مقبوضہ کشمیر کی بطور ریاست بحالی ناگزیر
لداخ کو اب بھارت نے براہ راست اپنے کنٹرول میں لے کر کشمیر سے علیحدہ کردیا ہے
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں جمہوریت کی بحالی کو اہم قرار دیتے ہوئے مودی حکومت سے کہا ہے کہ وہ مقبوضہ وادی کی ریاستی حیثیت کو بحال کرنے اور وہاں انتخابات کے انعقاد کے لیے روڈ میپ اور ٹائم فریم بتائے۔
دوسری جانب چین نے سرکاری سطح پر جاری ملک کے معیاری نقشے میں ارونا چل پردیش کو چین کے خود مختار علاقے تبت کا حصہ قرار دے دیا، جب کہ بھارت نے اس نقشہ پر چینی فریق کو احتجاج ریکارڈ کروایا ہے۔
درحقیقت بھارتی عوام بھی دہائی دے رہے ہیں کہ مودی کی غلط پالیسیوں نے ہندوستان کو کہیں کا نہ چھوڑا، اس وقت اہم سوال یہ ہے کہ کیا مودی ہندوستان کو سپر پاور کے ابھرتے عالمی تنازع کے ایندھن میں جھونک دے گا؟
دراصل چین نے مودی کی سفاکی پر جواب دیا ہے کیونکہ چین ارونا چل پردیش کو جنوبی تبت کا حصہ تصور کرتا ہے، چین نے تقسیم ہند کے بعد پرانے نقشوں کی بنیاد پر تبت سے ملحقہ اروناچل پردیش کے بڑے حصے اور شمال مشرقی لداخ کے غیر واضح سرحدی علاقوں کو اپنا حصہ قرار دیا ہے۔
دوسری جانب مودی سرکار نے اپنی طرف سے ریاست جموں و کشمیر کو تقسیم کر کے اس کی نیم خود مختاری ختم کر کے اسے بھارتی ریاست بنا کر اپنی طرف سے بہت بڑا معرکہ سر کیا تھا، مگر اس کے سنگین نتائج اب جس طرح سامنے آ رہے ہیں وہ خود بھارتی سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کے لیے خاصے مایوس کن ہیں۔
بھارت اسرائیلی ماڈل کو فالو کرتے ہوئے کشمیریوں کی نسل کشی کر رہا ہے، گو بھارت کی بی جے پی حکومت کا یہ منصوبہ 2014 میں ہی منظر عام پہ آ چکا تھا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں آبادی کے تناسب میں اسی طرح تبدیلی کے اقدامات کیے جائیں کہ جس طرح اسرائیل فلسطینی علاقوں میں یہودی آباد کاروں کو بسانے کے لیے رہائشی بستیاں قائم کر رہا ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں آبادی کے تناسب میں تبدیلی کے منصوبے پر عملدرآمد اس وقت کیا گیا کہ جب بھارتی حکومت نے 5 اگست 2019 کو بھارتی پارلیمنٹ میں آئینی ترامیم کرتے ہوئے مقبوضہ جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی طرف سے متنازعہ قرار دی گئی ریاست کو بھارت میں مدغم کرنے کا اعلان کر دیا۔
اس منصوبے کے تحت بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں ہندوؤں کی خصوصی بستیوں کے قیام اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی علاقوں سے لوگوں کو لا کر آباد کرانے کے اقدامات شروع کر دیے۔ اس کے ساتھ ہی مقبوضہ کشمیر میں صنعتی علاقے قائم کرنے کے نام پر ہزاروں ایکڑ اراضی سرکاری تحویل میں لے لی گئی تا کہ بھارت کے بڑے صنعت کار وہاں کارخانے لگائیں اور ان کارخانوں میں کام کرنے کے لیے بڑی تعداد میں بھارت سے لوگوں کو لایا جائے اور انھیں بھی مقبوضہ کشمیر میں ہی مستقل طور پر بسایا جائے۔
