استاد یا تھانیدار

تعلیمی اداروں میں مار پیٹ اور تشدد کا کلچر طلبا میں نفسیاتی مسائل کا موجب بن رہا ہے

ایک اچھا استاد ہی بہترین قوم تشکیل دے سکتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

80 کی دہائی تھی جب مجھے ایک مشنری اسکول میں داخل کروا دیا گیا تھا، جہاں سے میں نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ اسکول ایسا تھا کہ جہاں مسیحی اور مسلمان دونوں مذاہب سے تعلق رکھنے والی بچیاں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوتی تھیں، کسی قسم کا تعصب نہیں تھا۔ کوئی حسد، نفرت اور انتقام کی فضا نہیں تھی، کیونکہ وہاں کے اکثر اساتذہ بہت اچھے تھے اور اپنے شاگردوں کو اپنی اولاد تصور کرتے تھے۔


وہاں صرف ایک بات غلط تھی، ریاضی کی چند اساتذہ کا معصوم بچیوں پر بہیمانہ تشدد۔ کلاس میں بچیوں کو مار پیٹ کر ریاضی سمجھائی جاتی تھی جو چند ایک کے سوا سب کے سر سے گزر جاتی تھی۔


کئی ٹیچرز درسی کتب میں گائیڈز کے حل شدہ پرچہ جات کے صفحے چھپا کر لاتیں اور من و عن تختہ سیاہ پر اتار دیتی تھیں اور کئی ایسی بھی تھیں جو بلیک بورڈ پر جلدی جلدی سوال حل کرکے طالبات سے یہ توقع کرتی تھیں کہ وہ بھی ان کی مانند بقراط ہی ہوں گی۔


کلاس میں ایک دہشت کی فضا قائم ہوجاتی تھی، ریاضی کا 30 منٹ کا پیریڈ گزارنا مشکل ہوجاتا تھا، اور تو اور جب کچھ بن نہ پاتا تو ان استانیوں کا واحد ہتھیار مولا بخش تھا جو معمولی معمولی باتوں پر اٹھتا اور معصوم جسموں پر زخم ڈالنے کے ساتھ ساتھ روح کو بھی زخمی کردیتا۔


گزرے وقت کی یہ یاد مجھے کل ایک خبر دیکھتے ہوئے آئی، جس کے مطابق راولپنڈی کے ایک سرکاری اسکول میں نویں جماعت کی طالبہ نے ہوم ورک میں غلطی کی تو ٹیچر نے ڈنڈوں سے اس کی پٹائی کردی۔ شدید تشدد سے بچی کے سر پر بھی چوٹیں آئیں اور اس کی حالت بھی تشویش ناک ہے۔ بتایا یہ جارہا ہے کہ اعلیٰ حکام نے اس واقعے کا نوٹس لے لیا ہے اور خاتون ٹیچر اور اسکول انتظامیہ کے خلاف کارروائی کا آغاز بھی کردیا گیا ہے۔ جبکہ اسکول انتظامیہ نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ مذکورہ ٹیچر ذہنی طور پر پریشان تھی۔


اس واقعے کو اگر ایک طرف رکھیں تو بھی قوم کے اساتذہ پر کئی سوال اٹھتے ہیں۔ خیال رہے کہ میں سب اساتذہ کی بات نہیں کررہی بلکہ ان کو موضوع بحث بنا رہی ہوں جہنوں نے نام نہاد ذہنی بیماریوں کا سہارا لے کر اپنی جھوٹی انا کو تسکین پہنچائی ہے۔ آج کل کا تو وتیرہ بن گیا ہے کہ کوئی بھی مجرم ہو سزا سے بچنے کےلیے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ ذہنی مریض ہے۔ ارے بابا! کوئی ذہنی مریض ہے تو ملک میں بہت سے ذہنی امراض کی بحالی کے ادارے ہیں، مینٹل اسپتال بھی ہیں، لاکھوں پرائیوئٹ پریکٹس کرنے والے سائیکالوجسٹ اور سائیکاٹرسٹ ہیں، تو وہاں ان بے چارے مریضوں کا علاج کیوں نہیں ہوتا؟


اور پھر مزے کی بات یہ کہ ایسے واقعات جہاں مارپیٹ ہے، جہاں تشدد ہے، وہاں دوسروں کے بچوں، محنت کشوں اور کمزور طالبعلموں پر ہاتھ اٹھائے جاتے ہیں، ان اساتذہ اور مالکان کو کبھی اپنے بچوں پر ہاتھ تک اٹھاتے کسی نے نہیں دیکھا، نہ سنا۔ یعنی یہ کیسی ذہنی بیماری ہے جو صرف دوسروں کے سامنے عیاں ہوتی ہے اور اساتذہ کو تھانیدار بنا دیتی ہے؟


ان تعلیمی اداروں پر بھی سوال اٹھتا ہے جو ایسی بیمار ذہنیت کے حامل افراد کو نوکری پر رکھتے ہیں۔ جب مختلف شعبوں میں ڈاؤن سائزنگ ہوسکتی ہے، مثال کے طور پر میڈیا، نجی کمپنیوں سے ہزاروں لوگ برطرف کردیے جاتے ہیں تو ایسی بیمار ذہنیت کے اساتذہ کس کھیت کی مولی ہیں، انھیں بھرتی کیوں کیا جاتا ہے اور پھر برطرف کیوں نہیں کیا جاتا؟



