چندریان 3
روس کی چاند کے اسی حصہ میں اپنا سیارہ اتارنے کی کوشش ناکام ہوگئی تھی
تعلیم اور سائنس کے اعلیٰ معیار کی بناء پر بھارت چاند پر پہنچ گیا، یوں بھارت چاند کے جنوبی قطب پر پہنچنے والا پہلا ملک بن گیا۔ مصنوعی سیارہ چندریان 3 کی کامیاب لینڈنگ خلائی طاقت کی علامت ہے۔ چندریان دو ہفتوں تک فعال رہے گا۔
بھارتی سائنس دانوں کو یہ جاننے کا موقع ملے گا کہ آیا چاند پر جمع ہوا پانی ہے یا نہیں۔ روس جب سوویت یونین تھا تو چاند پر پہنچنے والا دوسرا ملک تھا مگر سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد روس خلائی دوڑ میں پیچھے رہ گیا ہے۔ روس کی چاند کے اسی حصہ میں اپنا سیارہ اتارنے کی کوشش ناکام ہوگئی تھی۔ غیر ملکی خبررساں ایجنسیوں نے بھارت کی اس خلائی کامیابی کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ بھارت اب بھی خلائی ٹیکنالوجی میں امریکا سے خاصا پیچھے ہے۔
امریکا نے 1960 اور 1970 میں جو اپالو مشن چاند پر بھیجے تھے، وہ چندریان 3 سے بہت جلدی صرف چند دنوں میں چاند پر پہنچے تھے۔ چندریان 3 نے چاند پر پہنچنے میں بہت زیادہ وقت لیا۔ بھارت کا خلائی مشن دیگر ممالک کے مقابلہ میں خاصا سستا ثابت ہوا۔ بھارت نے اس مشن پر 613 کروڑ بھارتی روپے خرچ کیے۔ بھارت کی خلائی معیشت کی مالیت 13 ارب امریکی ڈالر ہونے کی امید ہے۔
سوشل میڈیا پر بھارت کے خلائی اسٹیشن کی جو وڈیوز وائرل ہوئی ہے ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ خواتین سائنس دانوں کی اکثریت اس مشن سے منسلک تھی۔ اس مشن میں شریک تمام سائنس دانوں نے بھارتی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی ہے۔
بھارتی خلائی تحقیق کے ادارہ (Indian Research Organization) کے سابق چیف کا کہنا ہے کہ اس مشن میں شریک کوئی بھی سائنس دان کروڑ پتی نہیں ہے۔
ان سائنس دانوں نے ترقی یافتہ ممالک کے سائنس دانوں کے پانچویں حصہ کے برابر تنخواہ لے کر یہ تاریخی کامیابی حاصل کی ہے۔ بھارتی وزیر اعظم مودی جنوبی افریقہ سے بھارت کے زمینی خلائی ادارہ سے انٹرنیٹ کے ذریعے منسلک تھے۔ اس کامیابی کو صرف اپنی حکومت کی کامیابی قرار دے کر اپنی اگلے سال کی انتخابی مہم شروع کریں گے۔
تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو بھارت کی ترقی کی بنیادیں پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کے دور میں شروع ہوئیں۔ مولانا ابو الکلام آزاد بھارت کے پہلے وزیر تعلیم تھے، ان کی قیادت میں تعلیمی نظام اور نصاب تشکیل دیا گیا۔ نصاب میں سائنس کے مضامین پر خصوصی توجہ دی گئی، یوں اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سائنسی علوم پر خصوصی توجہ دی گئی۔
بھارت بجٹ میں ہمیشہ اس خطے میں سب سے زیادہ رقم تعلیم کے لیے مختص کرتا ہے۔ کانگریس کی حکومت نے انگریز حکومت کی پالیسیوں کو یکسر تبدیل کیا تھا۔ سب سے پہلے تمام ریاستوں کو بھارتی یونین میں ضم کیا گیا پھر جاگیرداری ختم کر دی گئی۔
حکومت نے سرکاری شعبہ کو ترقی دینے کے ساتھ ساتھ نجی شعبہ پر بھی خصوصی توجہ دی۔ بھارت میں 1950 میں بنایا جانے والا آئین حقیقی طور پر ایک سیکولر آئین تھا۔ بھارت کی حکومت نے اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کو ترقی کے دھارے میں لانے کے لیے پالیسیاں بنائیں۔
