حماس الفتح مفاہمت کتنی دیر چلے گی
حماس) اور الفتح کے مشترکہ دشمن اسرائیل کی ہٹ دھری اور انتہا پسندی نے بالآخر متحارب جماعتوں کو یکجا کردیا
فلسطین کے علاقائی اور عالمی منظر نامے میں اسلامی تحریک مزاحمت(حماس) اور الفتح دو مختلف الخیال سیاسی دھارے ہیں جن کی باہمی تعلقات کی تاریخ ناراضگیوں، تلخیوں اور ایک دوسرے کے خلاف مار دھاڑ جیسے افسوناک واقعات سے بھرپور ہے مگر دونوں کے مشترکہ دشمن اسرائیل کی ہٹ دھری اور انتہا پسندی نے بالآخردونوں متحارب جماعتوں کو یکجا کردیا۔
حماس روایتی فلسطینیوں کی ترجمان جماعت سمجھی جاتی ہے جو اسرائیل کو بطور'' یہودی ریاست'' تسلیم کرنے کے لیے کسی صورت میں تیار نہیں۔ یاسرعرفات مرحوم کی قائم کردہ تحریک الفتح اب بہت بدل چکی ہے۔ پچھلے آٹھ سال سے الفتح نے اسرائیل کے ساتھ فوجی تعاون سمیت بہت سے شعبوں میں قربت حاصل کی ہے۔موجودہ حالات میں حماس اور الفتح نے جس عجلت میں قومی مفاہمتی معاہدے پر اتفاق کیا ہے وہ حیران کن نہیں بلکہ متوقع تھا۔ تازہ مفاہمتی معاہدہ دراصل 2012 میں مصر اور 2011ء میں قطر اور سعودی عرب میں طے پانے والے مفاہمتی معاہدوں پر عمل درآمد کا ایک راستہ ہے۔ بنیادی نکات میں قومی حکومت کی تشکیل، آزاد الیکشن کمیشن کا قیام، تنظیم آزادی فلسطین کی تشکیل نو اور صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کی تاریخ کا اعلان شامل ہیں۔
معاہدے کے تحت قومی حکومت پانچ ہفتوں کے اندر قائم کی جائے گی، جس میں حماس غزہ میں اور الفتح مغربی کنارے میں پاور شیرنگ فارمولے پرعمل درآمد کرے گی۔ دوسرے معنوں میں حماس کو غزہ کے بعد مغربی کنارے میں بھی حکومت کا حصہ بننے کا موقع ملے گا۔ گمان یہ کیا جاسکتا ہے کہ ان سطور کی اشاعت تک قومی حکومت کی تشکیل کا عمل طے کرچکی ہوں گی۔ مخلوط حکومت میں چونکہ ٹیکنو کریٹس کو شامل کیا جائے گا، اس لیے ایسے غیر جانب دار افراد کی تلاش کا سلسلہ جاری ہے۔ دونوں جماعتوں کے لیے مخلوط حکومت کی تشکیل بھی ایک مشکل مرحلہ ہے۔ اگر قومی حکومت کے تمام وزراء بالخصوص عبوری وزیراعظم کے نام پراتفاق رائے ہوجاتا ہے تو یہ حماس اور الفتح کی بہت بڑی کامیابی تصور کی جائے گی کیونکہ ماضی میں دونوں جماعتوں کے درمیان متعدد مرتبہ تان متفقہ وزیراعظم کے معاملے پر ٹوٹتی رہی ہے۔
چونکہ قومی حکومت کی مدت چھ ماہ ہوگی اور اس کے اختیارات محدود ہوں گے۔ قومی حکومت کے پاس سکیورٹی اداروں کو کنٹرول کرنے کا اختیار نہیں ہوگا بلکہ یہ اختیار صدر محمود عباس اپنے پاس ہی رکھیں گے۔ اس لیے عبوری حکومت کے ہوتے ہوئے کسی بڑی تبدیلی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ فی الوقت یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ آیا چھ ماہ بعد متوقع طورپر ہونے والے انتخابات میں کون سی جماعت میدان مارے گی، لیکن حماس اور الفتح کے درمیان کانٹے دار مقابلے کی توقع کی جا سکتی ہے۔غالب امکان ہے کہ مغربی کنارے میں اس بار الفتح کی حمایت کا ووٹ کم اور حماس کا زیادہ ہوگا جبکہ غزہ میں الفتح کو زیادہ سیٹیں ملنے کا امکان ہے۔
