اخلاق احمد کے جیتے جاگتے افسانے

اخلاق احمد ماحول سازی، کردار نگاری پر بھرپور توجہ دیتے ہیں، منظر نگاری پر انھیں ملکہ حاصل ہے

nasim.anjum27@gmail.com

ممتاز و معتبر افسانہ نگار اخلاق احمد کسی تعارف کے محتاج ہرگز نہیں ہیں بلکہ صحافت اور افسانہ نگاری کے اعتبار سے انھیں خصوصی حیثیت اور اہمیت حاصل ہے۔

علم و ادب انھیں ورثے میں ملا ہے ان کے والد ماجد شمیم نعمانی کا شعر و سخن کے گلستان میں بلند مرتبہ ہے، وہ اردو اور فارسی کے شاعر تھے، ان کی غزلیہ شاعری ہندوستان میں نیاز فتح پوری نے 1940 کے عشرے میں اپنے پرچے نگار میں شایع کرنا شروع کی تھی۔ اپنے مضمون ''میری باتیں'' کے عنوان سے اخلاق احمد نے اپنی ذاتیات کے حوالے سے بہت سی باتوں کے در وا کیے ہیں۔ .

مذکورہ مضمون ان کے دونوں افسانوں کے مجموعوں '' ابھی کچھ دیر باقی ہے، جانے پہچانے'' میں شامل ہے، راست گوئی ان کی تحریرکا خاصہ ہے، افسانہ نگارکے والد کا انتقال اس وقت ہوا جب وہ اٹھارہ سال کے تھے، والد کی وفات کے بعد (بقول ان کے) بے وسیلہ، بے سائباں لڑکا تھا جس کے پاس دو بڑے بھائی اور ماں کے سوا کوئی اور نہ تھا جسے احساس ہو گیا تھا بہت سے کڑے امتحان اس کی راہ دیکھ رہے ہیں۔

اخلاق احمد نے لکھنے کی ابتدا نوعمری میں کی تھی اور افسانے کے بارے میں ایک سادہ سی تعریف بھی اسی عمر میں پڑھی تھی کہ '' ایک اچھا افسانہ وہ ہوتا ہے جسے ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں پڑھ لیا جائے اور عمر بھر یاد رکھا جائے۔''

ان کے دونوں مضامین سے اس بات کا تو مجھے اندازہ نہیں ہوسکا کہ اخلاق احمد نے پہلے کہانی کی تخلیق کی تھی یا انگریزی سے ایک مختصرکہانی کا ترجمہ کیا تھا۔ افسانوی مجموعے جانے پہچانے کا پیش لفظ بہت سی ادبی باتوں اور ادبی سفرکی پہلی منزل سے نہ صرف یہ کہ آگاہ کرتا ہے بلکہ کئی اہم شخصیات کا تذکرہ بھی مصنف نے کیا ہے جن کی محبت اور حوصلہ افزائی نے ادب وصحافت کی کٹھن راہوں کو آسان بنا دیا۔

سن 1975 تھا جب اخلاق احمد نے ''سب رنگ'' ڈائجسٹ کے مدیر جناب شکیل عادل زادہ کو اپنی ترجمہ شدہ کہانی اشاعت کے لیے دی تھی اور خلاف توقع وہ کہانی سب رنگ کے اگلے ہی شمارے میں شایع ہوگئی، بس پھر کیا تھا، دیس دیس کی کہانیاں پڑھنے کے مواقع میسر آئے بلکہ تراجم بھی کیے اور شکیل عادل زادہ نے شکیل بھائی بن کر ہاتھ تھام لیا۔

صحافت کی کہانی کی ابتدا کچھ اس طرح ہے کہ ایک شام جی تھری ویگن میں دوران سفر نثار احمد زبیری سے ملاقات ہوگئی، نثار احمد زبیری نے سرسری طور پر انھیں ملازمت کی پیشکش کچھ اس طرح کی کہ وہ اگر چاہیں تو ان کے ادارے میں سب ایڈیٹرکے طور پر کام کرسکتے ہیں۔ اخلاق احمد کہتے ہیں یہی وہ دس منٹ تھے جو آگے چل کر صحافتی زندگی کے اٹھائیس برسوں پر محیط ہوگئے۔ میری زندگی ایسے ہی اتفاقات کے سہارے چلتی رہی ہے۔