اندرا گاندھی کے دورِ اقتدار میں سوشل ازم کو بھارتی آئین میں شامل کیا گیا اور ٹیکس کا دائرہ کار بڑھا دیا۔ اندرا گاندھی نے زراعت کے شعبہ میں سبز انقلاب برپا کرنے کی جستجو کی اور بینکوں کو قومیا لیا گیا۔ مسز گاندھی کے صاحبزادہ راجیوگاندھی برسر اقتدار آئے تو یورپ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی عام ہو رہی تھی۔
راجیو گاندھی نے بھارت میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کو سستا اور عام کیا۔ اسی زمانہ میں بنگلور میں سیلیکون ویلی کے قیام کے لیے منصوبہ بندی کی گئی۔ 90ء کی دہائی میں بھارت معاشی ابتری کا شکار ہوا۔ اس وقت بھارت کے وزیر اعظم نرسیما راؤ اور ڈاکٹر من موہن سنگھ وزیر خزانہ تھے۔ من موہن سنگھ نے بھارتی معیشت کی بنیادوں کو تبدیل کرنا شروع کیا۔
اب ملٹی نیشنل کارپوریشن کو بھارت میں سرمایہ کاری کے مواقعے حاصل ہوئے۔ ڈاکٹر من موہن سنگھ وزیر اعظم بنے تو انھوں نے بھارت میں مکمل طور پر فری مارکیٹ اکانومی کو رائج کیا۔ بھارت میں خواندگی کا تناسب بڑھنے سے متوسط طبقہ مضبوط ہو رہا تھا۔
من موہن سنگھ نے امریکا سے سول ایٹمی معاہدہ کیا، یوں اس طبقہ کے لیے امریکا اور یورپ کی راہیں کھل رہی تھیں۔ بھارت نے اپنی ایٹمی تنصیبات کو بین الاقوامی معاہدہ کے لیے کھول دیا۔ اس معاہدہ کی بعض شقیں بھارت کی خود مختاری کے خلاف تھیں۔
بھارت کی کمیونسٹ پارٹی نے غریب عوام کے حقوق کے لیے تاریخی جدوجہد کی اور اس معاہدہ کے خلاف کانگریس حکومت سے علیحدہ ہوگئی، مگر متوسط طبقہ کے لیے امریکا اور یورپ میں مضبوط راہیں کھل گئیں۔
بھارت ایک زمانہ میں مکمل طور پر غریب ملک تھا مگر برسر اقتدار حکومتوں کی پالیسیوں کے نتیجہ میں غربت کی سطح کم ہوتی گئی۔ UNDPکی رپورٹ کے مطابق فی کس آمدنی 2.15 ڈالر فی دن تھی۔ 2021 میں غربت کی شرح میں 10 فیصد کمی ہوئی۔
اس سال خط غربت کے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی شرح 14.96 فیصد تک پہنچ گئی مگر دیہی علاقوں میں یہ شرح 19.23 فیصد کے قریب بتائی گئی۔ بھارت میں اس وقت خواندگی کی شرح 77.7 فیصد ہے جب کہ بھارت کی ریاست کیرالہ میں خواندگی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ 2020 کے ایک سروے کے مطابق بھارت کا دنیا بھر میں تعلیم کے لحاظ سے 43 واں نمبر ہے۔
بھارت کا سرکاری شعبہ کے ساتھ ساتھ نجی شعبہ میں تعلیمی شعبہ بھی سرگرم ہے مگر پرائیوٹ اسکول اور کالجز میں میرٹ پر آنے والے غریب طلبہ کی ایک مقررہ تعداد کو داخلہ دینے کے پابند ہیں۔ بھارت کے اعلیٰ تعلیمی معیار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عالمی بینک سمیت کئی اہم اداروں کے سربراہ بھارتی شہری ہیں۔
بھارت نے شعبہ طب میں حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ امراض سے بچاؤ کی ویکسین کی تیاری کے لحاظ سے بھارت ایشیائی ممالک میں سب سے آگے ہے۔ ادویات کا خام مال پڑوسی ممالک کو برآمد ہوتا ہے۔
بھارت میں سرکاری شعبہ میں مختلف شہروں میں جن میں دہلی، ممبئی اور بنگلور وغیرہ شامل ہیں اسٹیٹ آف آرٹ اسپتال قائم ہیں جہاں یورپ اور امریکا سے زیادہ سستا اور معیاری علاج ہوتا ہے، مگر بھارت کی خارجہ پالیسی کی ایک ناکامی کشمیر کا مسئلہ ہے جس کی صورتحال دن بدن خراب ہوتی جا رہی ہے۔
پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کشمیر کے مسئلہ کے حل میں ناکام رہے اور یہ معاملہ گھمبیر ہوتا رہا۔ بھارت میں اس وقت دائیں بازو کی بھارتیہ جنتا پارٹی برسر اقتدار ہے جس نے مذہبی انتہا پسندی کو بطور ہتھیار استعمال کیا ہے جس سے بھارت کے سیکولر معاشرہ کی بنیادیں ہل گئی ہیں۔
بھارت میں اس وقت مسلمان، عیسائی اور دیگر اقلیتیں خوف و ہراس کی زندگی گزار رہی ہیں جس کا لازمی نتیجہ ترقی کی دوڑ کا سست ہونا ہے۔
بھارت کی حکومت نے آئین کی شق 370 اور 35-Aکو ختم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیا ہے اور کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ بھارتی امور کے ماہر سینئر صحافی سعید حسن خان جو گزشتہ سال انتقال کرگئے انھوں نے دہلی میں ایک چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ انتہا پسندی سے پاکستان ٹوٹ گیا ، اگر مذہبی انتہا پسندی کا تدارک نہ ہوا تو بھارت بھی ٹوٹ جائے گا۔
مگر بھارت میں سیکولر قوتیں اور سول سوسائٹی مودی کے مذہبی انتہا پسندی کے نظریہ کے خلاف مزاحمت کررہی ہیں۔ بھارت کی ریاست مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنر جی اس وقت مزاحمتی تحریک کی روحِ رواں ہیں اور بھارت کی حزب اختلاف کی جماعتوں نے اگلے سال ہونے والے انتخابات میں ایک متحدہ محاذ قائم کیا ہے۔
چاند پر چندریان 3 اترنے پر کامیابی پر بھارت کے سائنس دان قابل مبارک باد ہیں۔ حکومت پاکستان نے اس کامیابی پر بھارتی حکومت کو مبارکباد دے کر ایک نیک جذبہ کا اظہار کیا ہے مگر بھارت کی حقیقی ترقی اس وقت ہوگی جب وہاں غربت ختم ہوگی اور بھارت دوبارہ مکمل طور پر ایک سیکولر ملک بن جائے گا اور تمام شہریوں کو بلالحاظ مذہب، ذات اور جنس کسی قسم کی تفریق کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ بھارت کی اس کامیابی سے پاکستانیوں کے لیے ایک سبق بہت واضح ہے کہ ایک حقیقی سیکولر ملک ہی دنیا میں ترقی کرسکتا ہے۔
بھارتی سائنس دانوں کو یہ جاننے کا موقع ملے گا کہ آیا چاند پر جمع ہوا پانی ہے یا نہیں۔ روس جب سوویت یونین تھا تو چاند پر پہنچنے والا دوسرا ملک تھا مگر سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد روس خلائی دوڑ میں پیچھے رہ گیا ہے۔ روس کی چاند کے اسی حصہ میں اپنا سیارہ اتارنے کی کوشش ناکام ہوگئی تھی۔ غیر ملکی خبررساں ایجنسیوں نے بھارت کی اس خلائی کامیابی کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ بھارت اب بھی خلائی ٹیکنالوجی میں امریکا سے خاصا پیچھے ہے۔
امریکا نے 1960 اور 1970 میں جو اپالو مشن چاند پر بھیجے تھے، وہ چندریان 3 سے بہت جلدی صرف چند دنوں میں چاند پر پہنچے تھے۔ چندریان 3 نے چاند پر پہنچنے میں بہت زیادہ وقت لیا۔ بھارت کا خلائی مشن دیگر ممالک کے مقابلہ میں خاصا سستا ثابت ہوا۔ بھارت نے اس مشن پر 613 کروڑ بھارتی روپے خرچ کیے۔ بھارت کی خلائی معیشت کی مالیت 13 ارب امریکی ڈالر ہونے کی امید ہے۔
سوشل میڈیا پر بھارت کے خلائی اسٹیشن کی جو وڈیوز وائرل ہوئی ہے ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ خواتین سائنس دانوں کی اکثریت اس مشن سے منسلک تھی۔ اس مشن میں شریک تمام سائنس دانوں نے بھارتی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی ہے۔
بھارتی خلائی تحقیق کے ادارہ (Indian Research Organization) کے سابق چیف کا کہنا ہے کہ اس مشن میں شریک کوئی بھی سائنس دان کروڑ پتی نہیں ہے۔
