عوام کب کا ڈیفالٹ کرچکے

ہمارے ملک میں اشرافیہ ہی ڈیفالٹ کا مزہ نہیں چکھ پائِی لیکن ایک عام آدمی توکب کا ڈیفالٹ کرچکا

گزشتہ دنوں سابق وزیر اعظم شہباز شریف کا ایک بیان نظر سے گزرا کہ '' ہم نے بہت مشکل سے پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچا لیا۔''

ہمارے ملک میں اشرافیہ ہی ڈیفالٹ کا مزہ نہیں چکھ پائِی لیکن ایک عام آدمی توکب کا ڈیفالٹ کرچکا۔ اس ملک کا کرپٹ بیوروکریٹ، سیاستدان اور اشرافیہ کیا جانے کہ اس وقت بازار میں آٹے اور دال کا کیا بھائو ہے کیونکہ انھوں نے کبھی خود توخریداری کی نہیں ہوتی بلکہ روزمرہ کی اشیاء ضرورت بھی ان کے گھروں میں مفت پہنچ جاتی ہے۔

ان کی لگژری گاڑیوں میں پٹرول اور ڈیزل سرکارکے کھاتے سے مفت مل جاتا ہے انھیں کیا معلوم کہ پٹرول مہنگا ہوتا ہے تو ہر چیزکی قیمتوں کو پر لگ جاتے ہیں۔ انھیں کیا معلوم کہ بے شمار بچوں کے والدین ان کی فیسیں ادا کرنے کے لیے اپنے زیورات اورگھرکی دیگر اشیا ء بیچ رہے ہیں جب کہ دوسری جانب یہ اربوں کھربوں میں کھیلنے والی اشرافیہ، جن کے بچے ملک میں اور بیرون ملک بھی مہنگے ترین اسکولوں میں، ملک سے لوٹی ہوئی رقم سے عیاشیاں کر رہے ہیں۔

یہ اشرافیہ میڈیا کے ذریعہ ملنے والی کسی خودکشی کی خبر سن کر شاید صرف افسوس کے چند الفاظ ادا کردیتے ہوں گے لیکن انھیں اس بات کا کوئی احساس نہیں ہو سکتا کہ خودکشی کرنے والا باپ یا ماں صرف اس لیے پھندے سے لٹک گئے کہ وہ اپنے بچوں کی چھوٹی چھوٹی خواہشات کو پورا نہیں کر پائے، کیونکہ ہر شخص کسی دوسرے سے مانگنے کی ہمت نہیں رکھتا اور بالآخر اس کا نتیجہ اس کی خود کشی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔

اشرافیہ، اپنے پرتعیش محلوں اور اپنی بڑی بڑی گاڑیوں سے باہر آکر دیکھے کہ ڈیفالٹ کسے کہتے ہیں۔ بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے بعد ایک تنخواہ دارطبقہ اپنی ساری تنخواہ بجلی کے بلوں میں ادا کردیتا ہے تو سوچیں پھرگھر کے دیگر معاملات کس طرح چلا رہا ہو گا؟ اور ظلم تو یہ ہے کہ کوئی سننے والا بھی نہیں ہے۔ جن حکمرانوں کی یہ ذمے داری ہے وہ ایک عام آدمی کے پاس سے اپنی بڑی بڑی بلٹ پروف گاڑیوں میں، گارڈزکی فوج کے ہمراہ دھول اڑاتے ہوئے نکل جاتے ہیں۔

ایک ایک وقت میں ہزاروں روپے کا کھانا کھانے والے لوگو،آئواور دیکھوکہ رفاہی اداروں کے دستر خوانوں پر دن بدن رش بڑھتا جا رہا ہے اور یہاں آج کل صرف بے گھر لوگ ہی کھانا کھانے نہیں آتے بلکہ وہ سفید پوش نوکری پیشہ افراد بھی ان فٹ پاتھوں پر موجود دستر خوانوں پر منہ چھپا چھپا کر کھانا کھانے آتے ہیں جو اپنی قلیل تنخواہ میں روزانہ باہرکھانا کھانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔


میری کوشش ہوتی ہے کہ ان دسترخوانوں کے پاس سے گذرتے ہوئے ان کی طرف نظر نہ ڈالوں کہ کہیں ایسے دستر خوان پرکھانا کھاتے کسی شخص سے نگاہ نہ مل جائے اور اس کی عزت نفس نہ مجروح ہو۔ہوشربا مہنگائی کا اندازہ صرف اس سے لگا لیں کہ چینی165روپے فی کلو میں دستیاب ہے۔ ملک میں پچھلے چند سالوں میں اشیا خورو نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں، جب کہ تنخواہوں میں اضافہ اس مہنگائی کی مناسبت سے کبھی بھی نہ ہو پایا۔ ملک میں تین اشیا کی قیمتوں میں گزشتہ تین سال کے دوران بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

