حسن منظر پستے طبقوں کی آواز پہلا حصہ

شاید ہی دنیا کے ایسے مہجور اور مجبور لوگ ہوں جن کے دکھوں کو انھوں نے اپنی کہانیوں اور ناولوں میں بیان نہ کیا ہو

zahedahina@gmail.com

حسن منظر ہمارے ایسے لکھنے والے ہیں جو 1934میں پیدا ہوئے۔ پہلی جنگ عظیم دنیا کو غم و اندوہ میں دھکیل کر اپنی کوکھ سے دوسری جنگ عظیم کو جنم دینے والی تھی ، ہندوستان میں قومی آزادی کی جدوجہد تیز سے تیز تر ہو رہی تھی۔

کچھ نوجوان اپنی زندگی سنوارنے کے خواب دیکھ رہے تھے اور بہت سے آزادی کی بھڑکتی ہوئی آگ میں کود پڑے تھے۔ تقسیم کے بعد حسن منظر اپنی جنم بھومی ہامڑ سے لاہور آئے اور سنجیدگی سے تعلیم میں مصروف ہوگئے۔ لاہورکے معروف اداروں سے تعلیم حاصل کی جس کے بعد وہ مختلف براعظموں میں تعلیم حاصل کرتے رہے اور طبی پریکٹس کرتے رہے۔

بیسویں صدی جب اردو افسانہ اپنے عروج پر تھا، وہیں اکیسویں صدی نے ناول لکھنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ 2006 میں حسن منظر کا پہلا ناول '' العاصفہ '' شایع ہوا۔ یہ ناول تیل کی دریافت کے بعد عرب معاشرے، وہاں کے رہن سہن، رسم و رواج، عادات اور غربت کی بہت عمدہ منظر کشی کرتا ہے۔

علامت نگاری، دیہی اور شہری زندگی کے درمیان پایا جانے والا تفاوت اورکہیں کہیں تیل کی دریافت سے پہلے کے عرب معاشرے کی جھلک نے '' العاصفہ' کو اردو ناول میں ایک اہم اضافہ بنایا۔ دو سال بعد 2008میں ''دھنی بخش کے بیٹے'' شایع ہوا۔ یہ ناول اپنے وسیع کینوس، موضوعاتی تنوع جدید وقت کے مسائل سے آگاہی دیتا اور پستے طبقوں کی آواز بنتا اور بڑھتی تہذیبی کشمکش کو عیاں کرتا مصنف کا نمایندہ ناول ہے۔ زیبا علوی نے اس کا ہندی ترجمہ کیا جسے شلپائن پبلشر دہلی نے 2015 میں شایع کیا۔

2019 میں ان کا ناول '' اے فلک نا انصاف '' شایع ہوا۔ یہ مسلم برصغیر میں مغل عہد کے ایک روشن خیال فرد کے خاتمے اور روشن خیالی سے منہ موڑنے والے سماج کی کتھا بیان کرتا ہوا تاریخی روایت میں زندہ ناول ہے۔

حسن منظر کے متفرق مضامین، ایک طویل ڈراما، تراجم اور ان کے افسانوں کے انگریزی تراجم بھی شایع ہوچکے ہیں۔ حسن منظر کی کہانیوں کے بارے میں فیض احمد فیض نے انھیں لکھا تھا ''اب آپ کی کہانیاں پڑھ کر محسوس ہوا کہ ان دوستوں نے آپ کی تعریف میں مبالغے کے بجائے کچھ کم لکھا تھا '' اسی طرح مستنصر حسین تارڑ نے ان کے ناول ''حبس'' کے بارے میں کہا '' اگر یہ ناول انگریزی یا کسی اور زبان میں ہوتا یقیناً نوبیل انعام کا حقدار ٹھہرایا جاتا۔

حسن منظر کا ناول ''حبس'' حیرت انگیز ہے۔ اسرائیل کا پہلا وزیر دفاع اور گیارہواں وزیر اعظم جو فلسطینیوں کی آبادیوں کو بلڈوز کرنے والا قاتل تھا، ایک یہودی ہٹلر تھا۔ تل ابیب کے شیبا میڈیکل سینٹر کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں بے ہوش پڑا ہے۔ حسن منظر اس کے دماغ میں اتر کر جو کچھ وہ بے ہوشی کے عالم میں سوچ رہا ہے اسے بیان کرتے ہیں۔

اس لیے کہ وہ خود بھی دماغ کے ماہر ایک ڈاکٹر ہیں۔ اس ناول کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ یہ اردو زبان میں ہے، اگر یہ ناول انگریزی یا کسی اور اہم زبان میں ہوتا تو یقیناً نوبیل انعام کا حق دار ٹھہرایا جاتا۔


