’’جہاز گُم شدہ وجہ نامعلوم‘‘

کئی مسافر طیارے ایسے ہیں جنہیں بے حد کوشش کے باوجود ماہرین اب تک تلاش نہیں کرسکے۔

کئی مسافر بردار طیارے دوران پرواز اچانک لاپتا ہوگئے، ان کے ساتھ کیا ہوا؟ کوئی نہ جان سکا۔ فوٹو: فائل

ہوائی جہاز انسانی تاریخ کی اہم ترین ایجادات میں سے ایک ہے۔ پرندوں کی مانند آسمان پر تیرتے ہوائی جہازوں نے مہینوں اور ہفتوں کے سفر دنوں اور گھنٹوں میں تبدیل کردیے ہیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سائنس دانوں کی جانب سے یہ دعوے بھی سامنے آتے رہتے ہیں کہ فضا میں اڑتے یہ جہاز پہلے سے کہیں زیادہ محفوظ اور آرام دہ ہیں اور غالباً یہی وجہ ہے کہ ترقی کرتی سائنس کی بدولت انسان نت نئے جغرافیائی سنگ میل چھونے کی خواہش میں بلاخوف وخطر ہوائی سفر کرنے لگا ہے، لیکن جب ہم ہوائی سفر کے حوالے سے حادثات پر نظر ڈالتے ہیں تو علم ہوتا ہے کہ تمام تر احتیاطی تدابیر، تیکنیکی آلات، مہارت اور تربیت کے باوجود ہوائی سفر حادثات سے خالی نہیں ہیں۔



ان حادثوں میں نہ صرف بیش قیمت طیارے ملبے کا ڈھیر بن گئے بل کہ قیمتی جانوں کا بھی ناقابل تلافی نقصان ہوا، لیکن ان حادثوں سے بڑھ کر ہوائی حادثوں کے وہ واقعات نہایت پراسرار نوعیت اختیار کرجاتے ہیں، جن کے وقوع پذیر ہونے کے بعد نہ تو ہوائی جہاز کا ملبہ ملا اور نہ ہی اس کے مسافروں کا اتا پتا چلا کہ انہیں زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا اور آج بھی ان غائب ہوجانے والے جہازوں کے مسافروں کے بہت سے رشتے دار اپنے پیاروں کی واپسی کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔



زیر نظر تحریر میں کچھ ایسے ہی غائب ہوجانے والے مسافر بردار طیاروں کے حوالے سے تفصیلات مہیا کی گئی ہیں، جن کو بے حد کوشش کے باوجود ماہرین اب تک تلاش نہیں کرسکے۔ ذہن میں رہے کہ اس مضمون میں ان فوجی اور مال بردار طیاروں کے بارے میں معلومات شامل نہیں ہیں جنہیں اسی نوعیت کے واقعات کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اسی طرح یہ تحریر ان بدقسمت مسافر بردار طیاروں کے متعلق بھی نہیں ہے جن کے پائلٹوں نے جہاز کی تباہی سے قبل ہنگامی حالات پیش آنے کا پیغام دیا تھا، بلکہ صرف ان مسافر بردار طیاروں کے متعلق ہے جن کے غائب ہونے سے قبل ان کے پائلٹوں نے کسی واضح ہنگامی حالت یا حادثے کی اطلاع نہیں دی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ایوی ایشن سیفٹی نیٹ ورک کی ویب سائٹ پر آج بھی ان طیاروں اور مسافروں کی تازہ ترین صورت حال کے خانے میں ''مسنگ'' اور حادثے کی نوعیت میں ''نامعلوم'' درج ہے۔

