پاکستان کا مسئلہ
سب سے بہترین کاروبار ہے سیاست ! ہمارے سندھ میں یہ کاروبار پیر، گدی نشین اور وڈیرے کرتے ہیں
پی ٹی آئی کی حکومت سے قبل ہی میں نے اپنے کالم کے ذریعے بارہا یہ بتانے کی کوشش کی کہ مت کیجیے سیاسی انجینیئرنگ،کہیں ایسا نہ ہوکہ افراطِ زر اس مملکت کی جڑوں میں بیٹھ جائے، وینز یلا کی مانند۔ ہوگو شاویز کی وفات کے بعد وینزیلا میں سیاسی بحران نے خانہ جنگی کی صورت اختیارکی اور آخرِ کار وننزیلا معاشی طو ر پر تباہ ہوا۔
بات یہ بھی نہ تھی کہ پاکستان کی باگ ڈور خان صاحب کو دی گئی، بات پس پردہ اس سوچ کی ہے کہ کچھ بھی ہوجائے، اقتدار عوام کے حقیقی نمایندگان کے سپرد نہیں کرنا۔ یہی وہ تخریب ہے جو قیام پاکستان سے لے کر اب تک جاری ہے۔ قیام پاکستان کے وقت بھی مسلم لیگ ایک کمزور سیاسی جماعت تھی اور جن علاقوں پر پاکستان بنا، وہاں تو مسلم لیگ تھی ہی نہیں۔
آغاز میں ہی مشرقی پاکستان سے مسلم لیگ کا خاتمہ ہوگیا ، یہ کسی مخالف نے نہیں بلکہ خود مسلم لیگ نے کیا۔ شیرِ بنگال فضل حق نے حسین شہید سہروردی کا پتا صاف کیا ،1953 کے ریاستی انتخابات میں مسلم لیگ کو شکست ہوئی۔یوں مشرقی پاکستان سے مسلم لیگ کا خاتمہ ہوا۔ مغربی پاکستان میں ایوب کھوڑو کو نکالا گیا ، ون یونٹ بنایا گیا مگر حالات درست نہیں ہوئے۔
مسلم لیگ کی کمزور سیاسی قیادت پر پہلے سول افسر شاہی نے غلبہ حاصل کیا اور پھر جنرل ایوب خان براہ راست ہی اقتدارکی کرسی پر آن بیٹھے۔ یوں امریکا کو سوویت یونین کے خلاف اسٹرٹیجک پارٹنر مل گیا۔ خارجہ پالیسی کی جو ترجیحات لیاقت علی خان طے کرنے امریکا کی یاترا پر گئے تھے بلآخر آٹھ سال کے بعد ایوب خان کے دور میں وہ طے پا گئیں اور ان پر عملدرآمد بھی شروع ہوگیا۔یہی وجہ ہے کہ جب جنرل ایوب خان امریکا کے دورہ پر گئے تو ان کا شاندار اور تاریخی استقبال کیا گیا جس کی مثال شاید اب تک پاکستان کے سیاسی سفر میں نہیں۔
اس وقت سیاسی بحران شاید آج کے سیاسی بحران سے شدید تھا مگر جمہوری سیاسی قیادت اس وقت مالی کرپشن میں ملوث نہ تھی ۔ نہ شیخ مجیب، نہ بھٹو۔ جنرل ایوب خان فیملی اور ان کے رفقاء جرنیلوں نے بڑی بڑی سرکاری جائیدادیں مفت میں ہتھیائیں۔ اس سیاسی بحران نے بلآخر سانحہ مشرقی پاکستان کی صورت اختیار کی، ملک دو ٹکڑے ہوا۔ کیونکہ اس زمانے کی اسٹبلشمنٹ بھی چاہتی تھی کہ کسی طرح بنگالیوں سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔
اس بحران سے صرف ایک خیر کا پہلو نکلا ، وہ یہ کہ پاکستان کو ایک جامع و تحریری آئین نصیب ہوا اور آج پاکستان کا وجود اسی آئین کے دم سے ہے، جو بحران اس ملک میں ہیں وہ بھی اسی آئین کی نافرمانیوں کی وجہ سے ہیں۔ جنرل ضیاء نے سیاست میں مذہب کو متعارف کر کے انتہا پرستی کا بیج بویا۔ امریکا اور سابق سوویت یونین کے درمیان افغانستان بفرزون جب کہ پاکستان فرنٹ لائن ریاست تھا۔ امریکا نے سوویت یونین اور سوشلزم کو شکست دینے کے لیے افغانستان کو بفرزون سے نکال کرکے اسے سرد جنگ کے آخری راؤنڈ کا میدان جنگ بنا دیا ہے۔