دوسری مرتبہ مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے، وہ سب کے سامنے ہے، ان کو بے رحمی سے کچلا جا رہا ہے۔ ریاست جموں و کشمیر میں بھی اس جنونی ہندو توا کی سیاست نے رنگ دکھایا وہاں بی جے پی نے جموں میں جہاں ہندو اکثریت آباد ہے وہاں اسے مذہبی طور پر بھرپور حمایت حاصل ہوئی اور وہاں کے ووٹروں نے آنکھیں بند کر کے ہندو ازم کے نام پر بی جے پی کا جھنڈا اٹھا لیا۔
اس طرح انھیں خواب دکھایا گیا کہ ریاست کی وزارت اعلیٰ ان کے ہاتھ آ جائے گی اور مسلمانوں کی اکثریت کو آہستہ آہستہ ختم کر کے پوری ریاست کو ہندو اکثریتی ریاست بنا دیا جائے گا۔ اسی جھانسے میں آ کر ڈوگروں، پہاڑیوں اور دیگر چھوٹی بڑی ہندو برادریوں اور سکھوں نے بی جے پی کو جموں میں کامیاب کرایا۔
اسی طرح 2022 میں بھارتی حکومت نے مقبوضہ جموں کے ریوینو افسران کو یہ اختیار دیا کہ ان تمام لوگوں کو رہائش کا سرٹیفکیٹ جاری کریں جو جموں شہر میں ایک سال سے زیادہ عرصے سے مقیم ہیں تاکہ انتخابی فہرستوں کی جاری خصوصی سمری نظر ثانی میں ان کے داخلے کو آسان بنایا جا سکے۔ ضلع الیکشن افسر اور ڈپٹی کمشنر جموں، نے ایک حکم نامہ جاری کیا کہ ایسے رہائشیوں کو ووٹر لسٹوں میں شامل کیا جائے جو ایک سال سے جموں میں مقیم ہیں اور اسی سال 15 ستمبرکو نئے ووٹروں کے اندراج، حذف کرنے، درست کرنے اور ووٹروں کی تبدیلی کے لیے انتخابی فہرستوں کی خصوصی سمری نظرثانی کا آغاز کیا گیا۔
اس کا مقصد ریاستی اسمبلی میں جموں کی سیٹوں میں اضافہ کرنا ہے تاکہ ریاستی اسمبلی میں مسلمانوں کے اکثریتی خطے وادی کشمیر کی اسمبلی سیٹوں پہ غیر مسلم اکثریتی خطے جموں کو حاوی کرتے ہوئے مقبوضہ جموں وکشمیر اسمبلی میں 'بی جے پی' کی حکومت قائم کی جا سکے۔ اس عمل کے ذریعے جموں میں 20 سے 25 لاکھ نئے ووٹروں کا اندراج کیا گیا ہے اور جموں کی اسمبلی سیٹوں میں 6 سیٹوں کا اضافہ بھی کر دیا گیا ہے۔
لداخ کو اب بھارت نے براہ راست اپنے کنٹرول میں لے کر کشمیر سے علیحدہ کردیا ہے۔ جموں و کشمیر میں مقیم ہندوؤں، سکھوں اور مسلمانوں میں دراڑ ڈالنے کی بھرپور کوشش کی گئی جو ناکام ثابت ہو رہی ہے۔ زبان رنگ و نسل سے ہٹ کر یہاں کشمیریت آج بھی ایک مضبوط وجود قائم رکھے ہوئے ہے۔
جموں و کشمیر کے لوگ اپنی کشمیریت پر اس سے جڑے رہنے پر فخر کرتے ہیں۔ آج جموں کے رہنے والوں کو اس بات کا احساس شدت سے ہونے لگا ہے کہ وہ بہت بڑی غلطی کر کے ہندو توا کے جال میں پھنس کر اپنی وحدت سے کٹ گئے اور اب بھارتی حکمران انھیں انھی کے علاقے میں اکثریت سے اقلیت میں بدل رہے ہیں۔
جموں کشمیر کو ہڑپ کرنے کے بعد ا س کی شناخت چھینی جا رہی ہے تاکہ بھارت سے لا کر مختلف اقوام کے نسل کے ثقافت کے لوگوں یہاں آباد کر کے اسے ہندو اکثریت والا علاقہ ثابت کیا جا سکے۔ 5 اگست 2019 وہ سیاہ دن تھا جب بھارت نے عالمی قوانین کو پیروں تلے روند کر مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی۔
مقبوضہ وادی کو 2 یونین ٹیرٹریز میں بدلنے کے اس اقدام نے ریاست جموں و کشمیر کو عملی طور پر دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا۔ عوامی ردعمل سے خوفزدہ ہو کر ہندوستان نے فوری طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں کرفیو نافذ کر دیا۔ ایک طرف 350,000 اضافی فورسز کی تعیناتی کی اور دوسری جانب تمام اہم اور تحریک کی حامی قیادت اور فعال نوجوانوں کو گرفتار کیا۔ اس اقدام کا مقصد یہ تھا کہ تسلط سے دلبرداشتہ آزادی کی جدوجہد کرنیوالے کشمیریوں کے ردعمل سے بچا جا سکے۔
