ایشیاکپ تک تو رک جائیں

اس سسٹم کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، فی الحال تو ایشیا کپ کے تین میچز باقی ہیں ان پر توجہ دیں

اس سسٹم کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، فی الحال تو ایشیا کپ کے تین میچز باقی ہیں ان پر توجہ دیں (فوٹو: پی سی بی)

'' چلیں آپ کو ایک چھوٹی سی کہانی سناتا ہوں'' کرکٹ کی ایک اہم شخصیت نے جب مجھ سے یہ کہا تو میں نے جواب دیا ضرور سنائیں،اس پر وہ کہنے لگے کہ '' ایک باپ بیٹا اپنے گدھے کو لے کر کہیں جا رہے تھے، راستے میں انھیں کچھ لوگوں نے دیکھا تو کہا کہ بڑے بے وقوف لوگ ہیں گدھا ساتھ ہے اور خود پیدل جا رہے ہیں، یہ سن کر وہ دونوں گدھے پر سوار ہو گئے، تھوڑی دور گئے تھے کہ کچھ اور لوگ نظر آئے جو کہنے لگے کیسے بے حس انسان ہیں کمزور گدھے پر دونوں سوار ہو گئے،اس پر بیٹا اتر گیا، مزید آگے بڑھے تو کچھ اور لوگ موجود تھے جو کہنے لگے کیسا باپ ہے بیٹے کو اتنی گرمی میں پیدل چلا رہا ہے خود گدھے پر سوار ہے، یہ سن کر باپ اتر گیا اور بیٹے کو بٹھا دیا، کچھ دور گئے تھے کہ مزید چند افراد نظر آئے جو کہنے لگے افسوس کیا زمانہ آ گیا ہے بیٹا خود گدھے پر سوار اور باپ کو پیدل چلا رہا ہے، یہ سن کردونوں کو غصہ آیا اور گدھے کو ہی اٹھا کر چلنے لگے، یہ دیکھ کر پھر کسی نے کہا کیسے بے وقوف لوگ ہیں خود پیدل اور گدھے کو اٹھا کر جا رہے ہیں، اس کہانی کا مقصد یہ ہے کہ لوگ کسی حال میں خوش نہیں ہیں، ہم جو بھی کر لیں تنقید تو ہونی ہی ہے، اس لیے اب ہماری یہی کوشش ہے کہ منفی باتوں کو نظرانداز کر کے صرف اپنے کام پر توجہ دیں،15 سال بعد ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ ایونٹ ہو رہا ہے، چاروں میچز کا بااحسن انداز میں انعقاد ہمارا مقصد ہے''۔

میں ان کی باتیں سن کر سوچنے لگا کہ واقعی یہ وہ وقت ہے کہ سب کو اپنے اختلافات بھلا کر تاریخی موقع کو یادگار بنانا چاہیے لیکن ہماری یہ عادت ہوچکی کہ کوئی پسند نہ ہو تو اس کے ہر کام میں خامیاں تلاش کرتے ہیں، میں یہ نہیں کہتا کہ ان دنوں پی سی بی میں دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں لیکن ایشیا کپ تک توکم از کم اپنے ذاتی اختلافات پس پشت رکھ دینے چاہیئں۔

بورڈ سونے کی چڑیا ہے،اس کے پاس اربوں روپے ہیں،ابھی نئے براڈ کاسٹنگ وغیرہ کے کنٹریکٹس سے بھی کئی ارب ملنے ہیں، اگر چند فیصد بھی کسی کا حصہ ہو تو یہ کروڑوں بنے گا، اسی لیے سب کی کوشش کسی طرح اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی ہے، اگر میں بتا دوں کہ کہاں کہاں سے ملازمتوں کیلیے سفارشیں آتی ہیں تو آپ سر پکڑ کر بیٹھ جائیں، ماضی میں پی ایس ایل نے بھی کئی پی سی بی آفیشلز کو کروڑ پتی بنا دیا خصوصا مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ کے بعض آفیشلز نے تو بڑے بڑے گھر تک خرید لیے تھے۔

اب وہ بورڈ سے دور آرام کی زندگی بسر کر رہے ہیں، آئی فون،گھڑیاں جیسے تحفے تو معمولی کہلاتے تھے، کیسی کیسی کہانیاں ہیں پھر کبھی بتاؤں گا فی الحال ایشیا کپ کی بات ہو رہی تھی،اس بار ہائبرڈ ماڈل اپنایا گیا،4 میچز پاکستان اور باقی سری لنکا میں ہو رہے ہیں، بظاہر اس کا ایک فائدہ نظر آتا ہے کہ 2025 کی چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی میں پاکستان کو آسانی ہوگی،البتہ اگر ہم ٹھنڈے دل سے سوچیں تو اس سے مشکلات بھی ہوئی ہیں۔

