چندریان اور پاکستان
سرکار کے نام پر ایک ایسے کھلے خزانے کا مذاق عام ہوگیا جس میں جس کا بس چلا منہ ڈالا اور نگل لیا
کچھ برس پہلے کی ہی بات ہے کہ جب سنا گیا کہ بھارت چاند پر جانے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ 2019 میں وہاں کے خلائی ادارے نے ایسی مہم انجام تو دی لیکن وہ ناکام ہوگئی کیونکہ چاند پر ان کا راکٹ اترنے کے کچھ دیر بعد ہی اس کا رابطہ ٹوٹ گیا تھا۔
اب بھارت نے اس کے مطابق اپنی روبوٹک گاڑی کو جس کا نام چندریان تھری ہے چاند کے جنوبی قطبی علاقے میں جو تاریک اور سرد علاقہ ہے اور ابھی تک اس کے بارے میں معلومات محدود ہیں اتارنے کا ارادہ کیا اور عمل بھی کر لیا۔ اس عمل میں تقریباً ساڑھے سات کروڑ ڈالرز خرچ ہوئے جو نسبتاً دوسرے ممالک کے مقابلے میں جو اس پورے عمل میں خرچ ہوئے ہیں کم ہیں۔
بھارت پہلا ایشیائی ملک ہے جس نے یہ سائنسی معرکہ سر کیا اس سے قبل امریکا، روس اور چین یہ کارنامہ انجام دے چکے ہیں۔ابھی تک چاند کی زمین پر کیا کیا قیمتی ذخائر پائے گئے ہیں آکسیجن، ہائیڈروجن کے بارے میں بھی تحقیق ہو رہی ہے ۔ اس سے پہلے وہ مریخ پر بھی منگل یان نامی خلائی جہاز بھیج چکا ہے جو 2014 سے مریخ کے گرد چکرکاٹ رہا ہے۔ اس تمام سائنسی کارنامے کو '' الف '' سے لے کر '' ی'' تک میں چیک کریں تو ایک عام ناظر کو کیا دکھائی دیتا ہے۔ یہ ایک اہم نقطہ ہے۔
بھارت میں یقیناً اندرونی اور بیرونی خلفشار جاری ہیں ابھی حال ہی میں منی پور میں سلگتی آگ بھڑک کر عیاں ہوگئی، چین سے اسے ازلی بیر ہے اور وجہ لداخ کا وہ علاقہ ہے جس پر چین اپنا حق جتاتا ہے۔ سیاسی حوالے سے ایک الگ یلغار ہے جو مسلسل جاری ہے۔ بہت معمولی سی مثال گیس کے سلنڈر کی لے لیں جس کی قیمت دہلی میں آسمان کو چھو رہی ہے جب کہ دیگر علاقوں میں دیکھ لیں کیونکہ دہلی میں حکومت کرنے والے دوسرے ہیں، عام آدمی پارٹی ہو یا کانگریس، مودی سرکار اور ان کی پارٹی بی جے پی کی سب سے ٹھن کر چلتی رہی ہے اور ابھی بھی جاری ہے۔
مسلمانوں کے ساتھ بھارت میں کس قسم کا سلوک برتا جا رہا ہے۔ اس کا مظاہرہ ہم سوشل میڈیا پر دیکھتے رہتے ہیں کہ کس طرح ان کی عمارتیں مسمار کی جا رہی ہیں۔ احمقانہ پالیسز اور آرٹیکل لگا کر ان کے وجود کو نشانہ بنایا جا رہا ہے لیکن بات کسی بھی حد تک رکی نہیں مسلسل رواں ہے۔ اس کے بعد مسیحی اور سکھ برادری کا نمبر آتا ہے لیکن ان کی گاڑی لشٹم پشٹم پھر بھی سفر پر جاری ہے۔
کشمیر میں جو کچھ کیا گیا وہ ماضی کی کہانیاں نہیں بلکہ حال کے بھی دکھی باب ہیں یہاں تک کہ دنیائے عالم میں بھی اس کا بگل بجتا رہتا ہے لیکن نہیں پھر بھی مگرمچھ کی کھال اوڑھے کبھی سست اور کبھی تیز قدم اٹھ ہی رہے ہیں۔
