سندھ اور اداروں کے حالات کب بدلیں گے
دولت کی ریل پیل کو چھوڑ کر عوام کے حال پر رحم کرتے یہ مفت کا سسٹم بند کردیں
میں اکثر سوچتا ہوں کہ میرے سندھ سمیت بلوچستان، جنوبی پنجاب اور خیبرپختون خوا کے سیاسی، سماجی اور معاشی حالات حالات کب بدلیں گے؟
میرے ہم عصر اور سینئرز، سیاسی رہنما، ترقی پسند دانشور، شاعروادیب، اور صحافی کب سے ایسا منظر دیکھ رہے ہیں اور ہر دور میں ظلم و ناانصافی کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے لکھ لکھ کر تھک چکے ہیں مگر حالات نہیں بدلے۔
کراچی سے ٹرین میں جاتے ہوئے لانڈھی کے بعد جمعہ گوٹھ، بن قاسم، اسٹیل ملز، دھابیجی، رن پٹھانی، جنگ شاہی، جھمپیر اورکوٹری تک زمین پھیلی ہوئی ہے اور خالی و غیر آباد ہے، مگر یہ زمین بے زمین کسانوں کو نہیں دی جا رہی ہے۔ شکر ہے کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اعلان کیا ہے کہ ہم دھابیجی میں انڈسٹریل زون بنائیں گے،کارخانوں اور فیکٹریوں کا جال بچھا دیں گے۔
یہ ایک اچھا اقدام ہے اسی طرح بنجر پڑی ہوئی سرکاری زمین بھی مقامی لوگوں کو دے کرگندم، چاول، کاٹن اور سبزیاں اگا کر زمین کو زیرکاشت لایا جائے تو ایک اور اچھا فیصلہ ہوگا۔ گزشتہ دنوں مجھے ٹھٹھہ، سجاول روڈ کے راستے سے بدین جانے کا اتفاق ہوا۔ بڑا زرخیز علاقہ تھا اور ہم تین گھنٹے کی مسافت کے بعد بدین پہنچ گئے۔
بدین اب مکمل بڑا شہر بن چکا ہے، میں 1971-72 سے تقریباً ہر ماہ بدین براستہ حیدرآباد تا بدین بس یا ویگن کے ذریعہ آتا جاتا رہتا تھا، اس دور میں بدین ایک چھوٹا شہر تھا،کافی سیاست دان اور ترقی پسند رہنما اور صحافی ہوا کرتے تھے لیکن اب وہ شہر بڑا کاروباری علاقہ بن چکا ہے۔ ہمارے ایک دوست مقصود میمن طاہرانی بھی بدین سے ہمارے ساتھ چل پڑے اور پرانے شہرکے ساتھ ساتھ نئے شہرکو بھی دیکھتے رہے۔
اتفاق سے بدین میں ہمارے ایک ساتھی نے بتایا کہ کراچی سے گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی ایک دو رکنی ٹیم راشن تقسیم کرنے والی اسٹاف کمیٹی کے رکن اسد علی اور عابد یوسف بدین سے آگے کسی گاؤں میں امدادی راشن تقسیم کرنے کے سلسلے میں وہاں جا رہے ہیں، وہ مجھے جانتے تھے اور میں بھی انھیں جانتا تھا سو ان کو فون کیا میرا بیٹا اور مقصود طاہرانی میمن بھی ہمارے ساتھ مل کر اس گاؤں کی طرف روانہ ہوئے اور سارے راستے میں فصلیں، درخت، چاول اورگنے کے کھیت تھے، ٹوٹی پھوٹی سڑک پر دوگاڑیاں جا رہی تھیں میں نے عابد یوسف اور اسد علی سے پوچھا کہ آپ وہاں کیوں جا رہے ہیں اور وہ گاؤں کتنی دور ہے؟
معلوم کرنے پر ان کا کہنا تھا کہ سید امداد علی شاہ اور سید آزاد علی شاہ اس گاؤں سے گورنرکامران ٹیسوری سے ملنے اور کچھ امدادی سامان یا راشن وغیرہ لینے کے لیے گزشتہ ماہ کراچی آئے تھے اور اپنے گاؤں کے حالات، بارش اور سیلاب سے ان کے 140 گھر بڑے متاثر ہوئے ہیں، آپ ہماری مدد کریں۔ سو انھیں راشن کے 400 پیکٹ دے کر روانہ کر دیا تھا۔ انھوں نے شکریہ کے ساتھ یہ بھی عرض کردیا تھا کہ آپ یا آپ کی کوئی ٹیم ہمارے بدین سے 15 یا 20 کلومیٹرکے قریب ہمارے گاؤں کا دورہ کریں اور ہمارے حالات کو دیکھ لیں۔
