پختون وحدت۔ قوم پرستوں کا مخمصہ
اس وقت ڈیورنڈ لائن اتنا اہم مسئلہ نہیں ہے جس کی بنیاد پر پاکستان اور افغانستان باہمی تعلقات خراب کردیں
افغانستان نے ڈیورنڈ لائن کو ہمیشہ متنازع بنایا ہے اور اسے پختونوںکی تقسیم قرار دیا ۔ یوںپاکستانی پختون بھی ڈیورنڈ لائن معاہدے کو اچھا نہیںسمجھتے۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا کیا جائے؟
حقیقت یہی ہے کہ ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف پختون آباد ہیں' محمود خان اچکزئی ہوں یا خیبر پختو نخوا کے قوم پرست ، یہ ڈیورنڈ لائن کو نہیں مانتے لیکن جب افغانستان جاتے ہیں تو ڈیورنڈ لائن کراس کرتے ہوئے پاکستانی پاسپورٹ پر افغانستان کا ویزہ دکھاتے ہیں۔
گمرک میں سامان کا کسٹم کراتے ہیں'پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں نے پچھلے چھہتر برسوں میں جتنے بھی معاہدے کیے ہیں ، وہ اس لائن کو سرحد مان کر کیے ہیں۔ٹرانزٹ ٹریڈ یا کوئی بھی تجارتی معاہدہ ہو ہی نہیں سکتا جب تک ڈیورنڈ لائن کو سرحد نہ مانا جائے ، زمینی حقیقت یہی ہے کہ 1893کے بعد ڈیورنڈ لائن ہی پاکستان اور افغانستان کے درمیان بین الاقوامی سرحد ہے' جسے سب مانتے اور تسلیم کرتے ہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماء بھی تمام عملی مقاصد کے لیے ڈیورنڈ لائن کو سرحد مانتے ہیں،آج تک کسی بھی لیڈر نے اسمبلی میں یا جلسہ عام میں نہیں کہا،'' میں اس لائن کو سرحد ماننے سے انکار کرتا ہوں''۔ کسی بھی پختون رہنما یا سیاسی و مذہبی جماعت نے عالمی عدالت یا کسی اور عالمی ادارے میں اس لائن کو چیلنج نہیں کیا۔ چھپ چھپ کر ''افغان وحدت'' کا نعرہ لگانادو عملی کے سوا کچھ نہیں ہے' اس کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔
ممکنہ عملی اقدامات کیا ہوسکتے ہیں اور کیا پختون بطور قوم اس قابل ہیں کہ یہ اقدامات کرسکیں؟اس مسئلے کے ممکنہ حل کیا ہو سکتے ہیں؟پہلا حل تو یہ ہوسکتا ہے کہ دونوں طرف کے پختون مل کر ڈیورنڈ لائن کو ختم کردیں اور تمام پاکستانی پختون افغانستان کا حصہ بن جائیں۔
اس کے لیے اول تو ریاست پاکستان سے لڑنا ہوگا اور ریاست پاکستان کی تمام سہولیات و مراعات سے دستبردار ہونا ہوگا ، دوسرا سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانی پختون اس پر آمادہ ہوں گے کہ افغانستان کے ساتھ شامل ہوجائیں؟ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان افغانستان کے مقابلے میں ایک ترقی یافتہ ملک ہے 'یہاں ریاستی ادارے موجود اور فعال ہیں، سڑکیں اور ریلوے موجود ہے۔
شہری انفرااسٹرکچرموجود ہے، اعلیٰ درجے کے اسکول، کالجز اور یونیورسٹیز موجود ہیں، بہترین اسپتال موجود ہیں، تعلیم یافتہ اور ہنرمند مڈل کلاس کا حجم جنوبی ایشیا میں سب سے بڑا ہے، چھوٹے اور درمیانے کاروباری طبقے کا حجم بھی بہت بڑا ہے تمام تر خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود ہم افغانستان کی پسماندہ قبائلی سوسائٹی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ترقی یافتہ اور منظم ہیں۔ پختون پاکستان کی معاشی زندگی کے اہم اسٹیک ہولڈر ہیں۔
بیوروکریسی اور فوج میں بھی اس کی بھرپور نمایندگی ہے 'پشاور سے کراچی تک چلنے والی ہیوی ٹرانسپورٹ کے زیادہ تر مالک پختون ہیں۔ سیاسی 'سماجی 'تعلیمی' مواصلاتی'صحت اور عدلیہ غرض ہر شعبے میں پاکستانی پختون ترقی یافتہ سماج میں رہ رہے ہیں جب کہ افغان پختون معاشرہ پسماندہ دور کا آئینہ دار ہے۔
اس لیے پاکستان کے پختونوں کو افغانستان میں شمولیت کے لیے قائل کرنا ممکن نہیں ہے ۔۔دوسرا ممکن حل یہ ہوسکتا ہے کہ افغانستان سے زیادہ پختون پاکستان میں رہتے ہیں لہٰذا افغانستان کے پختون علاقوں کو پاکستان میں ضم کیا جائے' اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ پختونوں کی ستر فی صد آبادی پاکستان میں شامل ہونے کے بعد افغانستان کا وجود ہی ختم ہوجائے گا' لیکن کیا یہ ممکن ہے؟ یہ دیوانے کا خواب تو ہوسکتا ہے لیکن حقیقت نہیں ہوسکتا ہے ۔
