ریاست ماں جیسی ہوتی ہے
ماں اولاد پر اگر جان نچھاور کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی ہے تو اولاد بھی ماں کی قدم بوسی کرنا اپنا فرض سمجھتی ہے
ماں اور اولاد کا بے لوث تعلق لفظوں کا محتاج ہر گز نہیں ہے کیونکہ دنیا کا یہ واحد تعلق ہے جو کسی مفاد باہمی کے بغیر اتنا مضبوط ہوتا ہے، جس میں ہر دو فریق بغیر کسی طمع اور لالچ کے ایک دوسرے کے ساتھ مضبوطی سے جڑے ہوتے ہیں ۔
ماں اولاد پر اگر جان نچھاور کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی ہے تو اولاد بھی ماں کی قدم بوسی کرنا اپنا فرض سمجھتی ہے۔ جدید دنیا میں ریاست کے اپنے شہریوں سے تعلق کوماں جیسے تعلق سے تشبیہ دی جاتی ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ریاست اپنے شہریوں کے حقوق کا تحفظ اور پاسداری بھی ایسے ہی کرے جیسے ماں اپنے بچوں کا کرتی ہے ۔
اسی طرح شہری بھی ریاست سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان سے ماں جیسا ہی سلوک کرے گی۔ لیکن جب کسی مشکل صورتحال میں ریاست کے کار پرداز ریاست کی بقاء کی جنگ لڑتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ ریاست اور عوام کا تعلق مشروط ہوتا ہے، اگر عوام کے گھروں کے چولہے بجھا دیے جائیں تو اس صورتحال میں ریاست اور عوام کا تعلق کمزور پڑ جاتا ہے ۔
بد قسمتی سے ہمارے ہاں بھی کچھ ایسا ہی ہورہا ہے۔ پاکستان میں عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے جس کا نتیجہ ہم آج یہ دیکھ رہے ہیں کہ عوام ملک بھر میں بجلی کے بھاری بھرکم بلوں کو ہاتھوں میں اٹھائے سڑکوں پر سینہ کوبی کر رہے ہیں ۔
پاکستان میں ایک روایت پڑ چکی ہے کہ جب تک کسی زیادتی کے خلاف سڑکوں پر احتجاج نہ کیا جائے اس زیادتی کا حکومتی سطح پر ازالہ نہیں ہوتا ہے ۔ حکومت کے کان پر جوں بھی تب ہی رینگتی ہے جب عوام احتجاج کرنے کے لیے ان کے دروازے پر آن موجود ہوتے ہیں ۔
سابقہ دونوں حکومتوں کی جانب سے آئی ایم ایف کے سامنے سرنڈر کرنے کے بعد جس ظالمانہ طریقے سے عوام پر ٹیکسوں کے بوجھ میں اضافہ کیا گیا اس کے بعد عوامی احتجاج کی پیش گوئی تو بہت پہلے سے ہی کی جارہی تھی ، آخر کار وہی ہوا ہے ، جیسے ہی عوام کی جیب خالی ہوئی ہے، وہ اگر بجلی کے بل ادا کرتے ہیں تو بچوں کو کھانا نہیں کھلا سکتے ۔
ان حالات کا اصل ذمے دار کون ہے ،اس بات کا تعین کرنا ضروری ہے۔ موجودہ نگران حکومت کے تو یہ بلا گلے پڑ گئی ہے جسے وہ طوہاً کراہاً ٹالنے کی بساط بھرکوشش کر رہی ہے۔ عوامی سطح پر اس بات کا بہت چرچا ہے کہ سرکاری ملازمین کو مفت بجلی کی فراہمی اس بحران کی ایک بڑی وجہ ہے۔
سرکاری ملازمین میں واپڈا سے منسلک ملازمین کو مفت بجلی کی سہولت کے اعدادو شمار بھی خبروں کی زینت بن رہے ہیں لیکن ساتھ ہی کچھ ایسے سرکاری افسران اورادارے بھی شامل ہیں جن کے ملازمین ماہانہ تنخواہ بھی وصول کرتے ہیں اور ساتھ ہی بجلی اورپٹرول کی مد میں ان کو اضافی ادائیگیاں بھی کی جاتی ہیں۔