سو ہم اس لیے آئے ہیں کہ ہم خود جا کر وہاں دیکھ لیں اچھا ہوا کہ آپ بھی ہمارے ساتھ چل پڑیں سو ہم بھی ان کے ساتھ روانہ ہوگئے، اورکوئی ایک گھنٹے کے بعد ہم ان کے گاؤں یا ولیج سعید باقری پہنچ گئے۔ شام کے ساڑھے چار بجے تھے اور دورکچھ لوگ کھڑے ہوئے نظر آئے، سڑک پر ایک موٹر سائیکل پر ایک نوجوان ہمارا منتظر تھا جو ہمیں کچی سڑک سے گاؤں تک لے گیا۔ وہ منظر دیکھنے کے قابل تھا جہاں لگ بھگ 100 کے قریب خواتین، مرد و بچے ہمارے استقبال کے لیے موجود تھے۔
اسٹاف کمیٹی ٹیم وہاں رک گئی۔ میں نے وہ منظر بہت کم کم دیکھا ہے شاید تھر یا عمر کوٹ میں دیکھا ہوگا اور غربت بھی قریب سے دیکھی بچوں کے پیروں میں چپل یا جوتے نہیں تھے اور شاید کچھ خواتین کے بھی پیروں میں کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ خیر وہاں تھوڑی دیر تک ایک چھوٹی سی میٹنگ یا جلسہ ہوا اور انھوں نے بتایا کہ یہ گاؤں، بارش اور سیلاب کی وجہ سے تقریباً ڈوبا ہوا تھا ہماری کسی نے کوئی مدد نہیں کی جب کہ ہم بدین سے صرف 20 کلومیٹر دور ہیں اورکراچی سے چارگھنٹے کے فاصلے پر رہتے ہیں۔
میں نے ان سے پوچھا کہ اس علاقے کا ایم این اے اور ایم پی اے کون ہے، کہنے لگے ذوالفقار مرزا کا یہ علاقہ ہے اور محترمہ فہمیدہ مرزا ایم این اے اور ان کا بیٹا ثقلین مرزا ایم پی اے ہے وہ یہاں کبھی نہیں آئے یہاں کل 104 گھر ہیں اور آبادی صرف 350 افراد پر مشتمل ہے۔ خیر ٹیم نے معائنہ کیا اور ان کے مسائل سنے اور وعدہ کیا کہ جلد ہی یہاں کی رپورٹ گورنر سندھ تک پہنچائیں گے اور آپ کے راشن کا بھی بندوبست کریں گے۔ شام ساڑھے سات بجے ہم وہاں سے کراچی کے لیے روانہ ہوگئے۔
خیر یہ تو بدین کے ایک گاؤں کا قصہ ہے لیکن میرے پورے ملک کے حالات ہم روزانہ اخبارات اور ٹی وی چینلز پر دیکھتے رہتے ہیں اور اپنے غریب اور خستہ حال ہاری، مزدور،کسان سمیت لوئر مڈل کلاس کی حالت کیا ہو رہی ہے، آئے روز روزانہ استعمال کی اشیا، آٹا، چینی، دال، دودھ، دہی، تیل اورگھی کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اس وقت پورے ملک میں بجلی کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ،گیس کی بندش اور آئے روز جلسے جلوس کے ساتھ غربت کی وجہ سے خودکشیاں اور بجلی کا بل دیکھ کر دل کا دورہ پڑنے اور خودکشی کے واقعات عام ہوگئے ہیں، خاص کر سندھ، جنوبی و وسطی پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے چھوٹے بڑے شہروں اور اب اسلام آباد میں بھی لوگ مظاہرے کر رہے ہیں تو دوسری طرف حکمرانوں کو مفت کی بڑی بڑی گاڑیاں کئی ارب روپے کا پٹرول مفت اور بجلی اورگیس مفت نوکر، چاکر اور غیر ممالک میں سرکاری خرچ پر علاج سینیٹ کے چیئرمین وائس چیئرمین سابق اور موجودہ کو تاحیات مراعات کا پیکیج اسی طرح قومی اسمبلی سمیت صوبائی اسمبلی کے وزیروں، مشیروں اور ممبران کی بے پناہ مراعات اورکرپشن کی کہانیاں بھری پڑی ہیں۔