٭ایئر فرانس، Latécoère 301



دس فروری انیس سو چھتیس کو ''لیٹی کیئور تین سو ایک'' ماڈل سے تعلق رکھنے والا ایئر فرانس کا طیارہ ''ویلے ڈی بیونس آئیرس'' جنوبی بحیرۂ اوقیانوس کی فضائوں میں محو سفر تھا۔ طیارے نے برازیل کے شمال مشرق میں واقع علاقے نٹال سے مغربی فرانس میں واقع علاقے ڈکار کی جانب اڑان بھری اس چھوٹے سے طیارے میں چھے مسافر تھے، جن میں فرانس کے محکمۂ ہوا بازی کے سربراہ ''ایملی بریریے'' بھی تھے۔ تاہم جب جہاز سینٹ پیٹر اور سینٹ پال جزائر کے درمیان پرواز کر رہا تھا تو ا سے تیز بارش نے آلیا اور جہاز کا رابطہ منقطع ہوگیا۔ آج تک نہ تو جہاز کا علم ہوا کہ وہ کہاں گیا اور نہ ہی اس کے مسافروں کا پتا چلا کہ وہ کن حالات میں موت کے منہ میں گئے۔

٭پان امریکن ورلڈ ایئرویز، Hawaii Clipper



پان امریکن ورلڈ ائیر ویز کا ''ہوائی کلیپر'' کے نام سے معروف طیارہ ''مارٹن ایم تیس'' ماڈل سے تعلق رکھتا تھا۔ اس طیارے کے چھے مسافر اور عملے کے نو افراد کے بارے میں بھی آج تک پتا نہیں چلا کہ ان کے ساتھ کیا حادثہ پیش آیا۔ یہ طیارہ اٹھائیس جولائی انیس سو اڑسٹھ کو بحرالکاہل میں واقع امریکا کے زیرتسلط علاقے ''گوام'' سے فلپائن کے دارالحکومت منیلا جانے کے لیے روانہ ہوا تھا تاہم اپنے سفر کے آغاز کے تین گھنٹے ستائیس منٹ بعد جب طیارہ بحر الکاہل کے مغربی حصے پہنچا یہ مقام فلپائن سے مشرق میں نوسو نو کلومیٹر کی دوری پر تھا تو طیارے کی جانب سے عام سی نوعیت کا پیغام ملا اس پیغام کے ملتے ہی جہاز کا رابط ٹاور سے ٹوٹ گیا جہاز کی تلاش کے لئے امریکی فضائیہ کے طیاروں نے کافی تگ و دو کی تاہم جہاز اور اس کے مسافروں کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔

٭ امپریل ایئر ویز رائل ایئرفورس،G-AAGX Hannibal



دوسری جنگ عظیم سے کچھ عرصہ قبل برطانوی شاہی ایئر لائنز کا چار انجنوں والا یہ طیارہ جسے ''ہینڈلی پیج'' کمپنی نے بنایا تھا۔ اپنے آٹھ مسافروں سمیت لاپتا ہوگیا۔ قبل از تاریخ کے اہم ترین فوجی کمانڈر ''ہنی بال'' کے نام سے منسوب یہ طیارہ اپنی گم شدگی سے قبل بھی تین مرتبہ حادثوں کا شکار ہوچکا تھا۔ تاہم مرمت کے بعد مسافر برداری کے لیے استعمال ہورہا تھا۔ یکم مارچ انیس سو چالیس کو جب ہنی بال طیارہ خلیج عمان کے اوپر ایرانی صوبے ہرمزگان کے ساحلی علاقے ''جاسک '' اور متحدہ عرب امارات کے علاقے شارجہ کے درمیان محوپرواز تھا تو نامعلوم وجوہات کے باعث کنٹرول ٹاور سے اس کا رابطہ منقطع ہوگیا۔ طیارے میں پہلی جنگ عظیم میں برطانیہ کے لیے بحیثیت پائلٹ اہم ترین فوجی خدمات انجام دینے والے ''گروپ کیپٹن ہیرالڈ وسٹرلر'' اور ہندوستان کے صوبہ مدراس کے وزیرداخلہ اور اہم سیاست داں رائے بہادر سر ''پانرس ایلوم'' بھی عازم سفر تھے۔ انتہائی کوششوں کے باوجود جہاز اور مسافروں کو نہیں ڈھونڈا جاسکا۔

