پنجاب انتخابات سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست خارج کردی
الیکشن کمیشن نے یہ چھوٹ خود کو کیسے دی کہ وہ انتخابات میں تاخیر کر سکیں؟ جسٹس اعجاز الاحسن کے ریمارکس
سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب انتخابات سے متعلق الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست خارج کردی۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب انتخابات نظرثانی کیس کی سماعت کی، جس میں الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ سے ایک ہفتے کا وقت طلب کیا۔
وکیل الیکشن کمیشن نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے پنجاب انتخابات بارے تفصیلی فیصلہ دیا ہے۔ تفصیلی فیصلے کی روشنی میں ایڈیشنل گراؤنڈز پر دلائل دینے کے لیے ایک ہفتے کا وقت درکار ہے۔
چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کو وقت فراہم نہیں کریں گے۔ وکیل نے کہا کہ قانون میں ترمیم کے بعد انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار الیکشن کمیشن کو مل گیا ہے، جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ یہ سوال ہمارے سامنے موجود ہی نہیں ہے کہ تاریخ کون دے گا۔ ہم اس وقت نظرثانی درخواست سن رہے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جو نکات اصل کیس میں نہیں اٹھائے وہ نکات نظرثانی کیس میں نہ اٹھائیں۔ وکیل نے عدالت کو بتایا کہ میں ورکرز پارٹی کیس ہائی لائٹ کرنا چاہتا ہوں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ان چیزوں پر دلائل کے بعد عدالت نقطہ نظر دے چکی ہے۔ ہمیں ریکارڈ سے بتائیں کہ فیصلے میں کونسی غلطیاں ہیں، جن پر نظرثانی ہو۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کے پاس الیکشن کا محض اختیار نہیں، یہ آپ کی آئینی ذمے داری ہے، جس پر وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ انتخابات کروانے کی ڈیوٹی ہمیں مؤثر انداز میں ادا کرنی ہے۔ کچھ نکات پر عدالت کی توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ جسٹس منیب اختر نے جواب دیا کہ عدالت کے سامنے کوئی نکات اٹھانے ہیں تو کسی اور کیس میں آ جائیے گا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ بتائیں کہ پنجاب انتخابات کیس کے تفصیلی فیصلے میں کیا غلطیاں ہیں؟۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آئین میں واضح درج ہے کہ انتخابات 90 دن میں کرانے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین کے واضح مینڈیٹ کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ قانون پاس کرنے سے 90 روز میں انتخابات کرانے کے آئینی مینڈیٹ میں تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔ الیکشن کمیشن انتخابات 90 دن سے تاخیر سے نہیں کرا سکتا۔
وکیل الیکشن کمیشن نے دلائل میں کہا کہ انتخابات 90 دن میں کرانے کی حد پر کچھ وجوہات میں چھوٹ بھی دی گئی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں الیکشن کمیشن کی معروضات کے بارے کچھ غلطیاں ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آرٹیکل 218 شق 3 کے مطابق الیکشن کمیشن کو انتخابات ''آرگنائز اور کنڈکٹ'' کرانے ہیں۔ الیکشن کمیشن کو انتخابات آرگنائزر اور کنڈکٹ 90 روز کی آئینی مدت میں کرانے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے یہ چھوٹ خود کو کیسے دی کہ وہ انتخابات میں تاخیر کر سکیں؟۔
