معاشی زوال کے عوامل
پاکستان میں 80 فیصد آبادی صرف 20 فیصد آبادی کی کمائی پر گزراوقات کر رہی ہے
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کا اجلاس گزشتہ روز اسلام آباد میں ہوا۔ یہ ملک میں اسمگلنگ کی روک تھام کے حوالے سے تھا، اس اعلیٰ سطحی اجلاس میں نگران وزیراعظم کو ملک بھر بالخصوص شمالی مغربی سرحدی علاقوں میں اسمگلنگ کی صورت حال اور اس کی روک تھام کے لیے اٹھائے گئے اقدامات پر بریفنگ دی گئی۔
میڈیا کے مطابق نگران وزیراعظم نے حکم دیا ہے کہ بلوچستان میں اسمگلنگ میں ملوث سرکاری افسران کی انٹر ایجنسی رپورٹ مرتب کی جائے اور جو سرکاری اہلکار اسمگلنگ کے دھندے میں ملوث ہے یا مدد گار ہے، ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے اور انھیں قرارواقعی سزا دی جائے۔ وزیراعظم نے کسٹمز حکام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چینی، پٹرولیم مصنوعات، یوریا، زرعی اجناس اور دیگر اشیاء کی اسمگلنگ کے سد باب کے لیے سختی سے ہدایت کی۔
اجلاس کو بلوچستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب اسمگلنگ کے خلاف حکمت عملی سے آگاہ کیا گیا۔ میڈیا کے مطابق اجلاس میں بتایا گیا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی انتھک محنت کی وجہ سے ملک میں اسمگلنگ میں 40 فیصد کمی آئی ہے۔ بلوچستان میں دس اضافی جوائنٹ چیک پوسٹس نوٹیفائی کر دی گئی ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ اسمگلنگ کی روک تھام کی کارکردگی جانچنے کے لیے ہفتہ وار جائزہ اجلاس کی صدات وہ خود کریں گے۔ پٹرولیم مصنوعات کی اسمگلنگ سے محصولات میں کمی اور ملکی زرمبادلہ پر شدید دباؤ پڑتا ہے،انھوں نے ہدایت کی کہ ایران کے ساتھ بارڈر مارکیٹ میکنزم کو مستحکم کیا جائے تاکہ دو طرفہ تجارت باقاعدہ دستاویزی عمل سے ممکن ہو سکے۔
پاکستان کی معیشت کو جہاں دیگر عوامل نے نقصان پہنچایا ہے، وہاں اسمگلنگ بھی ایک اہم اور بڑی وجہ ہے۔ اسمگلنگ کیسے ہوتی ہے اور کیوں ہوتی ہے، اس کا جواب بالکل بھی مشکل نہیں ہے۔ سیدھی سی بات ہے، جو لوگ یا مافیا اسمگلنگ کا کاروبار کرتا ہے، اس کی دولت میں اضافے کی شرح غیرمعمولی ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ جو اشیاء اسمگل کرتا ہے، اس پر کسی قسم کا ٹیکس ادا نہیں کرتا۔
دوسرا سوال کہ اسمگلنگ کیسے ہوتی ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ اسمگلنگ کی روک تھام کے ادارے اپنے فرائض آئین اور قانون میں بیان کردہ اصولوں کے مطابق ادا نہیں کرتے۔ سرکاری اداروں کے افسر ہوں یا اہلکار، انھیں سرکاری خزانے سے تنخواہیں اور دیگر مراعات دی جاتی ہیں۔ یہ تنخواہیں اور مراعات اس لیے دی جاتی ہیں کہ جس مقصد کے لیے انھیں بھرتی کیا گیا اور ذمے داری دی گئی، وہ اسے پوری لگن، جرأت اور قانون کے مطابق ادا کریں۔
اسمگلنگ کے دھندے کو روکنا، ان ریاستی و حکومتی اداروں کی ذمے داری ہے، جنھیں اسی مقصد کے لیے بھرتی کیا گیا اور قوم کے ٹیکسوں سے انھیں تنخواہیں اور مراعات دی جاتی ہیں۔ اگر افسر اور اہلکار اپنا فرض ادا کریں تو اسمگلنگ بے شک نہ رکے لیکن اس کی شرح نہ ہونے کے برابر رہ جائے گی۔افسر اور اہلکار اس لیے اپنی ذمے داریوں اور فرائض کی ادائیگی میں خیانت کرتے ہیں کہ ان کا احتساب کا میکنزم اول تو موجود ہی نہیں ہے اور اگر موجود ہے تو انتہائی کمزور ہے۔