ان سائنس دانوں نے ترقی یافتہ ممالک کے سائنس دانوں کے پانچویں حصہ کے برابر تنخواہ لے کر یہ تاریخی کامیابی حاصل کی ہے۔ بھارتی وزیر اعظم مودی جنوبی افریقہ سے بھارت کے زمینی خلائی ادارہ سے انٹرنیٹ کے ذریعے منسلک تھے۔ اس کامیابی کو صرف اپنی حکومت کی کامیابی قرار دے کر اپنی اگلے سال کی انتخابی مہم شروع کریں گے۔
تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو بھارت کی ترقی کی بنیادیں پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کے دور میں شروع ہوئیں۔ مولانا ابو الکلام آزاد بھارت کے پہلے وزیر تعلیم تھے، ان کی قیادت میں تعلیمی نظام اور نصاب تشکیل دیا گیا۔ نصاب میں سائنس کے مضامین پر خصوصی توجہ دی گئی، یوں اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سائنسی علوم پر خصوصی توجہ دی گئی۔
بھارت بجٹ میں ہمیشہ اس خطے میں سب سے زیادہ رقم تعلیم کے لیے مختص کرتا ہے۔ کانگریس کی حکومت نے انگریز حکومت کی پالیسیوں کو یکسر تبدیل کیا تھا۔ سب سے پہلے تمام ریاستوں کو بھارتی یونین میں ضم کیا گیا پھر جاگیرداری ختم کر دی گئی۔
حکومت نے سرکاری شعبہ کو ترقی دینے کے ساتھ ساتھ نجی شعبہ پر بھی خصوصی توجہ دی۔ بھارت میں 1950 میں بنایا جانے والا آئین حقیقی طور پر ایک سیکولر آئین تھا۔ بھارت کی حکومت نے اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کو ترقی کے دھارے میں لانے کے لیے پالیسیاں بنائیں۔
اندرا گاندھی کے دورِ اقتدار میں سوشل ازم کو بھارتی آئین میں شامل کیا گیا اور ٹیکس کا دائرہ کار بڑھا دیا۔ اندرا گاندھی نے زراعت کے شعبہ میں سبز انقلاب برپا کرنے کی جستجو کی اور بینکوں کو قومیا لیا گیا۔ مسز گاندھی کے صاحبزادہ راجیوگاندھی برسر اقتدار آئے تو یورپ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی عام ہو رہی تھی۔
راجیو گاندھی نے بھارت میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کو سستا اور عام کیا۔ اسی زمانہ میں بنگلور میں سیلیکون ویلی کے قیام کے لیے منصوبہ بندی کی گئی۔ 90ء کی دہائی میں بھارت معاشی ابتری کا شکار ہوا۔ اس وقت بھارت کے وزیر اعظم نرسیما راؤ اور ڈاکٹر من موہن سنگھ وزیر خزانہ تھے۔ من موہن سنگھ نے بھارتی معیشت کی بنیادوں کو تبدیل کرنا شروع کیا۔
اب ملٹی نیشنل کارپوریشن کو بھارت میں سرمایہ کاری کے مواقعے حاصل ہوئے۔ ڈاکٹر من موہن سنگھ وزیر اعظم بنے تو انھوں نے بھارت میں مکمل طور پر فری مارکیٹ اکانومی کو رائج کیا۔ بھارت میں خواندگی کا تناسب بڑھنے سے متوسط طبقہ مضبوط ہو رہا تھا۔
من موہن سنگھ نے امریکا سے سول ایٹمی معاہدہ کیا، یوں اس طبقہ کے لیے امریکا اور یورپ کی راہیں کھل رہی تھیں۔ بھارت نے اپنی ایٹمی تنصیبات کو بین الاقوامی معاہدہ کے لیے کھول دیا۔ اس معاہدہ کی بعض شقیں بھارت کی خود مختاری کے خلاف تھیں۔
بھارت کی کمیونسٹ پارٹی نے غریب عوام کے حقوق کے لیے تاریخی جدوجہد کی اور اس معاہدہ کے خلاف کانگریس حکومت سے علیحدہ ہوگئی، مگر متوسط طبقہ کے لیے امریکا اور یورپ میں مضبوط راہیں کھل گئیں۔
بھارت ایک زمانہ میں مکمل طور پر غریب ملک تھا مگر برسر اقتدار حکومتوں کی پالیسیوں کے نتیجہ میں غربت کی سطح کم ہوتی گئی۔ UNDPکی رپورٹ کے مطابق فی کس آمدنی 2.15 ڈالر فی دن تھی۔ 2021 میں غربت کی شرح میں 10 فیصد کمی ہوئی۔
