بٹگرام چیئرلفٹ حادثہ ایک سبق

بلاشبہ اپنی نوعیت کا یہ ایک مشکل ٹاسک تھا، آٹھ انسانی زندگیوں کا سوال تھا

ashfaqkhan@express.com.pk

بٹگرام میں چیئرلفٹ کا حادثہ ابھی تک دل و دماغ پر سوار ہے، یہ حادثہ ہمارے لیے ایک بہت بڑا سبق ہے جو مستقبل میں اس نوعیت کے حادثات کو سانحات میں بدلنے سے بچا سکتے ہیں۔ اللہ کا کرم ہے کہ یہ حادثہ کوئی بڑا سانحہ نہیں بنا، اور کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

یہ حادثہ خیبرپختونخوا کے ضلع بٹگرام کی تحصیل الائی میں پیش آیا۔یہ ایک دور افتادہ اور پہاڑی علاقہ ہے،جہاں واقعہ پیش آیا'وہ دو پہاڑوں کے درمیان ہے'لوگ آمدورفت اور نقل و حمل کے لیے چیئر لفٹ استعمال کرتے ہیں، اس سے دو فائدے ہوتے ہیں ایک گھنٹوں کا سفر منٹوں میں طے ہو جاتا ہے دوسرا جب ندی نالوںمیں طغیانی کی وجہ سے زمینی راستے بند ہوجاتے ہیں توآنے جانے کے لیے چیئر لفٹ ہی متبادل رہ جاتا ہے۔

جس روز یہ حادثہ پیش آیا اس روز حسب معمول استاداور طلبا اسکول جارہے تھے۔ بدقسمتی سے چیئرلفٹ کی تین میں سے دوکیبل ٹوٹ گئیں اور چیئرلفٹ صرف ایک رسی پر لٹک گئی۔ زمین سے چیئرلفٹ کا فاصلہ کم و بیش ایک ہزار فٹ بتایا جاتا ہے۔

ڈولی میں آٹھ افراد پھنس گئے۔ یہ واقعہ صبح سات بجے پیش آیا۔ موقع پر پہنچنے والوں میں تحصیل الائی کے میئر مفتی غلام اللہ صاحب بھی شامل تھے۔ انھوں نے گورنر خیبر پختون خواہ حاجی غلام سے رابطہ کیا، اس کے بعد یہ خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔

مقامی انتظامیہ اور علاقے کے لوگ کثیر تعداد میں موقع پر پہنچ گئے لیکن اس حادثے سے نمٹنے کے لیے مقامی انتظامیہ کے پاس مہارت تھی، نہ ٹریننگ اور نہ ہی ایسے ٹولز تھے جن کی مدد سے ڈولی میں پھنسے ہوئے لوگوں کو بحفاظت نکالا جاسکے۔ گورنر خیبرپختونخوا نے فوج سے رابطہ کیا۔یوں ایس ایس جی کی سلنگ ٹیم، پاکستان آرمی ایوی ایشن کے ہیلی کاپٹرز جائے وقوعہ پر پہنچے۔

ایک ہیلی کاپٹر بیک اپ پر رہا جب کہ دوسرے نے کئی بار ڈولی کے پاس جانے کی کوشش کی لیکن جونہی ہیلی کاپٹر ڈولی کے قریب جاتا تو ہوا کے زور سے ایک رسی پر لٹکی ہوئی ڈولی فضا میں ڈولنے لگتی، جس سے اس بات کا خدشہ تھا کہ کہیں کوئی جانی نقصان نہ ہوجائے۔

اس لیے یہ انتہائی حساس اور نازک آپریشن تھا۔ اس ناممکن کو ممکن بنانے کے لیے پاک فوج کے ایس ایس جی کمانڈوز کی خدمات لینا پڑی کیونکہ اندھیرا چھا رہا تھا۔ صبح سے ہوا میں لٹکے ہوئے آٹھ افراد کو پاک فوج کے جوانوں نے کھانا اور ادویات پہنچائیں۔ اور دو بچوں کو خیر و عافیت سے پاک فوج کے ایس ایس جی کمانڈوز نے لفٹ سے اتارا پھر مقامی نوجوانوں کی مدد سے آپریشن کا آغاز کیا جو اس کام کی مہارت رکھتے تھے۔

