’’برکس‘‘ ڈالر اور بجلی کے نرخ
حکومت نے سر جوڑ لیے بالآخر یہ معلوم ہوا کہ عوام کو ریلیف دینے کی خاطر حکومت کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے
گزشتہ دنوں پانچ رکنی برکس فورم کے اجلاس کے اعلامیے میں یہ کہا گیا کہ مزید 6 ملکوں کو تنظیم کا رکن بنایا جائے گا، جن میں سے اہم ترین تیل کی دولت سے مالا مال ملک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات و ایران بھی شامل ہیں۔
اس طرح برکس میں مزید ممالک کی شمولیت کے ساتھ دنیا کی نصف سے زائد آبادی اس سے جڑ چکی ہوگی۔ بھارت، چین، روس سمیت برکس رکن ممالک اور دیگر ممالک کی شمولیت کے بعد باہمی تجارت کی طرف توجہ دیتے ہوئے اپنا پورا دھیان ڈالرکی جانب کیے ہوئے ہیں۔ برکس کی ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ روس، چین، بھارت جوہری طاقت والے ممالک ہیں۔
پاکستان جوہری طاقت کے ساتھ سی پیک کے باعث انتہائی اہم ترین حیثیت حاصل کر چکا ہے، لہٰذا بھارت کے علاوہ پرانے ممبر ممالک اور آیندہ نئے ممبر ممالک جلد ہی پاکستان کو خوش آمدید کہیں گے۔ اس طرح برکس میں پاکستان کی شمولیت سے سی پیک کے باعث اس کی اہمیت دوچند ہو جائے گی۔
مزید ممالک کو شامل کرنے کے بعد یہ جی 20 کی طرح قابل قدر کردار ادا کرنے کے قابل ہو جائے گا۔ لہٰذا اس کی پہلی نظر ڈالر پر ہی ہے، اگرچہ ان تمام خیالوں کے باعث برکس کے بارے میں امریکا اور اس کے مغربی اتحادی ممالک تنقید کا نشانہ ہی بنا رہے ہیں۔
کیونکہ اس بات کا خدشہ ہے کہ برکس کے مدمقابل آتے ہی میدان میں سب سے پہلے ڈالر کو ہی چیلنج کیا جائے گا۔ 1970 کی دہائی سے ڈالرکی حکمرانی نے شاہانہ انداز اختیار کیا۔ ڈالرکے بل بوتے پر راج کرنے والے ملکوں نے مختلف طریقوں سے جن میں آئی ایم ایف کی چھتری بھی شامل ہے ترقی پذیر ممالک کو ناکوں چنے چبوائے۔
پاکستان بھی ان ملکوں میں شامل ہے جہاں ڈالرکی حکمرانی ہے۔ جب تک ڈالر حکومتی پابندیوں یا یوں سمجھ لیں اسٹیٹ بینک کی شرائط و ضوابط اور پابندیوں میں جکڑا ہوا تھا عوام آزاد تھے، لیکن آئی ایم ایف نے سخت کڑی شرائط عائد کرتے ہوئے ڈالر کو آزاد رکھنے کا معاہدہ کیا جسے آج پاکستانی عوام مختلف مسائل کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔
جن میں افراط زر، ڈالر ریٹ میں مسلسل اضافے کے باعث درآمدی اشیا خصوصاً تیل کے نرخوں میں زبردست اضافہ شامل ہے اور یہ تیل ہی ہے جس نے پاکستانی معیشت کا بھرکس نکال دیا اور اسی کی ستم ظریفی بجلی کی پیداواری لاگت پر بھی جاری ہے۔
بات برکس کی ہو رہی تھی۔ اس وقت عالمی سیاست و معیشت میں برکس کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے۔ ماہرین مختلف اندازے لگا رہے ہیں کہ جلد ہی برکس کی جانب سے ڈالر کو للکارے جانے کے خدشات نے امریکا اس کے مغربی اتحادیوں کو متفکرکردیا ہے،کیونکہ اس بل بوتے پر وہ مختلف ٹیکس بنا کر کس طرح دنیا کی معیشت کو کنٹرول کر رہے تھے۔ ترقی پذیر ممالک کے غریب عوام کے بھوک و افلاس میں اضافہ کر رہے تھے۔