فلسطین کی یہ دونوں بڑی جماعتیں پچھلے آٹھ سال سے ایک دوسرے سے روٹھی دو الگ الگ شہروں میں اپنی اپنی حکومت کیے بیٹھی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آیا آٹھ سال بعد دونوں جماعتوں کو قومی مفاہمت کا ادراک ہوا یا اسرائیل سے امن مذاکرات کی ناکامی دونوں جماعتوں کی قربت کا باعث بنی ہے۔ مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان نو ماہ تک ڈھونگ امن مذاکرات کی رٹ ناکام ہونے کے بعد صدر محمود عباس کے لیے حماس سے دوستی کا ہاتھ بڑھانے کے سوا اور کوئی چارہ باقی نہیں رہ گیا تھا۔
تاہم بعض دوسرے عرب اور مقامی تجزیہ نگاروں کے مطابق حماس اور فتح کے درمیان یہ دوستی زیادہ دیر پا ثابت ہونے والی دکھائی نہیں دیتی، کیونکہ ماضی میں بھی دونوں جماعتیں مصر، قطر اور سعودی عرب کی وساطت سے قومی مفاہمت کے معاہدے کرچکی ہیں مگر اسرائیل، امریکا اور بعض دوسرے ممالک کی مداخلت کے باعث مفاہمت کی تمام کوششیں بے ثمر ثابت ہوئیں۔ اگر دونوں جماعتیں قومی مفاہمت کے سمجھوتے پرقائم رہتی ہیں تو یہ فلسطینیوں کے لیے ایک معجزے سے کم نہیں ہوگا۔ اگر دونوں جماعتوںکی قیادت صبر وتحمل کامظاہرہ کرتے ہوئے مفاہمت قائم رکھنے کی کوشش بھی کریں گی تو اسرائیل کا کیا بنے گا؟۔ اسرائیلی وزیراعظم نے اپنے رد عمل میں دو ٹوک الفاظ میں نہایت سنگین دھمکی دی ہے کہ اگر الفتح نے حماس سے معاہدہ کر لیا تو مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی تحلیل کردی جائے گی۔ وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو سے کسی بھی سخت اقدام کی توقع عین ممکن ہے۔ فی الوقت فریقین میں امن مذاکرات ختم ہونے کے ساتھ اسرائیل نے فلسطینیوں کی امداد بھی روک دی ہے۔
گوکہ موجودہ حالات میں الفتح کو بھی یہ اندازہ ہوچکا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ قربتیں کامیاب نہیں ہوسکی ہیں لہٰذا ملک میں پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کی طرف بڑھا جائے۔ شائد انتخابی نتائج کی بہتری کی صورت میں امن مذاکرات کی کوئی نئی سبیل نکالی جاسکے۔
العربیہ ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق حماس اورالفتح کے درمیان مفاہمت مشرق وسطیٰ میں اہم ترین پیش رفت ہے، تاہم اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ محمود عباس نے حماس سے مفاہمت اس لیے کی تاکہ اسرائیل پر امن مذاکرات آگے بڑھانے کے لیے دباؤ ڈالا جاسکے۔ چونکہ سمجھوتے کے تحت مخلوط حکومت کی تشکیل میں پانچ ہفتے اور پارلیمانی انتخابات کے لیے چھ ماہ کا عرصہ ہے، اس لیے عین ممکن ہے کہ بیرونی ہاتھ اپنا رنگ دکھائیں اور حماس ۔فتح کے اتحاد کا شیرہ بکھیر دیں۔
بعض ذرائع سے یہ خبریں بھی سامنے آئی ہیں کہ حماس نے اسرائیل کے بارے میں اپنے دیرینہ موقف میں قدرے لچک کا اشارہ دیا ہے۔ جن ذرائع سے اس قسم کی خبریں آتی رہیں وہ ماضی میں افواہ سازی میں سرخیل سمجھے جاتے رہے ہیں۔ ان میں زیادہ تر مصری اخبارات ہیں،جنہیں حماس مخالف عناصر کی آشیر باد حاصل ہے۔
مفاہمت میں عرب ممالک کا کردار
