کسی بھی معاشرے میں سب سے ضروری عنصر تبدیلی کا ہے اگر آپ خود تبدیلی کے سامنے دیوار بن کر کھڑے ہوجائیں گے تو پھر جمود کبھی بھی ٹوٹ نہیں پائے گا ۔ معاشی انقلاب سے پہلے ذہن میں انقلاب لانا ضروری ہے جب ذہن میں انقلاب آجائے گا تو انسان کے اندر بیٹھا ہوا انسان بھی تبدیل ہو جائے گا ورنہ وہی سب کچھ جو صدیوںسے جاری ہے آگے بھی جاری رہے گا ۔ بقول سا حر لدھیانوی کے
ذہن میں عظمت اجداد کے قصے لے کر
اپنے تاریک گھروندوں کے خلا میں کھو جائو
مر مریں خوابوں کی پریوں سے لپٹ کر سوجائو
ابر پاروں پہ چلو چاند ستاروں میں اڑو
یہ ہی اجداد سے ورثہ میں ملا ہے تم کو
انسان کا حلیہ اور طور طریقے یکسر تبدیل ہوچکے ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود میں یہ ثابت کردوں کہ یہ تو سچ ہے کہ معاشرہ بدل گیا ہے انسان بدل گیا ہے لیکن انسان کے اندر بیٹھا ہوا انسان بالکل نہیں بدلا ہے تو پھر آپ کیا کہیں گے۔ آئیں سب سے پہلے تو آپ بادشاہ جہانگیر دور کے ایک یورپی سیاح پیلسے ٹرٹ کے سفر نا مے کے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیں جو اس نے 1626 میں تحریر کیے تھے پیلسے ٹرٹ ایک ڈچ فیکٹر کے طورپر ہندوستان میں مقیم تھا وہ لکھتا ہے ''عدالت میں ہر شخص ہاتھ پھیلائے مانگنے کے لیے کھڑا ہوتا ہے کسی پر اس وقت تک نہ تو رحم کیا جاتا ہے اور نہ ترس کھایا جاتا ہے کہ جب تک وہ شخص رشوت نہ دے دے اس سلسلے میں اعلی عہدیداروں کو ہی قصور وار ٹہرانا مناسب نہیں ہے بلکہ یہ وبا پلیگ کی طرح ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔
چھوٹے سے لے کر بڑے تک اس میں ملوث ہیں ہر شخص دولت کی ہوس میں اس قدر گرفتار ہے کہ اس کی خواہش کبھی پوری ہونے کا نام ہی نہیں لیتی اس لیے اگر کسی شخص کو عامل سے یا سر کار سے کچھ کام ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ رشوت کے لیے پیسوں کا بندوبست کرے ۔''
یہ سیاح آگے چل کر ملک کی امن وامان کی صورتحال کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ کئی مشہور شہروں میں چور ، ڈاکو اور لٹیرے دن یا رات کسی بھی وقت آکر لوٹ مار کرتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر چوروں اور ڈاکوئوں کی جانب سے گورنر کو رشوت دے دی جاتی ہے کہ وہ تماشائی رہے اور انہیں کچھ نہ کہے حکومت کے عملے کے لیے دولت کا لالچ اس قدر حاوی ہے کہ وہ اپنی عزت و نام کا بھی کچھ خیال نہیں کرتے اور ہر حیلے بہانے اور نا جائز طریقے سے دولت اکٹھی کر کے اپنے محلات تعمیر کرتے ہیں ۔ان میں خوبصورت عورتوں کو جمع کرتے ہیں اس طرح وہ اپنے گھروں کو عیاشی کا ایسا نمونہ بناتے ہیں کہ شاید دنیامیں اس کی مثال نہ ہو۔ اس دور میں محنت کشوں کے بارے میں پیلسے ٹرٹ لکھتا ہے۔
یہاں پر مزدوروں اور دست کاروں کے لیے دو عذاب ہیں، پہلا عذاب تو یہ ہے کہ ان کی تنخواہیں بے انتہا کم ہیں۔ ستار ، رنگریز ، کشیدہ کاری کرنے والے ، قالین بننے والے ، جولاہے ، لوہار ، درزی ، علماء ، پتھر توڑنے والے اور اس طرح کے دوسرے پیشہ ور دستکار اور ہنر مند یہ اس کام کو جو ہالینڈ میں ایک آدمی کرتا ہے یہ چار مل کرکرتے ہیں ۔صبح سے شام تک کام کرنے کے بعد ان کی روزانہ کی کمائی مشکل سے 5 سے 6 ٹکہ ہوتی ہے۔ ایک دوسرا عذاب ان کے لیے گورنر ، امراء ، دیوان ، کوتوال بخشی اور دوسرے شاہی عہدے داروں کی شکل میں آتا ہے ۔