اب میرا خیال ہے کہ سی پیک انٹرنیشنل گیم چینجر اور بارٹر سسٹم کے تحت تجارت مختلف ممالک کا آپس کی کرنسی میں لین دین اور دیگر اہم باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جلد ہی برکس عالمی سیاست و معیشت میں اپنا لوہا منوا لے گا اور ڈالر کی حکمرانی کی وسعتوں کو گھٹا کر رکھ دے گی، جس سے پاکستان 2008 کے بعد سے خاصا پریشان ہے اور اگر تیل کی عالمی تجارت سے ڈالرکا عنصر کم سے کم ہوتا چلا گیا تو ایسی صورت میں پاکستانی معیشت کا بھلا ہوگا، کیونکہ اس وقت تیل کی بڑھتی قیمت نے بجلی کی لاگت بڑھا دی ہے۔
یہ بات درست ہے کہ پاکستان اپنے پانی کے ذخائر سے استفادہ کرتے ہوئے بڑی مقدار میں سستی ترین بجلی حاصل کر سکتا ہے لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ ہائیڈل بجلی کی پیداوارکا حصہ محض 28.6 فیصد ہے جب کہ تھرمل بجلی کی پیداوارکا حصہ 46.2 فیصد ہے۔
ایسے میں مہنگی ترین بجلی پیدا ہو رہی ہے اس کا انتہائی متاثرکن ترین گھریلو صارفین ہیں جوکہ کل بجلی کی کھپت کا 46.6 فیصد استعمال کرتے ہیں۔ پھر پیداواری لاگت میں بھی زبردست اضافہ ہو جاتا ہے کیونکہ ملکی انڈسٹری کل بجلی کا 28.2 فیصد حصہ استعمال کرتی ہے۔
یہاں اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ تھرکول اور درآمدی کوئلے سے بھی بجلی پیدا کی جا رہی ہے۔ کوئلے کی عالمی قیمت میں کمی ہوتی ہے تو اس سے بجلی کی پیداواری لاگت میں بھی کمی آ چکی ہے لیکن اس کے ثمرات سے عوام محروم ہے۔
رہی بات تھرکول کی تو اس کی پیداواری لاگت میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ اب حالات اس حد تک بگڑنے کی اہم وجہ یہ ہے کہ بجلی کے نرخوں میں اضافے کے ساتھ کئی ٹیکس بھی لگا دیے گئے ہیں۔ بجلی کے بھاری بھرکم بلوں نے عوام کو سڑکوں پر لاکھڑا کیا ہے۔
حکومت نے سر جوڑ لیے بالآخر یہ معلوم ہوا کہ عوام کو ریلیف دینے کی خاطر حکومت کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے لہٰذا آئی ایم ایف سے رجوع کیا جائے۔ لہٰذا امید ہے کہ حکومت ریلیف فراہم کر دے، لیکن عوام کو خود ہی بجلی یونٹس کے استعمال میں کمی کرنا ہوگی۔
بجلی بلوں میں آیندہ کمی لانے کی خاطر عوام کو ہی پاپڑ بیلنے ہوں گے۔ جس کی خاطر ماہرین مشورے دیتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ ایک نے خیال ظاہر کیا کہ اگر فریج رات کے وقت پیک ٹائم کے آغاز سے صبح 9 بجے تک بند رکھا جائے تو کافی بچت ہوگی۔
ایک نے خیال ظاہر کیا کہ موٹر صبح کے وقت 40 منٹ چلا کر پانی بھر لیں۔ میری اپنی رائے یہ ہے کہ آپ یہ دیکھیں کہ اگر بلب 18 واٹ کا ہے تو اس کی جگہ 12 واٹ سے کام چل سکتا ہے اورکمرے میں 12 واٹ کا بلب لگا ہے تو اس کی جگہ 5 واٹ سے 6 واٹ سے کام چل سکتا ہے اور کہیں زیرو پاور سے کام چل سکتا ہے تو دیر نہ کریں۔
خود سے ہی غور و فکر کر کے عملی اقدامات اٹھاتے ہوئے بجلی بلوں میں کمی لے کر آئیں تو بہتر ہے بصورت دیگر فی یونٹس کے نرخوں میں مزید اضافہ ہی اضافہ ہوتا رہے گا۔ آیندہ کے لیے یہ کوشش کریں کہ جو ڈیم تعمیر ہو رہے ہیں۔