٭برٹش اوورسیز ائیر ویز کارپوریشن،G-AGLX



برطانیہ کی ''ایورو'' کمپنی کا تخلیق کردہ ''ایورو لانچسٹرین'' سیریز کا یہ مسافر بردار طیارہ بحرِہند پر پرواز کرتے ہوئے غائب ہوگیا تھا۔ تئیس مارچ انیس سو چھیالیس کو پیش آنے والے اس واقعے میں مسافر اور عملے سمیت دس افراد لاپتا قرار دیے گئے۔ ریکارڈ کے مطابق جس وقت طیارہ سری لنکا کے شہر کولمبو اور آسٹریلیا کے زیرتسلط جزیرے ''کو کو آئی لینڈ'' کے درمیان محوپرواز تھا تو اس کا رابطہ کنٹرول ٹاور سے ختم ہوگیا اور انتہائی تلاش کے باوجود طیارے کا سراغ نہیں مل سکا۔

٭برٹش سائوتھ امریکن ایرویز، BSAA Star Tiger

کرۂ ارض کے پراسرار مقامات کے حوالے سے برمودا ٹرا ئی اینگل کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ یہ تکون یا مثلث کی شکل کا علاقہ شمالی بحیرۂ اوقیانوس کے مغربی حصے میں واقع برطانیہ کے سمندر پار جزائر پر مشتمل علاقے ''برمودا''، امریکی ریاست فلوریڈا کے ساحلی شہر ''میامی'' اور شمالی بحیرۂ کیر بین میں امریکا کے زیرتسلط علاقے ''پورٹیکو'' پر پھیلا ہوا ہے۔ اس علاقے کو اس وقت عالمی شہرت حاصل ہوئی تھی جب اس فرضی مثلث کے اوپر برٹش سائوتھ امریکن ایئرویز کا ''ٹوڈیوئر مارک چہارم'' سیریز کا طیارہ ''اسٹار ٹائیگر'' چھبیس مسافروں اور عملے کے چھے افراد سمیت لاپتا ہوگیا۔



پرتگال کے زیرانتظام علاقے ''آزورس'' کے سانتا ماریا ایئرپورٹ سے برمودا کی جانب تیس جون انیس سو اڑتالیس کو اڑان بھرنے والے اس طیارے کے حوالے سے جب یہ حقیقت سامنے آئی کے ریڈار سے غائب ہونے سے قبل اس کے تمام نیوی گیشنل آلات نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا، تو اس خبر کے پھیلتے ہی اس تکونی علاقے کو پراسرار اور محیرالعقول مقام قرار دیا جانے لگا۔ بعدازاں اس تاثر کو مزید تقویت اس وقت ملی جب تمام تر کوششوں کے باوجود طیارے اور اس کے مسافر نہ ڈھونڈے جاسکے۔

٭ایئر بورن ٹرانسپورٹ کمپنی،NC16002

امریکا سے تعلق رکھنے والی ایئربورن ٹرانسپورٹ کمپنی کا جہاز ''ڈگلس ڈی ایس ٹی۔ ایک سو چوالیس'' ڈگلس ایئر کرافٹ کمپنی کا تخلیق کردہ تھا اور ''ڈی سی تین'' سیریز کا مسافر بردار طیارہ تھا۔ یہ بدنصیب طیارہ اٹھائیس دسمبر انیس سو اڑتالیس کی نصف شب ''سان جان پورٹیکو'' سے امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر میامی کی طرف عازم سفر تھا۔ انتیس مسافر اور عملے کے تین افراد سمیت بتیس افراد پر مشتمل یہ فلائٹ جب میامی شہر کے قرب میں پہنچی تو اس کا زمینی رابط منقطع ہوگیا۔ اس سے قبل جہاز کے کپتان نے آخری پیغام دیتے ہوئے کہا کہ وہ میامی شہر سے جنوب میں پچاس کلومیٹر کی دوری پر ہے۔