وکیل الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ آئین ذمے داری عائد کرتا ہے کہ الیکشن کمیشن کو یقینی بنانا ہے کہ انتخابات صاف شفاف اور منصفانہ ہوں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ کمیشن 5 سال تک یقینی نہیں بناتا کہ انتخابات شفاف ہو سکیں گے تو کیا انتخابات نہیں ہوں گے؟، جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ یہ میری دلیل نہیں ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ آپ کی دلیل پھر کیا ہے؟۔ پچھلے آدھے گھنٹے سے یہی سمجھ نہیں آ رہا کہ آپ کا مدعا کیا ہے؟۔
چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے ہمارے سامنے بیان دیا سکیورٹی اور فنڈز فراہم کیے جائیں ہم انتخابات کرائیں گے۔ وکیل صاحب ہمارے فیصلے میں کسی غلطی کی نشاندہی کریں۔ ابھی تک آپ فیصلے میں غلطی کی نشاندہی نہیں کر سکے۔ یہ کوئی دست بدست لڑائی نہیں بلکہ آئینی معاملہ ہے۔ آئین پاکستان عوام سے جڑا ہوا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ہم آئین سے باہر نہیں جا سکتےْ آپ کو دس بار کہہ چکے فیصلے میں غلطی بتائیں۔
وکیل سجیل سواتی نے کہا کہ کوئی قانون الیکشن کمیشن کے اختیارات کم نہیں کر سکتا، جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ بات قانون کی نہیں آئین کی ہے۔ آئین کہتا ہے انتخابات ہر صورت 90 دن میں ہونے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن انتخابات 90 دن سے آگے نہیں لے جا سکتا۔ الیکشن کمیشن یہ نہیں کہہ سکتا قانون بن گیا ہے، اب چاہے 690 دن انتخابات نہ ہوں۔
وکیل نے کہا کہ آئینی مینڈیٹ سے تجاوز نہیں کر سکتے۔ انتخابات 90 دن میں کرانے کی شق کو آرٹیکل 254 کیساتھ ملا کر پڑھنا چاہیے۔ مخصوص حالات میں انتخابات 90 روز سے آگے جا سکتے ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ مخصوص حالات کا فیصلہ الیکشن کمیشن کیسے کر سکتا ہے؟، جس پر وکیل نے کہا کہ آرٹیکل 218(3) کا اختیار کمیشن ہی استعمال کرسکتا ہے، عدالت نہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ سیدھا سوال ہے انتخابات میں 90 دن سے تاخیر کا آئینی مینڈیٹ کمیشن کو کہاں سے ملا؟۔
وکیل سجیل سواتی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو شفاف انتخابات یقینی بنانے کا وسیع اختیار حاصل ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے پھر استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کہہ سکتا ہے کہ 5 سال شفاف انتخابات یقینی نہیں بنا سکتے؟ سمجھ نہیں آ رہا آپ کہنا کیا چاہتے ہیں۔
وکیل نے جواب دیا 5 سال انتخابات نہ کرانے کا مؤقف کبھی نہیں اپنایا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ اٹھارہویں مرتبہ پوچھ رہے ہیں عدالتی فیصلے میں غلطی کیا ہے؟ ۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ عدالت آپ کو قائل کرنے نہیں بیٹھی کہ فیصلے میں غلطی ہے یا نہیں۔
وکیل نے کہا جمہوریت کی بنیاد شفاف انتخابات ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے پوچھا عدالتی فیصلے میں بھی تو یہی لکھا ہے تو غلطی کیا ہے؟ ۔ وکیل نے جواب دیا غلطی یہ ہے کہ الیکشن کمیشن انتخابات 90 دن سے آگے نہیں لے کر جا سکتا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر الیکشن کمیشن فری فیئر انتخابات میں رکاوٹ محسوس کرے تو عدالت میں آسکتا ہے۔ الیکشن کمیشن خود سے فیصلہ نہیں کرسکتا کہ الیکشن نہیں کروانے۔ الیکشن کمیشن کی عرضی سمجھ کر ہی حل بتایا تھا۔ اگر الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ کا فیصلہ اچھا نہیں لگا تو اس پر لڑ رہے ہیں۔ اللہ نے ہمیں دو آنکھیں اور دماغ دیا جیسا بھی ہے اللہ کا شکر ہے۔ یہ کوئی اختیارات کی لڑائی نہیں کہ یہ میرا اختیار ہے اور یہ تیرا اختیار۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے پنجاب انتخابات کے معاملے پر الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست خارج کردی۔