انسداد دہشتگردی عدالت کے جج کو سیکرٹ ایکٹ مقدمات کا اختیار دینا غلط ہے وکیل عمران خان
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کیسز کی متعلقہ عدالت مجسٹریٹ کی ہے، نوٹس جاری کرکے جواب طلب کیا جائے، وکیل کے دلائل
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے عدالت میں مقدمے کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ انسداد دہشت گردی عدالت کے جج کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمات کا اختیار دینا غلط ہے۔
سائفر کیس کی سماعت اٹک جیل میں کرنے کے خلاف دائر درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی، جس میں چیئرمین پی ٹی آئی نے عدالت منتقلی کے وزارت قانون کے نوٹی فکیشن کے خلاف درخواست دائر کی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق کے روبرو چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہماری درخواست پر 2 اعتراضات عائد کیے گئے ہیں۔ اعتراض ہے کہ ہم نے ایک ہی درخواست میں ایک سے زیادہ استدعا کیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اِس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ ۔ میں اعتراضات دُور کر دیتا ہوں، آپ میرٹ پر دلائل دیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا عدالت کا وینیو تبدیل کیا گیا ہے؟ ، جس پر وکیل شیر افضل مروت نے جواب دیا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کیسز کی متعلقہ عدالت مجسٹریٹ کی ہے۔ انسداد دہشت گردی عدالت کے جج کو آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت مقدمات کا اختیار دینا غلط ہے۔
وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ نوٹس جاری کر کے اس پر بھی جواب طلب کر لیا جائے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں آپ کی درخواست پر نوٹس جاری کر دیتا ہوں۔ وکیل نے کہا کہ یہ جلدی والا معاملہ ہے تو کیس آئندہ ہفتے دوبارہ مقرر کر دیا جائے، جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ کیس کی آئندہ سماعت اگلے ہفتے ہی کر لیں گے۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