تاہم دل چسپ امر یہ تھا کہ یہ پیغام میامی ایئرپورٹ کنٹرول ٹاور کے بجائے نو سو ستر کلومیٹر دور امریکا کے جنوب میں واقع ریاست لوئسیانا کے شہر نیو آرلینز ایئر پورٹ کے کنٹرول ٹاور نے وصول کیا۔ بعدازاں اس پیغام سے انہوں نے فوری طور پر میامی کنٹرول ٹاور کو آگاہ کیا۔ اس حوالے سے ماہرین کا خیال ہے کہ جہاز اپنے متعین روٹ سے بھٹک چکا تھا۔ تاہم پائلٹ حیرت انگیز طور پر اس تبدیلی سے آگاہ نہیں تھا۔ ایسا کیوں ہوا؟ تمام تر تحقیقات کے باوجود یہ ایک سربستہ راز ہے، جس طر ح جہاز کی تباہی اور مسافروں کی موت بھی اب تک ایک راز ہے۔

٭برٹش ساوتھ امریکن ایئرویز،BSAA Star Ariel

برٹش سائوتھ امریکن ایئرویز کے طیارے اسٹار ٹائیگر ہی کی مانند ''ایوروو۔ چھے سو اٹھاسی توڈیوئر مارک چہارم'' طیارہ بھی برمودا ٹرائی اینگل میں لاپتا ہوا۔ یہ واقعہ سترہ جنوری انیس سو انچاس کو پیش آیا۔ ''اسٹار ایریئل'' کے نام سے معروف یہ جہاز جس وقت لاپتا ہوا طیارے میں تیرہ مسافر اور عملے کے سات افراد سوار تھے اور طیارہ شمالی بحیرۂ اوقیانوس میں جزائر برمودا سے بحیرہ کیربین میں واقع ملک جمیکا کے دارالحکومت کنگسٹن جارہا تھا۔ تحقیقاتی رپورٹوں کے مطابق جہاز کے روٹ پر کوئی بھی غیرمعمولی صورت حال نہیں تھی اس کے باوجود جہاز کا گم شدہ ہوجانا اور باقیات کا نہ ملنا آج بھی ایک باعثِ حیرت بنا ہوا ہے۔

٭نارتھ ویسٹ اورینٹ ایئرلائنز،N95425




تئیس جون انیس سو پچاس کی نصف شب کو نارتھ ویسٹ اورینٹ ایئرلائنز کا طیارہ '' ڈگلس ڈی سی فور'' امریکا میں واقع دنیا کی پانچویں بڑی ''جھیل مشی گن'' کے اوپر محوپرواز تھا۔ اس فلائٹ میں عملے کے تین افراد اور پچپن مسافر سوار تھے، جس وقت جہاز مشی گن جھیل سے پچیس کلومیٹر دور ''بینٹن ہاربر'' شہر کے قرب تھا، وہ ریڈار سے غائب ہوگیا اور تمام تر کوششوں کے باوجود رابطہ بحال نہ ہوسکا۔ رابطے کے ٹوٹنے کے تھوڑی ہی دیر بعد اٹھاون ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلی اس وسیع وعریض جھیل میں بدقسمت مسافروں کی تلاش شروع کردی گئی لیکن تمام کوششیں بے سود گئیں۔

٭کینیڈین پیسیفک ایئرلائنز،CF-CPC



ایک سال بعد ہی اکیس جولائی انیس سو اکیاون کو ''ڈگلس ڈی سی فور'' کا ایک اور طیارہ لاپتا ہوا۔ لاپتا ہونے والا طیارہ کینیڈین پیسیفک ایئر لائنز کے مسافر بردار بیڑے کا حصہ تھا طیارہ کینیڈا کے وینکور ایئرپورٹ سے ٹوکیو جانے کے لیے روانہ ہوا تھا۔ طیارے میں عملے کے چھے ارکان اور اکتیس مسافر سوار تھے۔ طیارے کو ریاست الاسکا میں ٹھیرنا تھا۔ الاسکا کے ''اینکروج ایئرپورٹ'' سے روانہ ہونے کے نوے منٹ بعد طیارہ گم شدہ قرار دے دیا گیا۔ سینتیس انسانی جانوں اور طیارے کی تلاش میں امریکی اور کینیڈین امدادی ٹیموں نے سرتوڑ کوششیں کیں، مگر کام یابی نہ مل سکی۔