سندھ میں کرپشن، جنوبی اور شمالی پنجاب میں کرپشن، کے پی کے میں کرپشن، بلوچستان میں کرپشن ہر شہر اور ہر ادارے میں کرپشن اور اب تو ہماری چھوٹی بڑی عدالتوں میں بھی کرپشن اور ناانصافی کی خبریں آ رہی ہیں ایسا لگتا ہے کہ شاید انارکی پھیل کر افراتفری میں کہیں کوئی انقلابی صورتحال نہ پھیل جائے۔
آئے روز ہنگامے ہو رہے ہیں، ملک خانہ جنگی کی طرف جاتا ہوا نظر آ رہا ہے، کبھی ہم طالب علم اور مزدور مل کر انقلاب کا نعرہ لگاتے رہتے تھے اور آج کل بڑے بڑے لکھاری، قلم کار صحافی اپنی تحریروں اور اپنے کالموں میں انقلاب بلکہ جماعت اسلامی کے مولانا سراج الحق بھی اپنی تقریروں میں ایک خونی انقلاب کی باتیں کر رہے ہیں۔
ہمارے حکمرانوں کو سوچنا ہوگا اگر ملک بھر میں اسی طرح مہنگائی بڑھتی رہی آٹا، چینی، گھی، تیل، پٹرول اور گیس سمیت بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہا، خودکشیاں، ڈکیتیاں اور قتل و غارت ہوتی رہی تو حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے۔
تو غیرت کا تقاضا ہے مراعات یافتہ طبقے کی مفت کی بجلی، بڑی گاڑیاں، غیر ملکی دورے اور لمبے پروٹوکول اور غیر ممالک میں علاج کروانے کے علاوہ دولت کی ریل پیل کو چھوڑ کر عوام کے حال پر رحم کرتے یہ مفت کا سسٹم بند کردیں، ورنہ کسی انقلاب کا انتظارکریں۔ ہم تو انقلاب کا نعرہ لگا لگا کر خالد علیگ کی طرح تھک گئے ہیں۔ خالد علیگ کے دو شعر پڑھیں۔
دیوار بن کے ظلم کے آگے اڑے گا کون
ارباب جہل و جبر کے پیچھے پڑے گا کون
میں اپنی جنگ لڑ بھی چکا ہار بھی چکا
اب میرے بعد میری لڑائی لڑے گا کون
میرے ہم عصر اور سینئرز، سیاسی رہنما، ترقی پسند دانشور، شاعروادیب، اور صحافی کب سے ایسا منظر دیکھ رہے ہیں اور ہر دور میں ظلم و ناانصافی کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے لکھ لکھ کر تھک چکے ہیں مگر حالات نہیں بدلے۔
کراچی سے ٹرین میں جاتے ہوئے لانڈھی کے بعد جمعہ گوٹھ، بن قاسم، اسٹیل ملز، دھابیجی، رن پٹھانی، جنگ شاہی، جھمپیر اورکوٹری تک زمین پھیلی ہوئی ہے اور خالی و غیر آباد ہے، مگر یہ زمین بے زمین کسانوں کو نہیں دی جا رہی ہے۔ شکر ہے کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اعلان کیا ہے کہ ہم دھابیجی میں انڈسٹریل زون بنائیں گے،کارخانوں اور فیکٹریوں کا جال بچھا دیں گے۔
یہ ایک اچھا اقدام ہے اسی طرح بنجر پڑی ہوئی سرکاری زمین بھی مقامی لوگوں کو دے کرگندم، چاول، کاٹن اور سبزیاں اگا کر زمین کو زیرکاشت لایا جائے تو ایک اور اچھا فیصلہ ہوگا۔ گزشتہ دنوں مجھے ٹھٹھہ، سجاول روڈ کے راستے سے بدین جانے کا اتفاق ہوا۔ بڑا زرخیز علاقہ تھا اور ہم تین گھنٹے کی مسافت کے بعد بدین پہنچ گئے۔
بدین اب مکمل بڑا شہر بن چکا ہے، میں 1971-72 سے تقریباً ہر ماہ بدین براستہ حیدرآباد تا بدین بس یا ویگن کے ذریعہ آتا جاتا رہتا تھا، اس دور میں بدین ایک چھوٹا شہر تھا،کافی سیاست دان اور ترقی پسند رہنما اور صحافی ہوا کرتے تھے لیکن اب وہ شہر بڑا کاروباری علاقہ بن چکا ہے۔ ہمارے ایک دوست مقصود میمن طاہرانی بھی بدین سے ہمارے ساتھ چل پڑے اور پرانے شہرکے ساتھ ساتھ نئے شہرکو بھی دیکھتے رہے۔