مقبوضہ کشمیر پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے قابض سرکار سیاسی انجینئرنگ، نئی غیرقانونی آبادیوں کا قیام، سماجی اقتصادی اور معاشی قتل، ثقافت کو مسخ کرنے کی کوشش، میڈیا پر پابندی، قانون کا احترام نہ کرنے سمیت کئی گھناؤنے اقدامات میں مصروف ہے۔
ریاستی تحقیقاتی ایجنسی ایس آئی اے کی مدد سے عوام کو مزید ہراساں کرنے کے لیے انتظامیہ کو اضافی اختیارات دے دیے گئے ہیں۔ بھارت کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کے مقامی کرداروں کو بدنام کرنے کے لیے جھوٹے اور جعلی آپریشنز اور مقابلے کر رہا ہے۔
جعلی مقابلے میں شہید نوجوانوں کی میتیں نہ ان کے لواحقین کے حوالے کی جاتی ہیں اور نہ ہی جنازے کی اجازت دی جاتی ہے۔
قابض افواج کی جانب سے محاصرے اور تلاشی کی کارروائیوں کے دوران کیمیائی اور بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھارتی فورسز کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں انسانوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنا معمول بن چکا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں کو نشانہ بناتے ہوئے آئے روز گرفتار کیا جا رہا ہے۔
قابض حکومت نے 60 صحافیوں پر بیرون ملک جانے اور بین الاقوامی میڈیا سے بات چیت پر پابندیاں لگا رکھی ہیں جب کہ انسانی حقوق کے متحرک کارکنوں کو زیر حراست رکھا ہوا ہے۔ حال ہی میں بھارت نے ایک عوامی نوٹس جاری کیا ہے جس میں کشمیری طلباء کی پاکستان کے اداروں سے حاصل کی گئی ڈگریوں کو تسلیم نہ کرنے پر دھمکی دی گئی ہے قانون کو مقبوضہ عوام کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرنے کی وجہ سے وادی میں خوف و ہراس کے ساتھ ساتھ بھارت کے خلاف نفرت دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔
قابلِ غور بات یہ ہے کہ آرٹیکل 370 کے مطابق بھارت اس آرٹیکل کو ریاستِ مقبوضہ جموں کشمیر کی دستور ساز اسمبلی کی منظوری پر ہی منسوخ کر سکتا ہے۔ بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر کی کٹھ پتلی دستور ساز اسمبلی 1957میں تحلیل ہوگئی تھی، اس لیے مقبوضہ کشمیر کی دستور ساز اسمبلی کی منظوری کے بغیر یک طرفہ فیصلے سے اس آرٹیکل کی تنسیخ غیر قانونی ہے۔
کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں ہے لہٰذا کوئی بھی یکطرفہ فیصلہ غیر قانونی ہوگا، اس کے علاوہ چونکہ مقبوضہ جموں کشمیر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ایک متنازعہ علاقہ ہے، لہٰذا یہ بھارت کا حصہ کبھی نہیں بن سکتا، یہی سچ ہے آنے والے دنوں میں کشمیریوں اور دنیا کی نگاہیں بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے پر لگی ہوئی ہیں، یقیناً جیت حق و انصاف کی ہوگی۔
کشمیری جو 76 برسوں سے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، ڈیڑھ لاکھ جانوں کی قربانی دے چکے ہیں مگر وہ تھکے نہیں، نہ ان کے حوصلے ماند پڑے ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ جموں اور کشمیر کے عوام اپنی سابقہ حیثیت کی بحالی کے لیے متحد ہوگئے ہیں، یقیناً وہ وقت دور نہیں جب وہ اپنی جدوجہد میں کامیاب و کامران ہونگے۔
