برکس سربراہی اجلاس جوہانسبرگ

برکس کا بنیادی مقصد دنیا کو ایک ملٹی پولر ورلڈ آرڈر مہیا کرنا ہے

gfhlb169@gmail.com

21اور 22اگست 2023 کو جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں برکس(BRICS)سربراہی اجلاس منعقد ہوا ۔اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 61ویں اجلاس کے موقعے پر2ستمبر2006کو اس تنظیم کی بنیاد رکھی گئی۔ تنظیم کا پہلا سربراہی اجلاس 2009میں ہوا۔

جنوبی افریقہ نے برکس کو 2011 میں جوائن کیا ۔اب اس تنظیم کا نام ان پانچ ممالک کے نام پرBRICSہو گیا ہے۔برکس کا بنیادی مقصد دنیا کو ایک ملٹی پولر ورلڈ آرڈر مہیا کرنا ہے۔

جوہانسبرگ اجلاس میں متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ تنظیم کو وسعت دیتے ہوئے ارجنٹائن، ایتھوپیا، ایران،سعودی عرب، مصر اور متحدہ عرب امارات کو شمولیت کی دعوت دی جائے۔ یہ چھ ممالک اگلے سال پہلی جنوری کو برکس کے باقاعدہ ممبر بن جائیں گے۔فرانس کے صدر جناب میکرون کی بڑی خواہش تھی کہ انھیں بھی شرکت کا دعوت نامہ جاری ہو لیکن ایسا نہ ہو سکا۔

روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے برکس سربراہی اجلاس میں شرکت نہیں کی۔پیوٹن نے پچھلے سال انڈونیشیا کے جزیرے بالی میں منعقد ہونے والے G-20اجلاس میں بھی شرکت نہیں کی تھی۔ G-20 کی امسال میٹنگ بھارتی دارالحکومت دہلی میں9ستمبر کو ہونے جا رہی ہے۔

اب تک کی اطلاعات کے مطابق روسی صدر دہلی میں ہونے والی میٹنگ میں شریک نہیں ہوں گے ۔پیوٹن شاید اس لیے ان اہم اجلاسوں میں شرکت نہیں کر رہے کیونکہ آئی سی سی یعنی انٹرنیشنل کورٹ آف کریمینل جسٹس نے جناب پیوٹن کے وارنٹ آف اریسٹ Arrest Warrant جاری کر رکھے ہیں۔

جنوبی افریقہ کے صدر جناب سرل رامافوسا نے برکس سربراہی اجلاس سے پہلے ایک پریس کانفرنس میں برملا کہا تھا کہ جنوبی افریقہ کی حکومت گرفتاری کے حکمنانے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اعلان کرتی ہے کہ جناب پیوٹن کو کسی صورت بھی گرفتار نہیں کیا جائے گا۔

انھوں نے روسی صدر کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ وہ بے دھڑک آئیں لیکن روسی صدر نے شرکت سے اجتناب کیا۔برکس میں شامل ممالک کی آبادی دنیا کی کل آبادی کا41.5فی صد ہے۔دنیا کے کل رقبے کا 26.7فی صد رقبہ ان ممالک پر مشتمل ہے۔

برازیل، روس،چین اور بھارت آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دس سب سے بڑے ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ان چاروں ممالک کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ مستقبل میں یہ دنیا کی ابھرتی بڑی قوتیں ہیں۔برکس میں شامل پانچوں ممالکG-20کے بھی ممبر ہیں۔

اگست 2023میں ہونے والی برکس سربراہی ملاقات اس سلسلے کی 15ویںملاقات تھی۔برکس نے معاشی ترقی کو سہارا دینے اور ممبر ممالک میں مالیاتی stability لانے کے لیے نیو ڈویلپمنٹ بینک اور کانٹیجنٹ ریزرو ایگریمنٹ جیسے اقدامات اٹھائے ہیں۔

اس وقت مغرب خاص کر امریکا نے دھونس اور دھاندلی کے ذریعے ساری دنیا کو زیرِ دست کیا ہوا ہے اور یہ اس لیے ممکن ہے کیونکہ امریکا اکیلا سپر پاور ہے۔دنیا کی ساری ٹرانزیکشنز امریکی کرنسی میں ہوتی ہیں۔

برکس ایک نیا مساویانہ ورلڈ آرڈر لانے کا متمنی ہے۔ تنظیم میں شمولیت کے لیے ضروری ہے کہ اس کے تمام ممبران متفقہ طور پر کسی ملک کو ممبر بننے کی دعوت دیں۔چونکہ بھارت اس تنظیم کا بانی ممبر ہے۔

اس لیے پاکستان اگر اس اہم فورم کا ممبر بننا چاہے تو ممکنہ طور پر بھارت اس کے راستے میںکھڑا ہو گا۔اگر یہ فورم ڈالر کی اجارہ داری کو توڑ سکے اور دنیا کی واحد سپر پاور امریکا کی جگہ چند دوسرے ممالک اس کی جگہ لے سکیں تو یہ اس کی بہت بڑی کامیابی ہو گی،البتہ اب تک امریکا نے ہر ابھرتی قوت کو نیچا دکھایا ہے۔