ان کی رفتار دگنی کرتے ہوئے کم سے کم عرصے میں ڈیم کی تعمیر مکمل کرلیں تاکہ سسٹم میں زیادہ سے زیادہ پن بجلی کی شمولیت سے بالآخر بجلی کے نرخوں میں کمی واقع ہوگی۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایران پاکستان کو گیس و بجلی کی فراہمی پر تیار ہے اس کی پیش کش سے فوری فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔
اس طرح برکس میں مزید ممالک کی شمولیت کے ساتھ دنیا کی نصف سے زائد آبادی اس سے جڑ چکی ہوگی۔ بھارت، چین، روس سمیت برکس رکن ممالک اور دیگر ممالک کی شمولیت کے بعد باہمی تجارت کی طرف توجہ دیتے ہوئے اپنا پورا دھیان ڈالرکی جانب کیے ہوئے ہیں۔ برکس کی ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ روس، چین، بھارت جوہری طاقت والے ممالک ہیں۔
پاکستان جوہری طاقت کے ساتھ سی پیک کے باعث انتہائی اہم ترین حیثیت حاصل کر چکا ہے، لہٰذا بھارت کے علاوہ پرانے ممبر ممالک اور آیندہ نئے ممبر ممالک جلد ہی پاکستان کو خوش آمدید کہیں گے۔ اس طرح برکس میں پاکستان کی شمولیت سے سی پیک کے باعث اس کی اہمیت دوچند ہو جائے گی۔
مزید ممالک کو شامل کرنے کے بعد یہ جی 20 کی طرح قابل قدر کردار ادا کرنے کے قابل ہو جائے گا۔ لہٰذا اس کی پہلی نظر ڈالر پر ہی ہے، اگرچہ ان تمام خیالوں کے باعث برکس کے بارے میں امریکا اور اس کے مغربی اتحادی ممالک تنقید کا نشانہ ہی بنا رہے ہیں۔
کیونکہ اس بات کا خدشہ ہے کہ برکس کے مدمقابل آتے ہی میدان میں سب سے پہلے ڈالر کو ہی چیلنج کیا جائے گا۔ 1970 کی دہائی سے ڈالرکی حکمرانی نے شاہانہ انداز اختیار کیا۔ ڈالرکے بل بوتے پر راج کرنے والے ملکوں نے مختلف طریقوں سے جن میں آئی ایم ایف کی چھتری بھی شامل ہے ترقی پذیر ممالک کو ناکوں چنے چبوائے۔
پاکستان بھی ان ملکوں میں شامل ہے جہاں ڈالرکی حکمرانی ہے۔ جب تک ڈالر حکومتی پابندیوں یا یوں سمجھ لیں اسٹیٹ بینک کی شرائط و ضوابط اور پابندیوں میں جکڑا ہوا تھا عوام آزاد تھے، لیکن آئی ایم ایف نے سخت کڑی شرائط عائد کرتے ہوئے ڈالر کو آزاد رکھنے کا معاہدہ کیا جسے آج پاکستانی عوام مختلف مسائل کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔
جن میں افراط زر، ڈالر ریٹ میں مسلسل اضافے کے باعث درآمدی اشیا خصوصاً تیل کے نرخوں میں زبردست اضافہ شامل ہے اور یہ تیل ہی ہے جس نے پاکستانی معیشت کا بھرکس نکال دیا اور اسی کی ستم ظریفی بجلی کی پیداواری لاگت پر بھی جاری ہے۔
بات برکس کی ہو رہی تھی۔ اس وقت عالمی سیاست و معیشت میں برکس کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے۔ ماہرین مختلف اندازے لگا رہے ہیں کہ جلد ہی برکس کی جانب سے ڈالر کو للکارے جانے کے خدشات نے امریکا اس کے مغربی اتحادیوں کو متفکرکردیا ہے،کیونکہ اس بل بوتے پر وہ مختلف ٹیکس بنا کر کس طرح دنیا کی معیشت کو کنٹرول کر رہے تھے۔ ترقی پذیر ممالک کے غریب عوام کے بھوک و افلاس میں اضافہ کر رہے تھے۔
اب میرا خیال ہے کہ سی پیک انٹرنیشنل گیم چینجر اور بارٹر سسٹم کے تحت تجارت مختلف ممالک کا آپس کی کرنسی میں لین دین اور دیگر اہم باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جلد ہی برکس عالمی سیاست و معیشت میں اپنا لوہا منوا لے گا اور ڈالر کی حکمرانی کی وسعتوں کو گھٹا کر رکھ دے گی، جس سے پاکستان 2008 کے بعد سے خاصا پریشان ہے اور اگر تیل کی عالمی تجارت سے ڈالرکا عنصر کم سے کم ہوتا چلا گیا تو ایسی صورت میں پاکستانی معیشت کا بھلا ہوگا، کیونکہ اس وقت تیل کی بڑھتی قیمت نے بجلی کی لاگت بڑھا دی ہے۔