عالمی ایونٹ سے کسی بھی ملک کی معیشت کو فائدہ ہوتا ہے البتہ ایشیا کپ میں دیکھیں تو شاید ہی ایسا ہو گا، چارٹرڈ فلائٹ تک سری لنکن ایئر لائنز کی استعمال ہورہی ہیں، اگر پورا ایونٹ پاکستان میں ہوتا تو یقینا اچھا رہتا، ابھی کھلاڑی بھی سفری مسائل سے پریشان ہیں، ملتان میں نیپال کو ہرانے کے بعد آرام کا موقع نہیں ملا چند گھنٹے بعد کولمبو روانہ ہونا پڑا، وہاں سے بس میں کینڈی گئے،بھارت کیخلاف میچ سے قبل ایک دن کا وقفہ ہوگا جس میں پریکٹس کرنا ہے۔


مقابلے کے بعد پھر لاہور جانا ہوگا جہاں 6 تاریخ کو میچ کھیل کر ایک بار پھر سری لنکا روانگی طے ہے، پی سی بی کو بھی انتظامی لحاظ سے مشکلات کا سامنا ہے،مینجمنٹ کمیٹی کے موجودہ سربراہ ذکا اشرف پہلے ہی اس ہائبرڈ ماڈل کی مخالفت کر چکے لیکن انھیں سابقہ بورڈ حکام کے فیصلوں کی پاسداری کرنا پڑی، نجم سیٹھی نے سوچا ہوگا کہ ملک میں انٹرنیشنل ٹورنامنٹ کی واپسی کا کریڈٹ انھیں مل جائے گا لیکن یہ عزت افزائی ذکا اشرف کے حصے میں لکھی تھی۔

وہ جب سے بورڈ میں آئے ان کی حالت کم بیک کرنے والے ایک ایسے بیٹسمین جیسی ہے جسے حد سے زیادہ مشکل پچ پر متواتر باؤنسرز کا سامنا ہے، فیلڈرز بھی سر پر کھڑے ہیں، وہ کریز سے نکل کر کھیلنا چاہیں تو یہ سوچ کر رک جاتے ہیں کہ آؤٹ ہو گئے تو ٹیم کا نقصان ہوگا جو اس وقت مشکل میں ہے، جب تک یہ غیریقینی برقرار ہے وہ کھل کر کام نہیں کر سکتے۔

اگر آپ کو پی سی بی میں ملازمت مل گئی تو خود کو پاکستان کے چند سو خوش نصیب افراد میں شامل سمجھیں، وہاں ایک بار جو گیا وہ آسانی سے نہیں جاتا ،جائے بھی تو اتنی رقم مل جاتی ہے کہ کافی عرصے گھر بیٹھ کر بھی اخراجات پورے کر لے، سابقہ انتظامیہ کے کئی آفیشلز کو سائیڈ لائن کر کے اسپیشل پروجیکٹس ڈپارٹمنٹ میں بھیجا گیا۔

وہ وہاں کوئی کام نہیں کرتے مگر تنخواہ و مراعات حاصل کر رہے ہیں، بعض تو کئی دنوں سے آفس بھی نہیں گئے،واپس جانے والوں نے بھی لاکھوں روپے لیے، جو نئے لوگ بطور ایڈوائزر ملازمتوں پر آئے ان کی بھی کوشش ہے کہ جلد خود کو پکا کر لیں، آپ انضمام الحق کی مثال دیکھ لیں انھوں نے 2 ملین روپے ماہانہ سے زائد کا تین سالہ کنٹریکٹ لیا اب کوئی انھیں قبل از وقت نکالنے کا سوچے تو ایک کروڑ روپے تو دینا ہی پڑیں گے۔

اس سسٹم کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، فی الحال تو ایشیا کپ کے تین میچز باقی ہیں ان پر توجہ دیں تاکہ بااحسن انداز میں انعقاد ہو اور آئندہ ہائبرڈ ماڈل کو خدا حافظ کہیں، بھارت کو یہاں آنے پر قائل کریں یا پہلے ہی ساتھ یو اے ای جیسے کسی ملک کو مشترکہ میزبان بنا لیں، ابھی لڑنے کا وقت نہیں ہے، ایشیا کپ کا کامیاب انعقاد ہوا تو صرف ذکا اشرف نہیں ملک کو کریڈٹ جائے گا، اسی کا کچھ سوچیں۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
Load Next Story