مصنف نے اپنے قارئین کو اس حقیقت سے بھی آشکارا کیا ہے کہ انھوں نے ان لوگوں کو ہمیشہ رشک کی نگاہ سے دیکھا ہے جو ایک حکمت عملی کے تحت آگے بڑھ کر بالآخر اپنی منزل پا لیتے ہیں، وہ ایسی صفات سے محروم ہی رہے۔ افسانہ نگاری کے کوچے میں مرحوم اظہر جاوید کے اصرار پر قدم رکھا اور ماہنامہ ''تخلیق'' کے لیے انھوں نے افسانے لکھوائے۔ مجموعے کی اشاعت بھی اظہر جاوید کے حصے میں آئی کہ انھوں نے خلوص دل کے ساتھ بہترین مشوروں سے نوازا۔

ایک موقع پر مستنصر حسین تارڑ نے بھی اخلاق احمد کے لیے لکھا ہے کہ ''یہ جو اخلاق احمد ہے، یہ عجیب افسانہ نگار ہے، اسے گمنام رہنے کا خبط ہے۔'' اخلاق احمد ایک مقبول ہفت روزہ میں بھی اعلیٰ عہدے پر فائز رہے، کہتے ہیں نام کا اثر شخصیت پر ضرور پڑتا ہے، اخلاق اچھا بھی ہوتا ہے اور برا بھی، لیکن اخلاق احمد پر بہترین اخلاق نے رنگ جمایا۔ انھوں نے کم لکھا، لیکن بہت اچھا اور جم کر لکھا، وہ شہرت کے بھی طالب نہیں رہے لیکن شہرت نے ان کا پیچھا ضرور کیا ہے۔

اخلاق احمد چار افسانوں کے مجموعوں کے مصنف ہیں۔ '' جانے پہچانے ان کا چوتھا مجموعہ ہے جب کہ '' ابھی کچھ دیر باقی ہے'' اور '' ہم کہ خود تماشائی'' کتابوں کی میں قاری رہی ہوں۔ان کے افسانوں کی خوبی ایک بھرپورکہانی ہے جو افسانے کے خول میں پھسکڑ مار کر بیٹھتی جاتی ہے، چلتی ہے، اپنا ہر روپ دکھا کر قاری کو لبھاتی ہے، مصنف کو کہانیاں لکھنے سے عشق ہے، ان کی نگاہ گہری اور دل حساس ہے اور دماغ کہانی کے تانے بانے بن کر افسانے کے خوبصورت اور دلکش پیکر میں ڈھال دیتا ہے۔

اخلاق احمد آسمان سے چاند تارے توڑ کر نہیں لاتے ہیں اور نہ معاشرے کے بدنما کرداروں اور خون کے سچے جھوٹے رشتوں کی تلاش میں قریہ قریہ، کوچہ کوچہ سرگرداں رہتے ہیں اور نہ ہی ان کے دماغ کی اختراع یہ افسانے ہیں، ان کے افسانوں کے زندہ، جاگتے کردار ہمارے ارد گرد میں ہی بستے ہیں، اسی دنیا کے باسی ہیں، ان کے افسانے لکھنے کا ڈھنگ دوسروں سے مختلف ہے، وہ لوگوں کے باطن میں اتر کر ان کی نفسیات کو سمجھ کر قلم اٹھاتے ہیں ان کے افسانوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ اگر کرب محسوس کرتے ہیں تو اسی غم، محرومی اور دکھ کو کرداروں کے قالب میں بے حد خوبصورتی اور فنی مہارت کے ساتھ اس انداز میں ڈھالتے ہیں کہ قاری کی نگاہوں کے سامنے کردار بے باکی اور جرأت کے ساتھ سامنے آ جاتے ہیں ان کے افسانے زندہ جاوید ہو کر اپنے آپ کو منوانے کی صلاحیت بہ خوبی رکھتے ہیں۔

