30 سال سے زیر مطالعہ سپر نووا کے متعلق حیران کن انکشافات
1987 میں دریافت ہونے والے سُپر نووا ایس این 1987 اے کا مطالعہ سائنس دان پچھلی تین دہائیوں سے کر رہے ہیں
زمین سے 1 لاکھ 68 ہزار نوری سال کے فاصلے پر موجود ماہرینِ فلکیات کے زیر مطالعہ سُپر نووا کے اندرونی سانچے کے متعلق نئے انکشافات سامنے آئے ہیں۔ یہ معلومات ستاروں کے دھماکے سے پھٹنے کے متعلق مزید معموں کو حل کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔
1987 میں دریافت ہونے والے سُپر نووا ایس این 1987 اے کا مطالعہ سائنس دان پچھلی تین دہائیوں سے کر رہے ہیں۔
سُپر نووا ستارے کا وہ طاقت ور دھماکا ہوتا ہے جو اس کی زندگی کے اختتام پر ہوتا ہے۔
ناسا کے مطابق تازہ ترین مشاہدوں میں سپر نووا کے مرکزی سانچے کے متعلق معلوم ہوا ہے کہ چابی کے سوراخ جیسا دِکھنے والا یہ سانچہ دبیز گیس سے اور دھماکے سے خارج ہونے والی گرد سے بھرا ہوا ہے۔
(تصویر: ناسا)
محققین کے مطابق یہ گرد اتنی گاڑھی ہے کہ جدید جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ بھی اس کے پار نہیں دیکھ سکتی اور یہی چیز چابی کے سوراخ جیسی شکل کا سبب بھی ہے۔یہ شکل اطراف میں موجود روشن چھلے اور دو بیرونی چھلوں کے سبب بھی وجود میں آتی ہے۔
اطراف میں موجود اکوئیٹوریل رِنگ سپرنووا سے ہزاروں سال قبل خارج ہونے والے مادے سے بنا ہے۔ اس چھلے میں روشن ہاٹ اسپاٹ بھی موجود ہیں جو سپر نووا سے خارج ہونے والی شاک ویو ٹکرانے کے سبب وجود میں آئے ہیں۔
اس سپر نووا کا کئی سالوں تک ہبل اسپیس ٹیلی اسکوپ اور اسپٹزر اسپیس ٹیلی اسکوپ سے مطالعہ کیا گیا لیکن جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ کی غیر معمولی صلاحیتیں وہ پوشیدہ حقائق سامنے لے کر آئیں جو اس سے قبل نہیں آسکیں تھیں۔