گٹر اور اموات

اس کوتاہی کے خاتمہ کے لیے بلدیاتی اہلکاروں کا احتساب اور پولیس کو متحرک کرنا ہوگا

tauceeph@gmail.com

جب قوم 14 اگست کو 76واں یوم آزادی منا رہی تھی، تو ایک شہری عبدالرحمن نے اپنے ڈھائی سالہ بیٹے کو قومی پرچم والا لباس پہنایا اور اپنے اہل خانہ کے ساتھ ایک تقریب میں شرکت کے لیے ملیر میمن گوٹھ کے جاموٹ محلہ آیا۔

یہ بچہ تھوڑی دیر بعد گھر سے نکلا اور لاپتہ ہوا، اس کی لاش ایک مین ہول سے برآمد ہوئی۔ یہ مین ہول 15 دن سے زیادہ عرصہ سے کھلا ہوا تھا مگر کسی بلدیہ نے اس مین ہول پر ڈھکن لگانے کی زحمت گوارہ نہ کی۔

کراچی میں گٹر کے ڈھکن غائب ہونا اور ان میں لوگوں کا گرنا عام سی بات ہے۔ ایک موقر اخبار میں شایع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صرف اس سال 68 افراد گٹر میں گر کر جاں بحق ہوئے ہیں۔ ابھی سال ختم ہونے میں پانچ ماہ باقی ہیں۔

اس رپورٹ میں تحریر کیا گیا ہے کہ صدر، لائنز ایریا، لیاقت آباد اور ملیر وغیرہ میں کھلے مین ہولز موجود ہیں جن میں لوگ گرتے ہیں۔ کچھ کی اموات ہوجاتی ہیں اورکچھ کے ہاتھ پاؤں ٹوٹ جاتے ہیں۔ کراچی شہر میں منظم انداز میں مین ہولز کے ڈھکن غائب ہوتے ہیں۔ عمومی طور پر یہ بتایا جاتا ہے کہ ہیروئنچی گٹر کے ڈھکن چوری کرتے ہیں۔

یہ ہیروئنچی صرف گٹر کے ڈھکن ہی نہیں فٹ پاتھ پر لگی گرل اور اوور ہیڈ برج کی گرل بھی صفائی کے ساتھ لے جاتے ہیں۔

اخبارات میں کبھی یہ خبر شایع نہیں ہوئی کہ پولیس نے ڈھکن اور گرل چوری کرنے والے کسی شخص کو گرفتار کیا ہو۔ یہ چور جو ڈھکن یا فٹ پاتھ پر لگی حفاظتی گرل چوری کرتے ہیں وہ ہر صورت اس سامان کو فروخت کرتے ہوںگے۔ اس طرح یہ ایک منظم کاروبار نظر آتا ہے مگر پولیس اس مافیا کے خلاف آپریشن کے خاتمہ کے لیے تیار نہیں ہے۔

سابق صدر پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں نچلی سطح تک اختیارات کا بلدیاتی نظام نافذ ہوا تھا۔ اس بلدیاتی نظام کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ کونسلر ، یونین کونسل اور ٹاؤن مکمل طور پر با اختیار تھے۔ محلہ میں گٹر، گندے پانی کی نکاسی، کوڑے کرکٹ کی صفائی اور صاف پانی کی گھر گھر فراہمی کی نگرانی کونسلر کے بنیادی فرائض میں شامل تھی۔

یہی وجہ ہے کہ پہلے ناظم نعمت اﷲ خان ایڈووکیٹ اور دوسرے ناظم مصطفیٰ کمال کے دورِ نظامت میں سندھ کے شہروں میں صفائی کا نظام بہتر ہوا تھا۔ اس نظام کی بناء پر کوئی بھی فرد اپنے کونسلر سے شکایت کرتا تھا، اگرکونسلر کی کارکردگی اطمینان بخش نہیں ہوتی تھی تو پھر اگلے انتخابات میں اس کا احتساب ہوتا تھا۔