عرصہ گزرا جب میں نے اخلاق احمد کے کئی افسانے پڑھے لیکن جب کتاب پر خامہ فرسائی کی تو ذہن ''مارٹن کوارٹرز کا ماسٹر'' کی طرف چلا گیا۔ کمال افسانہ ہے، افسانہ نگار نے اس بات کو بہ خوبی ثابت کر دیا ہے کہ عقل و شعور کا پیمانہ وہ تعلیم یافتہ لوگ ہرگز نہیں ہوتے ہیں جنھیں ہم عرف عام میں ڈگری یافتہ کہتے ہیں بلکہ وہ لوگ بھی دانش و بینش، دور اندیشی، حکمت عملی سے آشنا ہوتے ہیں جوکم تعلیم یافتہ یا نرے جاہل ہیں جس کی چھوٹی سی مثال یوں سمجھ لیجیے کہ آج بڑے سے بڑا سیٹھ یا کامیاب مجرم جس نے اسکول کی شکل تک نہیں دیکھی لیکن ایسی الجھی ہوئی گتھیاں سلجھا دیتا ہے جسے پڑھا لکھا انسان سوچنے اور غور و فکر کرنے میں ہی بہت سا وقت ضایع کر دیتا ہے چونکہ تعلیم یافتہ انسان بنا سوچے سمجھے کوئی کام کرنے کو تیار نہیں ہے اور یہی اس کا فہم و ادراک ہے۔

بات کہاں سے کہاں چلی گئی تو اخلاق احمد کے افسانے کا ''ماسٹر'' عقل کی ایسی ایسی دلیلیں لاتا ہے کہ اس کے بچپن کا دوست منظر عش عش کر اٹھتا ہے، اور اپنی بیٹی کا جو مسئلہ لے کر وہ حاضر ہوا تھا وہ تقریباً سلجھتا ہوا محسوس ہوتا ہے، لیکن المیہ یہ ہوا کہ وہی مسئلہ جس کے حل کے لیے وہ افلاطون اور ارسطو کو بھی اپنے پیچھے چلنے پر مجبور کرنے کی کوشش میں تھا، وہی ذہنی کرب اس کے دل و دماغ میں اتر گیا ہے، اس کی بیٹی رانی کی پسند کی شادی اور پھر پھندا لگی لاش نے پورے گھر کو جیتے جی قبر میں اتار دیا اور منظر تو سچ مچ ایک گہرے دکھ کے ساتھ ہمیشہ کے لیے دنیا چھوڑگیا، منظر گو اپر ڈویژن کلرک کی ملازمت کر رہا تھا، لیکن مصنف نے زبان و بیان اور پسماندہ علاقوں کے ماحول کی عکاسی کر کے حقیقت نگار ہونے کا ثبوت فراہم کر دیا ہے۔

اخلاق احمد کے دو اور افسانوں کو ضابطہ تحریر میں لانے کے لیے قلم بے چین ہے۔ ایک کا عنوان ہے ''بھائی صاحب'' اور دوسرے کا ''اچھے ماموں کا چائے خانہ''۔ ''بھائی صاحب'' رشتے ناتوں، خصوصاً بڑے بھائی صاحب کے رعب و دبدبے اور احکام صادر کرنا، چھوٹے بھائی ارشد کے خوف کے گرد یہ کہانی گھومتی ہے۔ بڑے بھائی کے خوف و ہراس نے اس سے اس کا اعتماد چھین لیا تھا اور قوت گویائی پر بھی اثر پڑا تھا لیکن افسانے کے اختتام پر قاری اس حقیقت کو جان لیتا ہے کہ بھائی صاحب کے دل میں اس کے لیے قدر اور محبت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا تھا یہ ایک بہترین افسانہ ہے۔ اثر انگیز مکالموں پر افسانہ اختتام کو پہنچتا ہے ۔ ''اچھے ماموں کا چائے خانہ'' مصنف نے کرداروں کی جبلت، فطرت اور محبت کے انمٹ نقوش کو صفحہ قرطاس پر ثبت کر دیا ہے۔

اخلاق احمد ماحول سازی، کردار نگاری پر بھرپور توجہ دیتے ہیں، منظر نگاری پر انھیں ملکہ حاصل ہے۔ بہت خوبصورت افسانوں کے تخلیق کار اخلاق احمد کو بقول ڈاکٹر سلیم احمد کے '' مبارکاں'' پیش کرتی ہوں۔
Load Next Story