رات ہونے کی وجہ سے ہیلی کاپٹر پرواز نہیں کرسکتے تھے، اس لیے متبادل رسیوں کے ذریعے شیر دل جوانوں نے چیئرلفٹ میں پھنسے تمام افراد کو کئی گھنٹوں کے آپریشن کے بعد ریسکیو کرلیا۔ 2 بچوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے نکالا گیا جب کہ 6 افراد کو زمینی آپریشن میں ریسکیو کیا گیا۔

بلاشبہ اپنی نوعیت کا یہ ایک مشکل ٹاسک تھا، آٹھ انسانی زندگیوں کا سوال تھا، دن بھر ٹی وی چینلز پر چیئرلفٹ میں پھنسے ہوئے لوگوں اور ریسکیو آپریشن کی فوٹیج دکھائی جاتی رہیں، پورا ملک پریشان تھا اورسب کی زبانوں پر ان افراد کے لیے دعائیں تھیں۔

الحمدللہ پاک فوج کے کمانڈوز کی راہنمائی میں مقامی جوانوں نے اپنی جان پر کھیل کر انتھک محنت، جذبہ حب الوطنی اور تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ان افراد کی جانیں بچائیں۔ لیکن پی ٹی آئی کے ورکرز نے پاک فوج کے خلاف سوشل میڈیا پر جو بیہودہ مہم چلائی الامان الحفیظ۔ جب سے چیئرمین پی ٹی آئی کو اقتدار سے ہٹایا گیا ہے۔

ان کے تو ہوش و حواس ہی اڑ گئے ہیں، فوج کے خلاف شاید دشمن قوتیں اتنا زہریلا پروپیگنڈا نہ کرسکتی ہوں جتنا آج کل پی ٹی آئی کے ورکرز کر رہے ہیں۔


صبح سات بجے سے لوگ چیئرلفٹ میں پھنسے ہوئے اور ہوا میں معلق تھے مگر تحریک انصاف کے ورکرز سمندر پار ائیرکنڈیشن کمروں میں بیٹھ کر سوشل میڈیا کے ذریعے پاک فوج پر سنگ باری کرتے رہے، دوسروں کے کاموں میں کیڑے نکالنا بہت آسان ہے لیکن یہ کوئی بہادری کی بات نہیں، ہمارے ہاں پشتو کی ایک ضرب المثمل ہے کہ "تماشبین دہ ٹکے مینز وولی" یعنی تماشین بین دور بیٹھ کر نشانہ عین درمیان میں مارتا ہے لیکن جونہی اس کے ہاتھ میں بندوق تھما دی جائے تو طبیعت صاف ہوجاتی ہے۔

یہی حال پی ٹی آئی کے کارکنوں کا ہے۔ خیبر پختونخوا میں حقیقی مقابلہ تحریک انصاف کا جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ ہے مگر تحریک انصاف کا کوئی مقامی عہدے دار جائے وقوعہ پر موجود نہیں تھا۔ مگر جمعیت کے کارکن اور جمعیت علمائے اسلام کے راہنما تحصیل الائی کے میئر مفتی غلام اللہ کی قیادت میں ریسکیو آپریشن مکمل ہونے تک جائے وقوعہ پر موجود تھے، اور امدادی سرگرمیوں میں اپنے تیئں حصہ لے رہے تھے۔

اس آپریشن میں حصہ لینے والے پاک فوج کے کمانڈوز اور مقامی جوان قوم کے ہیرو ہیں، جنہوں نے اللہ رب العزت کی نصرت سے ملک کو ایک سانحے سے بچایا۔

