اپنے عصر کی سچائیوں کا شاعر اعتبار ساجد
میرے نزدیک محبت وہ پاکیزہ پھول ہے جس کی خوشبو بانٹنے سے بھی کم نہیں ہوتی
محبت کیا ہے؟ کسی کو اپنے قیمتی وقت سے چند لمحے دے دینا، کسی کی بات سن لینا، کسی کی آنکھ سے آنسوئوں کو چن لینا، کسی کے زخموں پر نرم لہجے میں مرہم رکھ دینا،کسی غریب، مجبورکو عزت کا احساس دینا، بنا کسی رشتے بنا کسی تعلق کے احساس کرنا بس یہی محبت ہے ! میرے نزدیک محبت وہ پاکیزہ پھول ہے جس کی خوشبو بانٹنے سے بھی کم نہیں ہوتی۔
ایسی ہی محبت کے پاکیزہ پھول بانٹنے والی ہستی اعتبارؔ ساجد جن کا شمار ہمارے عہد کے اُن ممتاز شعرا میں ہوتا ہیں جن کا دل و جان سے احترام کیا جاتا ہے۔ اعتبارؔ ساجد نئے خیال ، نئی فکر کے شاعر ہے، جو اپنی شاعری میں ہمیں حسرت موہانی کے بقول کبھی عاشقی کا وہ زمانہ یاد دلانے، احمد فراز کی طرح بچھڑنے والوں کا خوابوں میں پتہ دینے، حسن رضوی کی صورت میں کتابوں میں پھول رکھنے، درختوں پہ نام لکھنے، تو کبھی محسن نقوی کی طرح آوارگی میں حد سے گزرنے کا مشورہ دینے، تو کبھی سلیم کوثر کے '' میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے'' تو کبھی امجد اسلام امجد کے خوبصورت تخیل کی مانند '' تو سمندر ہے میں ساحلوں کی ہوا'' اور کبھی کلیم عثمانی کی '' رات پھیلی ہے ترے سرمئی آنچل کی طرح'' اعتبار ساجد بھی اپنی رومانوی شاعری میں اپنے منفرد رومانوی شعری اسلوب سے ایسے گلاب کھلاتے ہیں جن کی خوشبو سے فضا معطر ہو جاتی ہے اور یہی خوشبو ہمارے سانس لینے پر ہمارے دل کی دھڑکنوں کو سکوں میسر کرتی ہے۔ وہ گئے دنوں کی شناسائیوں، پرچھائیوں، بہار کی رعنائیوں اور اپنے عصر کی سچائیوں کے شاعر ہیں۔
مری زبان و قلم میں کوئی تضاد نہیں
میں اپنے عصر کی سچائیوں کا شاعر ہوں
اعتبار ساجد کی شاعری کا بنیادی موضوع ''محبت'' ہے اور یہی وہ جذبہ ہے جس سے ان کی زندگی اور شاعری کا سفر کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ اس محبت کی طویل مسافت میں وہ کہی بھی تھکن اور کٹھن کا شکار نہیں نظر آتے۔ کیونکہ محبت کی مسافت میں مسافر کے پلٹنے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا، اس سفر کے لیے وہ اپنی ساری کشتیاں جلا دیتے ہیں، ساحل پر پلٹنا بھی چاہیں تو واپس آ نہیں سکتے۔
ایسے میں ان کی طبیعت پر بارشوں کے موسم میں کڑی دھوپ میں جھلستے ہوئے کبھی کبھی پھوار جیسے نرم ٹھنڈے ، میٹھے لہجے خوشگوار سی کیفیت طاری کر دیتے ہیں۔ یہی لب و لہجہ اعتبار ساجد کی شاعری کا بھی ہے۔ وہ محبتوں کے نرم و نازک احساسات اور خیالات کو ریشم جیسے لفظوں سے گوندھتے ہیں، انھی الفاظ کو دوسروں کی روح سے رشتہ اس شعر کی مانند استوار کر دیتے ہیں۔
تجھ سے لفظوں کا نہیں روح کا رشتہ ہے مرا
تو مری سانس میں تحلیل ہے خوشبو کی طرح
''محبت'' میں احساس کو برتنے میں خود شاعر کا کیا حال ہوتا ہے، کتنے کانٹوں کی سیج پر سوتا ہے، وہ کتنے زخم سہتا ہے اور یہی زخمی لہجہ کہیں جا کر پھوار بنتا ہے۔ یقینا اعتبار ساجد بھی شعر کہنے کے ان مراحل سے کئی بار گزرے ہیں۔ آج بھی وہ جب کہی محبت کا نام لیتے ہیں تو ان کے نزدیک پہلی محبت کے بہت سے قرض باقی ہیں، پہلی مسافت کی تھکن سے چور ہیں پائوں، ابھی پُرانے زخم تازہ ہیں مگر پھر بھی بہت سے افسردہ چہرے زندگی کے ہر موڑ پر ان سے محبت مانگنے کا تقاضا کرتے ہیں۔
تمہارے بعد آنے والے افسردہ چہرے
ہنسی آتی ہے جب ہم سے محبت مانگتے ہیں