چونکہ سربراہی اجلاس میں چین کے صدر جناب شی اور بھارت کے وزیرِ اعظم جناب مودی دونوں نے شرکت کی،اس لیے بھارت میں اس اجلاس سے بڑی امیدیں بندھی تھیں۔

بھارتیوں کو یقین تھا کہ سربراہی اجلاس کے موقعے پر دونوں سربراہوں کے درمیان ایک مفصل ملاقات ہو گی اور سرحدی تنازعہ حل ہو جائے گا۔دونوں ممالک کے سربراہوں کی دوطرفہ ملاقات نہ ہو سکی البتہ دونوں کے درمیان سائڈ لائن پر ملاقات ضرور ہوئی۔

ملاقات کا کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں ہوا۔دہلی اور بیجنگ میں دونوں کی وزارتِ خارجہ نے مختلف الفاظ میں الگ الگ تبصرے کیے۔

بھارتی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ دونوں ممالک لائن آف ایکچوال کنٹرول کو مانیں، اسی میں امن مضمر ہے اور اسی سے تعلقات معمول پر آ سکتے ہیں۔بیجنگ نے بیان جاری کرتے ہوئے عام سی بات کی،کہا کہ ملاقات CandidاورIndepthتھی۔

دونوں اطراف سے یہ بھی واضح نہ ہو سکا کہ ملاقات کے لیے کس نے درخواست کی تھی۔بیجنگ نے کہا کہ ملاقات کے لیے بھارت نے درخواست کی تھی جب کہ دہلی نے کہا کہ چین نے بہت پہلے سے ملاقات کی درخواست کی ہوئی تھی۔ دونوں ملکوں نے سرحدی تنازعے کے حل کی بات چیت کو تیز کرنے اور ڈی ایسکیلیٹ De escalate کرنے کا عندیہ دیا۔

بھارت کو چین کی وجہ سے خطے میں ایک اور پریشانی کا سامنا ہے۔چین نے بھوٹان کو راضی کر لیا ہے کہ دونوں کے درمیان براہِ راست بات چیت ہو۔ بھوٹان اب تک خارجہ تعلقات کے لیے بھارت کی طرف دیکھتا تھا اور کوئی ایسا قدم نہیں اٹھاتا تھا جسے بھارتی تائید حاصل نہ ہو۔لیکن چین کی آؤٹ ریچ کی وجہ سے صورتحال بدل رہی ہے۔

ڈوکلام کے سو مربع کلو میٹر رقبے میں ایک ایسا مقام ہے جہاں بھارت،چین اور بھوٹان کی سرحدیں ملتی ہیں۔یہیں ایک تنگ پٹی ہے جسے چکن کی گردن کہا جاتا ہے اور جس کے ذریعے بھارت اپنے مشرقی علاقوں تک رسائی رکھتا ہے۔اگر اس تنگ پٹی پر چین کنٹرول حاصل کر لے تو بھارتی مشرقی علاقے باقی ملک سے کٹ جاتے ہیں۔

بھوٹان نے چین کے ساتھ سرحد کے تعین کے لیے براہِ راست بات چیت شروع کر دی ہے۔بھوٹان کا یہ اقدام خطے میںبھارتی اتھارٹی کے لیے ایک چیلنج ہے۔ادھر چین نے اپنے ملک کا نقشہ شائع کیا ہے جس میں ہماچل پردیش کو چینی علاقہ دکھایا گیا ہے۔

جناب نریندر مودی کو دوسری بار حکومت سنبھالے ہوئے چار سال ہو گئے ہیں۔موجودہ حکومتی دورانیے کا آخری سال شروع ہے۔مودی اب وہ اقدامات اُٹھائیں گے جو انھیں اگلے الیکشن میں کامیابی دلا سکیں۔

پچھلے انتخابات سے پہلے جناب مودی چینی صدر جناب شی سے 15دنوں میں دو بار ملے تھے اور بھارت کے اندر یہ تاثر ابھارنے میں کامیاب رہے کہ ہمارا یہ لیڈر بھارتی سرحد پر منڈلاتے خطرے کو دور کر لے گا۔اب پھر وہی چال چلی جا رہی ہے اور جوہنسبرگ میں ملاقات اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

پاکستان کے لیے بھی یہ بہت مشکل وقت ہو سکتا ہے۔ بھارت ایک بار پھر پلوامہ جیسا ڈرامہ رچانے کو تیار ہے اور اس بہانے مودی جی کی پاپولریٹی آسمان پر لے جانے کے لیے آزاد کشمیر پر زمینی حملے کا پلان تیار کر چکا ہے۔

ہماری دگرگوں معیشت اور شدید سیاسی چپقلش کی وجہ سے پاکستان کسی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔عوام پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔جنگ مزید مہنگائی لائے گی۔ہماری افواج خاص کر بری افواج کو سر پر منڈلاتے ممکنہ خطرے کا ابھی سے سدِ باب کرنا ہو گا۔
Load Next Story