اس سال خط غربت کے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی شرح 14.96 فیصد تک پہنچ گئی مگر دیہی علاقوں میں یہ شرح 19.23 فیصد کے قریب بتائی گئی۔ بھارت میں اس وقت خواندگی کی شرح 77.7 فیصد ہے جب کہ بھارت کی ریاست کیرالہ میں خواندگی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ 2020 کے ایک سروے کے مطابق بھارت کا دنیا بھر میں تعلیم کے لحاظ سے 43 واں نمبر ہے۔
بھارت کا سرکاری شعبہ کے ساتھ ساتھ نجی شعبہ میں تعلیمی شعبہ بھی سرگرم ہے مگر پرائیوٹ اسکول اور کالجز میں میرٹ پر آنے والے غریب طلبہ کی ایک مقررہ تعداد کو داخلہ دینے کے پابند ہیں۔ بھارت کے اعلیٰ تعلیمی معیار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عالمی بینک سمیت کئی اہم اداروں کے سربراہ بھارتی شہری ہیں۔
بھارت نے شعبہ طب میں حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ امراض سے بچاؤ کی ویکسین کی تیاری کے لحاظ سے بھارت ایشیائی ممالک میں سب سے آگے ہے۔ ادویات کا خام مال پڑوسی ممالک کو برآمد ہوتا ہے۔
بھارت میں سرکاری شعبہ میں مختلف شہروں میں جن میں دہلی، ممبئی اور بنگلور وغیرہ شامل ہیں اسٹیٹ آف آرٹ اسپتال قائم ہیں جہاں یورپ اور امریکا سے زیادہ سستا اور معیاری علاج ہوتا ہے، مگر بھارت کی خارجہ پالیسی کی ایک ناکامی کشمیر کا مسئلہ ہے جس کی صورتحال دن بدن خراب ہوتی جا رہی ہے۔
پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کشمیر کے مسئلہ کے حل میں ناکام رہے اور یہ معاملہ گھمبیر ہوتا رہا۔ بھارت میں اس وقت دائیں بازو کی بھارتیہ جنتا پارٹی برسر اقتدار ہے جس نے مذہبی انتہا پسندی کو بطور ہتھیار استعمال کیا ہے جس سے بھارت کے سیکولر معاشرہ کی بنیادیں ہل گئی ہیں۔
بھارت میں اس وقت مسلمان، عیسائی اور دیگر اقلیتیں خوف و ہراس کی زندگی گزار رہی ہیں جس کا لازمی نتیجہ ترقی کی دوڑ کا سست ہونا ہے۔
بھارت کی حکومت نے آئین کی شق 370 اور 35-Aکو ختم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیا ہے اور کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ بھارتی امور کے ماہر سینئر صحافی سعید حسن خان جو گزشتہ سال انتقال کرگئے انھوں نے دہلی میں ایک چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ انتہا پسندی سے پاکستان ٹوٹ گیا ، اگر مذہبی انتہا پسندی کا تدارک نہ ہوا تو بھارت بھی ٹوٹ جائے گا۔
مگر بھارت میں سیکولر قوتیں اور سول سوسائٹی مودی کے مذہبی انتہا پسندی کے نظریہ کے خلاف مزاحمت کررہی ہیں۔ بھارت کی ریاست مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنر جی اس وقت مزاحمتی تحریک کی روحِ رواں ہیں اور بھارت کی حزب اختلاف کی جماعتوں نے اگلے سال ہونے والے انتخابات میں ایک متحدہ محاذ قائم کیا ہے۔
چاند پر چندریان 3 اترنے پر کامیابی پر بھارت کے سائنس دان قابل مبارک باد ہیں۔ حکومت پاکستان نے اس کامیابی پر بھارتی حکومت کو مبارکباد دے کر ایک نیک جذبہ کا اظہار کیا ہے مگر بھارت کی حقیقی ترقی اس وقت ہوگی جب وہاں غربت ختم ہوگی اور بھارت دوبارہ مکمل طور پر ایک سیکولر ملک بن جائے گا اور تمام شہریوں کو بلالحاظ مذہب، ذات اور جنس کسی قسم کی تفریق کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ بھارت کی اس کامیابی سے پاکستانیوں کے لیے ایک سبق بہت واضح ہے کہ ایک حقیقی سیکولر ملک ہی دنیا میں ترقی کرسکتا ہے۔