ایسا ہرگز نہیں ہے کہ بھارت میں عدلیہ سو فیصد درست اور انصاف کے تقاضے پورے کرتی جا رہی ہے اگر ایسا ہوتا تو ایک بہت سی چھوٹی سی مثال سوشانت بھارتی نوجوان اداکار کا قتل ہے جسے خودکشی کا رنگ دے کر خون کا بہاؤ کسی اور طرف کردیا گیا کیونکہ مرنے والے کا تعلق بنیادی طور پر بہار سے تھا۔ ابھی بھی ایسی کئی چھوٹی بڑی مثالیں ہیں جو بنا کسی تفریق کے ثبوت پیش کرتی رہتی ہیں کہ بھارت میں بھی مرتبے، نسل، روپے اور پارٹی کا سکہ چلتا ہے لہٰذا قانونی تقاضے بھی شکوک کے بندھن میں الجھے ہوئے ہیں۔
وہ کون سی ایسی طاقت ہے، وہ کون سا ایسا جذبہ ہے جو آگ سے دہکتے بھارت کو بھی آگے ترقی کی جانب بڑھا رہا ہے، جہاں آئی ٹی نے جدت طرازیوں کے جھنڈے ایسے گاڑھے کہ گوگل کو بھی ذرا پیچھے ہٹنا پڑا۔ کہا جا رہاہے کہ بھارت نے جتنے سرمائے سے چندریان کو چاند پر بھیجا اس سے کہیں زیادہ سرمائے سے تو ایک سائنس فکشن فلم بنتی ہے، خود امریکا کے چاند پر انسان کو اتارنے کے مشن پر 93 ارب ڈالر لاگت آئی تھی یہ ایک بہت بڑا فرق ہے۔
ظاہر ہے کہ بھارت کے اتنے کم سرمائے کی شہرت مغربی خلائی پروگراموں کے ماہرین اور کرتا دھرتا کے لیے ایک دشوار کن باب بن کر سوال اٹھا رہا ہے کہ جب ایک ایشیائی ملک اپنے کم سائنسی وسائل کے باوجود چاند پر جا سکتا ہے تو مغرب نے اتنے پیسے پھونک کر کون سا کارنامہ انجام دے ڈالا۔ بھارت نے یہ تو کر ڈالا ہے یا نہیں ابھی اس بارے میں اٹھنے والے شکوک و شبہات کو ایک جانب کرتے ہوئے چند اہم باتوں کی جانب توجہ مبذول کرتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ کم خرچ اور بالا نشیں یہاں کیسے؟
اب آتے ہیں پاکستان کی جانب جو بھارت سے ایک دن پہلے، اب جو بھی تاریخوں کا مسئلہ تھا اس سے درکنار آزاد ہو چکا تھا۔ مسائل پاکستان میں بھارت کے مقابلے میں یقینا بہت تھے اور ہیں لیکن ماضی کے دریچوں میں جھانک کر دیکھیے تمام تر مسائل کے باوجود پاکستان کا سائنسی حوالہ تحقیقات مضبوط تھیں، ڈاکٹر عبدالسلام اور ڈاکٹر عبدالقدیر یقینا مصائب کا شکار رہے لیکن ان کے حوالے سے پاکستان کا بیک گراؤنڈ معمولی نہ تھا لیکن اس کے بعد سرکتے سرکتے پاکستان اب کس کھائی کا شکار بننے چلا ہے۔
''میں آپ کو مصروف عمل ہونے کی تاکید کرتا ہوں۔ کام کام اور بس کام۔ سکون کی خاطر، صبر و برداشت کے ساتھ اپنی قوم کی سچی خدمت کرتے جائیں۔''قائد اعظم نے تو ہمیں بہت کچھ سکھانے کی کوشش کی تھی لیکن ہم راستہ بھٹک گئے، ہماری ترجیحات میں پیسہ اولین نمبر پر آگیا۔ میں، میری فیملی، میری خواہشات۔ ہم تو بس ان میں ہی گھر کر رہ گئے۔