اتفاق سے بدین میں ہمارے ایک ساتھی نے بتایا کہ کراچی سے گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی ایک دو رکنی ٹیم راشن تقسیم کرنے والی اسٹاف کمیٹی کے رکن اسد علی اور عابد یوسف بدین سے آگے کسی گاؤں میں امدادی راشن تقسیم کرنے کے سلسلے میں وہاں جا رہے ہیں، وہ مجھے جانتے تھے اور میں بھی انھیں جانتا تھا سو ان کو فون کیا میرا بیٹا اور مقصود طاہرانی میمن بھی ہمارے ساتھ مل کر اس گاؤں کی طرف روانہ ہوئے اور سارے راستے میں فصلیں، درخت، چاول اورگنے کے کھیت تھے، ٹوٹی پھوٹی سڑک پر دوگاڑیاں جا رہی تھیں میں نے عابد یوسف اور اسد علی سے پوچھا کہ آپ وہاں کیوں جا رہے ہیں اور وہ گاؤں کتنی دور ہے؟
معلوم کرنے پر ان کا کہنا تھا کہ سید امداد علی شاہ اور سید آزاد علی شاہ اس گاؤں سے گورنرکامران ٹیسوری سے ملنے اور کچھ امدادی سامان یا راشن وغیرہ لینے کے لیے گزشتہ ماہ کراچی آئے تھے اور اپنے گاؤں کے حالات، بارش اور سیلاب سے ان کے 140 گھر بڑے متاثر ہوئے ہیں، آپ ہماری مدد کریں۔ سو انھیں راشن کے 400 پیکٹ دے کر روانہ کر دیا تھا۔ انھوں نے شکریہ کے ساتھ یہ بھی عرض کردیا تھا کہ آپ یا آپ کی کوئی ٹیم ہمارے بدین سے 15 یا 20 کلومیٹرکے قریب ہمارے گاؤں کا دورہ کریں اور ہمارے حالات کو دیکھ لیں۔
سو ہم اس لیے آئے ہیں کہ ہم خود جا کر وہاں دیکھ لیں اچھا ہوا کہ آپ بھی ہمارے ساتھ چل پڑیں سو ہم بھی ان کے ساتھ روانہ ہوگئے، اورکوئی ایک گھنٹے کے بعد ہم ان کے گاؤں یا ولیج سعید باقری پہنچ گئے۔ شام کے ساڑھے چار بجے تھے اور دورکچھ لوگ کھڑے ہوئے نظر آئے، سڑک پر ایک موٹر سائیکل پر ایک نوجوان ہمارا منتظر تھا جو ہمیں کچی سڑک سے گاؤں تک لے گیا۔ وہ منظر دیکھنے کے قابل تھا جہاں لگ بھگ 100 کے قریب خواتین، مرد و بچے ہمارے استقبال کے لیے موجود تھے۔
اسٹاف کمیٹی ٹیم وہاں رک گئی۔ میں نے وہ منظر بہت کم کم دیکھا ہے شاید تھر یا عمر کوٹ میں دیکھا ہوگا اور غربت بھی قریب سے دیکھی بچوں کے پیروں میں چپل یا جوتے نہیں تھے اور شاید کچھ خواتین کے بھی پیروں میں کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ خیر وہاں تھوڑی دیر تک ایک چھوٹی سی میٹنگ یا جلسہ ہوا اور انھوں نے بتایا کہ یہ گاؤں، بارش اور سیلاب کی وجہ سے تقریباً ڈوبا ہوا تھا ہماری کسی نے کوئی مدد نہیں کی جب کہ ہم بدین سے صرف 20 کلومیٹر دور ہیں اورکراچی سے چارگھنٹے کے فاصلے پر رہتے ہیں۔
میں نے ان سے پوچھا کہ اس علاقے کا ایم این اے اور ایم پی اے کون ہے، کہنے لگے ذوالفقار مرزا کا یہ علاقہ ہے اور محترمہ فہمیدہ مرزا ایم این اے اور ان کا بیٹا ثقلین مرزا ایم پی اے ہے وہ یہاں کبھی نہیں آئے یہاں کل 104 گھر ہیں اور آبادی صرف 350 افراد پر مشتمل ہے۔ خیر ٹیم نے معائنہ کیا اور ان کے مسائل سنے اور وعدہ کیا کہ جلد ہی یہاں کی رپورٹ گورنر سندھ تک پہنچائیں گے اور آپ کے راشن کا بھی بندوبست کریں گے۔ شام ساڑھے سات بجے ہم وہاں سے کراچی کے لیے روانہ ہوگئے۔