حماس اور الفتح کے درمیان قومی مفاہمت میں بیرونی ہاتھوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ فلسطینی اور عرب میڈیا میں یہ بات تواتر کے ساتھ بیان کی جا رہی ہے کہ فلسطینیوں کی باہمی صف بندی میں مصر، اردن اور کئی دوسرے عرب ممالک کا موثر کردار ہے۔ مصر کی موجودہ حکومت سے حماس کے ساتھ اچھے تعلقات کی توقع نہیں کی جاسکتی کیونکہ قاہرہ کی ایک عدالت حماس کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرچکی ہے۔ لیکن عدالتی پابندی کے باوجود مصر کی عبوری حکومت نے کسی حد تک دانشمندانہ طرز عمل اختیار کیا ہے۔
خیال یہ تھا کہ مصری حکومت قاہرہ میں موجود حماس قیادت کو حراست میں لے کران کے خلاف مقدمات قائم کرے گی۔ گوکہ کچھ لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے مگر تنظیم کے سیاسی شعبے کے سینیر نائب صدر ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق عرصے سے قاہرہ میں ہیں۔ وہ گاہے بہ گاہے میڈیا پر بیانات بھی جاری کرتے رہتے ہیں۔ اپریل کے وسط میں مصری حکومت نے فول پروف سکیورٹی میں حماس رہ نما ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق کو غزہ پہنچایا یہ ایک مثبت پیش رفت ہے، جس کے بعد حماس اور مصر کے درمیان ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی بھی نسبتا کم ہوگئی ہے۔ یوں فلسطینیوں کی صفوں میں وحدت کی مساعی میں قاہرہ نے مثبت کردار ادا کیا ہے۔
فلسطینی دھڑوں میں صلح کرانے میں تیونس، قطر اور اردن کے کردار کوبھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ سعودی عرب ماضی میں بھی دونوں جماعتوں کو ایک پرچم تلے اکھٹے ہونے کے مواقع فراہم کرتا رہا ہے، لیکن اب کی بار حماس اور سعودی حکومت میں قدرے سرد مہری دکھائی دیتی رہی ہے۔ بالخصوص ریاض کی جانب سے اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دیے جانے کے بعد اس کی ہم خیال حماس سعودی عرب کے معاملے میں کافی محتاط ہوگئی تھی۔ اعلان غزہ کے بعد سعودی عرب کی جانب سے مثبت ر دعمل سامنے آیا ہے۔ سعودی ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز نے پوری فلسطینی قوم بالخصوص حماس اور الفتح کومفاہمت پر مبارک باد پیش کی ہے اور اپنی جانب سے دونوں جماعتوں کے ساتھ ہرممکن تعاون جاری رکھنے کا عہد کیا ہے۔
آٹھ سالہ ناراضگیاں، کیا کھویا کیا پایا؟
سنہ 2006ء میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں حماس نے خلاف توقع غزہ ، مغربی کنارے اور مقبوضہ بیت المقدس میں نصف سے زیادہ نشستیں جیت لیں تو ایسے لگ رہا تھا کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان ایک بڑی جنگ چھڑنے والی ہے۔ حماس کی اتنی زیادہ عوامی مقبولیت کے بعد الفتح بھی دفاعی پوزیشن میں آگئی اور صدر ابو مازن کی جماعت کو اندازہ ہوا کہ وہ میدان کی تنہا کھلاڑی نہیں بلکہ اس کا مقابلہ کرنے والے بھی موجود ہیں۔ آغاز کار میں دونوں جماعتوں نے قومی مفاہمت کا ثبوت دیتے ہوئے سلام فیاض کی سربراہی میں مخلوط حکومت تشکیل دے دی۔
ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان تلخیاں پیدا ہونا شروع ہوگئیں۔ غزہ حماس کا گڑھ تھا۔ دونوں جماعتوں کے درمیان سب سے پہلے وہی میدان جنگ بنا۔ تلخی براہ راست ایک دوسرے پرحملوں پرمنتج ہوئی اور اقتدار کی رسہ کشی میں دو درجن افراد موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ دونوں جماعتوں کے درمیان ناراضگی کا یہ پہلا نقصان تھا جو فلسطینی قوم کو اپنے ہی بھائی بندوں کی لاشوں کی صورت میں اٹھانا پڑا۔