دوسری جانب چین نے سرکاری سطح پر جاری ملک کے معیاری نقشے میں ارونا چل پردیش کو چین کے خود مختار علاقے تبت کا حصہ قرار دے دیا، جب کہ بھارت نے اس نقشہ پر چینی فریق کو احتجاج ریکارڈ کروایا ہے۔
درحقیقت بھارتی عوام بھی دہائی دے رہے ہیں کہ مودی کی غلط پالیسیوں نے ہندوستان کو کہیں کا نہ چھوڑا، اس وقت اہم سوال یہ ہے کہ کیا مودی ہندوستان کو سپر پاور کے ابھرتے عالمی تنازع کے ایندھن میں جھونک دے گا؟
دراصل چین نے مودی کی سفاکی پر جواب دیا ہے کیونکہ چین ارونا چل پردیش کو جنوبی تبت کا حصہ تصور کرتا ہے، چین نے تقسیم ہند کے بعد پرانے نقشوں کی بنیاد پر تبت سے ملحقہ اروناچل پردیش کے بڑے حصے اور شمال مشرقی لداخ کے غیر واضح سرحدی علاقوں کو اپنا حصہ قرار دیا ہے۔
دوسری جانب مودی سرکار نے اپنی طرف سے ریاست جموں و کشمیر کو تقسیم کر کے اس کی نیم خود مختاری ختم کر کے اسے بھارتی ریاست بنا کر اپنی طرف سے بہت بڑا معرکہ سر کیا تھا، مگر اس کے سنگین نتائج اب جس طرح سامنے آ رہے ہیں وہ خود بھارتی سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کے لیے خاصے مایوس کن ہیں۔
بھارت اسرائیلی ماڈل کو فالو کرتے ہوئے کشمیریوں کی نسل کشی کر رہا ہے، گو بھارت کی بی جے پی حکومت کا یہ منصوبہ 2014 میں ہی منظر عام پہ آ چکا تھا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں آبادی کے تناسب میں اسی طرح تبدیلی کے اقدامات کیے جائیں کہ جس طرح اسرائیل فلسطینی علاقوں میں یہودی آباد کاروں کو بسانے کے لیے رہائشی بستیاں قائم کر رہا ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں آبادی کے تناسب میں تبدیلی کے منصوبے پر عملدرآمد اس وقت کیا گیا کہ جب بھارتی حکومت نے 5 اگست 2019 کو بھارتی پارلیمنٹ میں آئینی ترامیم کرتے ہوئے مقبوضہ جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی طرف سے متنازعہ قرار دی گئی ریاست کو بھارت میں مدغم کرنے کا اعلان کر دیا۔
اس منصوبے کے تحت بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں ہندوؤں کی خصوصی بستیوں کے قیام اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی علاقوں سے لوگوں کو لا کر آباد کرانے کے اقدامات شروع کر دیے۔ اس کے ساتھ ہی مقبوضہ کشمیر میں صنعتی علاقے قائم کرنے کے نام پر ہزاروں ایکڑ اراضی سرکاری تحویل میں لے لی گئی تا کہ بھارت کے بڑے صنعت کار وہاں کارخانے لگائیں اور ان کارخانوں میں کام کرنے کے لیے بڑی تعداد میں بھارت سے لوگوں کو لایا جائے اور انھیں بھی مقبوضہ کشمیر میں ہی مستقل طور پر بسایا جائے۔
دوسری مرتبہ مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے، وہ سب کے سامنے ہے، ان کو بے رحمی سے کچلا جا رہا ہے۔ ریاست جموں و کشمیر میں بھی اس جنونی ہندو توا کی سیاست نے رنگ دکھایا وہاں بی جے پی نے جموں میں جہاں ہندو اکثریت آباد ہے وہاں اسے مذہبی طور پر بھرپور حمایت حاصل ہوئی اور وہاں کے ووٹروں نے آنکھیں بند کر کے ہندو ازم کے نام پر بی جے پی کا جھنڈا اٹھا لیا۔