مقبول شاعر اعتبار ساجد کے حوالے سے گزشتہ دنوں بزمِ انجم رومانی کے یومِ تاسیس کے موقع پر ایک خوبصورت اور باوقار شام اعتبار ساجد کا انعقاد الحمراء ادبی بیٹھک میں کیا گیا۔ جس کی صدارت خانوادئہ بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان کے چشم و چراغ ایڈیٹر ماہنامہ '' الحمراء'' نے کی، جب کہ مہمانانِ خصوصی میں جدید لب و لہجے کے معروف شاعر نذیر قیصر جن کی سیر حاصل گفتگو نے سامعین کو تا دیر اپنی طرف متوجہ رکھا، پروفیسر گلزار بخاری فالج کی بیماری میں مبتلا ہونے کے باوجود بھی تقریب میں شریک ہوئے اور اعتبار ساجد کی ادبی خدمات کو خوب سراہا۔ راشد محمود فلمی دنیا کا ایک بڑا نام جنھوں نے اس شام کو اپنی گفتگو سے بہت یادگار بنا دیا۔
اس تقریب میں دیگر مہمانانِ خصوصی میں پروفیسر حسن عسکری کاظمی اور اصغر ندیم سید اپنی نجی مصروفیات کے باعث نہ شریک ہو سکے، جب کہ مہمانانِ اعزاز میں محترمہ عابدہ قیصر، محترمہ نرگس ناہید اور صدام ساگر شامل تھے۔ اس محفل کی خاص بات یہ تھی کہ دور دراز کے شہروں سے بھی متعدد شعرا و شاعرات کی کثیر تعداد نے شرکت کی اور بزم کے اختتام تک اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔
اس شام میں کسی نے بھی اپنا کلام نہیں سنایا صرف صاحبِ شام کے حوالے سے گفتگو کی۔ جن میں بطورِ خاص ممتاز راشد لاہوری، فاطمہ غزل، ڈاکٹر پونم نورین، شوکت علی ناز، شہزاد بیگ، نجمہ شاہین، اسد علی رانا، ساجد حسین ساجد، پروفیسر آصف ہاشمی اور شبنم مرزا کے علاوہ بے شمار محبت کرنے والے حضرات و خواتین نے اعتبار ساجد کی خوب پذیرائی کی۔ صاحبِ شام نے اپنی گفتگو میں سب کو یادِ ماضی کی کچھ یادیں تازہ کرتے ہوئے غمگین کر دیا۔ ممتاز راشد لاہوری کی فرمائش پر ان کی باب کے حوالے سے لکھی غزل سے دو شعر سنائے گئے۔
رہا، پا برہنہ وہ خود مگر، نیا بوٹ مجھ کو دلا دیا
مرے باپ کے اسی روپ نے مجھے باپ جیسا بنا دیا
کبھی سردیوں میں ہوا چلی تو ٹھٹھرتی رات کو فرش پر
مرا باپ چپکے سے سوگیا، مجھے اپنا کھیس اُوڑھا دیا
بزمِ انجم رومانی کی بنیاد 18 اگست 2015 ء کو رکھی گئی، جس کے زیر اہتمام منعقد تقاریب میں ممتاز علمی ،ادبی، صحافتی اور فلمی شخصیات کو نجم ادب ایوارڈ سے نوازا جاتا ہے، جو ہر ماہ کسی ایک شخصیت کو دیا جاتا ہے جب کہ ہر سال 35 شخصیات کو انجم رومانی حسن کارکردگی ایوارڈ بھی دیا جاتا ہے۔ اس سال بھی ممتاز شاعر اعتبار ساجد کی ادبی خدمات کے اعتراف میں نجم ادب ایوارڈ دیا گیا۔
اس تقریب میں نذیر قیصر کو ادبی خدمات پر حکومت پاکستان سے پرائیڈ آف پرفارمنس ملنے پر مبارکباد دیتے ہوئے جدید لب و لہجے کے خوبصورت شاعر آفتاب خان نے کہا کہ میری حکومت پاکستان سے گزارش ہے کہ آنے والے سال میں اعتبار ساجد کی ادبی خدمات پر پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا جائے۔
اس تقریب میں معروف شاعر اقبال راہی علیل ہونے کی وجہ سے نہ آ سکے لیکن ان کے منظوم خراجِ عقیدت کو اسپیکر کی مدد سے سامعین میں پیش کیا گیا۔ فراست بخاری کی نظم بھی قابلِ ستائش تھی۔ اس تقریب کی نظامت ڈاکٹر ایم ابرار نے بہت خوش اسلوبی سے نبھائی۔ ان کا ایک خوبصورت خیال:
کہانی کو چلانے کے لیے بس
مرا اک ثانوی کردار بھی تھا
المختصر اعتبار ساجد اپنے اندازِ سخن اور اسلوب بیان کے لحاظ سے ایسے باکمال شاعر ہیں، جن کا مزاج عاشقانہ ہے۔ ان کے چاہنے والے آج کے سوشل میڈیا کے دور میں بھی بہت زیادہ ہیں۔ جو نہ صرف ان سے محبت کرتے ہیں بلکہ ان کی کتابوں کو بھی ذوق وشوق کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ محبت کے اس شاعر کی آج بھی کتابیں فٹ پاتھ کے بجائے بک شیلف اور تکیے کے نیچے رکھی جاتی ہیں۔ آخر میں ان کے شہرۂ آفاق شعری مجموعہ '' مجھے کوئی شام اُدھار دو'' میں سے دو اشعار ملاحظہ کیجیے۔
تمہیں جب کبھی ملیں فرصتیں، مرے دل سے بوجھ اُتار دو
میں بہت دنوں سے اُداس ہوں مجھے کوئی شام اُدھار دو
کسی اور کو مرے حال سے نہ غرض ہے کوئی نہ واسطہ
میں بکھر گیا ہوں سمیٹ لو، میں بگڑ گیا ہوں سنوار دو