ایک دوسرے پر قاتلانہ حملوں کے بعد الفتح کی مرکزی قیادت غزہ سے فرار ہو کر مغربی کنارے میں چلی گئی اور وہاں پر اپنی الگ حکومت قائم کر لی۔ فلسطینی قانون ساز کونسل کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا۔ غزہ میں پارلیمنٹ کا الگ اجلاس ہوتا اور مغربی کنارے میں حماس رہ نما ڈاکٹر عزیز دویک کی قیادت میں ایک ہی ملک کی دوسری پارلیمنٹ کا اجلاس ہوتا۔ آٹھ سال تک فلسطین میں عجب تماشا لگا رہا ہے۔ دو وزیراعظم، دو پارلیمنٹس، دو اسپیکر، دو الگ الگ کابینہ حتیٰ کہ دو الگ الگ سکیورٹی نٖظام چلتے رہے۔
چونکہ دونوں جماعتوں کو عوامی حلقوں کی حمایت حاصل رہی اس لیے دونوں کی حکومتیں چلتی رہیں۔ مصر، سعودی عرب، اردن، متحدہ عرب امارات، ملائشیا اور انڈونیشیا جیسے ممالک سے مقبوضہ فلسطینی شہروں میں فلسطینیوں کی ڈیڑھ اینٹ کی حکومتوں کو ''حصہ بہ قدر جثہ'' امداد بھی ملتی رہی۔ کچھ ممالک ''اندھا بانٹے ریوڑیاں، مڑ مڑ اپنوں کو'' کے مصداق صرف الفتح پر نوازشات کرتے رہے۔ ان میں امریکا اور یورپ کا نام ہمیشہ سرفہرست رہے گا۔
یوں فلسطینیوں کی منفرد بندر بانٹ نے انہیں عالمی سطح پربھی بدنام کیا۔ دونوں جماعتوں کی عوامی مقبولیت میں بھی اتار چڑھاؤ آتا رہا۔ چونکہ اس وقت ان کے مد مقابل کوئی تیسری سیاسی قوت موجود نہیں ہے اس لیے آئندہ بھی میدان ان دونوں کے درمیان ہی لگے گا۔
تاہم اگر انفرادی طورپر دونوں پارٹیوں کی قوت کا ماضی کے ساتھ تقابل کیا جائے تو ہمیں ایک بڑا اور نمایاں فرق دکھائی دیتا ہے۔ حماس اس اعتبار سے کامیاب سمجھی جاتی ہے کہ اس نے آٹھ سال تک غزہ جیسے وسائل سے محروم اور چاروں طرف سے ناکہ بندیوں کے شکار شہرمیں''گڈ گورننس'' کی بہترین مثال قائم کی ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حماس کی قیادت میں پورے فلسطین کی زمام کار اپنے ہاتھ میں لینے اور احسن طریقے سے حکومت کرنے کی پوری اہلیت موجود ہے۔ آٹھ سال کے اس عرصے میں اسرائیل نے حماس کی حکومت گرانے کے لیے دو مرتبہ جنگ بھی مسلط کی، لیکن نہ صرف اسرائیل کو ان دونوں جنگوں میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا بلکہ غزہ کے مزاحمت کاروں کے ہاں جنگی قیدی بنائے گئے اپنے ایک سپاہی گیلاد شالیت کے بدلے 1050 فلسطینی قیدیوں کو چھوڑ کر یہ ثابت کیا کہ وہ حماس کا کچھ نہیں بگاڑ سکا ہے بلکہ حماس اپنے مقاصد میں کامیاب ہے۔
حماس کی قیادت اپنی اصول پسندی کی وجہ سے اب بھی فلسطینیوں میں کافی حد تک مقبول ہے جبکہ الفتح کی مسلسل قلا بازیوں نے اسے دوہرا نقصان پہنچایا۔ آٹھ سال کے اس عرصے میں الفتح کی حکومت پر سب سے بڑا الزام اسرائیل کے ساتھ فوجی تعاون رہا ہے۔ اسرائیلی مٖظالم کے ستائے لوگوں کے لیے صیہونی ریاست کی چاکری کرنے والوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ الفتح اپنے اوپر کرپشن کے لگنے والے الزامات کی وجہ سے قومی، علاقائی اور عالمی سطح پر بدنام ہوئی۔ عالمی میڈیا نے مغربی کنارے میں الفتح کی حکومت کو اس کے سکیورٹی اداروں کی وجہ سے بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا کیونکہ سکیورٹی ادارے فلسطینی سیاسی کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن میں اسرائیل سے بھی آگے چلے گئے تھے۔ یوں بادی النظر میں آٹھ سالہ دور میں حماس کی نسبت الفتح کو پہنچنے والا نقصان زیادہ ہے۔