باہر کے ممالک میں اساتذہ کی تقرری باقاعدہ اصول و ضوابط کے تحت کی جاتی ہے، جہاں مختلف امتحانات لیے جاتے ہیں، کئی نفسیاتی تجزیے کرکے پھر ٹیچنگ کا سرٹیفکیٹ دیا جاتا ہے، ساتھ ہی ساتھ ریفریشر کورسز کروائے جاتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک ان کے بچے، ان کی نسل اور اس کی تربیت اہم ہے اور ایک اچھا استاد ہی بہترین قوم تشکیل دے سکتا ہے۔ لیکن پاکستان میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ جو کچھ نہیں کرسکتا وہ استاد بن جاتا ہے۔ کئی لڑکیاں شادی کے انتظار میں ٹیچر بن جاتی ہیں۔ کیا ہے جی، کوئی کام نہیں ٹیچنگ کرلو۔ نہ انسانی نفسیات کا پتہ، نہ کورس کی سمجھ، نہ ہی اخلاقی تقاضوں کا ادراک۔ اور ہے کیا، بس جی طلبا کو ڈرا دھمکا کر پیسے کما لو۔


یہ جو نام نہاد استاد ہیں، یہ بچوں پر تو تشدد کرتے ہی کرتے ہیں لیکن زیادہ الارمنگ صورتحال یہ ہے کہ یہ باقی دیانتداری اور فرض شناسی سے کام کرنے والے اساتذہ کی بدنامی کا بھی باعث بنتے ہیں۔ یہ چند کالی بھیڑیں معلمی کے پیشے کو بدنام کرتی ہیں۔


ہمارا معاشرہ بتدریج ترقی کے بجائے تنزلی کی جانب گامزن ہے۔ پوری سوسائٹی میں مار پیٹ کا کلچر بن گیا ہے جس میں کہیں نہ کہیں سبھی کا ہی قصور ہے۔ دفتر میں باس ڈانٹ دے گھر آکر بیوی کو تھپڑ دے مارا، بیوی شوہر کو کچھ نہ کہہ سکی تو اپنی فرسڑیشن بچوں کو مار پیٹ کا نشانہ بنا کر نکال دی۔ بچے ماں کو کچھ نہ کہہ سکے تو اسکول میں چھوٹی کلاس کے بچوں کو پریشان کیا اور کوئی بس نہ چلا تو اپنے کھلونے توڑ دیے۔ بالکل اسی طرح کا ماحول تعلیمی اداروں کا بھی ہوگیا ہے۔ استاد کا موڈ گھر سے خراب ہو تو وہی موڈ لے کر اسکول یا کالج آگئے اور طالبعلموں کو کھری کھری سنا کر مار پیٹ دیا۔ جبکہ مار پیٹ کسی مسئلے کا حل نہیں۔


جو بھی شخص مار پیٹ کرتا ہے وہ یہ ثابت کردیتا ہے کہ اس کے اندر سمجھانے کی صلاحیت نہیں اور نہ ہی قوت برداشت ہے جس کی وجہ سے وہ دھونس، رعب اور ہٹ دھرمی کو پروان چڑھاتا ہے۔ گھروں میں کم عمر محنت کشوں، ہوٹلوں، فیکٹریوں اور ورکشاپوں پر کام کرنے والے بچوں کے گال بھی مارپیٹ سے سرخ ہوئے ہوتے ہیں۔ بیوی شوہر سے پٹتی ہے تو صبح اسی شوہر کےلیے ناشتہ بھی بناتی ہے، شوہر کے ساتھ رہنا بھی نہیں چاہتی اور چھوڑ بھی نہیں سکتی کہ وہ اس کے بچوں کا باپ ہے۔ آخر یہ مار پیٹ کا کلچر کب ختم ہوگا؟


ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ایک محفل سے گزر ہوا تو معلموں کی ایک جماعت میں تشریف فرما ہوئے اور فرمایا کہ بیشک کہ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔ غزوہ بدر میں بھی قیدیوں کو چاہتے تو سخت سزائیں دے سکتے تھے لیکن پیارے نبیؐ نے یہ کہا کہ جو قیدی پڑھے لکھے ہیں وہ مسلمانوں کے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کریں۔


ہم من حیث القوم کہاں جارہے ہیں؟ ایک قوم کے طور پر کس پستی میں گر رہے ہیں اور افسوس اس کا ادراک بھی نہیں۔ آج ان چند اساتذہ کی وجہ سے جنہیں استاد کہتے ہوئے بھی گھن آتی ہے، ان اساتذہ کو بھی درست مقام نہیں ملتا عزت نہیں ملتی، جو بچوں کو کامیاب اور بااخلاق انسان بنانے کے لیے دن رات ایک کر دیتے ہیں۔


استاد کا رتبہ تو بہت بلند ہے، خدارا اس رتبے کو اس منصب کو سمجھیے۔ پہلے سیکھیں اور پھر سکھائیے، ورنہ اس مقدس پیشے سے دوری اختیار کیجیے۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story