اس طرح انھیں خواب دکھایا گیا کہ ریاست کی وزارت اعلیٰ ان کے ہاتھ آ جائے گی اور مسلمانوں کی اکثریت کو آہستہ آہستہ ختم کر کے پوری ریاست کو ہندو اکثریتی ریاست بنا دیا جائے گا۔ اسی جھانسے میں آ کر ڈوگروں، پہاڑیوں اور دیگر چھوٹی بڑی ہندو برادریوں اور سکھوں نے بی جے پی کو جموں میں کامیاب کرایا۔
اسی طرح 2022 میں بھارتی حکومت نے مقبوضہ جموں کے ریوینو افسران کو یہ اختیار دیا کہ ان تمام لوگوں کو رہائش کا سرٹیفکیٹ جاری کریں جو جموں شہر میں ایک سال سے زیادہ عرصے سے مقیم ہیں تاکہ انتخابی فہرستوں کی جاری خصوصی سمری نظر ثانی میں ان کے داخلے کو آسان بنایا جا سکے۔ ضلع الیکشن افسر اور ڈپٹی کمشنر جموں، نے ایک حکم نامہ جاری کیا کہ ایسے رہائشیوں کو ووٹر لسٹوں میں شامل کیا جائے جو ایک سال سے جموں میں مقیم ہیں اور اسی سال 15 ستمبرکو نئے ووٹروں کے اندراج، حذف کرنے، درست کرنے اور ووٹروں کی تبدیلی کے لیے انتخابی فہرستوں کی خصوصی سمری نظرثانی کا آغاز کیا گیا۔
اس کا مقصد ریاستی اسمبلی میں جموں کی سیٹوں میں اضافہ کرنا ہے تاکہ ریاستی اسمبلی میں مسلمانوں کے اکثریتی خطے وادی کشمیر کی اسمبلی سیٹوں پہ غیر مسلم اکثریتی خطے جموں کو حاوی کرتے ہوئے مقبوضہ جموں وکشمیر اسمبلی میں 'بی جے پی' کی حکومت قائم کی جا سکے۔ اس عمل کے ذریعے جموں میں 20 سے 25 لاکھ نئے ووٹروں کا اندراج کیا گیا ہے اور جموں کی اسمبلی سیٹوں میں 6 سیٹوں کا اضافہ بھی کر دیا گیا ہے۔
لداخ کو اب بھارت نے براہ راست اپنے کنٹرول میں لے کر کشمیر سے علیحدہ کردیا ہے۔ جموں و کشمیر میں مقیم ہندوؤں، سکھوں اور مسلمانوں میں دراڑ ڈالنے کی بھرپور کوشش کی گئی جو ناکام ثابت ہو رہی ہے۔ زبان رنگ و نسل سے ہٹ کر یہاں کشمیریت آج بھی ایک مضبوط وجود قائم رکھے ہوئے ہے۔
جموں و کشمیر کے لوگ اپنی کشمیریت پر اس سے جڑے رہنے پر فخر کرتے ہیں۔ آج جموں کے رہنے والوں کو اس بات کا احساس شدت سے ہونے لگا ہے کہ وہ بہت بڑی غلطی کر کے ہندو توا کے جال میں پھنس کر اپنی وحدت سے کٹ گئے اور اب بھارتی حکمران انھیں انھی کے علاقے میں اکثریت سے اقلیت میں بدل رہے ہیں۔
جموں کشمیر کو ہڑپ کرنے کے بعد ا س کی شناخت چھینی جا رہی ہے تاکہ بھارت سے لا کر مختلف اقوام کے نسل کے ثقافت کے لوگوں یہاں آباد کر کے اسے ہندو اکثریت والا علاقہ ثابت کیا جا سکے۔ 5 اگست 2019 وہ سیاہ دن تھا جب بھارت نے عالمی قوانین کو پیروں تلے روند کر مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی۔
مقبوضہ وادی کو 2 یونین ٹیرٹریز میں بدلنے کے اس اقدام نے ریاست جموں و کشمیر کو عملی طور پر دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا۔ عوامی ردعمل سے خوفزدہ ہو کر ہندوستان نے فوری طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں کرفیو نافذ کر دیا۔ ایک طرف 350,000 اضافی فورسز کی تعیناتی کی اور دوسری جانب تمام اہم اور تحریک کی حامی قیادت اور فعال نوجوانوں کو گرفتار کیا۔ اس اقدام کا مقصد یہ تھا کہ تسلط سے دلبرداشتہ آزادی کی جدوجہد کرنیوالے کشمیریوں کے ردعمل سے بچا جا سکے۔