حسن منظر نے لکھنے کا آغاز طالب علمی کے زمانے سے کیا تھا۔ نظریاتی جھکاؤ ترقی پسند تحریک کی جانب رہا۔ اس زمانے میں انھوں نے انجمن ترقی پسند مصنفین کے اجلاس میں افسانے پیش کیے۔

ان کا افسانہ ''لاسہ'' پڑھنے کے بعد سعادت حسن نے بھی داد دی۔ ایک ادبی نشست میں '' ندیدی'' کو سن کر احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا کہ حسن منظر کا افسانہ اور اسے کہنے کا اسلوب اب پختگی کو پہنچ گیا ہے۔ ویسے اپنا پہلا ناقد وہ میرزا ادیب کو مانتے ہیں جنھوں نے طالب علمی کے دور میں لکھے افسانے '' داشتہ '' کو اپنے مضمون جس میں سال بھر کی نئی تحریروں کا جائزہ لیا تھا اور سراہا تھا۔

لاہور میں میڈیکل کی تعلیم کے دوران اور اس کے بعد لکھنے کا سلسلہ تقریباً موقوف ہوگیا تھا اور 1974 تک بس برائے نام ہی تھا۔ 1981 میں افسانوں کا پہلا مجموعہ '' رہائی'' اور 1982 میں دوسرا مجموعہ ''ندیدی'' خود چھپوائے۔

ایک لمبے وقفے کے بعد ان کا افسانوی مجموعہ '' انسان کا دیش'' شایع ہوا اور یہ سلسلہ چلتا رہا۔ حسن منظر ملک واپسی کے باوجود ادبی گروہوں اور اسلام آباد، لاہور یا کراچی جیسے ادبی مراکز سے دور رہے۔ اس لیے بھی ان کا چرچا اس طرح سننے کو نہیں ملا جیسا ہونا چاہیے تھا۔ تاہم انھوں نے اپنے متنوع موضوعات، بدلتے منظر ناموں، دھیمے مزاج اور سادہ اسلوب کی بنا پر اردو افسانے میں اپنا نام پیدا کیا۔

ڈاکٹر حسن منظر کی زندگی کا ایک طویل حصہ مسافت میں گزرا۔ تین براعظموں کی دھول ان کے پیروں کو لگی ہے اور شاید ہی دنیا کے ایسے مہجور اور مجبور لوگ ہوں جن کے دکھوں کو انھوں نے اپنی کہانیوں اور ناولوں میں بیان نہ کیا ہو۔ ''حبس'' اردو زبان میں بیان ہونے والا ایسا نادرہ کار قصہ ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ اس اسرائیل کے پہلے وزیر دفاع اور گیارہویں وزیر اعظم ایرئیل شیرون کے عالم نزع کا معاملہ ہے۔

حسن منظر نے ایک ماہر قصہ گو کی طرح آنکھ کی جھری سے شیرون کا قصہ لکھا ہے۔ اس ناول میں انھوں نے اس سے کیسے کاری جملے کہلوائے ہیں۔ موت کے انتظار میں لحظہ لحظہ مرتے ہوئے شیرون کے احساسات اور جذبات کیا رہے ہوں گے اس کی منظر کشی حسن منظر نے کیا خوب کی ہے۔ ایک ایسا شخص جو صرف نفرت کرسکتا ہے۔

یہ نفرت فلسطینیوں اور عرب یہودیوں سے یکساں ہے۔ ایک ایسی نفرت جو موت کے سامنے بھی ہار نہیں مانتی۔ حسن منظر پیشے کے اعتبار سے سائیکٹیرسٹ ہیں۔

انھوں نے اپنے پیشے کی تمام مہارت''حبس'' میں صرف کردی ہے اور اردو کو ثروت مند کیا ہے۔ ''حبس'' کے بارے میں اس کے شایع ہوتے ہی ایک کالم لکھا تھا اور اسے بے حد داد و تحسین سے نوازا تھا۔ اس کے بارے میں جس نے بھی لکھا ، وہ ہیمنگوے کے ناولan old man and the sea کو یاد کرتے ہوئے لکھا۔

مجھ ایسے بے بضاعت اور معمولی لکھنے والے ان کو لفظوں کے لعل و گہر نذر کرسکتے ہیں کہ یہی ہماری بساط ہے۔ اور اب بیان ''گزرے دن'' کا ہوجائے جسے وہ اپنی خود نوشت قرار دیتے ہیں۔ (جاری ہے)
Load Next Story