تیسرا ممکن حل یہ ہوسکتا ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے پختون دونوں ممالک سے الگ ہوکر اپنا الگ وطن'' پختونستان'' کے نام سے قائم کرلیں'یہ بھی اس دور میں ممکن نہیں ہے پھر اس مسلے کا حل کیا ہو سکتا ہے؟آج کل کے حالات میں پختونوں کی ترقی کے لیے جو ممکن اقدامات ہو سکتے ہیں، انھی کی بنیاد پر سیاست کی جا سکتی ہے۔
ان میں سب سے اہم اور بہتر حکمت عملی یہ ہے کہ پاکستان کے اندر آباد پشتو بیلٹ کو متحد کیا جائے اور ایک متحدہ پختون صوبہ بنایا جائے ۔میرے خیال میں اس وقت یہی بہترین اورممکن قوم پرستی کا تقاضہ ہے ' پاکستان اور افغانستان اپنے باہمی تعلقات بہتر کریں تاکہ دونوں طرف کے پختونوں علاقوں میں امن قائم ہوسکے' چند سال قبل محترم آفتاب شیرپاؤ ، چیئرمین قومی وطن پارٹی نے افغانستان ٹائمز کو ایک انٹرویو دیا تھا، میرے خیال میں وہی بہترین راستہ ہوسکتا ہے۔ان کے انٹرویو کے چند اہم باتیں درج ذیل ہیں۔
اس وقت ڈیورنڈ لائن اتنا اہم مسئلہ نہیں ہے جس کی بنیاد پر پاکستان اور افغانستان باہمی تعلقات خراب کردیں' ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے کے مدد گار ہوں نہ کہ دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیل کر آپس میں دشمنی کریں۔ڈیورنڈ لائن تسلیم کرکے ہی دونوں ممالک نے آپس میں سفارتی اور تجارتی معاہدے کیے ہیں اور سرحدی مسئلہ ان تعلقات کی راہ میں کبھی بھی رکاوٹ نہیں بنا، اس طرح دیگر دوستانہ معاہدوں کے حل میں بھی یہ مسئلہ رکاوٹ نہیں بنے گا 'انشاء اللہ'' ۔۔۔۔
محمد مشتاق جدون صوبہ سرحد کے داخلہ اور قبائلی امور کے سابقہ ڈپٹی سیکریٹری نے کہا تھا کہ ''ڈیورنڈ لائن کے بارے میں غلط باتیں مشہور کی گئی ہیں، جو حقائق کے برعکس ہیں۔ مثلا!(i) ۔کہ ڈیورنڈ لائن کا معاہدہ 100سال کے لیے تھا ۔ حالانکہ کے اس معاہدے میں کہیں بھی 100سال کا ذکر نہیں ہے۔(ii)۔یہ کہ ڈیورنڈ لائن کا معاہدہ چونکہ حکومت برطانیہ کے ساتھ ہوا تھا، حکومت پاکستان کے ساتھ نہیں ، اس لیے اب یہ ختم ہو چکا ہے۔ یہ بھی غلط پروپگینڈا ہے۔
(iii)۔چونکہ اس وقت کے افغانستان کے حکمران نے دباؤ کے تحت اس معاہدے کو تسلیم کیا تھا، اس لیے اب افغانستان کو حق ہے کہ وہ اس معاہدے کو ماننے سے انکار کرے۔ اس دلیل میں کوئی وزن نہیں ہے اور نہ ہی معاہدے میں کہیں کوئی ذکر ہے۔(iv)۔مہمند ایجنسی کے علاقے سے گزرنے والی ڈیورنڈ لائن متنازعہ ہے کیونکہ یہ صرف کاغذات تک محدود ہے اور زمین پر اس کی حد بندی نہیں کی گئی ہے۔
اس لیے افغان حکومت کو اختیار ہے کہ وہ خوازئی کے علاقے پر اپنا حق جتائے ' یہ بھی غلط پراپگنڈا ہے ۔مشتاق جدون نے ان اعتراضات کے سلسلے میں دیگر وضاحتوں کے علاوہ یہ وضاحت بھی کی ہے کہ ۔''معاہدے سے صاف ظاہر ہے کہ نہ معاہدے میں اور نہ ہی مصدقہ نقشے میں کسی علاقے کو متنازعہ قرار دیا گیا ہے۔
زمین پر سرحدی تعین نہ ہونا اور متنازعہ میں بہت بڑا فرق ہے' جہاں تک اس معاہدے کے مستقل ہونے کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں اتنا کہنا کافی ہے کہ روس کے ساتھ افغانستان کے شمالی اور مغربی سرحدوں اور ایران کے ساتھ افغانستان کے مغربی سرحدوں کا تعین بھی برطانوی حکومت نے کیا تھا'سوویت یونین کے ٹکڑے ہوگئے لیکن نہ تو ترکمانستان 'ازبکستان اور سینٹرل ایشیاء کی دیگر ریاستوں نے جو روس کی وارث ہیںاور نہ ہی افغانستان کی حکومت نے ان معاہدوں کے بارے میں کوئی سوال اٹھایا ہے۔
ایران کے صوبے سیستان کے ساتھ بھی انگریزوں نے حد بندی کی تھی چونکہ پاکستان بھی برطانوی حکومت کا وارث ہے' اس لیے وہ اور افغانستان دونوں اس بات کے پابند ہیں کہ وہ اپنے سرحدوںکے بارے میں معاہدوں کی پاسداری کریں۔اس ساری بحث اور مختلف معاہدوں کو دیکھنے کے بعد یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ ڈیورنڈ لائن معاہدے کی توثیق مختلف اوقات میں کی گئی ہے، اس سلسلے میں 1894'1895'1905'1919'1921اور1930کے معاہدوں کا انھوں نے حوالہ دیا۔