حماس روایتی فلسطینیوں کی ترجمان جماعت سمجھی جاتی ہے جو اسرائیل کو بطور'' یہودی ریاست'' تسلیم کرنے کے لیے کسی صورت میں تیار نہیں۔ یاسرعرفات مرحوم کی قائم کردہ تحریک الفتح اب بہت بدل چکی ہے۔ پچھلے آٹھ سال سے الفتح نے اسرائیل کے ساتھ فوجی تعاون سمیت بہت سے شعبوں میں قربت حاصل کی ہے۔موجودہ حالات میں حماس اور الفتح نے جس عجلت میں قومی مفاہمتی معاہدے پر اتفاق کیا ہے وہ حیران کن نہیں بلکہ متوقع تھا۔ تازہ مفاہمتی معاہدہ دراصل 2012 میں مصر اور 2011ء میں قطر اور سعودی عرب میں طے پانے والے مفاہمتی معاہدوں پر عمل درآمد کا ایک راستہ ہے۔ بنیادی نکات میں قومی حکومت کی تشکیل، آزاد الیکشن کمیشن کا قیام، تنظیم آزادی فلسطین کی تشکیل نو اور صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کی تاریخ کا اعلان شامل ہیں۔
معاہدے کے تحت قومی حکومت پانچ ہفتوں کے اندر قائم کی جائے گی، جس میں حماس غزہ میں اور الفتح مغربی کنارے میں پاور شیرنگ فارمولے پرعمل درآمد کرے گی۔ دوسرے معنوں میں حماس کو غزہ کے بعد مغربی کنارے میں بھی حکومت کا حصہ بننے کا موقع ملے گا۔ گمان یہ کیا جاسکتا ہے کہ ان سطور کی اشاعت تک قومی حکومت کی تشکیل کا عمل طے کرچکی ہوں گی۔ مخلوط حکومت میں چونکہ ٹیکنو کریٹس کو شامل کیا جائے گا، اس لیے ایسے غیر جانب دار افراد کی تلاش کا سلسلہ جاری ہے۔ دونوں جماعتوں کے لیے مخلوط حکومت کی تشکیل بھی ایک مشکل مرحلہ ہے۔ اگر قومی حکومت کے تمام وزراء بالخصوص عبوری وزیراعظم کے نام پراتفاق رائے ہوجاتا ہے تو یہ حماس اور الفتح کی بہت بڑی کامیابی تصور کی جائے گی کیونکہ ماضی میں دونوں جماعتوں کے درمیان متعدد مرتبہ تان متفقہ وزیراعظم کے معاملے پر ٹوٹتی رہی ہے۔
چونکہ قومی حکومت کی مدت چھ ماہ ہوگی اور اس کے اختیارات محدود ہوں گے۔ قومی حکومت کے پاس سکیورٹی اداروں کو کنٹرول کرنے کا اختیار نہیں ہوگا بلکہ یہ اختیار صدر محمود عباس اپنے پاس ہی رکھیں گے۔ اس لیے عبوری حکومت کے ہوتے ہوئے کسی بڑی تبدیلی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ فی الوقت یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ آیا چھ ماہ بعد متوقع طورپر ہونے والے انتخابات میں کون سی جماعت میدان مارے گی، لیکن حماس اور الفتح کے درمیان کانٹے دار مقابلے کی توقع کی جا سکتی ہے۔غالب امکان ہے کہ مغربی کنارے میں اس بار الفتح کی حمایت کا ووٹ کم اور حماس کا زیادہ ہوگا جبکہ غزہ میں الفتح کو زیادہ سیٹیں ملنے کا امکان ہے۔
فلسطین کی یہ دونوں بڑی جماعتیں پچھلے آٹھ سال سے ایک دوسرے سے روٹھی دو الگ الگ شہروں میں اپنی اپنی حکومت کیے بیٹھی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آیا آٹھ سال بعد دونوں جماعتوں کو قومی مفاہمت کا ادراک ہوا یا اسرائیل سے امن مذاکرات کی ناکامی دونوں جماعتوں کی قربت کا باعث بنی ہے۔ مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان نو ماہ تک ڈھونگ امن مذاکرات کی رٹ ناکام ہونے کے بعد صدر محمود عباس کے لیے حماس سے دوستی کا ہاتھ بڑھانے کے سوا اور کوئی چارہ باقی نہیں رہ گیا تھا۔