عرب ممالک، شمالی افریقہ سے مجاہدین کو امپورٹ کیا، انھیں افغان مجاہدین کا بھائی بنایا ۔ نئے مجاہدین تیاری اور ٹریننگ کے لیے افغانستان اور پاکستان میں مخصوص دینی مدرسوں کا نیٹ ورک قائم کیاگیا، جمہوریت پسند سیاسی قیادت کو راستے سے ہٹا دیا گیا،پہلے قائد اعظم کو راستے سے ہٹایا ، پھر ڈاکٹر خان صاحب صوبہ سرحد کے اقتدار سے بے دخل کیا گیا۔
لیاقت علی خان قتل ہوئے، خان آف قلات اور ان کے جانشینوں کو پھانسی پر چڑھایا گیا ، حیات شیر پاؤ کو قتل کرایا گیا ،ذوالفقار علی بھٹوکی پھانسی چڑھایا گیا۔ پھر بے نظیر کی باری آئی، خوش قسمتی سے نواز شریف بچ گئے لیکن جلاوطنی پھر بھی جاری ہے۔
ہمارے سیاستدانوں کے حساب سے ملک کی ترقی یہ ہے کہ موٹر ویز اورایئرپورٹ بنائے جائیں، سڑکوں پر امپورٹڈ بسیں چلائی جائیں۔ لیکن بنگلہ دیش کا ترقی ماڈل ہم سے مختلف ہے۔ ہم نے بڑے پروجیکٹس پر کام کیا مگر انھوں نے لوگوں پر سرمایہ کاری کی، انھیں پڑھایا اور ہنر بانٹا۔ اسکول و اسپتال بنوائے۔ سستی بجلی اور ٹرانسپورٹ پر توجہ دی، بیوروکریسی،عدلیہ، فوج اور پارلیمنٹیرینز کی بے جا مراعات اور صوابدیدی اختیارات کا خاتمہ کیا، ٹیکس اصلاحات کیں، روزگار کے مواقعے پیدا کیے۔شرح پیدائش میں کمی لانے کے لیے نتیجہ خیز اقدامات کیے۔
زرِمبادلہ انسانی وسائل کماتے ہیں۔ انفرااسٹرکچر انسانی وسائل استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان دنیا میں شرح پیدائش اور بچوں میں ناخواندگی کے حوالے سے پہلے نمبروں میں ہے۔ سرکاری اسکولوں کی عمارتیں خستہ حال ، اساتذہ غائب اور سرکاری اسپتالوں سے ڈاکٹر اور دوائیاں غائب۔ آج پاکستان میں سب سے بڑا کاروبار اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیوں اور اسپتالوں کا ہے۔
سب سے بہترین کاروبار ہے سیاست ! ہمارے سندھ میں یہ کاروبار پیر، گدی نشین اور وڈیرے کرتے ہیں۔ خیبر پختو نخوا میں سیاست کا کاروبار بارڈر ٹریڈ کرنیوالے کرتے ہیں۔ اسلحہ ، جعلی کرنسی، جعلی سگریٹ، گاڑیوں کی اسمگلنگ بھی کمائی کے دھندے ہیں۔ بلوچستان اسمگلنگ کا گڑھ بن چکا ہے۔ بلوچستان میں جمہوری طریقوں سے حکومت کا آنا، ممکن ہی نہیں رہا ہے۔
یہ ملک کاروباری اشرافیہ اور ریاستی شرفاء کے مفادات کا ملک ہے۔ سندھ میں ایک مخصوص طبقہ ہے جو ستر سالوں سے اقتدارکی کرسیوں پر براجمان ہے اور اب ان کے مفادات کی سب سے بڑی ترجمان پیپلز پارٹی ہے۔ اقتدارکی کرسیوں پر بیٹھے ان شرفاء میں کوئی میرٹ پر نہیں ہے۔ ان پر تو وہ مثال صادر آتی ہے کہ ''Behind every fortune there is crime '' ان سب نے انگریزوں سے رعایتیں لی ہیں، سر، نواب اور خان بہادر کے خطابات لیے ہیں، قیام پاکستان کے بعد یہ طبقہ بیوروکریسی ، عدلیہ اور جرنیلوں کے ساتھ شیر وشکر ہوگیا۔
