لوگوں کے زخموں پر نمک مت چھڑکیں
اگر ریاستی نظام عام یا کمزور آدمی کے مفادات کا تحفظ کرے تو ملک میں استحکام رہتا ہے
آج کا مقدمہ عام اور کمزور آدمی ہے ۔ محروم طبقات جو بنیادی سہولتوںسے محروم ہوتے ہیں، ان کی واحد امید ریاست اور اس کے ادارے ہوتے ہیں۔ عام لوگوں کو دو طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اول دگرگوں معاشی حالات ، دوئم ریاستی و حکومتی اداروں کی بے حسی اور انصاف سے محرومی۔ یوں ان کے دکھوں اور مسائل میںاضافہ ہوتا رہتا ہے ۔عام آدمی کی بڑی امید ریاست اورحکومت ہوتی ہے۔
اگر ریاستی نظام عام یا کمزور آدمی کے مفادات کا تحفظ کرے تو ملک میں استحکام رہتا ہے۔ انڈسٹری فروغ پا تی ہے ، نئے روزگا ر پیدا ہوتے ہیں ۔مسئلہ مہنگائی کا نہیں ہے ، مسلہ آمدنی اور کمائی کا ہے۔ لوگوں کے روز مرہ اور ماہانہ اخراجات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جب کہ آمدنی میں اضافہ نہیں ہورہا ہے ۔یہ ہی وہ نقطہ ہے جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔
اس وقت بجلی ، گیس کے بل ہوں یا پٹرول و ڈیزل کی قیمتیں ہوں یا آٹا، چینی، گھی ، دالیں، چاول ، دودھ ، دہی یا ادویات کی قیمتیں ہوں یا تعلیم و صحت کے اخراجات، ان عوامل نے عام آدمی کو تو چھوڑیں ، اپر مڈل کلاس، مڈل کلاس اورلوئر مڈل کلاس یا سفید پوش طبقات کو ہینڈ ٹو ماؤتھ کردیا ہے ۔ ادھر ریاستی رٹ اوپر سے لے کر نیچے تک کمزور ہوئی ہے ، سسٹم کو آئین اور قانون کے مطابق نہیں چلایا جارہا بلکہ طاقتور اور خوشحال طبقے سسٹم کو اپنے ماتحت بنائے ہوئے ہیں ۔
طاقت ور طبقات ریاستی نظام کی مدد سے شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں، ہماری طاقت ور اشرافیہ اپنے قومی جرائم ،کرپشن و بدعنوانی میں لتھڑی ہوئی ہے ۔ عوام کو چوبیس گھنٹے سادگی ، عاجزی ، انکساری اورقناعت پسندی کے درس دیے جاتے ہیں ۔ یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ عوام کے ساتھ جو برا ہورہا ہے، یہ ان کی بد اعمالیوں کا نتیجہ ہے ، اس لیے جو بھی یہ حالات ہیں اس پر صبر و شکر کریں ، اللہ سے بہتری کی دعا کریں ، وہ حالات کو بدلے گا ۔یعنی ہمارا حکمران طبقہ یا ریاستی نظام خود کچھ کرنے کے لیے قابل نہیں ہے یا کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔ عام لوگوں کو انتہاپسندی کا اسیر کیا جارہا ہے جو معاشرے میں نفرتوں کو مزید اشتعال انگیزی کی طرف لے جاتا ہے ۔
جن حالات سے ہم گزررہے ہیں اس کا کوئی تو ذمے دار ہے ۔ مافیا کس کا گریبان پکڑا جائے ؟ کیونکہ حالات کی کوئی ذمے داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں، الٹا عوام کو قصور وار ٹھہرایا جارہا ہے، ان کے ہی زخموں پر نمک چھڑکا جارہا ہے، ریاستی پالیسیوں ، قانون سازی اور مختلف عالمی معاہدے کرکے قوم پر عذاب ڈالا گیا ہے ، جن طاقت ور طبقات نے بے تحاشا مال کمایا ہے، وہ کیسے قانون کے شکنجے میں آئیں گے ؟ یہ تو کوئی جواب نہیں ہے کہ '' ہم نے کوئی بدعنوانی ،کرپشن یا بے ضابطگی نہیں کی ہے''۔
اگر کسی نہیں کچھ نہیں کیا تو پھر یہ سب کچھ کون کرتا رہا ہے اور آج تک کررہا ہے ؟۔ یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ لوٹ مار کرنے والا طبقہ ہی اس ملک کا اصل حکمران ہے یا ان حکمرانوں کا مافیاز کے ساتھ گٹھ جوڑ ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ ہم کیسے اس دلدل سے باہر نکل سکیں گے ؟جب ہماری فیصلہ سازی کا مرکزی نقطہ کمزور طبقوں کے حالات کو بہتری میں تبدیل کرنا نہیں ہوگا تو حالات کی بہتری کیسے ممکن ہوسکے گی۔