2008میں پیپلز پارٹی کی حکومت برسر اقتدار آئی۔ پیپلز پارٹی کے وزراء اور منتخب اراکین کو یہ پریشانی لاحق ہوگئی کہ آمدن کے تمام ذرایع تو بلدیاتی اداروں کے پاس رہ گئے ہیں، یوں اس نظام کو ختم کیا گیا۔ اب وزیر اعلیٰ نے سڑکوں کی صفائی کی ذمے داری خود سنبھال لی۔

پیپلز پارٹی کے اقتدار کے پہلے 10 برسوں میں صورتحال اتنی خراب ہوئی کہ ہر شہر میں کوڑے کے ٹیلے بن گئے۔ کراچی، حیدرآباد، سکھر، لاڑکانہ اور میر پور خاص غرض کہ شہروں کی ہر سڑک پر گندے پانی کے ''جوہڑ'' کی موجودگی لازمی ہوگئی۔

کراچی میں کوڑے کی صفائی کا معاملہ عالمی موضوع بن گیا۔ نیویارک ٹائمز نے کراچی میں کوڑے کے مسائل پر کئی فیچر شایع ہوئے ۔ کراچی کی متوسط طبقہ کی بستی پی ای سی ایچ ایس کے مکینوں نے صاف پانی کی لائنوں میں گندے پانی کی نکاسی کو روکنے کے لیے بلدیاتی افسروں سے رابطے کیے۔


حتیٰ کہ متعلقہ وزیر سے رجوع کیا گیا تو متعلقہ وزارت کے افسروں نے جب اس علاقہ کے افسروں سے جواب طلب کیا تو بتایا گیا کہ ستمبر کے مہینہ میں فنڈز ختم ہوگئے۔ حکومتی قوانین کے تحت یکم جولائی سے نئے بجٹ پر عملدرآمد ہوتا ہے۔

ایک مہینہ میں بجٹ کا ختم ہونا ہر اس شخص کے لیے حیرت کا باعث تھا جو سرکاری قوانین سے واقف ہے۔ کہا جاتا ہے کہ قواعد و ضوابط کو نظرانداز کر کے یہ فنڈز طاقتور شخصیتوں کے اکاؤنٹس میں منتقل کر دیے جاتے ہیں۔ بلدیات کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی اس بات سے متفق ہیں کہ پیپلز پارٹی کے دور میں افسروں کے تقرر اور اچھی پوسٹنگ کا معاملہ اعلیٰ قیادت کو خوش کرنے سے منسلک رہا۔

خوش کرنے کے عمل میں پیسہ کے علاوہ تعلقات ہمیشہ اہم عنصر رہے۔ بہرحال نچلی سطح تک اختیارات نہ ہونے کی بناء پر حالات خراب ہوتے گئے۔ سندھ حکومت نے کوڑے کے مسئلہ کے حل کے لیے سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ بورڈ بنایا تھا۔ چینی کمپنی کو کوڑا اٹھانے کا ٹھیکہ دیا گیا ۔ بورڈ کے اہلکاروں نے محلہ کے نکڑ اور اہم شاہراہوں پر جدید ڈسٹ بن رکھ دیے مگر ان کی اونر شپ نہ ہونے کی بناء پر صورتحال خراب ہوتی چلی گئی۔

سیاسی جماعتوں کے مسلسل احتجاج سول سوسائٹی کی آگہی کی مہموں اور عالمی اداروں کے اعتراضات کے علاوہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد حکومت سندھ نے بلدیاتی قانون میں پھر تبدیلیاں کیں۔ سندھ کی حکومت نے ان تبدیلیوں کے لیے جماعت اسلامی، ایم کیو ایم اور مصطفیٰ کمال کی جماعت پاک سرزمین پارٹی سے تحریری معاہدے کیے۔