اگر ان میں سے کسی کو کام کروانے کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ کام کرنے والے کو چاہے وہ چاہے یا نہ چاہے زبردستی پکڑ کر بلوا لیتے ہیں ایک مزدور یا کاریگرکی یہ ہمت نہیں ہوتی کہ وہ اس پر ذرا بھی اعتراض کرے، پورے دن کے بعد شام کو یا تو اسے معمولی سی اجرت دی جاتی ہے یا بغیر کسی ادائیگی کے اسے رخصت کر دیاجاتا ہے ان حالات کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کا کھانا کس قسم کا ہوگا وہ گوشت کے ذائقہ سے بہت کم واقف ہوتے ہیں ان کے روز کے کھانے میں سوائے کھچڑی کے اور کچھ نہیں ہوتا جسے چاول اور مونگ کو ملا کر پکایا جاتاہے دن کے کھانے میں بھنے ہوئے چنے کھالیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے لیے یہ غذا کافی ہے۔
حکمرانوں کے ملازمین کے بارے میں پیلسے لکھتا ہے اگر مالک یا آقا کسی اہم عہدے اور منصب پر فائز ہوتا ہے تو اس صورت میں اس کے ملازمین بھی بدتمیز اور مغرور ہو جاتے ہیں یہ بھی معصوم لوگوں پر ظلم ڈھاتے ہیں اور اپنے مالک کی طاقت اور اختیارات کا فائد ہ اٹھاتے ہوئے کئی برائیوں کے مرتکب ہوتے ہیں جب بھی انہیں موقع ملتا ہے اپنا حصہ دستوری یاکمیشن کے رکھ لیتے ہیں ۔
ان چار سو سالوں میں دنیا بدل گئی لیکن ہم نے نہ بدلنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ چار سو سال بعد بھی آج اسلامی جمہوریہ پاکستان میں انسان انسان کا استحصال کررہاہے عام انسان کے لیے بادشاہ جہانگیر کا دور بھی بدترین تھا اور اس کے لیے آج کا دور بھی بدترین ہے۔ ہم ہندوستان پر اپنی ایک ہزار سالہ حکمرانی پر بڑے اتراتے ہیں بڑے فخر سے مثال دیتے ہیں ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اپنے بادشاہوں کی شاہانہ زندگی کا تو بار بار مطالعہ کرکے لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن ان کے ادوار میں عام انسانوں پر کیا بیتی اس کی طرف جھانکنا بھی گوارہ نہیں کرتے۔
ہم ان عقائد و تاریخی حقائق کو جو ہمیں ورثے میں ملتے ہیں بغیر سوچے سمجھے قبول کرلیتے ہیں۔ اس کی ایک تو یہ وجہ ہے کہ انسان غورو فکر سے جی چراتا ہے اور دوسری یہ کہ ان کی جانچ پرکھ کا عمل خاصا اذیت ناک ہوتا ہے غوروفکر نہ کرنے کی وجہ سے ہمارے ذہن میں ان گنت جالے بن جاتے ہیں اور ہم ان جالوں سے اس قدر مانوس ہوجاتے ہیں کہ ہم انہیں صاف ہی نہیں کرنا چاہتے ۔ترقی اور خوشحالی کے لیے کسی بھی معاشرے میں سب سے ضروری عنصر تبدیلی کا ہے اگر آپ خود تبدیلی کے سامنے دیوار بن کر کھڑے ہوجائیں گے تو پھر جمود کبھی بھی ٹوٹ نہیں پائے گا ۔ معاشی انقلاب سے پہلے ذہن میں انقلاب لانا ضروری ہے جب ذہن میں انقلاب آجائے گا تو انسان کے اندر بیٹھا ہوا انسان بھی تبدیل ہو جائے گا ورنہ وہی سب کچھ جو صدیوںسے جاری ہے آگے بھی جاری رہے گا ۔ بقول سا حر لدھیانوی کے
ذہن میں عظمت اجداد کے قصے لے کر
اپنے تاریک گھروندوں کے خلا میں کھو جائو
مر مریں خوابوں کی پریوں سے لپٹ کر سوجائو
ابر پاروں پہ چلو چاند ستاروں میں اڑو
یہ ہی اجداد سے ورثہ میں ملا ہے تم کو