٭ایئرو ٹاپوگرافکس ایئر لائنز،CS-THB

جنوب مغربی یورپ میں واقع ملک پرتگال کی ایئر لائن ''ایئروٹاپوگرافکس'' کی فلائٹ ''مارٹن پی بی ایم فائیو'' نو نومبر انیس سو اٹھاون کو شمالی بحیرۂ اوقیانوس کے اوپر محو پرواز تھی۔ چار انجنوں والے اس طیارے میں عملے کے اراکین سمیت چھتیس افراد سوار تھے، جن کی منزل لزبن شہر سے بحیرۂ اوقیانوس میں واقع جزائر کے مجموعے ''مادیرا'' تھی، جس وقت طیارہ پرتگال کے شہر لزبن سے جنوب مغربی سمت میں دو سو پچاس کلومیٹر کی دوری پر تھا، جہاز کے کپتان کی کنٹرول ٹاور سے بات ہوئی، لیکن اس پیغام کے بعد طیارے کا کنٹرول ٹاور سے رابط ٹوٹ گیا جو ازحد کوشش کے باجود قائم نہ ہوسکا۔ بعدازاں طیارے کی تلاش کافی عرصے تک جاری رہی، لیکن ناکامی کے باعث ایسی تمام کوششوں کو منسوخ کرکے مسافروں اور طیارے کو گم شدہ قرار دے دیا گیا۔



٭اسکائی ویز لمیٹڈ،G-AHFA

برطانوی طیارہ ساز کمپنی ''ایورو'' کا تخلیق کردہ مسافر بردار جہاز ''ایورو یارک'' جو اسکائی ویز لمیٹڈ کی جانب سے رجسٹرڈ تھا، چار انجنوں پر مشتمل تھا۔ یہ طیارہ دو فروری انیس سو تریپن کو لندن کے ''اسٹین سٹ ایئرپورٹ'' سے جمیکا جانے کے لیے اڑا جہاز شمالی بحیرۂ اوقیانوس میں پرتگال کے زیرانتظام علاقے''آزورس'' کے قریب ''لیجز ایئر فیلڈ'' پر رکا اور مزید مسافروں کو لینے کے بعد کینیڈا کے جزیرے نیو فائونڈ لینڈ کے شمال مشرقی حصے میں واقع ''جینڈر'' کے لیے روانہ ہوا۔ ایک گھنٹے بعد طیارہ کے کپتان نے کنٹرول ٹاور سے گفت و شنید کی، جس میں کسی بھی مسئلے کی نشان دہی نہیں کی گی تھی۔ تھوڑی دیر بعد جہاز کا رابطہ منقطع ہوگیا اور وہ ریڈار اسکرین سے غائب ہوگیا۔ تینتیس مسافروں اور عملے کے چھے افراد سمیت تمام افراد کی تلاش کے لیے امریکی کوسٹ گارڈ اور مقامی انتظامیہ نے کھوج کا دائرہ ایک سو بیس میل کے علاقے تک پھیلا دیا، اس کے باجود طیارے کا ملبہ یا مسافروں کی باقیات نہیں مل سکیں۔

٭گلف ایوی ایشن،VT-DGS



خلیج عرب میں واقع ملک بحرین کی گلف ایوی ایشن جو انیس سو چوہتر میں گلف ایئر میں تبدیل ہوچکی ہے، دس جولائی انیس سوساٹھ کو اس کے فضائی بیڑے میں شامل ''ڈگلس سی۔ سینتالیس سی۔ ایل'' کی فلائٹ قطر کے شہر دوحہ سے شارجہ کی جانب رواں دواں تھی۔ طیارے میں عملے کے ارکان سمیت سولہ افراد سفر کررہے تھے۔ اچانک طیارے کا رابطہ زمینی کنٹرول ٹاور سے ٹوٹ گیا تقریبا ایک ہفتے تک جہاز اور اس کے مسافروں کو بحیرۂ عرب کی لہروں میں تلاش کیا گیا مگر کام یابی نہ مل سکی۔