مقبوضہ کشمیر پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے قابض سرکار سیاسی انجینئرنگ، نئی غیرقانونی آبادیوں کا قیام، سماجی اقتصادی اور معاشی قتل، ثقافت کو مسخ کرنے کی کوشش، میڈیا پر پابندی، قانون کا احترام نہ کرنے سمیت کئی گھناؤنے اقدامات میں مصروف ہے۔
ریاستی تحقیقاتی ایجنسی ایس آئی اے کی مدد سے عوام کو مزید ہراساں کرنے کے لیے انتظامیہ کو اضافی اختیارات دے دیے گئے ہیں۔ بھارت کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کے مقامی کرداروں کو بدنام کرنے کے لیے جھوٹے اور جعلی آپریشنز اور مقابلے کر رہا ہے۔
جعلی مقابلے میں شہید نوجوانوں کی میتیں نہ ان کے لواحقین کے حوالے کی جاتی ہیں اور نہ ہی جنازے کی اجازت دی جاتی ہے۔
قابض افواج کی جانب سے محاصرے اور تلاشی کی کارروائیوں کے دوران کیمیائی اور بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھارتی فورسز کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں انسانوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنا معمول بن چکا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں کو نشانہ بناتے ہوئے آئے روز گرفتار کیا جا رہا ہے۔
قابض حکومت نے 60 صحافیوں پر بیرون ملک جانے اور بین الاقوامی میڈیا سے بات چیت پر پابندیاں لگا رکھی ہیں جب کہ انسانی حقوق کے متحرک کارکنوں کو زیر حراست رکھا ہوا ہے۔ حال ہی میں بھارت نے ایک عوامی نوٹس جاری کیا ہے جس میں کشمیری طلباء کی پاکستان کے اداروں سے حاصل کی گئی ڈگریوں کو تسلیم نہ کرنے پر دھمکی دی گئی ہے قانون کو مقبوضہ عوام کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرنے کی وجہ سے وادی میں خوف و ہراس کے ساتھ ساتھ بھارت کے خلاف نفرت دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔
قابلِ غور بات یہ ہے کہ آرٹیکل 370 کے مطابق بھارت اس آرٹیکل کو ریاستِ مقبوضہ جموں کشمیر کی دستور ساز اسمبلی کی منظوری پر ہی منسوخ کر سکتا ہے۔ بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر کی کٹھ پتلی دستور ساز اسمبلی 1957میں تحلیل ہوگئی تھی، اس لیے مقبوضہ کشمیر کی دستور ساز اسمبلی کی منظوری کے بغیر یک طرفہ فیصلے سے اس آرٹیکل کی تنسیخ غیر قانونی ہے۔
کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں ہے لہٰذا کوئی بھی یکطرفہ فیصلہ غیر قانونی ہوگا، اس کے علاوہ چونکہ مقبوضہ جموں کشمیر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ایک متنازعہ علاقہ ہے، لہٰذا یہ بھارت کا حصہ کبھی نہیں بن سکتا، یہی سچ ہے آنے والے دنوں میں کشمیریوں اور دنیا کی نگاہیں بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے پر لگی ہوئی ہیں، یقیناً جیت حق و انصاف کی ہوگی۔
کشمیری جو 76 برسوں سے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، ڈیڑھ لاکھ جانوں کی قربانی دے چکے ہیں مگر وہ تھکے نہیں، نہ ان کے حوصلے ماند پڑے ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ جموں اور کشمیر کے عوام اپنی سابقہ حیثیت کی بحالی کے لیے متحد ہوگئے ہیں، یقیناً وہ وقت دور نہیں جب وہ اپنی جدوجہد میں کامیاب و کامران ہونگے۔