آخر میں یہ سب عمران کے پیچھے آئے اور ہماری معیشت کو تباہ و برباد کردیا۔ ایسی تباہی جس نے ماضی کے ریکارڈ توڑ دیے۔یہ ملک اس وقت قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔ شہباز شریف کی خامی یہ ہے کہ وہ ''اسٹیٹس کو''کا آدمی ہے۔ وزیر ِاعظم بننے کے بعد ان کا ایک سال تو عمران کی بغاوت یا خانہ جنگی کے بحران کا سامنا کرنے میں ہی چلا گیا، دوسری جانب ایک ایسے عدالتی اسٹیبلشمنٹ عمران خان کی کھلم کھلا حمایت میں کھڑی ہوگئی۔
اسٹبلشمنٹ بٹی ہوئی نظر آئی اور پھر نو مئی کا واقعہ پیش آیا۔ہم نے ایک ایسے وقت میں چین سے باہمی تعلقات بڑھائے، جب امریکا اور چین کے درمیان سرد جنگ شروع ہوچکی تھی۔ امریکا نے ہندوستان سے قریب ہوچکا تھا اور یہاں عمران خان کی پیٹھ تھپکانے والے زلمے خلیل زاد جیسے CIA کے لوگ کام کر رہے تھے۔
ہمیں سی پیک میں آنے کا خمیازہ بھی بھگتنا ہوگا اور اس سے الگ ہونے کا بھی۔ لیکن پھر بھی امیدکی کرن باقی ہے، یہ ملک ان بحرانوں سے نکل سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا موڑ ہے جہاں سے ایک بھرپور سیاسی قیادت جس کی جڑیں عوام میں پیوستہ ہوں، جنم لے گی۔ یہ معیشت جو اس وقت گماشتہ سرمایہ داروں، ٹھیکیداروں، ذخیرہ اندوز، بلڈرمافیا، آٹا و چینی مافیا، تیل، منشیات اور اسلحہ بیچنے والی مافیا ا ور ان کے جیسی تمام مافیائوں کے چنگل سے نکلے گی۔
پاکستان کی اشرافیہ ہی پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ یہ اشرافیہ ارتقا اورمیرٹ کے اصول پر امیر نہیں ہوئی بلکہ ریاست کا خون چوس کر بغیر محنت کے امیر ہوئی ہے۔ عمران خان چند لوگوں کا پروجیکٹ تھا۔ یہ ایک غلط سوچ ہے کہ حکمران اور سیاستدان کرپٹ ہیں بلکہ یہ بیانیہ اس لیے دیا گیا کہ ان کو اقتدار سے دور رکھا جائے۔
یہ سخن جو ہم نے رقم کیے، یہ ہیں سب ورق تیری یاد کے
کوئی لمحہ صبحِ وصال کا، کوئی شامِ ہجرکی مدتیں
بات یہ بھی نہ تھی کہ پاکستان کی باگ ڈور خان صاحب کو دی گئی، بات پس پردہ اس سوچ کی ہے کہ کچھ بھی ہوجائے، اقتدار عوام کے حقیقی نمایندگان کے سپرد نہیں کرنا۔ یہی وہ تخریب ہے جو قیام پاکستان سے لے کر اب تک جاری ہے۔ قیام پاکستان کے وقت بھی مسلم لیگ ایک کمزور سیاسی جماعت تھی اور جن علاقوں پر پاکستان بنا، وہاں تو مسلم لیگ تھی ہی نہیں۔
آغاز میں ہی مشرقی پاکستان سے مسلم لیگ کا خاتمہ ہوگیا ، یہ کسی مخالف نے نہیں بلکہ خود مسلم لیگ نے کیا۔ شیرِ بنگال فضل حق نے حسین شہید سہروردی کا پتا صاف کیا ،1953 کے ریاستی انتخابات میں مسلم لیگ کو شکست ہوئی۔یوں مشرقی پاکستان سے مسلم لیگ کا خاتمہ ہوا۔ مغربی پاکستان میں ایوب کھوڑو کو نکالا گیا ، ون یونٹ بنایا گیا مگر حالات درست نہیں ہوئے۔