٭گارودا انڈونیشن ایئر ویز،PK-GDY



کثیر جزائر پر مشتمل ملک انڈونیشیا کی ''گارودا انڈو نیشن ایئرویز '' کی فلائٹ ''ڈگلس سی۔ سینتالیس اے۔ بیس ڈی کے'' تین فروری انیس سو اکسٹھ کو بحیرۂ جاوا کے اوپر محو پرواز تھی۔ طیارے میں عملے سمیت چھبیس مسافر سفر سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ ان بدقسمت مسافروں کا سفر انڈونیشیا کے مشرقی صوبے جاوا میں واقع ''سورابیا جیونادا'' جزیرے کے ایئرپورٹ سے شروع ہوا اور ان کی منزل صوبہ ''مشرقی کلمنتان'' کے شہر میں واقع علاقے ''بالک پاپان سی بنگ'' کا ''سلطان حاجی محمد سلطان ایئرپورٹ'' تھی۔ بحیرۂ جاوا میں شمال مشرقی سمت پر واقع جزیرے میڈورا کے قرب میں پہنچ کر طیارہ ریڈار سے اچانک غائب ہوگیا اور آج تک لاپتا ہے۔

٭ٹرانسپورٹ ایئرو میلتار،TAM-52



جنوبی امریکا میں واقع ملک بولیویا کی ایئر لائنز ''ٹرانسپورٹ ایئرو میلتار'' کا طیارہ ''ڈگلس ڈی سی فور''جس وقت نامعلوم حادثے کا شکار ہوا، اس پر عملے سمیت چوبیس افراد سوار تھے۔ یہ حادثہ دس جنوری انیس سو چوہتر کو پیش آیا۔ واضح رہے کہ بولیویا چاروں جانب خشکی میں گھرا ملک ہے، جس وقت طیارہ سانتا روزا ایئرپورٹ سے لاپاز شہر کے ایل آلتو ایئرپورٹ کی جانب سفر کررہا تھا، نامعلوم وجوہات پر اپنا زمینی رابطہ کھو بیٹھا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جہاز خشکی کے اوپر اُڑ رہا تھا، لیکن اس کے باوجود مسافروں اور جہاز کی باقیات نہ مل سکیں۔

٭میرپتی نوسنتارا ایئر لائنز،PK-NUK



انڈونیشیا کی علاقائی ایئر لائن کی حیثیت سے معروف ''میرپتی نوسنتار ایئر لائنز'' کا ''ڈی ہیول لینڈ کینیڈا'' انیس نشستوں والا جہاز ہے۔ دس جنوری انیس سو پچانوے کو یہ جہاز جسے '' ٹوئن اوٹرتین سو'' بھی کہا جاتا ہے، انڈونیشیا کے ''بیما شہر'' سے دس کلومیٹر دور سلطان محمد صلاح الدین ایئرپورٹ سے اڑ کر ایک چھوٹے سے قصبے روتنگ کے ہوائی اڈے کی جانب عازم سفر تھا۔ طیارے میں عملے کے افراد سمیت چودہ مسافر تھے، جہاز جس وقت دونوں شہروں کے درمیان بحیرۂ فلورس کے اوپر سفر کررہا تھا۔ اپنا رابط زمین سے کھو بیٹھا۔ تمام تر کوششوں کے باوجود جہاز اور مسافروں کا سراغ نہیں مل سکا۔

ملائیشین ایئرلائنز کا گُم شدہ طیارہ،MH370

ملائیشین ایئر لائنز کا طیارہ ''بوئنگ سات سو ستتر'' آٹھ مارچ کو کوالالمپور انٹر نیشنل ایئرپورٹ سے چین کے شہر بیجنگ جانے کے لیے روانہ ہوا۔ اس طیارے میں جس کا فلائٹ نمبر ''ایم ایچ تین سو ستر'' تھا۔ عملے کے بارہ اراکین سمیت دو سو ستائیس مسافر سوار تھے، جہاز ویتنام کی فضائی حدود میں داخل ہونے کے بعد لاپتا ہوگیا اور اس کا ابھی تک سراغ نہیں مل سکا ہے۔ واقعات کے مطابق طیارے نے آخری مرتبہ ملائیشیا کے مشرق میں بحیرۂ جنوبی چین کے اوپر سفر کرتے ہوئے ٹریفک کنٹرول ٹاور سے رابط کیا تھا جس میں کسی بھی قسم کی ہنگامی حالت کی نشان دہی نہیں کی گئی تھی۔