یوں اس سال بلدیاتی اداروں کے انتخابات ہوئے تو حکومت نے کراچی کے میئر کو اختیارات دینے کا فیصلہ کیا۔ کراچی کے میئر پیپلز پارٹی کے جواں سال مرتضیٰ وہاب منتخب ہوئے۔ سندھ حکومت نے میئر کو کے ڈی اے اورکراچی واٹر بورڈ کارپوریشن کا سربراہ مقرر کیا مگر ٹاؤنز کے چیئرمین، یونین کونسل کے چیئرمین اور کونسلر کو اختیارات نہیں دیے گئے۔ جب جاموٹ محلہ میمن گوٹھ میں ایک بچہ کی ہلاکت کے بعد صحافیوں نے متعلقہ یونین کونسل کے چیئرمین سے پوچھا تو انھوں نے اپنے بے اختیار ہونے کا ذکر کیا۔

پیپلز پارٹی کی حکومت نے گزشتہ ماہ ٹاؤن کے چیئرمینز اور یونین کونسل کے چیئرمینوں کو کچھ اختیارات دینے کے لیے دو قوانین منظور کیے۔

میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے گزشتہ دنوں صحافیوں کو بتایا تھا کہ انھوں نے وزارت بلدیات سے استدعا کی ہے کہ چیئرمین حضرات کے اختیارات کے لیے ٹرانزیشن کا عمل جلد ازجلد مکمل کیا جائے مگر پیپلز پارٹی کی حکومت اس سے پہلے اپنے میئر کی استدعا قبول کرتی اس کی آئینی معیاد مکمل ہوگئی۔

یوں یہ سوال پیدا ہوگیا کہ نگراں حکومت کو چیئرمینز کو بااختیار کرنے کا اختیار حاصل ہے یا نہیں، مگر اخبارات میں مین ہولز میں شہریوں کی ہلاکت کی خبروں کی اشاعت کو موجودہ میئر مرتضیٰ وہاب نے شاید سنجیدہ لیا، یوں کے ڈی اے کو فوری طور پر گٹروں کے ڈھکن تیار کرنے کی ہدایات جاری کیں۔ کے ڈی اے کی انتظامیہ نے اس سلسلہ میں ایک تقریب کی جہاں میئر مرتضیٰ وہاب نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شہرمیں گٹر کے ڈھکن بلدیہ نہیں اٹھاتی، یہ چوری ہوتے ہیں یا بعض عناصر شرارت سے یہ مشغلہ پورا کرتے ہیں ۔

اب واٹر بورڈ کی انتظامیہ نے یہ حل نکالا ہے کہ خود ڈھکن اپنی فیکٹری میں تیار کیے جائیں گے۔ مارکیٹ سے ایک گٹر کا ڈھکن جو 10 سے 12 کلو وزنی ہوتا ہے اور 3500 روپے میں ملتا ہے کے ڈی اے کی فیکٹری میں اس کے مقابلہ میں یہی ڈھکن 2700 روپے میں تیار ہوگا اور اس کا وزن 35 کلو ہوگا۔ میئر نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ہر یونین کو بلا امتیاز تقریباً 150 گٹروں کے ڈھکن فراہم کیے جائیں گے۔

میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نئے میئر منتخب ہوئے ہیں اور وہ مکمل طور پر متحرک ہیں، مگر بلدیہ کراچی ایک چھوٹی ریاست ہے۔ اس ریاست کے تمام یونٹ کو متحرک کرنے کے لیے ٹاؤن سے لے کر یونین کونسل کو میئر کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا پڑے گا۔

اس کوتاہی کے خاتمہ کے لیے بلدیاتی اہلکاروں کا احتساب اور پولیس کو متحرک کرنا ہوگا، اگر میئر سے لے کر کونسلر تک بااختیار ہونگے اور متحرک ہونگے تو کراچی بھی دنیا کے جدید شہروں میں شامل ہوگا، ورنہ گزشتہ پندرہ برسوں کی طرح یہ شہر پسماندہ رہے گا۔
Load Next Story