درآمد برآمد اور عدم توازن کا جن

اگر ہم تیل، گھی، الیکٹرانکس، اسلحہ، مشینری اور دیگر اشیائے ضرورت میں خود کفیل ہوتے تو اور بات تھی۔

h.sethi@hotmail.com

ہمیں درپیش یہ کوئی فلاسفی کا گنجلک مسئلہ نہیں ہر گھرانے کے باورچی خانے جیسا عام فہم معاملہ ہے کہ اگر آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہوں گے تو فاقے تو آئیں گے ہی اور پھر قرض میں بھی اضافہ ہو گا۔ حکومت کے خزانہ بھرے ہونے کے دعوئوں کے باوجود حکومتی قرضوں، فاقوں اور گرانی و بیروزگاری کا گراف بتدریج بلندی کی طرف رُخ کیے ہوئے ہے۔ ملکی اور افرادی آمدنی بڑھانے میں پیداوار اور برآمدات کا بڑا حصہ ہوتا ہے۔

اگر ہم تیل، گھی، الیکٹرانکس، اسلحہ، مشینری اور دیگر اشیائے ضرورت میں خود کفیل ہوتے تو اور بات تھی۔ اس صورت میں ہمیں زرمبادلہ کے خرچ کی پروا نہ ہوتی لیکن اگر آپ پندرہ قسم کے چاکلیٹ اور مشروبات درآمد کرنے کا شوق تو رکھیں لیکن برآمدی اشیاء نہ تو زمین سے پیدا کریں نہ ہی انڈسٹری کو انرجی و دیگر سہولیات مہیا کرنے کے اقدام کریں تو بلا شبہ آپ فروعی کاموں، غیر پیداواری مشاغل اور مال بنانے کے مزے لے رہے ہیں۔ اس وقت ہمارا تجارتی خسارہ اور قرضہ اتنا بڑھ چکا ہے کہ تارکین وطن پاکستانیوں کی باہر سے بھیجی ہوئی رقومات اور خیراتی مد میں آنے والے ڈالر بھی توازن صحیح کرنے سے قاصر ہیں۔

پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کا ملک کی برآمدات میں ساٹھ فیصد حصہ ہے۔ یہ صنعت جس سے ملک کے برسرروزگار افراد میں سے مختلف حیثیتوں میں چالیس فیصد افراد کا تعلق ہے گزشتہ کئی سال سے بحران کا شکار ہے اور یہ بحران اب بوجہ قلت انرجی اتنی سنگین صورت اختیار کر چکا ہے کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری جو کبھی زرمبادلہ کمانے میں یکتا تھی تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ اس ایشو پر نہ صرف ملک کے تجزیہ نگار و ماہرین معیشت بلکہ ہر ذی شعور شہری تشویش کا شکار ہے۔ بات صرف تشویش ناک ہی نہیں بلکہ خوفناک حد تک پریشان کن ہے کہ مہنگائی اور بیروزگاری کے اس عذاب کے سبب ملک کے مزید چالیس فیصد افراد بوجہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کی بندش بے روزگار ہو گئے تو یہ کس طوفان کا پیش خیمہ ہو گا۔

سرکار نے فاقہ زدہ عوام کو روزگار اور امن و امان کی بجائے سستے موبائل فون کا تحفہ دے کر اگر اس عمل کو خوشحالی اور معاشی ترقی کا پیمانہ قرار دیا ہے تو دراصل ان غیر ملکی کمپنیوں کو مبارک باد دی ہے کہ انھوں نے مقروض بدحال اور بیروزگار افراد کو بھی کام پر لگا کر کمال کر دیا ہے۔ ملکوں کی خوشحالی کا پیمانہ تو جمہوری نظام امن عامہ کا قیام انصاف اور روزگار کی فراہمی، تجارت کی فراوانی، تعلیم و تحقیق میں ترقی گرانی پر کنٹرول اور ضروری اشیاء کی دستیابی ہوتا ہے۔ محض موبائل فون یا لیپ ٹاپ عوام کو تھما دینے سے اصل فائدہ تو کمپنیوں اور کنکشن بیچنے والوں کو ہوتا ہے نہ کہ ان کھلونے دے کے بہلائے جانے والوں کو جنھوں نے صرف بھیڑ چال میں اسے خریدا لیکن بے کاری اور افلاس کی وجہ سے ان کے پاس بات کرنے کے لیے صرف دو الفاظ ہیں کہ ''اور سنائو'' اور دوسری طرف جواب بھی یہی کہ ''نہیں تم سنائو۔''