اگر احتساب کا میکنزم فول پروف ہو تو سرکاری افسروں اور اہلکاروں کو پتہ ہو گا کہ اگر انھوں نے خیانت کی تو احتساب سے بچ نہیں سکیں گے۔ بہرحال نگران وزیراعظم نے اسمگلنگ کی روک تھام کے حوالے سے جو کچھ کہا ہے، اگر وہ اتنے پر ہی عملدرآمد کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ بھی ان کا کریڈٹ ہو گا۔
پاکستان کی معیشت جس حال میں ہے، اس کی حقیقت نگران حکومت سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ میڈیا کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کے قرضے معیشت کے لیے خطرہ ہے۔ وزارت خزانہ نے ملک کی مالی صورت حال کمزور قرار دیتے ہوئے وفاقی حکومت کے قرضوں کو مالی خطرہ قرار دے دیا۔
وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ جی ڈی پی گروتھ، مہنگائی، شرح سود، ایکسچینج ریٹ مالی خطرات کے عوامل میں شامل ہیں۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ سرکاری قرضہ جی ڈی پی کے 78.4 فیصد تک پہنچ گیا ہے اور یہ مالی خطرات کے عوامل میں شامل ہیں جب کہ سرکاری اداروں کے قرضے اور گارنٹیز جی ڈی پی کے 9.7 فیصد پر پہنچ چکے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سرکاری اداروں کے نقصانات بھی مالی خطرات میں شامل ہیں۔ پالیسی اقدامات پر عملدرآمد میں تاخیربھی مالی خطرات میں شامل ہے۔ پاکستان پر صرف غیرملکی قرضے ہی نہیں ہیں بلکہ ملکی قرضے بھی ہیں۔ یہ ملکی قرضے مختلف حکومتوں نے مختلف مالی اداروں سے لیے ہیں جب کہ بہت سے حکومتی ادارے بھی ملکی بینکوں کے قرض دار ہیں اور ان کا خسارہ پورا کرنے کے لیے حکومت ٹیکسوں میں اضافہ کرتی رہتی ہے۔ بجلی کے بلوں میں ٹیلی ویژن فیس اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
ایک اخباری خبر میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (پی آئی اے) کا مالی بحران بھی سنگین ہوگیا ہے۔ خبر میں ذرایع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ پی آئی اے کی مختلف ایئرپورٹس کی گراؤنڈ ہینڈلنگ کمپنیوں کی ادائیگیاں نہ ہوسکیں۔ مالی بحران کے باعث لیز پر حاصل کیے گئے طیاروں کی ادائیگیاں بھی نہ ہوسکیں۔ پی آئی اے کا مجموعی خسارہ 112ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔
یہی حال ریلوے اور پاکستان اسٹیل ملز کا ہے۔ پاکستان ریلوے نے کرایوں میں اضافہ کر دیا ہے، ریل کے کرایوں میں 5 فیصد اضافہ کر دیا، پارسل اور لگیج ریٹ بھی 5فیصد بڑھا دیے گئے، ان اضافوں پر عملدرآمد 2 ستمبر سے ہوگا۔ ملک میں چلنے والی دیگر ٹرانسپورٹ کے کرائے بھی بڑھ گئے ہیں۔ اس کی وجہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ، ایل پی جی اور توانائی کے دیگر ذرایع کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہونا ہے۔
محکمہ شماریات کی تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگست کے مہینے میں مہنگائی کی شرح 27.4 فیصد تک بڑھی ہے۔ 21 فیصد تک مہنگائی کی شرح سرکاری ہدف ہے لیکن اس ہدف سے کہیں مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مہنگائی کے باعث دیہات سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، دیہی علاقوں میں خوراک کی مہنگائی 40.6 فیصد تک پہنچ گئی اور شہروں میں یہ شرح 88.8 فیصد ہے۔
ادھر چینی کی قیمتوں میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ وزارت فوڈ سیکیورٹی کی پریس ریلیز کے مطابق شوگر ملوں کے پاس 1.815 ملین میٹرک ٹن چینی کے تصدیق شدہ ذخائر موجود ہیں جو نومبر 2023 میں اگلے کرشنگ سیزن کے آغاز تک 1.8 ملین میٹرک ٹن کی کل ضرورت کے مقابلے میں کافی ہے، مارکیٹ میں چینی کی موجودہ قیمت میں اضافہ، منافع خوری، اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے ہوا ہے۔