تاہم بعض دوسرے عرب اور مقامی تجزیہ نگاروں کے مطابق حماس اور فتح کے درمیان یہ دوستی زیادہ دیر پا ثابت ہونے والی دکھائی نہیں دیتی، کیونکہ ماضی میں بھی دونوں جماعتیں مصر، قطر اور سعودی عرب کی وساطت سے قومی مفاہمت کے معاہدے کرچکی ہیں مگر اسرائیل، امریکا اور بعض دوسرے ممالک کی مداخلت کے باعث مفاہمت کی تمام کوششیں بے ثمر ثابت ہوئیں۔ اگر دونوں جماعتیں قومی مفاہمت کے سمجھوتے پرقائم رہتی ہیں تو یہ فلسطینیوں کے لیے ایک معجزے سے کم نہیں ہوگا۔ اگر دونوں جماعتوںکی قیادت صبر وتحمل کامظاہرہ کرتے ہوئے مفاہمت قائم رکھنے کی کوشش بھی کریں گی تو اسرائیل کا کیا بنے گا؟۔ اسرائیلی وزیراعظم نے اپنے رد عمل میں دو ٹوک الفاظ میں نہایت سنگین دھمکی دی ہے کہ اگر الفتح نے حماس سے معاہدہ کر لیا تو مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی تحلیل کردی جائے گی۔ وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو سے کسی بھی سخت اقدام کی توقع عین ممکن ہے۔ فی الوقت فریقین میں امن مذاکرات ختم ہونے کے ساتھ اسرائیل نے فلسطینیوں کی امداد بھی روک دی ہے۔
گوکہ موجودہ حالات میں الفتح کو بھی یہ اندازہ ہوچکا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ قربتیں کامیاب نہیں ہوسکی ہیں لہٰذا ملک میں پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کی طرف بڑھا جائے۔ شائد انتخابی نتائج کی بہتری کی صورت میں امن مذاکرات کی کوئی نئی سبیل نکالی جاسکے۔
العربیہ ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق حماس اورالفتح کے درمیان مفاہمت مشرق وسطیٰ میں اہم ترین پیش رفت ہے، تاہم اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ محمود عباس نے حماس سے مفاہمت اس لیے کی تاکہ اسرائیل پر امن مذاکرات آگے بڑھانے کے لیے دباؤ ڈالا جاسکے۔ چونکہ سمجھوتے کے تحت مخلوط حکومت کی تشکیل میں پانچ ہفتے اور پارلیمانی انتخابات کے لیے چھ ماہ کا عرصہ ہے، اس لیے عین ممکن ہے کہ بیرونی ہاتھ اپنا رنگ دکھائیں اور حماس ۔فتح کے اتحاد کا شیرہ بکھیر دیں۔
بعض ذرائع سے یہ خبریں بھی سامنے آئی ہیں کہ حماس نے اسرائیل کے بارے میں اپنے دیرینہ موقف میں قدرے لچک کا اشارہ دیا ہے۔ جن ذرائع سے اس قسم کی خبریں آتی رہیں وہ ماضی میں افواہ سازی میں سرخیل سمجھے جاتے رہے ہیں۔ ان میں زیادہ تر مصری اخبارات ہیں،جنہیں حماس مخالف عناصر کی آشیر باد حاصل ہے۔
مفاہمت میں عرب ممالک کا کردار
حماس اور الفتح کے درمیان قومی مفاہمت میں بیرونی ہاتھوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ فلسطینی اور عرب میڈیا میں یہ بات تواتر کے ساتھ بیان کی جا رہی ہے کہ فلسطینیوں کی باہمی صف بندی میں مصر، اردن اور کئی دوسرے عرب ممالک کا موثر کردار ہے۔ مصر کی موجودہ حکومت سے حماس کے ساتھ اچھے تعلقات کی توقع نہیں کی جاسکتی کیونکہ قاہرہ کی ایک عدالت حماس کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرچکی ہے۔ لیکن عدالتی پابندی کے باوجود مصر کی عبوری حکومت نے کسی حد تک دانشمندانہ طرز عمل اختیار کیا ہے۔
