بجلی کے بلوں پر احتجاج یا سازش
سیاسی منظرنامہ کچھ اس تیزی سے تبدیل ہورہا ہے کہ بڑے بڑے تجزیہ کار و تبصرہ نگار حتمی رائے دینے سے قاصر ہیں جبکہ سیاسی قیادت ہیجانی کیفیت میں مبتلا اور اچھنبے کا شکار ہے کہ آخر اُن کے ساتھ ہو کیا رہا ہے اور انھیں سیاسی شطرنج پر اگلی چال کون سی چلنی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ جلد بازی میں لیا گیا ہر فیصلہ ان کے اپنے گلے پڑ رہا ہے۔
لیکن یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر سیاسی منظرنامہ اس تیزی کے ساتھ تبدیل کون کررہا ہے؟ خیر اس سوال کا جواب تلاشنا اتنا مشکل بھی نہیں۔ تھوڑی سی بھی سیاسی بصیرت رکھنے والا بخوبی سمجھتا ہے کہ اس سب کے پیچھے وہی کردار ہیں جو صاف چھپتے بھی نہیں اور سامنے آتے بھی نہیں۔
اس وقت سیاسی ماحول میں بداعتمادی کی ایسی فضا قائم ہے کہ پوری ریاست غیریقینی کی صورتحال سے دوچار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک جانب ملکی معیشت روز بروز دم توڑتی نظر آتی ہے تو دوسری جانب غریب عوام مہنگائی کے ہاتھوں صبر کا دامن چھوڑتے نظر آتے ہیں۔
بجلی کے بھاری بلوں سے شروع ہونے والا پرامن عوامی احتجاج پرتشدد فسادات میں کب تبدیل ہوجائے، کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ لیکن ہمیں اس سے پہلے اس امر پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ مذکورہ احتجاج عوامی ہے بھی یا نہیں؟ یا اس میں کوئی سازشی تھیوری تو شامل نہیں؟ اس بات کو سمجھنے سے پہلے موجودہ سیاسی منظرنامے کو ٹھیک سے سمجھنا ہوگا۔
پی ڈی ایم حکومت کی رخصتی سے پہلے اسٹیبلشمنٹ نے ان کے ساتھ کئی عہد وپیماں کیے۔ بلکہ تھوڑا اور پیچھے جائیں جب اسٹیبلشمنٹ ماضی میں کیے اپنے غلط فیصلوں پر پردہ ڈالنے کےلیے پی ڈی ایم سے مشکل فیصلے کروانے انھیں اقتدار میں لائی تھی۔ اس سہولت کاری کے بدلے وفاداری کی خوب یقین دہانی کروائی گئی تھی۔
پیپلزپارٹی کو پورا یقین تھا کہ پی ٹی آئی چیئرمین کو کرپشن کیسز میں سزا ہونے اور جیل جانے کے بعد پوری پارٹی انتقال فرما جائے گی جس کے بعد جو مالِ غنیمت تقسیم ہوگا اس میں جنوبی پنجاب اور کے پی کے سے تعلق رکھنے والے الیکٹیبلز پیپلزپارٹی کے حصے میں آئیں گے جبکہ بلوچستان سے بلوچستان عوامی پارٹی پہلے ہی اپنا وزن پیپلزپارٹی کے پلڑے میں ڈال چکی تھی، جوکہ اسٹیبلشمنٹ کی ایما پر وہ بھی یوٹرن لے چکی ہے۔
اسی طرح ن لیگ سمیت پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کا لالی پاپ ہاتھ میں تھامے پرامید بیٹھی تھیں۔ لیکن ان امیدوں پر پانی تب پھرا جب پی ٹی آئی نے سانحہ 9 مئی کرکے خود اپنے اوپر خودکش دھماکا کرلیا۔ جس کے بعد تمام معاملات پی ڈی ایم حکومت کے ہاتھ سے نکل کر کہیں اور چلے گئے۔ جنھیں کھل کر سیاسی پچ پر کھیلنے کا موقع مل گیا۔ جو نہیں چاہتے کہ جمہوری جماعتیں اتنی مضبوط ہوں کہ اہم فیصلہ سازی میں خودمختار ہوجائیں۔
لہٰذا پی ٹی آئی سے وصولا گیا مالِ غنیمت پی ڈی ایم کو دے کر انھیں مضبوط کرنے کے بجائے انھوں نے اپنے آپ کو مضبوط کرنا بہتر سمجھا اور تمام مالِ غنیمت استحکام پاکستان پارٹی اور پرویز خٹک کی پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین پر وار دیا۔ اب اس پر پیپلزپارٹی ناراض ہے۔ جبکہ ن لیگ اس حوالے سے مطمئن تو ہے کہ اسے کچھ آسرے ملے ہوئے ہیں لیکن ڈری سہمی وہ بھی بیٹھی ہے کہ کہیں پیپلزپارٹی کی طرح اس کے ساتھ بھی ہاتھ نہ ہوجائے۔
دونوں کو ڈر ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نگراں سیٹ اپ طویل کرکے نئی سیاسی جماعت استحکام پاکستان پارٹی اور پرویز خٹک گروپ کو مستحکم کرکے اقتدار کی کرسی انھیں نہ سونپ دے۔ یہی وجہ ہے کہ اب پیپلزپارٹی 90 دن میں انتخابات کا انعقاد چاہتی ہے جبکہ ن لیگ زیادہ سے زیادہ مارچ 2024 تک رک سکتی ہے۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ نگراں سیٹ اپ کو کم از کم دو سال لے جانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
میری دانش کے مطابق پورے ملک میں موجودہ عوامی احتجاج اسی سلسلے کی کڑی ہے جس کے ذریعے پی ڈی ایم جماعتیں نگراں سیٹ اپ بالخصوص اسٹیبلشمنٹ کو خاموش پیغام دینا چاہتی ہیں کہ اگر ان کے ساتھ ہاتھ کیا یا نگراں سیٹ اپ طویل کیا گیا تو اسے چلنے نہیں دیا جائے گا۔ جبکہ نگراں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ اس خاموش پیغام کو سمجھ چکے ہیں۔ جس کے بعد پہلے مرحلے میں پیپلزپارٹی رہنماؤں کے خلاف احتساب کا عمل تیز کرتے ہوئے کارروائیوں کا آغاز کردیا گیا ہے، جبکہ سندھ کی بیوروکریسی میں بھی اکھاڑ پچھاڑ کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔
بس اتنی سی کہانی ہے اس احتجاجی سلسلے کی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس ساری صورتحال میں آگے کا سیاسی منظرنامہ کیا ہوتا ہے۔
جہاں تک بجلی کے بھاری بلوں کی بات ہے تو عوام کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ آپ کتنا ہی احتجاج کرلیں بجلی کی قیمتیں کم ہونے والی نہیں۔ بجلی کی قیمتیں آئی ایم ایف پروگرام سے مشروط ہیں جوکہ احتجاج میں شامل پی ڈی ایم حکومت خود طے کرکے گئی ہے۔ لہٰذا کسی سازشی تھیوری کا حصہ نہ بنیے۔ یاد رکھیے اس وقت ملک کسی بھی قسم کے انتشار کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
غریب عوام کے پاس بجلی کے بھاری بلوں سےبچنے کا ایک ہی راستہ ہے وہ یہ کہ بجلی کا استعمال کم سے کم کرتے ہوئے سو یونٹ تک لے آئیں۔ اس سے ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ بجلی کی بچت ممکن ہوسکے گی جبکہ دوسرا فائدہ آپ کے بل پر اضافی ٹیکسز نہیں لگیں گے اور بل کم آئے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