سرکار کے نام پر ایک ایسے کھلے خزانے کا مذاق عام ہوگیا جس میں جس کا بس چلا منہ ڈالا اور نگل لیا۔ کاش کہ ہم پڑوس کی اس ترقی کی اسپرٹ کی وجہ جان لیں جو ہم سمجھ تو سکتے ہیں پر مانتے نہیں۔ کیونکہ ہمارے حلق میں بہت کچھ اٹکتا ہے۔
اب بھارت نے اس کے مطابق اپنی روبوٹک گاڑی کو جس کا نام چندریان تھری ہے چاند کے جنوبی قطبی علاقے میں جو تاریک اور سرد علاقہ ہے اور ابھی تک اس کے بارے میں معلومات محدود ہیں اتارنے کا ارادہ کیا اور عمل بھی کر لیا۔ اس عمل میں تقریباً ساڑھے سات کروڑ ڈالرز خرچ ہوئے جو نسبتاً دوسرے ممالک کے مقابلے میں جو اس پورے عمل میں خرچ ہوئے ہیں کم ہیں۔
بھارت پہلا ایشیائی ملک ہے جس نے یہ سائنسی معرکہ سر کیا اس سے قبل امریکا، روس اور چین یہ کارنامہ انجام دے چکے ہیں۔ابھی تک چاند کی زمین پر کیا کیا قیمتی ذخائر پائے گئے ہیں آکسیجن، ہائیڈروجن کے بارے میں بھی تحقیق ہو رہی ہے ۔ اس سے پہلے وہ مریخ پر بھی منگل یان نامی خلائی جہاز بھیج چکا ہے جو 2014 سے مریخ کے گرد چکرکاٹ رہا ہے۔ اس تمام سائنسی کارنامے کو '' الف '' سے لے کر '' ی'' تک میں چیک کریں تو ایک عام ناظر کو کیا دکھائی دیتا ہے۔ یہ ایک اہم نقطہ ہے۔
بھارت میں یقیناً اندرونی اور بیرونی خلفشار جاری ہیں ابھی حال ہی میں منی پور میں سلگتی آگ بھڑک کر عیاں ہوگئی، چین سے اسے ازلی بیر ہے اور وجہ لداخ کا وہ علاقہ ہے جس پر چین اپنا حق جتاتا ہے۔ سیاسی حوالے سے ایک الگ یلغار ہے جو مسلسل جاری ہے۔ بہت معمولی سی مثال گیس کے سلنڈر کی لے لیں جس کی قیمت دہلی میں آسمان کو چھو رہی ہے جب کہ دیگر علاقوں میں دیکھ لیں کیونکہ دہلی میں حکومت کرنے والے دوسرے ہیں، عام آدمی پارٹی ہو یا کانگریس، مودی سرکار اور ان کی پارٹی بی جے پی کی سب سے ٹھن کر چلتی رہی ہے اور ابھی بھی جاری ہے۔
مسلمانوں کے ساتھ بھارت میں کس قسم کا سلوک برتا جا رہا ہے۔ اس کا مظاہرہ ہم سوشل میڈیا پر دیکھتے رہتے ہیں کہ کس طرح ان کی عمارتیں مسمار کی جا رہی ہیں۔ احمقانہ پالیسز اور آرٹیکل لگا کر ان کے وجود کو نشانہ بنایا جا رہا ہے لیکن بات کسی بھی حد تک رکی نہیں مسلسل رواں ہے۔ اس کے بعد مسیحی اور سکھ برادری کا نمبر آتا ہے لیکن ان کی گاڑی لشٹم پشٹم پھر بھی سفر پر جاری ہے۔
کشمیر میں جو کچھ کیا گیا وہ ماضی کی کہانیاں نہیں بلکہ حال کے بھی دکھی باب ہیں یہاں تک کہ دنیائے عالم میں بھی اس کا بگل بجتا رہتا ہے لیکن نہیں پھر بھی مگرمچھ کی کھال اوڑھے کبھی سست اور کبھی تیز قدم اٹھ ہی رہے ہیں۔