خیال یہ تھا کہ مصری حکومت قاہرہ میں موجود حماس قیادت کو حراست میں لے کران کے خلاف مقدمات قائم کرے گی۔ گوکہ کچھ لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے مگر تنظیم کے سیاسی شعبے کے سینیر نائب صدر ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق عرصے سے قاہرہ میں ہیں۔ وہ گاہے بہ گاہے میڈیا پر بیانات بھی جاری کرتے رہتے ہیں۔ اپریل کے وسط میں مصری حکومت نے فول پروف سکیورٹی میں حماس رہ نما ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق کو غزہ پہنچایا یہ ایک مثبت پیش رفت ہے، جس کے بعد حماس اور مصر کے درمیان ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی بھی نسبتا کم ہوگئی ہے۔ یوں فلسطینیوں کی صفوں میں وحدت کی مساعی میں قاہرہ نے مثبت کردار ادا کیا ہے۔
فلسطینی دھڑوں میں صلح کرانے میں تیونس، قطر اور اردن کے کردار کوبھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ سعودی عرب ماضی میں بھی دونوں جماعتوں کو ایک پرچم تلے اکھٹے ہونے کے مواقع فراہم کرتا رہا ہے، لیکن اب کی بار حماس اور سعودی حکومت میں قدرے سرد مہری دکھائی دیتی رہی ہے۔ بالخصوص ریاض کی جانب سے اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دیے جانے کے بعد اس کی ہم خیال حماس سعودی عرب کے معاملے میں کافی محتاط ہوگئی تھی۔ اعلان غزہ کے بعد سعودی عرب کی جانب سے مثبت ر دعمل سامنے آیا ہے۔ سعودی ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز نے پوری فلسطینی قوم بالخصوص حماس اور الفتح کومفاہمت پر مبارک باد پیش کی ہے اور اپنی جانب سے دونوں جماعتوں کے ساتھ ہرممکن تعاون جاری رکھنے کا عہد کیا ہے۔
آٹھ سالہ ناراضگیاں، کیا کھویا کیا پایا؟
سنہ 2006ء میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں حماس نے خلاف توقع غزہ ، مغربی کنارے اور مقبوضہ بیت المقدس میں نصف سے زیادہ نشستیں جیت لیں تو ایسے لگ رہا تھا کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان ایک بڑی جنگ چھڑنے والی ہے۔ حماس کی اتنی زیادہ عوامی مقبولیت کے بعد الفتح بھی دفاعی پوزیشن میں آگئی اور صدر ابو مازن کی جماعت کو اندازہ ہوا کہ وہ میدان کی تنہا کھلاڑی نہیں بلکہ اس کا مقابلہ کرنے والے بھی موجود ہیں۔ آغاز کار میں دونوں جماعتوں نے قومی مفاہمت کا ثبوت دیتے ہوئے سلام فیاض کی سربراہی میں مخلوط حکومت تشکیل دے دی۔
ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان تلخیاں پیدا ہونا شروع ہوگئیں۔ غزہ حماس کا گڑھ تھا۔ دونوں جماعتوں کے درمیان سب سے پہلے وہی میدان جنگ بنا۔ تلخی براہ راست ایک دوسرے پرحملوں پرمنتج ہوئی اور اقتدار کی رسہ کشی میں دو درجن افراد موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ دونوں جماعتوں کے درمیان ناراضگی کا یہ پہلا نقصان تھا جو فلسطینی قوم کو اپنے ہی بھائی بندوں کی لاشوں کی صورت میں اٹھانا پڑا۔