ہر قسم کی صنعتوں سے وابستہ افراد کے بے شمار وفد گزشتہ چند سال میں متعلقہ وزارتوں کے چکر کاٹ چکے ہیں اور کئی بار اعلیٰ حکمرانوں کو یادداشتیں اور تجاویز پیش کر کے آئے ہیں کہ ان کے اردگرد کے ممالک چین، ہندوستان، بنگلہ دیش یہاں تک کہ سری لنکا ان کی ہر قسم کی ایکسپورٹ کو تباہ کر دیں گے۔ اگر انھیں وہ سہولیات اور مراعات نہ دی گئیں جن کی وجہ سے مذکورہ ممالک انٹرنیشنل مارکیٹ میں ان پر سبقت لے جا رہے ہیں۔

یورپ اور امریکا کی امپورٹ مارکیٹ کوالٹی کے ساتھ سستے ریٹ مانگتی ہے جو مہنگی INPUTS کے باوجود ہم کوالٹی تو دے سکتے ہیں۔ مسابقتی ریٹ دینے کی پوزیشن میں نہیں آ سکتے جس کی وجہ سے آرڈرز میں کمی ہوتی جا رہی ہے۔ ابھی تک کسی لیول پر ہمارے صنعت کاروں کی شنوائی نہیں ہو سکی اگر درامد اور برامد میں توازن لانے اور بے روزگاری پر قابو پانے کف جلد کوشش نہ کی گئی، گرانی کا نوٹس نہ لیا گیا تو پھر لاقانونیت بشمولیت بے روزگاری و گرانی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔

صنعت کار کہتے ہیں کہ یہ حکومت کی اور اس کے توسط سے ملکی بینکوں کی ذمے داری ہے کہ صنعت کاروں کو FAIR LEVEL PLAYING FIELD مہیا کرے تا کہ وہ پروڈکشن اور برآمد میں اضافہ کر سکیں۔ موجودہ پالیسی مینوفیکچرر کی بجائے ٹریڈرز کے حق میں ہے اسی لیے کارخانے بند ہو رہے ہیں جب کہ ٹریڈر کے لیے امپورٹ کی کھلی چھوٹ ہے۔ اسی وجہ سے امپورٹ اور ایکسپورٹ میں توازن بگڑ کر مہنگائی میں اضافہ کا سبب بن رہا ہے اور بیروزگاری بڑھ رہی ہے۔ کارخانہ دار کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ سرمایہ باہر منتقل کر دے یا کارخانے کی زمین پر کمرشل اور رہائشی اسکیم بنانی شروع کر دے۔

کارخانہ دار کو اسلام آباد سے جواب ملتا ہے کہ اگر نقصان ہوتا ہے تو سہولتوں کے لیے مت تنگ کرو کارخانہ بند کر دو یا جو کچھ ماضی میں کما لیا اسے کھائو۔ وزارتوں پر بینکروں کا اتنا اثر ہے کہ ہر پالیسی بینک کے منافع کی خاطر بن رہی ہے۔ مارک اپ جو کبھی پانچ سات فیصد تھا پندرہ پر جا پہنچا ہے اور دنیا بھر کے بینکر پاکستانیوں کا یا باہر سے آنے والا روپیہ سمیٹنے دوڑے چلے آ رہے ہیں۔ صنعتکار کہتے ہیں کہ پاکستان کے موجودہ FISCAL MANAGERS جو بینکنگ میں تو ماہر ہیں ملک کی مینوفیکچرنگ اور ایکسپورٹ انڈسٹری کو وہ سہولیات دینے کے حق میں نہیں جو ہمسایہ ممالک کے برآمد کنندگان کو حاصل ہیں۔ اس اہم مسئلہ پر فوری توجہ نہ دی گئی تو کئی مارکیٹیں پاکستان کے ہاتھ سے نکل جائیں گی اور تجارت کے عدم توازن کا جن ہمیں کھا جائے گا۔
Load Next Story