بجلی کے محکموں کے ملازمین کوایک مقررہ حد تک مفت بجلی کی سہولت کی منطق تو سمجھ میں آتی ہے لیکن مفت بجلی کی حد مقرر کرتے ہوئے حد سے تجاوز نہیں ہونا چاہیے۔کسی بھی ادارے کے ملازمین کو اس ادارے سے وابستہ سہولیات کی مفت یاارزاں نرخوں پر دستیاب ہوتی ہیں لیکن اگر یہی سہولت کسی اور ادارے کے ملازمین کو بھی مفت فراہم کی جارہی ہو تو عوام سوالات اٹھانے میں حق بجناب ہیں۔
سوال یہ ہے کہ بجلی کے بلوں میں اس قدر خوفناک اضافہ کیسے ہوا کہ عوام بغیر کسی لیڈر کے سڑکوں پر احتجاج کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
اگر ماضی میں چلے جائیں تو یہ قصہ 1994 میں نجی شعبہ میں بجلی کی پیداواری کمپنیوں کے اجازت نامے سے شروع ہوا جنھوںنے تیل کے ذریعے بجلی کی پیداوار شروع کی جو لامحالہ بہت مہنگا سودا ہے لیکن یہ مہنگا سودا عوام پر لاگو کر دیا گیا، اس سے ملک میں بجلی کی ضرورت تو کسی حد تک پوری ہو گئی لیکن وقت کے ساتھ پیداواری لاگت میں اضافے نے بجلی کے نرخوں میں اضافے کی صورت میں عوام کے لیے ایک مصیبت کھڑی کردی۔
بعد چین سے کوئلے اور تیل سے چلنے والے بجلی پیدا کرنے کے کارخانے لگوائے گئے جنھوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔
یوں گردشی قرضوں کا حجم بہت بڑھ گیا، ہماری حکومتوں نے پانی سے سستی بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر سرمایہ کاری کرنے کے بجائے شارٹ کٹ کا آپشن اختیار کیا اور تیل سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کی حوصلہ افزائی کی ۔ یہ حوصلہ افزائی عوام کے گلے پڑ گئی ہے اور محسوس یوں ہوتا ہے کہ مستقبل قریب میں عوام کے اس چنگل سے چھٹکارے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
شروع میں عرض کیا تھا کہ ریاست ماں کے جیسی ہوتی ہے لیکن ہم پاکستانیوں کے لیے حکومت ایک ڈراؤنا خواب بن چکی ہے اور عوام اگر بجلی کا بل دیتے ہیں تو بچوں کے لیے کھانا نہیں ہوتا اگر کھانے کا بندوبست ہوتا ہے تو اسکول کی فیس نہیں ہوتی، علاج معالجہ تو کہیں بعد میں آتا ہے۔
مہنگائی کی گھمبیر صورتحال میںبچے والدین کی پریشانیوں کو بھانپ کر پولیس کی ہیلپ لائن پر فون کر کے یہ بتا رہے ہیں کہ وہ کتنے دن سے بھوکھے ہیں۔
عوام یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ ریاست ان کو زندگی کی بنیادی ضروریات کی فراہمی میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے کیا منصوبہ بندی کر رہی ہے جن کے مثبت اثرات ان کی روز مرہ زندگیوں پر ہوں۔ عوام ریاست سے ماں جیسے سلوک کے منتظر ہیں، پریشانی یہ ہے کہ کہیں یہ انتظار طویل نہ ہو جائے اورعوام کے صبر کا پیمانہ جو کہ لبریز ہو چکا ہے کہیں چھلک نہ جائے؟