بروقت عام انتخابات اور شفافیت کا بحران

اس وقت قومی سیاست کی مختلف شکلوں میں ایک بحران بروقت عام انتخابات اور اس کے منصفانہ اور شفاف نظام سے جڑا ہوا ہے


سلمان عابد September 01, 2023
[email protected]

مجموعی طور پر ہمارا ریاستی ، حکومتی اور ادارہ جاتی نظام مختلف ابہام اور فکری یا انتظامی تضادات کا شکار ہے ۔

ہم ترقی، خوشحالی اور کامیابی کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں مگر ہمارا عمل یا اقدامات ترقی کے برعکس اور ملک کو ایک ہیجانی کیفیت سے دوچار کرنے سے جڑا ہوا ہے۔ اسی بنیاد پر ہم اپنے مجموعی ریاستی، حکومتی ، ادارہ جاتی ، اور معاشی بحران کے معاملات کو سمجھ سکتے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔

اس وقت قومی سیاست کی مختلف شکلوں میں ایک بحران بروقت عام انتخابات اور اس کے منصفانہ اور شفاف نظام سے جڑا ہوا ہے ۔وفاق اور صوبائی سطح پر نگرانوں کی حکومتیں موجود ہیں اور آئینی تقاضوں کے تحت یہ حکومتیں اسمبلی کی مدت ختم ہونے کے 90یا 60دن کے اندر اندر انتخابات کو یقینی بنانے کی پابند ہیں ۔لیکن کیسا آئین اور کیسا قانون اور کیسی جمہوری روایات کیونکہ ہم نے تو ان تمام اصولوں کو پامال کرکے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ ملک بحرانوں سے نکلنے کی بجائے مزید نئے بحرانوں کا شکار ہو رہا ہے ۔یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ ہم نے آئین کو بنیادی فوقیت دینے یا مقدس سمجھنے سے انکار کردیا ہے ۔

اس وقت قومی سیاست یا سیاسی پنڈتوں کے محاذ پر انتخابی تناظر میں چند موضوعات زیر بحث ہیں۔ اول انتخابات ہر صورت آئینی تناظر میں 90دن کے اندر اندر ہونے چاہیے۔

دوئم اگر مردم شماری کے نئے نتائج کی بنیاد پر نئی حلقہ بندیاں کرنا مقصود ہیں تو یہ انتخابات اگلے برس فروری یا مارچ میں ہونے چاہیے۔

سوئم انتخابات ہونگے یا نہیں ہونگے اور کیا نگران حکومتوں کو مزید وقت دیا جائے گا اور ان کو نگرانوں سے عبوری حکومت کا درجہ دیا جائے گا۔ چہارم کیا انتخابات کی حیثیت شفافیت پر مبنی ہوگی اور کیا پی ٹی آئی سمیت سب کو لیول پلینگ فیلڈ مل سکے گی یا سیاسی انجینئرنگ کا کھیل ماضی کی طرح جاری رہے گا اور کسی کو لانے اور کسی کو نہ لانے کی ماضی سے جڑی حکمت عملی ہی کو بنیاد بنا کر آگے بڑھا جائے گا۔

پنجم انتخابات مسائل کا حل ثابت ہونگے یا انتخابات کو بنیاد بنا کر ہم ایک اور نئے سیاسی ومعاشی بحران یا سیاسی انتشار کا شکار ہونگے ۔

یہ جو ماضی میں ہمیں ایک تھیوری پیش کی جاتی تھی کہ پہلے احتسا ب ہوگا اور پھر انتخابات جس کا کھیل ہمیں سیاسی فائدہ دینے کی بجائے ایک کمزور سیاسی نظام کی صورت میں دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ اب ایک نئی تھیوری یہ پڑھائی جارہی ہے کہ پہلے معیشت کو درست کرو اور پھر انتخابات کی طرف پیش رفت کی جائے ۔

سوال یہ ہے کہ ایسا کیا جادو ہے کہ ہم سیاسی استحکام کو قائم کیے بغیر معاشی استحکام کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔

یہ جو انتخابات سے اول فرار کا راستہ اختیار کیا جارہا ہے یا اس میں تاخیر کرکے اپنی مرضی کے نتائج کے حصول کی جو کوشش کی جارہی ہے وہ کیسے قومی بحران کو کم کرسکے گا ۔یہ جو ہم نے عام انتخابات سے پہلے ہی انھیں متنازعہ بنانے کے کھیل کا آغاز کردیا ہے اس سے متنازعہ انتخابات کا عمل مزید سیاسی اور معاشی عدم استحکام سے دوچار کرے گا۔

جو لوگ نئی مردم شماری کے نتائج کو بنیاد بنا کر انتخابات کو آگے کرنا چاہتے ہیں ان کو پہلے اس بات پر جوابدہ بنانا ہوگا کہ ان نتائج کی تاخیر کیونکر ہوئی اور کیوں بروقت یہ نتائج پیش کرکے حلقہ بندیوں یا نشستوں میں اضافہ کا فیصلہ کیا گیا ۔

بنیادی طور پر تو نئی حلقہ بندی یا نئی مردم شماری کے نتائج کو جان بوجھ کر انتخابات میں تاخیر کے طور پر بطور ہتھیار استعمال کیا جارہا ہے اور مقصد انتخابات میں جان بوجھ کرہی تاخیری حربے اختیار کرنے ہیں۔ انتخابات کی شفافیت کو بنیاد بنائے بغیر ہم بڑے بحران سے باہر نہیں نکل سکیں گے ۔

اس وقت سیاسی، معاشی، ادارہ جاتی اور بالخصوص ریاستی بحران ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں استحکام کی سیاست کی طرف ہی بڑھنا ہے ۔

انتخابات کے بروقت ہونے سے کوئی ملک میں انقلاب نہیں آئے گا اور نہ ہی فوری طور پر نئی حکومت آنے سے حالات بہتری کی طرف جائیں گے ۔ لیکن ایک درست سمت کی طرف بڑھا جاسکتا ہے اور جو داخلی نوعیت کی ہیجانی یا سیاسی کیفیت ہے اس سے باہر نکلنے میں یقینی طور پر مدد مل سکتی ہے ۔

اس لیے فوری طور پر انتخابات کی تاریخ کا سامنے آنا اور اتفاق رائے کی بنیاد پر انتخابات کی شفافیت اور ہر ایک کے لیے لیول پلینگ فیلڈ اور سیاسی انجینئرنگ کے بغیر انتخابات ہی ہمیں بڑے بحران سے باہر نکلنے میں مدد دے سکتے ہیں ۔

یہ بات تسلیم کرنا ہوگی کہ انتخابات میں تاخیر کی صورت میں ہمیں محض داخلی محاذ پر ہی مسائل کا سامنا نہیںکرنا پڑے گا بلکہ خارجی محاذ پر اور اہم بات عالمی مالیاتی اداروں اور معاشی امکانات کے حوالے سے بھی کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔

کیونکہ جب ملک میں انتخابات کو کرانے سے انکار کیا جاتا ہے تو اس سے ایک غیر یقینی کی کیفیت اور سیاسی ٹکراؤ کو روکنا ممکن نہیں ہوگا ۔ عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کی جو غیر یقینی صورتحال ہوگی اس میںکیونکر مالیاتی مدد کے طو رپر سامنے آئیں گے ۔

اب بھی وقت ہے کہ ہمارے فیصلہ ساز، حکومت اور الیکشن کمیشن سمیت دیگر ادارے موجودہ حالات میں سر جوڑ کر بیٹھیں اور مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں ۔

بروقت انتخابات ، شفاف انتخابات، انتخابی نتائج کو قبول کرنے کا عمل ، عوامی ووٹوں سے منتخب حکومت کی پالیسی ، سیاسی انجینئرنگ سے گریز، لیول پلینگ فیلڈ اور سب جماعتوں کو آزادانہ اور بغیر کسی خوف یا دباو کے انتخابات میں حصہ لینے اور خاص طور پر ٹکراو کی سیاست سے باہر نکل کر ایک بڑے سیاسی فریم ورک پر اتفاق کرکے شفاف انتخابی عمل میں جانا چاہیے اوریہی عمل اس وقت ملک ، ریاست اورعوام کے مفاد میں ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں