رنگ کھنکتے ہیں ہاتھوں میں
پاکستانی عورت کا بنائو سنگھار تب تک مکمل نہیں ہوتا جب تک وہ کانچ کی چوڑیاں نہ پہن لے
چوڑی ہر عمر کی خواتین کا من پسند زیور ہے۔ دنیا بھر میں دریافت ہونے والے صدیوں پرانے کھنڈرات سے بھی چوڑیوں کے مختلف نمونے دریافت ہوئے ہیں۔
پہلے چوڑیوں کی تیاری کے لیے مٹی، ہاتھی دانت اور لکڑی کا استعمال کیا گیا پھر دیگر دھاتوں کے کنگن بننے لگے۔ تاہم سب سے زیادہ شہرت و مقبولیت کانچ کی چوڑیوں کو حاصل ہوئی۔ آج کی پاکستانی عورت کا بنائو سنگھار تب تک مکمل نہیں ہوتا جب تک وہ کانچ کی چوڑیاں نہ پہن لے۔
یہ وہ زیور ہے جو موسم اور فیشن کی قید سے بھی آزاد ہے۔ اس کی بناوٹ میں ضرور تبدیلی آجاتی ہے، لیکن یہ کبھی آئوٹ آف فیشن نہیں ہوتی۔ برصغیر میں شادی شدہ عورت کی زندگی میں یہ نازک آبیگنے ''سہاگ'' کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔
نزاکت کے احساس سے نتھی کانچ کی چوڑیاں سستی ہونے کے علاوہ اپنی مخصوص جھنکار کے باعث خصوصی شہرت کی حامل ہیں۔
سونے چاندی کی طرح ان کے کھونے، اور چرا لینے کا ڈر ہوتا ہے اور نہ ہی یہ کسی خاص عمر کی خواتین کے لیے مخصوص ہیں، کم سن بچیوں سے لے کر نوعمر لڑکیوں، اور شادی شدہ سے لے کر معمر خواتین تک ہر ایک کے لیے ہیں اور خوشی کا شاید ہی کوئی موقع ہو جو اس زیور کے بغیر مکمل تصور کیا جا سکتا ہو۔
پہلے چوڑیوں کی تیاری کے لیے مٹی، ہاتھی دانت اور لکڑی کا استعمال کیا گیا پھر دیگر دھاتوں کے کنگن بننے لگے۔ تاہم سب سے زیادہ شہرت و مقبولیت کانچ کی چوڑیوں کو حاصل ہوئی۔ آج کی پاکستانی عورت کا بنائو سنگھار تب تک مکمل نہیں ہوتا جب تک وہ کانچ کی چوڑیاں نہ پہن لے۔
یہ وہ زیور ہے جو موسم اور فیشن کی قید سے بھی آزاد ہے۔ اس کی بناوٹ میں ضرور تبدیلی آجاتی ہے، لیکن یہ کبھی آئوٹ آف فیشن نہیں ہوتی۔ برصغیر میں شادی شدہ عورت کی زندگی میں یہ نازک آبیگنے ''سہاگ'' کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔
نزاکت کے احساس سے نتھی کانچ کی چوڑیاں سستی ہونے کے علاوہ اپنی مخصوص جھنکار کے باعث خصوصی شہرت کی حامل ہیں۔
سونے چاندی کی طرح ان کے کھونے، اور چرا لینے کا ڈر ہوتا ہے اور نہ ہی یہ کسی خاص عمر کی خواتین کے لیے مخصوص ہیں، کم سن بچیوں سے لے کر نوعمر لڑکیوں، اور شادی شدہ سے لے کر معمر خواتین تک ہر ایک کے لیے ہیں اور خوشی کا شاید ہی کوئی موقع ہو جو اس زیور کے بغیر مکمل تصور کیا جا سکتا ہو۔