انڈر پاس واقعہ کراچی کا انفرااسٹرکچر نشئیوں کیلیے مال غنیمت بن گیا
گٹر کے ڈھکن غائب کرنے کے بعد اب انڈر پاسز کی باری آگئی۔
عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لے کر کراچی میں تعمیر کیا جانے والا اربوں روپے کا انفرااسٹرکچر نشے کے عادی افراد اور کچرا چننے والوں کے لیے مال غنیمت بن گیا۔
پولیس ، رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے ساتھ ساتھ سٹی وارڈنز، کے ایم سی سمیت سندھ حکومت نشے کے عادی افراد اور چوروں کے نیٹ ورک کے آگے بے بس ہوگئی۔
نشئیوں اور چوروں کی کراچی کے انفرااسسٹرکچر پر یلغار ہوگئی۔ پانچ لاکھ نشے کے عادی افراد، گلی گلی بیٹھے تیس ہزار کے لگ بھگ کباڑیوں اور متعلقہ محکموں کی غفلت نے کراچی کو کھوکھلا کردیا ہے۔
کراچی میں منظم طریقے سے شہری انفرااسٹرکچر کو نقصان پہنچایا جارہا ہے، کراچی کی بالائی گزرگاہوں، پلوں کی حفاظتی دیواروں، گٹر کے ڈھکن غائب کرنے کے بعد اب انڈر پاسز کی باری آگئی۔
ناظم آباد میں محسن بھوپالی سے منسوب انڈر پاس کے چار میں سے تین جہازی سائز کے سائن بورڈزکے ایم سی اور پولیس کی ناک کے نیچے سے چوری کرلیے گئے اور چوتھا بورڈ شہروں نشیوں او چوروں کی کارستانی کی وجہ سے ایک شہری کی ہلاکت کا سبب بن گیا۔
شہریوں نے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ رہائشی علاقوں کے مکین کئی دہائیوں سے نشے کے عادی افراد اور کچرا چننے والے چوروں سے تنگ ہیں گیس کے میٹر، پائپ، نکاسی آب کے پائپ، اے سی کے آؤٹرز، گاڑیوں کی بیٹریاں چوری ہونا معمول تھا اب شہری انفرااسٹرکچر بھی محفوظ نہیں رہا حیرت کی بات ہے کہ شہری کی اہم گزرگاہوں سڑکوں پلوں اور انڈرپاسز سے جہاں ہر وقت پولیس رینجرز کی گاڑیاں گزرتی ہیں اور سیکیوریٹی کیمرے نصب ہیں کس طرح شہری انفرااسٹرکچر غائب ہورہا ہے اور اب تک ان وارداتوں کی روک تھام کے لیے حکومتی سطح پر کوئی قدم کیوں نہیں اٹھایا گیا۔
شہریوں کا کہنا تھا کہ شہر بھر کباڑیوں کا نیٹ ورک چوروں کے گٹھ جوڑ سے فعال ہے جگہ جگہ کباڑیوں کی دکانیں کھلی ہیں جو چوری کا مال خرید کر ٹھکانے لگارہے ہیں کباڑیوں کی معاونت کے بغیر چور اور نشئی شہری انفرااسٹرکچر اور عام شہریوں کا چوری شدہ سازوسامان ٹھکانے نہیں لگاسکتے۔
انہوں نے کہا کہ ضروری ہے کہ ان منظم چوریوں کی روک تھام کے لیے قانون اور متعلقہ اداروں کو فوری طور پر حرکت میں لایا جائے اور مزید جانی نقصان کا انتظار کیے بغیر ناظم آباد سمیت شہر میں جگہ جگہ قائم کباڑی کی دکانوں کے ساتھ منشیات فروشی کے اڈوں کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کیا جائے۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ کراچی کے اربوں روپے کے انفرااسٹرکچر کو چور اور نشئی معمولی قیمت پہ اسکریپ کی شکل میں فروخت کررہے ہیں جو حکومتی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔
بڑے انفرااسٹرکچر منصوبے بھی چوروں کی زد پر
علاوہ ازیں کراچی میں تعمیر ہونے والے بڑے انفرااسٹرکچر منصوبے بھی چوروں کی زد پر ہیں سبزی منڈی سے یونیورسٹی روڈ پر تعمیر ہونے والے ریڈ لائن منصوبہ کا تعمیراتی میٹریل بالخصوص لوہا اور تعمیراتی اوزار مشینری چوری کیے جانے کی وجہ سے اس منصوبے پر سیکیوریٹی بڑھادی گئی۔
سوشل ورکر اور قانون کے ماہر رانا آصف کے مطابق کراچی کے انفرااسٹرکچر اور شہری طرز زندگی کو نشے کے عادی افراد اور چوروں سے لاحق خطرہ بڑھ چکا ہے بڑے منصوبوں کی لاگت ان چوروں کی وجہ سے بڑھ رہی ہے کیونکہ ایک جانب یہ منصوبے عالمی اداروں سے قرض لے کر تعمیر کیے جاتے ہیں جس کا سود عوام ادا کرتے ہیں ساتھ ہی ان منصوبوں کی حفاظت کے لیے اضافی سیکیوریٹی کیمروں اور گاڑیوں کی لاگت سے ان منصوبوں کی لاگت بڑھتی ہے اور رفتار پر بھی اثر پڑتا ہے۔
رانا آصف نے کہا کہ اس حوالے سے سندھ حکومت اور متعلقہ اداروں پولیس رینجرز قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں اور کے ایم سی کی کارکردگی افسوس ناک ہے اس سے قبل بانی پاکستان قائد اعظم کے مزار کی حفاظتی گرل بھی چوری کرلی گئی جس کا مقدمہ برگیڈ تھانے میں درج ہے۔
انہوں نے کہا کہ نشے کے عادی افراد اور کچرا چننے والے افغانی کراچی کا انفرااسٹرکچر کباڑیوں کو فروخت کررہے ہیں جو اس کو اسکریپ کی شکل میں بڑے ڈیلرز کو فروخت کرتے ہیں اور آخر کار پگھلا کر کئی گنا زائد قیمت پر فروخت کردیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی میں ایک اندازے کے مطابق پانچ لاکھ نشے کے عادی افراد موجود ہیں جو نشے کی طلب پوری کرنے کے لیے نجی ملکیت اور شہری انفرااسٹرکچر کو چوری کرکے بیچ رہے ہیں ان کے ساتھ کچرا چننے الے افغانیوں کا منظم نیٹ ورک بھی ان چوریوں میں ملوث ہے۔ نشے کے عادی افراد کی بحالی کے لیے بڑے پیمانے پر مراکز کھولنے اور مہم چلانے کی ضرورت ہے۔
اسی طرح سالڈ ویسٹ منجمنٹ جیسے ادارے کے قیام کے بعد شہر سے کچرا چننے والے افغانیوں کا بھی صفایا ہونا چاہیے کیونکہ یہ لوگ چوریوں کے ساتھ کچرا پھیلا کر شہر کو بدنما بنانے میں بھی ملوث ہیں۔
ان چوروں نے صدر پارکنگ پلازہ کو کھنڈر بنادیا اسی طرح باغ ابن قاسم میں لگنے والی ہزاروں لائٹس کیمرے اور ڈائنا سارس کے ماڈل بھی غائب کردیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی میں تیس ہزار کباڑیوں کا نیٹ ورک پھیلا ہوا ہے جو شہر کے انفرااسٹرکچر اور چوری کے مال کو اسکریپ میں تول کر فروخت کرنے میں ملوث ہیں جن کے خلاف قانون کو حرکت میں لانا ہوگا۔
پولیس ، رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے ساتھ ساتھ سٹی وارڈنز، کے ایم سی سمیت سندھ حکومت نشے کے عادی افراد اور چوروں کے نیٹ ورک کے آگے بے بس ہوگئی۔
نشئیوں اور چوروں کی کراچی کے انفرااسسٹرکچر پر یلغار ہوگئی۔ پانچ لاکھ نشے کے عادی افراد، گلی گلی بیٹھے تیس ہزار کے لگ بھگ کباڑیوں اور متعلقہ محکموں کی غفلت نے کراچی کو کھوکھلا کردیا ہے۔
کراچی میں منظم طریقے سے شہری انفرااسٹرکچر کو نقصان پہنچایا جارہا ہے، کراچی کی بالائی گزرگاہوں، پلوں کی حفاظتی دیواروں، گٹر کے ڈھکن غائب کرنے کے بعد اب انڈر پاسز کی باری آگئی۔
ناظم آباد میں محسن بھوپالی سے منسوب انڈر پاس کے چار میں سے تین جہازی سائز کے سائن بورڈزکے ایم سی اور پولیس کی ناک کے نیچے سے چوری کرلیے گئے اور چوتھا بورڈ شہروں نشیوں او چوروں کی کارستانی کی وجہ سے ایک شہری کی ہلاکت کا سبب بن گیا۔
شہریوں نے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ رہائشی علاقوں کے مکین کئی دہائیوں سے نشے کے عادی افراد اور کچرا چننے والے چوروں سے تنگ ہیں گیس کے میٹر، پائپ، نکاسی آب کے پائپ، اے سی کے آؤٹرز، گاڑیوں کی بیٹریاں چوری ہونا معمول تھا اب شہری انفرااسٹرکچر بھی محفوظ نہیں رہا حیرت کی بات ہے کہ شہری کی اہم گزرگاہوں سڑکوں پلوں اور انڈرپاسز سے جہاں ہر وقت پولیس رینجرز کی گاڑیاں گزرتی ہیں اور سیکیوریٹی کیمرے نصب ہیں کس طرح شہری انفرااسٹرکچر غائب ہورہا ہے اور اب تک ان وارداتوں کی روک تھام کے لیے حکومتی سطح پر کوئی قدم کیوں نہیں اٹھایا گیا۔