مسلم لیگ کی کمزور سیاسی قیادت پر پہلے سول افسر شاہی نے غلبہ حاصل کیا اور پھر جنرل ایوب خان براہ راست ہی اقتدارکی کرسی پر آن بیٹھے۔ یوں امریکا کو سوویت یونین کے خلاف اسٹرٹیجک پارٹنر مل گیا۔ خارجہ پالیسی کی جو ترجیحات لیاقت علی خان طے کرنے امریکا کی یاترا پر گئے تھے بلآخر آٹھ سال کے بعد ایوب خان کے دور میں وہ طے پا گئیں اور ان پر عملدرآمد بھی شروع ہوگیا۔یہی وجہ ہے کہ جب جنرل ایوب خان امریکا کے دورہ پر گئے تو ان کا شاندار اور تاریخی استقبال کیا گیا جس کی مثال شاید اب تک پاکستان کے سیاسی سفر میں نہیں۔
اس وقت سیاسی بحران شاید آج کے سیاسی بحران سے شدید تھا مگر جمہوری سیاسی قیادت اس وقت مالی کرپشن میں ملوث نہ تھی ۔ نہ شیخ مجیب، نہ بھٹو۔ جنرل ایوب خان فیملی اور ان کے رفقاء جرنیلوں نے بڑی بڑی سرکاری جائیدادیں مفت میں ہتھیائیں۔ اس سیاسی بحران نے بلآخر سانحہ مشرقی پاکستان کی صورت اختیار کی، ملک دو ٹکڑے ہوا۔ کیونکہ اس زمانے کی اسٹبلشمنٹ بھی چاہتی تھی کہ کسی طرح بنگالیوں سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔
اس بحران سے صرف ایک خیر کا پہلو نکلا ، وہ یہ کہ پاکستان کو ایک جامع و تحریری آئین نصیب ہوا اور آج پاکستان کا وجود اسی آئین کے دم سے ہے، جو بحران اس ملک میں ہیں وہ بھی اسی آئین کی نافرمانیوں کی وجہ سے ہیں۔ جنرل ضیاء نے سیاست میں مذہب کو متعارف کر کے انتہا پرستی کا بیج بویا۔ امریکا اور سابق سوویت یونین کے درمیان افغانستان بفرزون جب کہ پاکستان فرنٹ لائن ریاست تھا۔ امریکا نے سوویت یونین اور سوشلزم کو شکست دینے کے لیے افغانستان کو بفرزون سے نکال کرکے اسے سرد جنگ کے آخری راؤنڈ کا میدان جنگ بنا دیا ہے۔
عرب ممالک، شمالی افریقہ سے مجاہدین کو امپورٹ کیا، انھیں افغان مجاہدین کا بھائی بنایا ۔ نئے مجاہدین تیاری اور ٹریننگ کے لیے افغانستان اور پاکستان میں مخصوص دینی مدرسوں کا نیٹ ورک قائم کیاگیا، جمہوریت پسند سیاسی قیادت کو راستے سے ہٹا دیا گیا،پہلے قائد اعظم کو راستے سے ہٹایا ، پھر ڈاکٹر خان صاحب صوبہ سرحد کے اقتدار سے بے دخل کیا گیا۔
لیاقت علی خان قتل ہوئے، خان آف قلات اور ان کے جانشینوں کو پھانسی پر چڑھایا گیا ، حیات شیر پاؤ کو قتل کرایا گیا ،ذوالفقار علی بھٹوکی پھانسی چڑھایا گیا۔ پھر بے نظیر کی باری آئی، خوش قسمتی سے نواز شریف بچ گئے لیکن جلاوطنی پھر بھی جاری ہے۔