رواں برس جنوری میں چینی کی فی کلو گرام قیمت پچاسی روپے تھی جو ملک کے مختلف حصوں میں بڑھ کر ایک سو ساٹھ روپے فی کلو گرام سے ایک سو نوے روپے فی کلو گرام ہو چکی ہے۔ ایل پی جی کی فی کلو قیمت 201 روپے 15 پیسے سے بڑھ کر 240 روپے 12 پیسے ہوگئی ہے۔ اس صورت حال سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پورے ملک میں مہنگائی کا پھیلاؤ کس حد تک ہے۔
پاکستان میں گزشتہ پانچ چھ برس کے دوران مسلسل سیاسی عدم استحکام نے معیشت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ ریاستی پالیسیوں میں یکسوئی کا نہ ہونا، خارجہ پالیسی کی سمت کا درست نہ ہونا، داخلی سطح پر مفادات کا شدید ٹکراؤ اور ادارہ جاتی ٹکراؤ، معیشت کی بربادی کی بنیادی وجوہات ہیں۔
ریاست کے بڑے اسٹیک ہولڈرز بدلتے ہوئے عالمی حالات کے مطابق اپنے مفادات کو ہینڈل نہیں کر پا رہے۔ اس کے بجائے وہ ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں ہیں اور اب نوبت اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ بڑے اسٹیک ہولڈر دو واضح نظریاتی اور مفاداتی گروپوں میں تقسیم ہو چکے ہیں اور کوئی ایک گروپ بھی اپنے مفادات سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یہ تقسیم سیاست اور ریاستی اسٹرکچر کو زوال پذیر بنانے کا سب سے بڑا سبب ہے۔
ریاستی نظام اپنا ہی وزن برداشت نہیں کر پا رہا۔ ریاست کی مراعات کے بل بوتے پر پرتعیش زندگی گزارنے والا طبقہ ان حالات میں بھی اپنی مراعات پر سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ دوسری طرف عوام کی مالی حالت انتہائی پتلی ہو چکی ہے۔ پاکستان میں 80 فیصد آبادی صرف 20 فیصد آبادی کی کمائی پر گزراوقات کر رہی ہے۔ اب یہ 20 فیصد طبقہ ریاست کو کتنا ٹیکس دے سکتا ہے، اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔
میڈیا کے مطابق نگران وزیراعظم نے حکم دیا ہے کہ بلوچستان میں اسمگلنگ میں ملوث سرکاری افسران کی انٹر ایجنسی رپورٹ مرتب کی جائے اور جو سرکاری اہلکار اسمگلنگ کے دھندے میں ملوث ہے یا مدد گار ہے، ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے اور انھیں قرارواقعی سزا دی جائے۔ وزیراعظم نے کسٹمز حکام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چینی، پٹرولیم مصنوعات، یوریا، زرعی اجناس اور دیگر اشیاء کی اسمگلنگ کے سد باب کے لیے سختی سے ہدایت کی۔
اجلاس کو بلوچستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب اسمگلنگ کے خلاف حکمت عملی سے آگاہ کیا گیا۔ میڈیا کے مطابق اجلاس میں بتایا گیا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی انتھک محنت کی وجہ سے ملک میں اسمگلنگ میں 40 فیصد کمی آئی ہے۔ بلوچستان میں دس اضافی جوائنٹ چیک پوسٹس نوٹیفائی کر دی گئی ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ اسمگلنگ کی روک تھام کی کارکردگی جانچنے کے لیے ہفتہ وار جائزہ اجلاس کی صدات وہ خود کریں گے۔ پٹرولیم مصنوعات کی اسمگلنگ سے محصولات میں کمی اور ملکی زرمبادلہ پر شدید دباؤ پڑتا ہے،انھوں نے ہدایت کی کہ ایران کے ساتھ بارڈر مارکیٹ میکنزم کو مستحکم کیا جائے تاکہ دو طرفہ تجارت باقاعدہ دستاویزی عمل سے ممکن ہو سکے۔