خیر یہ تو بدین کے ایک گاؤں کا قصہ ہے لیکن میرے پورے ملک کے حالات ہم روزانہ اخبارات اور ٹی وی چینلز پر دیکھتے رہتے ہیں اور اپنے غریب اور خستہ حال ہاری، مزدور،کسان سمیت لوئر مڈل کلاس کی حالت کیا ہو رہی ہے، آئے روز روزانہ استعمال کی اشیا، آٹا، چینی، دال، دودھ، دہی، تیل اورگھی کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اس وقت پورے ملک میں بجلی کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ،گیس کی بندش اور آئے روز جلسے جلوس کے ساتھ غربت کی وجہ سے خودکشیاں اور بجلی کا بل دیکھ کر دل کا دورہ پڑنے اور خودکشی کے واقعات عام ہوگئے ہیں، خاص کر سندھ، جنوبی و وسطی پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے چھوٹے بڑے شہروں اور اب اسلام آباد میں بھی لوگ مظاہرے کر رہے ہیں تو دوسری طرف حکمرانوں کو مفت کی بڑی بڑی گاڑیاں کئی ارب روپے کا پٹرول مفت اور بجلی اورگیس مفت نوکر، چاکر اور غیر ممالک میں سرکاری خرچ پر علاج سینیٹ کے چیئرمین وائس چیئرمین سابق اور موجودہ کو تاحیات مراعات کا پیکیج اسی طرح قومی اسمبلی سمیت صوبائی اسمبلی کے وزیروں، مشیروں اور ممبران کی بے پناہ مراعات اورکرپشن کی کہانیاں بھری پڑی ہیں۔
سندھ میں کرپشن، جنوبی اور شمالی پنجاب میں کرپشن، کے پی کے میں کرپشن، بلوچستان میں کرپشن ہر شہر اور ہر ادارے میں کرپشن اور اب تو ہماری چھوٹی بڑی عدالتوں میں بھی کرپشن اور ناانصافی کی خبریں آ رہی ہیں ایسا لگتا ہے کہ شاید انارکی پھیل کر افراتفری میں کہیں کوئی انقلابی صورتحال نہ پھیل جائے۔
آئے روز ہنگامے ہو رہے ہیں، ملک خانہ جنگی کی طرف جاتا ہوا نظر آ رہا ہے، کبھی ہم طالب علم اور مزدور مل کر انقلاب کا نعرہ لگاتے رہتے تھے اور آج کل بڑے بڑے لکھاری، قلم کار صحافی اپنی تحریروں اور اپنے کالموں میں انقلاب بلکہ جماعت اسلامی کے مولانا سراج الحق بھی اپنی تقریروں میں ایک خونی انقلاب کی باتیں کر رہے ہیں۔
ہمارے حکمرانوں کو سوچنا ہوگا اگر ملک بھر میں اسی طرح مہنگائی بڑھتی رہی آٹا، چینی، گھی، تیل، پٹرول اور گیس سمیت بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہا، خودکشیاں، ڈکیتیاں اور قتل و غارت ہوتی رہی تو حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے۔
تو غیرت کا تقاضا ہے مراعات یافتہ طبقے کی مفت کی بجلی، بڑی گاڑیاں، غیر ملکی دورے اور لمبے پروٹوکول اور غیر ممالک میں علاج کروانے کے علاوہ دولت کی ریل پیل کو چھوڑ کر عوام کے حال پر رحم کرتے یہ مفت کا سسٹم بند کردیں، ورنہ کسی انقلاب کا انتظارکریں۔ ہم تو انقلاب کا نعرہ لگا لگا کر خالد علیگ کی طرح تھک گئے ہیں۔ خالد علیگ کے دو شعر پڑھیں۔
دیوار بن کے ظلم کے آگے اڑے گا کون
ارباب جہل و جبر کے پیچھے پڑے گا کون
میں اپنی جنگ لڑ بھی چکا ہار بھی چکا
اب میرے بعد میری لڑائی لڑے گا کون