مسئلہ ہماری قومی سیاست اور ریاستی نظام سے جڑا ہوا ہے جو عوام دشمنی کی بنیاد پر کھڑا ہے جہاں عام آدمی کے مقابلے میں طاقت ور اشرافیہ کے مفادات کی اہمیت زیادہ ہے ۔ریاستی نظام میں اصلاحاتی کردار سیاسی جماعتیں ادا کرتی ہیں۔لیکن سیاسی و جمہوری نظام کی ناکامی یا کمزوری نے ہمیں اور زیادہ بے بسی یا لاچارگی میں ڈال دیا ہے ۔سب سے بڑا بحران نئی نسل کا ہے جس کے پاس امیدکا پہلو کمزور نظر آتا ہے او ران میں ریاستی نظام کے بارے میں لاتعلقی کا احساس بڑھ رہا ہے ۔
لوگوں کو جذباتیت پر مبنی نعرے یا سیاسی تسلیاں یا صبر جیسے لفظوں سے نہ بہلائیں ۔ لوگوں کو عملی زندگی میں سیاسی اشرافیہ سے عملی سطح پر فوری طور پر بڑے اقدامات درکار ہیں۔ ان اقدامات میں ایک ایسا خاکہ ہو جو لوگوں کو ان کی زندگیوں میں ریلیف دے سکے اور لوگوں کا ریاست پر اعتماد مضبوط ہوسکے۔ جب ہم اصلاحات اور قانون و جمہوریت کے فریم ورک میں رہتے ہوئے قومی مسائل کا حل کو یقینی نہیں بنائیں گے تو اس کے نتیجے میں انتشار، محاز آرائی اور ٹکراو کی سیاست سمیت نفرت یا لاتعلقی کی سیاست مضبوط ہوتی ہے جو کسی بھی طور پر ریاست کے مفاد میں نہیں ہوتا۔
عمومی طور پر اب ہمیں جو لوگ روزانہ کی بنیاد پر ملتے ہیں تو ان کا ایک ہی ہم سے مطالبہ ہوتا ہے کہ آپ عوامی مسائل پر لکھیں او ربولیں او رہم جس اذیت سے زندگی گزار رہے اس پر طاقت ور طبقہ کو جھنجھوڑیں کہ وہ معاملات کو بند گلی میں لے کر نہ جائیں او رکچھ ایسا کریں جو ہمارے مفاد میں ہو۔سیاست دانوں او ر سیاسی جماعتوں سمیت اسٹیبلیشمنٹ کوبھی موجودہ حالات سے سبق سیکھنا ہوگا او ردیکھنا ہوگا کہ ان کی پالیسیوں اور حکمت عملیوں نے قوم کو کہاں لا کر کھڑا کردیا ہے ۔
اول دگرگوں معاشی حالات ، دوئم ریاستی و حکومتی اداروں کی بے حسی اور انصاف سے محرومی۔ یوں ان کے دکھوں اور مسائل میںاضافہ ہوتا رہتا ہے ۔عام آدمی کی بڑی امید ریاست اورحکومت ہوتی ہے۔
اگر ریاستی نظام عام یا کمزور آدمی کے مفادات کا تحفظ کرے تو ملک میں استحکام رہتا ہے۔ انڈسٹری فروغ پا تی ہے ، نئے روزگا ر پیدا ہوتے ہیں ۔مسئلہ مہنگائی کا نہیں ہے ، مسلہ آمدنی اور کمائی کا ہے۔ لوگوں کے روز مرہ اور ماہانہ اخراجات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جب کہ آمدنی میں اضافہ نہیں ہورہا ہے ۔یہ ہی وہ نقطہ ہے جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔
اس وقت بجلی ، گیس کے بل ہوں یا پٹرول و ڈیزل کی قیمتیں ہوں یا آٹا، چینی، گھی ، دالیں، چاول ، دودھ ، دہی یا ادویات کی قیمتیں ہوں یا تعلیم و صحت کے اخراجات، ان عوامل نے عام آدمی کو تو چھوڑیں ، اپر مڈل کلاس، مڈل کلاس اورلوئر مڈل کلاس یا سفید پوش طبقات کو ہینڈ ٹو ماؤتھ کردیا ہے ۔ ادھر ریاستی رٹ اوپر سے لے کر نیچے تک کمزور ہوئی ہے ، سسٹم کو آئین اور قانون کے مطابق نہیں چلایا جارہا بلکہ طاقتور اور خوشحال طبقے سسٹم کو اپنے ماتحت بنائے ہوئے ہیں ۔