جمعیت علمائے اسلام کے راہنما سینٹر طلحہ محمود وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے ان شیر دل جوانوں کے لیے انعام کا اعلان کیا، نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے انھیں ایک باوقار تقریب میں بلایا، حوصلہ افزائی کی اور جس اپنائیت اور پیار سے ان شیردل نوجوانوں اور چیئرلفٹ میں پھنسے اذیت سے گزرنے والے بچوں کو اپنے سینے سے لگایا یقیناً قابل تحسین وقابل تقلید ہے۔

ہم بحیثیت قوم بچوں سمیت تمام افراد کو ریسکیو کیے جانے پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ اور پاک فوج، ریسکیو اداروں، ضلعی انتظامیہ اور مقامی افراد کے شاندار ٹیم ورک پر سب کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے 8 گھرانوں میں برپا قیامت صغریٰ کو خوشی میں بدل دیا۔

مقامی پولیس کی تحقیقات میں اس بات کا انکشاف ہو اہے کہ چیئرلفٹ میں لگی تینوں رسیاں غیرمعیاری تھیں جب کہ حفاظتی انتظامات بھی میسر نہ تھے جس کے متعلق لفٹ کے مالک کو پہلے ہی دو احتیاطی نوٹس کے ذریعے آگاہ کیا گیا تھا۔

لفٹ مالک کو پہلا نوٹس جولائی جب کہ دوسرا رواں ماہ اگست میں ہی جاری کیا گیا تھا تاہم نوٹس پر عمل درآمد نہ کرنے کی صورت میں کوئی کارروائی بھی نہیں کی گئی۔ پولیس نے چیئرلفٹ کے مالک اور آپریٹر کو گرفتار کرکے لفٹ کنٹرول روم سیل کردیا تھا۔ وزیر اعظم کی ہدایت پر خیبر پختونخوا کے تمام اضلاع میں چیئرلفٹ کی چیکنگ کا عمل شروع کردیا گیا ہے۔

صوبے کے تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو پرفارما بھیج دیا گیا ہے، جس میں چیئرلفٹ اور جھولوں سمیت مختلف تفصیلات مانگی گئی ہیں جس میں ضلعی انتظامیہ کی این او سی کے ساتھ ساتھ چیئرلفٹ کے کنٹرول روم کی چیکنگ اور مجموعی حالت کے بارے میں تفصیلات مانگی ہیں۔

مگر میں حیران ہوں ہمارے ادارے حادثے کے بعد کیوں متحرک ہوتے ہیں؟ اگر وہ وقت پر باقاعدہ معائنہ کرتے اور نقص کی صورت میں لفٹ کو مرمت کے لیے بند کرتے تو یہ واقعہ پیش نہیں آتا۔

بحیثیت پاکستانی میں مقتدر حلقوں سے گزارش کروں گا کہ پہاڑی علاقوں میں سہولیات کا فقدان ہے، جس کے پیش نظر لوگوں نے اپنی سہولت کے لیے پہاڑوں کے درمیان چیئرلفٹس لگا رکھی ہیں، انھیں بند کرنے کے بجائے ان کی حوصلہ افزائی کریں اور ان کی ہر طرح سے معاونت کریں کیونکہ حکومت کی غفلتوں کی وجہ سے جو آبادی بنیادی ضروریات سے محروم ہے ان کو سہولت فراہم کرنے کی غرض سے اگر کسی نے یہ کام شروع کررکھا ہے تو یہ اچھی بات ہے لہذا ان کی حوصلہ افزائی کریں۔

جن مقامی نوجوانوں نے ریسکیو آپریشن میں پاک فوج کی مدد کی ان کی مہارت اور قابلیت کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں ناصرف اعزاز سے نوازا جائے بلکہ انھیں پاک فوج میں ہی ملازمت دی جائے کیونکہ ہمارے ہاں تو ایسے حادثات ہوتے رہتے ہیں، جن میں ایسے نوجوانوں کی ضرورت پڑتی ہے، لہذا یہ قوم کا سرمایہ ہے اس سے استفادہ کیا جائے۔
Load Next Story