اس تناظر میں جہاز کی گم شدگی کے متعلق مختلف قیاس آرائیاں پیش کی جارہی ہیں، جس میں تخریب کاری اور اغوا کرکے نامعلوم مقام کی جانب لے جانا بھی شامل ہے۔ واضح رہے کہ جہاز کی تلاش کے لیے لگ پچیس ممالک کے ماہرین بحر ہند کے پانیوں میں سرگرم عمل ہیں۔ بوئنگ سات سو ستتر میں پندرہ ممالک کے مسافر سفر کررہے تھے، جن میں صرف چین کے مسافروں کی تعداد ایک سو باون تھی آخری اطلاعات کے مطابق انتہائی جدید آلات سے لیس ٹیمیں جہاز کی تلاش کے لیے پرعزم ہیں۔

جہاز، جو زمین پر لاپتا ہوگیا

فضا میں اُڑتے جہاز آخر اچانک کدھر گئے۔ یہ مسئلہ ماہرین اور سراغ رسانوں کے لیے پریشانی کا باعث ہے، مگر حیرت انگیز طور پر ایک جہاز ایسا بھی ہے جو فضا کے بجائے زمین پر لاپتا ہوا ہے۔ دوسرے معنوں میں کھڑے کھڑے پورا کا پورا سالم جہاز چوری کیا گیا۔ یہ دل چسپ واقعہ پچیس مئی دوہزار تین کو افریقی ملک انگولا میں پیش آیا۔ واقعات کے مطابق امریکا کی ایئرواسپیس اینڈ لیزنگ کمپنی کا ''بوئنگ سیون ٹو سیون۔ ٹوٹوتھری'' انگولا کے دارالحکومت '' لواندا'' کے ایئرپورٹ پر چودہ ماہ سے ناقابل استعمال حالت میں گرائونڈ کیا گیا تھا۔ پچیس مئی کو جہاز نے اچانک رن وے پر دوڑنا شروع کردیا۔ جہاز میں پائلٹ موجود تھا، لیکن باوجود کوشش کے کنٹرول ٹاور اسے نہ روک سکا اور نہ ہی رابطہ کرسکا۔ یاد رہے کہ انگولا دوہزار تین میں شدید خانہ جنگی کا شکار تھا، لہٰذا ایئرپورٹ پر حفاظتی انتظامات بھی نہ ہونے کے برابر تھے۔

جہاز کے نامعلوم سمت روانہ ہونے کے بعد امریکی ایف بی آئی اور سی آئی اے کے محکمے مقامی اداروں کے ساتھ متحرک ہوگئے، لیکن کچھ بھی حاصل نہ ہوسکا۔ سوائے اس بات کے کہ جس وقت جہاز کو زبردستی اُڑایا گیا، جہاز میں ''بین چارلس پڈیلا '' نامی ایک شخص سوار تھا، جو ایک فلائٹ انجنیئر، پرائیویٹ پائلٹ اور ایئر کرافٹ ٹیکنیشن کی حیثیت سے جانا جاتا تھا اور اس نے ہی یہ حرکت کی تھی۔ اس حوالے سے بین چارلس پدیلا کی بہن ''بینیتا پڈیلا کرکلینڈ'' نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ اس کے بھائی نے اس واقعے کے بعد سے ابھی تک خاندان سے کوئی رابطہ نہیں کیا ہے اور غالباً وہ نہ صرف جہاز چوری کرکے گھنے جنگلات میں گراچکا ہے، بل کہ خود بھی اس حادثے میں اپنی جان ہار چکا ہے۔
Load Next Story