عوام اور سیاسی کشمکش

یہ کسوٹی ہے نہ کوئی پہیلی بلکہ جمع و تفریق کا سیدھا سادہ اور آسان سوال ہے


Shakeel Farooqi September 01, 2023
[email protected]

سابقہ حکومت بڑی چالاک تھی وہ مَرا ہوا سانپ نگراں حکومت کے گلے میں ڈال کر رفو چکر ہوگئی۔

اُس حکومت کا کیا دھرا اب بیچاری نگراں حکومت کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اس کے پاس وقت کم ہے اور مقابلہ سخت ہے۔ مسائل کا ایک پہاڑ اُس کے سامنے ہے اور اُس کے ہاتھ پیر بندھے ہوئے ہیں۔ اُس کی حالت انتہائی قابلِ رحم ہے۔ سمجھ میں نہیں آرہا کہ کرے تو کیا کرے۔

ہمیں اِس حکومت کی بے کسی اور بے بسی پر رحم آرہا ہے۔ سولہ مہینے کی حکمرانی کے گند کو صاف کرنے میں کچھ نہ کچھ وقت تو درکار ہے۔ نگراں حکومت کے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے اور نہ کوئی چھو منتر۔ اِدھر ملک کے عوام کا بُرا حال ہے۔

اُن کی حالت غیر ہو رہی ہے اور جسم و روح کا رشتہ برقرار رکھنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں ہے۔ عوام کا غم و غصہ جائز ہے۔ زندگی اُن کے لیے ایک مسلسل عذاب بن گئی ہے۔

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے

ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

عوام کی حالت غیر ہوچکی ہے اور ان کی قوتِ برداشت جواب دے گئی ہے۔ اُن کی سانسیں اکھڑ رہی ہیں اور اُن کی حالت اُس مریض کی سی ہے جو زندہ رہنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہو۔

نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن

کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں۔ عوام کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں۔کسمپرسی کی اِس کیفیت میں مبتلا عوام سیاسی سانپوں کے ڈسے ہوئے ہیں اور عراق سے آنے والے تریاق کے شدت سے منتظر ہیں۔

اُن کی نظریں آنے والے عام انتخابات پر ٹِکی ہوئی ہیں۔ اُدھر سیاسی مداریوں کو اپنے تماشوں سے فرصت نہیں۔ ہر کوئی اپنی چالیں چلنے میں مصروف ہے اور مظلوم عوام سے کسی کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ بے حسی کا عالم یہ ہے کہ عوام کو ایک مرتبہ پھر جھانسہ دینے کے لیے ووٹ مانگنے آجائیں گے۔ غالبؔ نے سوال کیا تھا:

کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالبؔ

شرم تم کو مگر نہیں آتی

اِدھر یہ صورتحال ہے اور اُدھر ہمارے پڑوسی کے ہاں عام انتخابات کا انعقاد زیادہ دور نہیں جو اپنے وقت پر یقیناً منعقد ہوں گے جس کے بعد حسبِ معمول جیتنے والی سیاسی جماعت آئین اور قانون کے مطابق ملک کی باگ ڈور سنبھال لے گی۔

ہماری کیفیت یہ ہے کہ معلق لٹکے ہوئے ہیں اورکبھی حسد ہو رہا ہے اور کبھی رشک آرہا ہے۔ چاند پر رسائی حاصل کرنے کے بعد سے اِس کیفیت کی شدت میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔

یہ ہمارے بس کی بات نہیں بلکہ یہ ایک فطری امر ہے۔ہمیں وہ وقت یاد آرہا ہے جب ترقی کی دوڑ میں ہم اپنے پڑوسی سے آگے تھے، ہماری کرنسی کی قدروقیمت زیادہ تھی اور ہمارا تحقیقی ادارہ سُپارکو پڑوسی کے ادارے اِسرو سے بہت آگے تھا۔

ہمارے ملک میں عالی دماغوں کی کوئی کمی نہیں ہے جس کی سنہری مثال ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی صورت میں موجود ہے۔ اُن کے کارنامہ سے بڑھ کر بھلا اورکیا کارنامہ ہوسکتا ہے۔ اُنہوں نے پڑوسی کی اینٹ کا جواب پتھر سے اور تُرکی بہ تُرکی دیا تھا جسے قوم کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔

ہمیں اِس وقت ایک اور ادارہ یاد آرہا ہے جس کا نام پلاننگ کمیشن ہے۔ عالمی شہرت یافتہ ماہرِ معاشیات و اقتصادیات ڈاکٹر محبوب الحق کی نگرانی و قیادت میں اِس ادارے نے اپنی مثالی کارکردگی سے ملک و قوم کی وہ خدمات انجام دیں جنھیں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔یہ اُنہیں کا کارنامہ تھا کہ دنیا کے ترقی پذیر ممالک کی اقتصادی دوڑ میں پاکستان سب سے آگے تھا اور اِس کی تیز رفتاری کے سب معترف تھے۔

حقیقت یہ ہے کہ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں وطنِ عزیز کے پاس ایک سے ایک بڑھ کر جوہرِ قابل موجود ہے مگر ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارا ٹیلنٹ مواقعے کی عدم موجودگی کی وجہ سے نہ صرف ضایع ہورہا ہے بلکہ ملک چھوڑ چھوڑ کر باہر جانے پر مجبور ہے۔

زیادہ دور نہیں ابھی گزشتہ ایک دو ماہ کے دوران تقریباً ساڑھے چار لاکھ قابل افراد اپنے وطن کو خیر باد کہہ کر جہاں سینگ سمائے وہاں جانے پر مجبور ہوچکے ہیں۔

یہ سب ملک کے غیر یقینی حالات کی وجہ سے ہو رہا ہے اور ہمارے کَرتا دھرتا ہیں جنھیں شاید اِس کا علم ہی نہیں ہے یا احساس تک نہیں ہے۔

تف ہے ہمارے سیاسی بازیگروں پر جو راہِ راست پر آنے کے بجائے ملک کی قسمت سے کھلواڑ کر رہے ہیں اور جنھیں یہ احساس ہی نہیں کہ آگے کی طرف جانے کی منصوبہ بندی کرنے میں ہی اِس ملک کی بقا و سلامتی کا راز مضمر ہے۔

اب آتے ہیں جاں بہ لَب عوام کی حالتِ زار کی جانب جن کا پیمانہ صبر لبریز ہو رہا ہے اور اندیشہ لاحق ہے کہ خدانخواستہ یہ پیمانہ کہیں چھلک کر ہاتھوں سے گِر کر ٹوٹ نہ جائے۔تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ بجلی کے محکمہ کی جانب سے موصول ہونے والے بِلوں نے صارفین کو تنگ آمد بجنگ آمد پر مجبور کردیا ہے۔

غربت کی چکی میں پستے ہوئے عوام پر ناقص نظام نے اتنا بوجھ ڈال دیا ہے کہ اُنہیں بِل کی ادائیگی کی صورت میں موت نظر آنے لگی ہے۔ اِس سے قبل عوام بجلی کے کرنٹ لگ جانے کی وجہ سے مر جایا کرتے تھے اور اب نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ وہ بجلی کا بِل دیکھ کر ہی ایک جھٹکے کے ساتھ وفات پا جاتے ہیں۔

کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا

وطنِ عزیز میں جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ ہمارے سیاسی جادو گروں کی جادوگری کا کمال ہے جنہوں نے عوام کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ دی ہیں جس کی وجہ سے بیچارے عوام کو کوئی راہِ نجات نظر نہیں آ رہی ہے اور اُن کی سمجھ میں یہ نہیں آرہا کہ اُن کے پاس کوئی اور اوپشن بھی ہے یا نہیں ہے۔

اِس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ وہ اپنے دماغ پر تھوڑا سا زور دیں تاکہ اُنہیں معلوم ہوجائے کہ وہ اوپشن کیا ہے۔

یہ کسوٹی ہے نہ کوئی پہیلی بلکہ جمع و تفریق کا سیدھا سادہ اور آسان سوال ہے اور وہ یہ کہ اُنہوں نے اب تک جس مخلص اور عوام دوست ملک گیر سیاسی قوت کو ابھی تک آزمایا نہیں ہے اُسے آیندہ انتخابات میں آزما کر دیکھ لیں، ہم امید کرتے ہیں کہ اِنشاء اللہ اُنہیں مسائل کا حل مل جائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