ادارہ شماریات کے مطابق چینی کی خوردہ قیمت اگست 2018 میں ساٹھ روپے تھی جو بڑھ کر 165 روپے ہو چکی ہے بلکہ کئی مقامات پر دکاندار اپنی من مانگی قیمت وصول کر رہے ہیں۔ اگست 2018 میں آٹے کے قیمت 37 روپے کلو تھی جو ان دنوں 170 روپے کلو تک جا پہنچی ہے۔ اسی طرح گھی وخوردنی تیل کے پانچ لیٹرکی قیمت اگست 2018 میں 900 روپے یعنی 180 روپے کلو تھی وہ اگست 2023 کے اختتام تک 2500 روپے سے تجاوزکرگئی ہے۔

پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اور معاشی ماہر ڈاکٹر حفیظ پاشا نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اگرگزشتہ تین سال میں مجموعی طور پر اشیائے خورونوش کی قیمتوں کا جائزہ لیا جائے تو ان میں ہونے والا اضافہ اوسطاً چالیس فیصد ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اگر صرف آٹے،گھی اور چینی کی قیمتوں میں ہونیوالے اضافے کو لیا جائے تو یہ تقریباً 50 فیصد تک ہے، جب کہ سرکاری اور پرائیویٹ سیکٹر میں ورکرزکی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا۔

کراچی وہ شہر ہے جہاں پورے پاکستان سے لوگ تلاش معاش کے لیے آتے ہیں جن میں زیادہ تعداد مزدوروں کی ہے جسے پورے مہینے کام کرکے بمشکل اٹھارہ سے بیس ہزار روپے ملتے ہیں جب کہ اس ملک کا کرپٹ سیاستدان، بیوروکریٹ اور''اشرافیہ '' ایک دن میں ہی اٹھارہ ہزار روپے سے زیادہ کا پٹرول اپنی بڑی بڑی لگژری گاڑیوں میں پھونک دیتے ہیں اور اپنی پوری فیملی یا دوستوں کے ساتھ ملک کر ایک دن میں اتنی رقم سے کہیں زیادہ کا کھانا کھا جاتے ہیں۔

ایک عام آدمی جو ماہانہ پندرہ سے بیس ہزار روپے کما پاتا ہے اسے اس کا بڑا حصہ اپنی فیملی کے اخراجات کے لیے گھر بجھوانا پڑتا ہے۔ اسی تنخواہ میں اسے اپنے لیے دو وقت روٹی کا بھی بندوبست کرنا پڑتا ہے اور اسی قلیل رقم سے اسے اپنی لیے صرف اتنی سی رہائش کا بندوبست کرنا پڑتا ہے جہاں جب وہ رات کو تھکن سے چور ہو کر پہنچے تو چندگھنٹے کی نیند کر سکے، لیکن اب ایسا کرنا ایک مزدورکے لیے ممکن نہیں رہا یہی وجہ ہے کہ راتوں میں کراچی کے فٹ پاتھوں اور پارکس میں سونے والوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے کیونکہ ایک مزدور کے لیے اب اپنے لیے ایک کمرے کی عیاشی بھی کرنا بھی ممکن نہیں رہا۔ جب کہ دوسری جانب تمام تر سیاستدان ایک بار پھر اقتدارکی ہوس میں صبح شام اسی غم میں کڑے جا رہے ہیں کہ الیکشن کب اورکیسے ہوں اور کس طرح وہ '' اسٹیبلشمنٹ '' کی مدد سے حکومتی ایوانوں میں براجمان ہو سکیں۔

میں ان تمام سیاستدانوں سے مخاطب ہوں جو یہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے ملک کو ڈیفالٹ سے بچا لیا۔ مودبانہ عرض ہے کہ ملک ایک عام آدمی سے ہوتا ہے، جو کب کا ڈیفالٹ کرچکا۔کارل مارکس نے کہا تھا کہ '' وہ جنھوں نے سردی اورگرمی صرف کھڑکیوں دیکھی ہو اور بھوک صرف کتابوں میں پڑھی ہو، عام آدمی کی قیادت نہیں کرسکتے۔'' تو نہ اس ملک میں کبھی عام آدمی کو قیادت ملے گی اور نہ ہی اس ملک کے عوام کی تقدیر بدلے گی۔
Load Next Story