یہ بات درست ہے کہ پاکستان اپنے پانی کے ذخائر سے استفادہ کرتے ہوئے بڑی مقدار میں سستی ترین بجلی حاصل کر سکتا ہے لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ ہائیڈل بجلی کی پیداوارکا حصہ محض 28.6 فیصد ہے جب کہ تھرمل بجلی کی پیداوارکا حصہ 46.2 فیصد ہے۔
ایسے میں مہنگی ترین بجلی پیدا ہو رہی ہے اس کا انتہائی متاثرکن ترین گھریلو صارفین ہیں جوکہ کل بجلی کی کھپت کا 46.6 فیصد استعمال کرتے ہیں۔ پھر پیداواری لاگت میں بھی زبردست اضافہ ہو جاتا ہے کیونکہ ملکی انڈسٹری کل بجلی کا 28.2 فیصد حصہ استعمال کرتی ہے۔
یہاں اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ تھرکول اور درآمدی کوئلے سے بھی بجلی پیدا کی جا رہی ہے۔ کوئلے کی عالمی قیمت میں کمی ہوتی ہے تو اس سے بجلی کی پیداواری لاگت میں بھی کمی آ چکی ہے لیکن اس کے ثمرات سے عوام محروم ہے۔
رہی بات تھرکول کی تو اس کی پیداواری لاگت میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ اب حالات اس حد تک بگڑنے کی اہم وجہ یہ ہے کہ بجلی کے نرخوں میں اضافے کے ساتھ کئی ٹیکس بھی لگا دیے گئے ہیں۔ بجلی کے بھاری بھرکم بلوں نے عوام کو سڑکوں پر لاکھڑا کیا ہے۔
حکومت نے سر جوڑ لیے بالآخر یہ معلوم ہوا کہ عوام کو ریلیف دینے کی خاطر حکومت کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے لہٰذا آئی ایم ایف سے رجوع کیا جائے۔ لہٰذا امید ہے کہ حکومت ریلیف فراہم کر دے، لیکن عوام کو خود ہی بجلی یونٹس کے استعمال میں کمی کرنا ہوگی۔
بجلی بلوں میں آیندہ کمی لانے کی خاطر عوام کو ہی پاپڑ بیلنے ہوں گے۔ جس کی خاطر ماہرین مشورے دیتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ ایک نے خیال ظاہر کیا کہ اگر فریج رات کے وقت پیک ٹائم کے آغاز سے صبح 9 بجے تک بند رکھا جائے تو کافی بچت ہوگی۔
ایک نے خیال ظاہر کیا کہ موٹر صبح کے وقت 40 منٹ چلا کر پانی بھر لیں۔ میری اپنی رائے یہ ہے کہ آپ یہ دیکھیں کہ اگر بلب 18 واٹ کا ہے تو اس کی جگہ 12 واٹ سے کام چل سکتا ہے اورکمرے میں 12 واٹ کا بلب لگا ہے تو اس کی جگہ 5 واٹ سے 6 واٹ سے کام چل سکتا ہے اور کہیں زیرو پاور سے کام چل سکتا ہے تو دیر نہ کریں۔
خود سے ہی غور و فکر کر کے عملی اقدامات اٹھاتے ہوئے بجلی بلوں میں کمی لے کر آئیں تو بہتر ہے بصورت دیگر فی یونٹس کے نرخوں میں مزید اضافہ ہی اضافہ ہوتا رہے گا۔ آیندہ کے لیے یہ کوشش کریں کہ جو ڈیم تعمیر ہو رہے ہیں۔
ان کی رفتار دگنی کرتے ہوئے کم سے کم عرصے میں ڈیم کی تعمیر مکمل کرلیں تاکہ سسٹم میں زیادہ سے زیادہ پن بجلی کی شمولیت سے بالآخر بجلی کے نرخوں میں کمی واقع ہوگی۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایران پاکستان کو گیس و بجلی کی فراہمی پر تیار ہے اس کی پیش کش سے فوری فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