پاکستان کی معیشت کو جہاں دیگر عوامل نے نقصان پہنچایا ہے، وہاں اسمگلنگ بھی ایک اہم اور بڑی وجہ ہے۔ اسمگلنگ کیسے ہوتی ہے اور کیوں ہوتی ہے، اس کا جواب بالکل بھی مشکل نہیں ہے۔ سیدھی سی بات ہے، جو لوگ یا مافیا اسمگلنگ کا کاروبار کرتا ہے، اس کی دولت میں اضافے کی شرح غیرمعمولی ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ جو اشیاء اسمگل کرتا ہے، اس پر کسی قسم کا ٹیکس ادا نہیں کرتا۔
دوسرا سوال کہ اسمگلنگ کیسے ہوتی ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ اسمگلنگ کی روک تھام کے ادارے اپنے فرائض آئین اور قانون میں بیان کردہ اصولوں کے مطابق ادا نہیں کرتے۔ سرکاری اداروں کے افسر ہوں یا اہلکار، انھیں سرکاری خزانے سے تنخواہیں اور دیگر مراعات دی جاتی ہیں۔ یہ تنخواہیں اور مراعات اس لیے دی جاتی ہیں کہ جس مقصد کے لیے انھیں بھرتی کیا گیا اور ذمے داری دی گئی، وہ اسے پوری لگن، جرأت اور قانون کے مطابق ادا کریں۔
اسمگلنگ کے دھندے کو روکنا، ان ریاستی و حکومتی اداروں کی ذمے داری ہے، جنھیں اسی مقصد کے لیے بھرتی کیا گیا اور قوم کے ٹیکسوں سے انھیں تنخواہیں اور مراعات دی جاتی ہیں۔ اگر افسر اور اہلکار اپنا فرض ادا کریں تو اسمگلنگ بے شک نہ رکے لیکن اس کی شرح نہ ہونے کے برابر رہ جائے گی۔افسر اور اہلکار اس لیے اپنی ذمے داریوں اور فرائض کی ادائیگی میں خیانت کرتے ہیں کہ ان کا احتساب کا میکنزم اول تو موجود ہی نہیں ہے اور اگر موجود ہے تو انتہائی کمزور ہے۔
اگر احتساب کا میکنزم فول پروف ہو تو سرکاری افسروں اور اہلکاروں کو پتہ ہو گا کہ اگر انھوں نے خیانت کی تو احتساب سے بچ نہیں سکیں گے۔ بہرحال نگران وزیراعظم نے اسمگلنگ کی روک تھام کے حوالے سے جو کچھ کہا ہے، اگر وہ اتنے پر ہی عملدرآمد کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ بھی ان کا کریڈٹ ہو گا۔
پاکستان کی معیشت جس حال میں ہے، اس کی حقیقت نگران حکومت سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ میڈیا کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کے قرضے معیشت کے لیے خطرہ ہے۔ وزارت خزانہ نے ملک کی مالی صورت حال کمزور قرار دیتے ہوئے وفاقی حکومت کے قرضوں کو مالی خطرہ قرار دے دیا۔
وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ جی ڈی پی گروتھ، مہنگائی، شرح سود، ایکسچینج ریٹ مالی خطرات کے عوامل میں شامل ہیں۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ سرکاری قرضہ جی ڈی پی کے 78.4 فیصد تک پہنچ گیا ہے اور یہ مالی خطرات کے عوامل میں شامل ہیں جب کہ سرکاری اداروں کے قرضے اور گارنٹیز جی ڈی پی کے 9.7 فیصد پر پہنچ چکے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سرکاری اداروں کے نقصانات بھی مالی خطرات میں شامل ہیں۔ پالیسی اقدامات پر عملدرآمد میں تاخیربھی مالی خطرات میں شامل ہے۔ پاکستان پر صرف غیرملکی قرضے ہی نہیں ہیں بلکہ ملکی قرضے بھی ہیں۔ یہ ملکی قرضے مختلف حکومتوں نے مختلف مالی اداروں سے لیے ہیں جب کہ بہت سے حکومتی ادارے بھی ملکی بینکوں کے قرض دار ہیں اور ان کا خسارہ پورا کرنے کے لیے حکومت ٹیکسوں میں اضافہ کرتی رہتی ہے۔ بجلی کے بلوں میں ٹیلی ویژن فیس اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
ایک اخباری خبر میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (پی آئی اے) کا مالی بحران بھی سنگین ہوگیا ہے۔ خبر میں ذرایع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ پی آئی اے کی مختلف ایئرپورٹس کی گراؤنڈ ہینڈلنگ کمپنیوں کی ادائیگیاں نہ ہوسکیں۔ مالی بحران کے باعث لیز پر حاصل کیے گئے طیاروں کی ادائیگیاں بھی نہ ہوسکیں۔ پی آئی اے کا مجموعی خسارہ 112ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔
یہی حال ریلوے اور پاکستان اسٹیل ملز کا ہے۔ پاکستان ریلوے نے کرایوں میں اضافہ کر دیا ہے، ریل کے کرایوں میں 5 فیصد اضافہ کر دیا، پارسل اور لگیج ریٹ بھی 5فیصد بڑھا دیے گئے، ان اضافوں پر عملدرآمد 2 ستمبر سے ہوگا۔ ملک میں چلنے والی دیگر ٹرانسپورٹ کے کرائے بھی بڑھ گئے ہیں۔ اس کی وجہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ، ایل پی جی اور توانائی کے دیگر ذرایع کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہونا ہے۔
محکمہ شماریات کی تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگست کے مہینے میں مہنگائی کی شرح 27.4 فیصد تک بڑھی ہے۔ 21 فیصد تک مہنگائی کی شرح سرکاری ہدف ہے لیکن اس ہدف سے کہیں مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مہنگائی کے باعث دیہات سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، دیہی علاقوں میں خوراک کی مہنگائی 40.6 فیصد تک پہنچ گئی اور شہروں میں یہ شرح 88.8 فیصد ہے۔
ادھر چینی کی قیمتوں میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ وزارت فوڈ سیکیورٹی کی پریس ریلیز کے مطابق شوگر ملوں کے پاس 1.815 ملین میٹرک ٹن چینی کے تصدیق شدہ ذخائر موجود ہیں جو نومبر 2023 میں اگلے کرشنگ سیزن کے آغاز تک 1.8 ملین میٹرک ٹن کی کل ضرورت کے مقابلے میں کافی ہے، مارکیٹ میں چینی کی موجودہ قیمت میں اضافہ، منافع خوری، اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے ہوا ہے۔
رواں برس جنوری میں چینی کی فی کلو گرام قیمت پچاسی روپے تھی جو ملک کے مختلف حصوں میں بڑھ کر ایک سو ساٹھ روپے فی کلو گرام سے ایک سو نوے روپے فی کلو گرام ہو چکی ہے۔ ایل پی جی کی فی کلو قیمت 201 روپے 15 پیسے سے بڑھ کر 240 روپے 12 پیسے ہوگئی ہے۔ اس صورت حال سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پورے ملک میں مہنگائی کا پھیلاؤ کس حد تک ہے۔
پاکستان میں گزشتہ پانچ چھ برس کے دوران مسلسل سیاسی عدم استحکام نے معیشت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ ریاستی پالیسیوں میں یکسوئی کا نہ ہونا، خارجہ پالیسی کی سمت کا درست نہ ہونا، داخلی سطح پر مفادات کا شدید ٹکراؤ اور ادارہ جاتی ٹکراؤ، معیشت کی بربادی کی بنیادی وجوہات ہیں۔
ریاست کے بڑے اسٹیک ہولڈرز بدلتے ہوئے عالمی حالات کے مطابق اپنے مفادات کو ہینڈل نہیں کر پا رہے۔ اس کے بجائے وہ ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں ہیں اور اب نوبت اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ بڑے اسٹیک ہولڈر دو واضح نظریاتی اور مفاداتی گروپوں میں تقسیم ہو چکے ہیں اور کوئی ایک گروپ بھی اپنے مفادات سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یہ تقسیم سیاست اور ریاستی اسٹرکچر کو زوال پذیر بنانے کا سب سے بڑا سبب ہے۔
ریاستی نظام اپنا ہی وزن برداشت نہیں کر پا رہا۔ ریاست کی مراعات کے بل بوتے پر پرتعیش زندگی گزارنے والا طبقہ ان حالات میں بھی اپنی مراعات پر سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ دوسری طرف عوام کی مالی حالت انتہائی پتلی ہو چکی ہے۔ پاکستان میں 80 فیصد آبادی صرف 20 فیصد آبادی کی کمائی پر گزراوقات کر رہی ہے۔ اب یہ 20 فیصد طبقہ ریاست کو کتنا ٹیکس دے سکتا ہے، اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