ایک دوسرے پر قاتلانہ حملوں کے بعد الفتح کی مرکزی قیادت غزہ سے فرار ہو کر مغربی کنارے میں چلی گئی اور وہاں پر اپنی الگ حکومت قائم کر لی۔ فلسطینی قانون ساز کونسل کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا۔ غزہ میں پارلیمنٹ کا الگ اجلاس ہوتا اور مغربی کنارے میں حماس رہ نما ڈاکٹر عزیز دویک کی قیادت میں ایک ہی ملک کی دوسری پارلیمنٹ کا اجلاس ہوتا۔ آٹھ سال تک فلسطین میں عجب تماشا لگا رہا ہے۔ دو وزیراعظم، دو پارلیمنٹس، دو اسپیکر، دو الگ الگ کابینہ حتیٰ کہ دو الگ الگ سکیورٹی نٖظام چلتے رہے۔
چونکہ دونوں جماعتوں کو عوامی حلقوں کی حمایت حاصل رہی اس لیے دونوں کی حکومتیں چلتی رہیں۔ مصر، سعودی عرب، اردن، متحدہ عرب امارات، ملائشیا اور انڈونیشیا جیسے ممالک سے مقبوضہ فلسطینی شہروں میں فلسطینیوں کی ڈیڑھ اینٹ کی حکومتوں کو ''حصہ بہ قدر جثہ'' امداد بھی ملتی رہی۔ کچھ ممالک ''اندھا بانٹے ریوڑیاں، مڑ مڑ اپنوں کو'' کے مصداق صرف الفتح پر نوازشات کرتے رہے۔ ان میں امریکا اور یورپ کا نام ہمیشہ سرفہرست رہے گا۔
یوں فلسطینیوں کی منفرد بندر بانٹ نے انہیں عالمی سطح پربھی بدنام کیا۔ دونوں جماعتوں کی عوامی مقبولیت میں بھی اتار چڑھاؤ آتا رہا۔ چونکہ اس وقت ان کے مد مقابل کوئی تیسری سیاسی قوت موجود نہیں ہے اس لیے آئندہ بھی میدان ان دونوں کے درمیان ہی لگے گا۔
تاہم اگر انفرادی طورپر دونوں پارٹیوں کی قوت کا ماضی کے ساتھ تقابل کیا جائے تو ہمیں ایک بڑا اور نمایاں فرق دکھائی دیتا ہے۔ حماس اس اعتبار سے کامیاب سمجھی جاتی ہے کہ اس نے آٹھ سال تک غزہ جیسے وسائل سے محروم اور چاروں طرف سے ناکہ بندیوں کے شکار شہرمیں''گڈ گورننس'' کی بہترین مثال قائم کی ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حماس کی قیادت میں پورے فلسطین کی زمام کار اپنے ہاتھ میں لینے اور احسن طریقے سے حکومت کرنے کی پوری اہلیت موجود ہے۔ آٹھ سال کے اس عرصے میں اسرائیل نے حماس کی حکومت گرانے کے لیے دو مرتبہ جنگ بھی مسلط کی، لیکن نہ صرف اسرائیل کو ان دونوں جنگوں میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا بلکہ غزہ کے مزاحمت کاروں کے ہاں جنگی قیدی بنائے گئے اپنے ایک سپاہی گیلاد شالیت کے بدلے 1050 فلسطینی قیدیوں کو چھوڑ کر یہ ثابت کیا کہ وہ حماس کا کچھ نہیں بگاڑ سکا ہے بلکہ حماس اپنے مقاصد میں کامیاب ہے۔
حماس کی قیادت اپنی اصول پسندی کی وجہ سے اب بھی فلسطینیوں میں کافی حد تک مقبول ہے جبکہ الفتح کی مسلسل قلا بازیوں نے اسے دوہرا نقصان پہنچایا۔ آٹھ سال کے اس عرصے میں الفتح کی حکومت پر سب سے بڑا الزام اسرائیل کے ساتھ فوجی تعاون رہا ہے۔ اسرائیلی مٖظالم کے ستائے لوگوں کے لیے صیہونی ریاست کی چاکری کرنے والوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ الفتح اپنے اوپر کرپشن کے لگنے والے الزامات کی وجہ سے قومی، علاقائی اور عالمی سطح پر بدنام ہوئی۔ عالمی میڈیا نے مغربی کنارے میں الفتح کی حکومت کو اس کے سکیورٹی اداروں کی وجہ سے بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا کیونکہ سکیورٹی ادارے فلسطینی سیاسی کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن میں اسرائیل سے بھی آگے چلے گئے تھے۔ یوں بادی النظر میں آٹھ سالہ دور میں حماس کی نسبت الفتح کو پہنچنے والا نقصان زیادہ ہے۔