طاقت ور طبقات ریاستی نظام کی مدد سے شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں، ہماری طاقت ور اشرافیہ اپنے قومی جرائم ،کرپشن و بدعنوانی میں لتھڑی ہوئی ہے ۔ عوام کو چوبیس گھنٹے سادگی ، عاجزی ، انکساری اورقناعت پسندی کے درس دیے جاتے ہیں ۔ یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ عوام کے ساتھ جو برا ہورہا ہے، یہ ان کی بد اعمالیوں کا نتیجہ ہے ، اس لیے جو بھی یہ حالات ہیں اس پر صبر و شکر کریں ، اللہ سے بہتری کی دعا کریں ، وہ حالات کو بدلے گا ۔یعنی ہمارا حکمران طبقہ یا ریاستی نظام خود کچھ کرنے کے لیے قابل نہیں ہے یا کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔ عام لوگوں کو انتہاپسندی کا اسیر کیا جارہا ہے جو معاشرے میں نفرتوں کو مزید اشتعال انگیزی کی طرف لے جاتا ہے ۔
جن حالات سے ہم گزررہے ہیں اس کا کوئی تو ذمے دار ہے ۔ مافیا کس کا گریبان پکڑا جائے ؟ کیونکہ حالات کی کوئی ذمے داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں، الٹا عوام کو قصور وار ٹھہرایا جارہا ہے، ان کے ہی زخموں پر نمک چھڑکا جارہا ہے، ریاستی پالیسیوں ، قانون سازی اور مختلف عالمی معاہدے کرکے قوم پر عذاب ڈالا گیا ہے ، جن طاقت ور طبقات نے بے تحاشا مال کمایا ہے، وہ کیسے قانون کے شکنجے میں آئیں گے ؟ یہ تو کوئی جواب نہیں ہے کہ '' ہم نے کوئی بدعنوانی ،کرپشن یا بے ضابطگی نہیں کی ہے''۔
اگر کسی نہیں کچھ نہیں کیا تو پھر یہ سب کچھ کون کرتا رہا ہے اور آج تک کررہا ہے ؟۔ یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ لوٹ مار کرنے والا طبقہ ہی اس ملک کا اصل حکمران ہے یا ان حکمرانوں کا مافیاز کے ساتھ گٹھ جوڑ ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ ہم کیسے اس دلدل سے باہر نکل سکیں گے ؟جب ہماری فیصلہ سازی کا مرکزی نقطہ کمزور طبقوں کے حالات کو بہتری میں تبدیل کرنا نہیں ہوگا تو حالات کی بہتری کیسے ممکن ہوسکے گی۔
مسئلہ ہماری قومی سیاست اور ریاستی نظام سے جڑا ہوا ہے جو عوام دشمنی کی بنیاد پر کھڑا ہے جہاں عام آدمی کے مقابلے میں طاقت ور اشرافیہ کے مفادات کی اہمیت زیادہ ہے ۔ریاستی نظام میں اصلاحاتی کردار سیاسی جماعتیں ادا کرتی ہیں۔لیکن سیاسی و جمہوری نظام کی ناکامی یا کمزوری نے ہمیں اور زیادہ بے بسی یا لاچارگی میں ڈال دیا ہے ۔سب سے بڑا بحران نئی نسل کا ہے جس کے پاس امیدکا پہلو کمزور نظر آتا ہے او ران میں ریاستی نظام کے بارے میں لاتعلقی کا احساس بڑھ رہا ہے ۔
لوگوں کو جذباتیت پر مبنی نعرے یا سیاسی تسلیاں یا صبر جیسے لفظوں سے نہ بہلائیں ۔ لوگوں کو عملی زندگی میں سیاسی اشرافیہ سے عملی سطح پر فوری طور پر بڑے اقدامات درکار ہیں۔ ان اقدامات میں ایک ایسا خاکہ ہو جو لوگوں کو ان کی زندگیوں میں ریلیف دے سکے اور لوگوں کا ریاست پر اعتماد مضبوط ہوسکے۔ جب ہم اصلاحات اور قانون و جمہوریت کے فریم ورک میں رہتے ہوئے قومی مسائل کا حل کو یقینی نہیں بنائیں گے تو اس کے نتیجے میں انتشار، محاز آرائی اور ٹکراو کی سیاست سمیت نفرت یا لاتعلقی کی سیاست مضبوط ہوتی ہے جو کسی بھی طور پر ریاست کے مفاد میں نہیں ہوتا۔
عمومی طور پر اب ہمیں جو لوگ روزانہ کی بنیاد پر ملتے ہیں تو ان کا ایک ہی ہم سے مطالبہ ہوتا ہے کہ آپ عوامی مسائل پر لکھیں او ربولیں او رہم جس اذیت سے زندگی گزار رہے اس پر طاقت ور طبقہ کو جھنجھوڑیں کہ وہ معاملات کو بند گلی میں لے کر نہ جائیں او رکچھ ایسا کریں جو ہمارے مفاد میں ہو۔سیاست دانوں او ر سیاسی جماعتوں سمیت اسٹیبلیشمنٹ کوبھی موجودہ حالات سے سبق سیکھنا ہوگا او ردیکھنا ہوگا کہ ان کی پالیسیوں اور حکمت عملیوں نے قوم کو کہاں لا کر کھڑا کردیا ہے ۔