ایسا ہرگز نہیں ہے کہ بھارت میں عدلیہ سو فیصد درست اور انصاف کے تقاضے پورے کرتی جا رہی ہے اگر ایسا ہوتا تو ایک بہت سی چھوٹی سی مثال سوشانت بھارتی نوجوان اداکار کا قتل ہے جسے خودکشی کا رنگ دے کر خون کا بہاؤ کسی اور طرف کردیا گیا کیونکہ مرنے والے کا تعلق بنیادی طور پر بہار سے تھا۔ ابھی بھی ایسی کئی چھوٹی بڑی مثالیں ہیں جو بنا کسی تفریق کے ثبوت پیش کرتی رہتی ہیں کہ بھارت میں بھی مرتبے، نسل، روپے اور پارٹی کا سکہ چلتا ہے لہٰذا قانونی تقاضے بھی شکوک کے بندھن میں الجھے ہوئے ہیں۔
وہ کون سی ایسی طاقت ہے، وہ کون سا ایسا جذبہ ہے جو آگ سے دہکتے بھارت کو بھی آگے ترقی کی جانب بڑھا رہا ہے، جہاں آئی ٹی نے جدت طرازیوں کے جھنڈے ایسے گاڑھے کہ گوگل کو بھی ذرا پیچھے ہٹنا پڑا۔ کہا جا رہاہے کہ بھارت نے جتنے سرمائے سے چندریان کو چاند پر بھیجا اس سے کہیں زیادہ سرمائے سے تو ایک سائنس فکشن فلم بنتی ہے، خود امریکا کے چاند پر انسان کو اتارنے کے مشن پر 93 ارب ڈالر لاگت آئی تھی یہ ایک بہت بڑا فرق ہے۔
ظاہر ہے کہ بھارت کے اتنے کم سرمائے کی شہرت مغربی خلائی پروگراموں کے ماہرین اور کرتا دھرتا کے لیے ایک دشوار کن باب بن کر سوال اٹھا رہا ہے کہ جب ایک ایشیائی ملک اپنے کم سائنسی وسائل کے باوجود چاند پر جا سکتا ہے تو مغرب نے اتنے پیسے پھونک کر کون سا کارنامہ انجام دے ڈالا۔ بھارت نے یہ تو کر ڈالا ہے یا نہیں ابھی اس بارے میں اٹھنے والے شکوک و شبہات کو ایک جانب کرتے ہوئے چند اہم باتوں کی جانب توجہ مبذول کرتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ کم خرچ اور بالا نشیں یہاں کیسے؟
اب آتے ہیں پاکستان کی جانب جو بھارت سے ایک دن پہلے، اب جو بھی تاریخوں کا مسئلہ تھا اس سے درکنار آزاد ہو چکا تھا۔ مسائل پاکستان میں بھارت کے مقابلے میں یقینا بہت تھے اور ہیں لیکن ماضی کے دریچوں میں جھانک کر دیکھیے تمام تر مسائل کے باوجود پاکستان کا سائنسی حوالہ تحقیقات مضبوط تھیں، ڈاکٹر عبدالسلام اور ڈاکٹر عبدالقدیر یقینا مصائب کا شکار رہے لیکن ان کے حوالے سے پاکستان کا بیک گراؤنڈ معمولی نہ تھا لیکن اس کے بعد سرکتے سرکتے پاکستان اب کس کھائی کا شکار بننے چلا ہے۔
''میں آپ کو مصروف عمل ہونے کی تاکید کرتا ہوں۔ کام کام اور بس کام۔ سکون کی خاطر، صبر و برداشت کے ساتھ اپنی قوم کی سچی خدمت کرتے جائیں۔''قائد اعظم نے تو ہمیں بہت کچھ سکھانے کی کوشش کی تھی لیکن ہم راستہ بھٹک گئے، ہماری ترجیحات میں پیسہ اولین نمبر پر آگیا۔ میں، میری فیملی، میری خواہشات۔ ہم تو بس ان میں ہی گھر کر رہ گئے۔
سرکار کے نام پر ایک ایسے کھلے خزانے کا مذاق عام ہوگیا جس میں جس کا بس چلا منہ ڈالا اور نگل لیا۔ کاش کہ ہم پڑوس کی اس ترقی کی اسپرٹ کی وجہ جان لیں جو ہم سمجھ تو سکتے ہیں پر مانتے نہیں۔ کیونکہ ہمارے حلق میں بہت کچھ اٹکتا ہے۔