شہریوں کا کہنا تھا کہ شہر بھر کباڑیوں کا نیٹ ورک چوروں کے گٹھ جوڑ سے فعال ہے جگہ جگہ کباڑیوں کی دکانیں کھلی ہیں جو چوری کا مال خرید کر ٹھکانے لگارہے ہیں کباڑیوں کی معاونت کے بغیر چور اور نشئی شہری انفرااسٹرکچر اور عام شہریوں کا چوری شدہ سازوسامان ٹھکانے نہیں لگاسکتے۔
انہوں نے کہا کہ ضروری ہے کہ ان منظم چوریوں کی روک تھام کے لیے قانون اور متعلقہ اداروں کو فوری طور پر حرکت میں لایا جائے اور مزید جانی نقصان کا انتظار کیے بغیر ناظم آباد سمیت شہر میں جگہ جگہ قائم کباڑی کی دکانوں کے ساتھ منشیات فروشی کے اڈوں کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کیا جائے۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ کراچی کے اربوں روپے کے انفرااسٹرکچر کو چور اور نشئی معمولی قیمت پہ اسکریپ کی شکل میں فروخت کررہے ہیں جو حکومتی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔
بڑے انفرااسٹرکچر منصوبے بھی چوروں کی زد پر
علاوہ ازیں کراچی میں تعمیر ہونے والے بڑے انفرااسٹرکچر منصوبے بھی چوروں کی زد پر ہیں سبزی منڈی سے یونیورسٹی روڈ پر تعمیر ہونے والے ریڈ لائن منصوبہ کا تعمیراتی میٹریل بالخصوص لوہا اور تعمیراتی اوزار مشینری چوری کیے جانے کی وجہ سے اس منصوبے پر سیکیوریٹی بڑھادی گئی۔
سوشل ورکر اور قانون کے ماہر رانا آصف کے مطابق کراچی کے انفرااسٹرکچر اور شہری طرز زندگی کو نشے کے عادی افراد اور چوروں سے لاحق خطرہ بڑھ چکا ہے بڑے منصوبوں کی لاگت ان چوروں کی وجہ سے بڑھ رہی ہے کیونکہ ایک جانب یہ منصوبے عالمی اداروں سے قرض لے کر تعمیر کیے جاتے ہیں جس کا سود عوام ادا کرتے ہیں ساتھ ہی ان منصوبوں کی حفاظت کے لیے اضافی سیکیوریٹی کیمروں اور گاڑیوں کی لاگت سے ان منصوبوں کی لاگت بڑھتی ہے اور رفتار پر بھی اثر پڑتا ہے۔
رانا آصف نے کہا کہ اس حوالے سے سندھ حکومت اور متعلقہ اداروں پولیس رینجرز قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں اور کے ایم سی کی کارکردگی افسوس ناک ہے اس سے قبل بانی پاکستان قائد اعظم کے مزار کی حفاظتی گرل بھی چوری کرلی گئی جس کا مقدمہ برگیڈ تھانے میں درج ہے۔
انہوں نے کہا کہ نشے کے عادی افراد اور کچرا چننے والے افغانی کراچی کا انفرااسٹرکچر کباڑیوں کو فروخت کررہے ہیں جو اس کو اسکریپ کی شکل میں بڑے ڈیلرز کو فروخت کرتے ہیں اور آخر کار پگھلا کر کئی گنا زائد قیمت پر فروخت کردیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی میں ایک اندازے کے مطابق پانچ لاکھ نشے کے عادی افراد موجود ہیں جو نشے کی طلب پوری کرنے کے لیے نجی ملکیت اور شہری انفرااسٹرکچر کو چوری کرکے بیچ رہے ہیں ان کے ساتھ کچرا چننے الے افغانیوں کا منظم نیٹ ورک بھی ان چوریوں میں ملوث ہے۔ نشے کے عادی افراد کی بحالی کے لیے بڑے پیمانے پر مراکز کھولنے اور مہم چلانے کی ضرورت ہے۔
اسی طرح سالڈ ویسٹ منجمنٹ جیسے ادارے کے قیام کے بعد شہر سے کچرا چننے والے افغانیوں کا بھی صفایا ہونا چاہیے کیونکہ یہ لوگ چوریوں کے ساتھ کچرا پھیلا کر شہر کو بدنما بنانے میں بھی ملوث ہیں۔
ان چوروں نے صدر پارکنگ پلازہ کو کھنڈر بنادیا اسی طرح باغ ابن قاسم میں لگنے والی ہزاروں لائٹس کیمرے اور ڈائنا سارس کے ماڈل بھی غائب کردیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی میں تیس ہزار کباڑیوں کا نیٹ ورک پھیلا ہوا ہے جو شہر کے انفرااسٹرکچر اور چوری کے مال کو اسکریپ میں تول کر فروخت کرنے میں ملوث ہیں جن کے خلاف قانون کو حرکت میں لانا ہوگا۔