ہمارے سیاستدانوں کے حساب سے ملک کی ترقی یہ ہے کہ موٹر ویز اورایئرپورٹ بنائے جائیں، سڑکوں پر امپورٹڈ بسیں چلائی جائیں۔ لیکن بنگلہ دیش کا ترقی ماڈل ہم سے مختلف ہے۔ ہم نے بڑے پروجیکٹس پر کام کیا مگر انھوں نے لوگوں پر سرمایہ کاری کی، انھیں پڑھایا اور ہنر بانٹا۔ اسکول و اسپتال بنوائے۔ سستی بجلی اور ٹرانسپورٹ پر توجہ دی، بیوروکریسی،عدلیہ، فوج اور پارلیمنٹیرینز کی بے جا مراعات اور صوابدیدی اختیارات کا خاتمہ کیا، ٹیکس اصلاحات کیں، روزگار کے مواقعے پیدا کیے۔شرح پیدائش میں کمی لانے کے لیے نتیجہ خیز اقدامات کیے۔
زرِمبادلہ انسانی وسائل کماتے ہیں۔ انفرااسٹرکچر انسانی وسائل استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان دنیا میں شرح پیدائش اور بچوں میں ناخواندگی کے حوالے سے پہلے نمبروں میں ہے۔ سرکاری اسکولوں کی عمارتیں خستہ حال ، اساتذہ غائب اور سرکاری اسپتالوں سے ڈاکٹر اور دوائیاں غائب۔ آج پاکستان میں سب سے بڑا کاروبار اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیوں اور اسپتالوں کا ہے۔
سب سے بہترین کاروبار ہے سیاست ! ہمارے سندھ میں یہ کاروبار پیر، گدی نشین اور وڈیرے کرتے ہیں۔ خیبر پختو نخوا میں سیاست کا کاروبار بارڈر ٹریڈ کرنیوالے کرتے ہیں۔ اسلحہ ، جعلی کرنسی، جعلی سگریٹ، گاڑیوں کی اسمگلنگ بھی کمائی کے دھندے ہیں۔ بلوچستان اسمگلنگ کا گڑھ بن چکا ہے۔ بلوچستان میں جمہوری طریقوں سے حکومت کا آنا، ممکن ہی نہیں رہا ہے۔
یہ ملک کاروباری اشرافیہ اور ریاستی شرفاء کے مفادات کا ملک ہے۔ سندھ میں ایک مخصوص طبقہ ہے جو ستر سالوں سے اقتدارکی کرسیوں پر براجمان ہے اور اب ان کے مفادات کی سب سے بڑی ترجمان پیپلز پارٹی ہے۔ اقتدارکی کرسیوں پر بیٹھے ان شرفاء میں کوئی میرٹ پر نہیں ہے۔ ان پر تو وہ مثال صادر آتی ہے کہ ''Behind every fortune there is crime '' ان سب نے انگریزوں سے رعایتیں لی ہیں، سر، نواب اور خان بہادر کے خطابات لیے ہیں، قیام پاکستان کے بعد یہ طبقہ بیوروکریسی ، عدلیہ اور جرنیلوں کے ساتھ شیر وشکر ہوگیا۔
آخر میں یہ سب عمران کے پیچھے آئے اور ہماری معیشت کو تباہ و برباد کردیا۔ ایسی تباہی جس نے ماضی کے ریکارڈ توڑ دیے۔یہ ملک اس وقت قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔ شہباز شریف کی خامی یہ ہے کہ وہ ''اسٹیٹس کو''کا آدمی ہے۔ وزیر ِاعظم بننے کے بعد ان کا ایک سال تو عمران کی بغاوت یا خانہ جنگی کے بحران کا سامنا کرنے میں ہی چلا گیا، دوسری جانب ایک ایسے عدالتی اسٹیبلشمنٹ عمران خان کی کھلم کھلا حمایت میں کھڑی ہوگئی۔
اسٹبلشمنٹ بٹی ہوئی نظر آئی اور پھر نو مئی کا واقعہ پیش آیا۔ہم نے ایک ایسے وقت میں چین سے باہمی تعلقات بڑھائے، جب امریکا اور چین کے درمیان سرد جنگ شروع ہوچکی تھی۔ امریکا نے ہندوستان سے قریب ہوچکا تھا اور یہاں عمران خان کی پیٹھ تھپکانے والے زلمے خلیل زاد جیسے CIA کے لوگ کام کر رہے تھے۔
ہمیں سی پیک میں آنے کا خمیازہ بھی بھگتنا ہوگا اور اس سے الگ ہونے کا بھی۔ لیکن پھر بھی امیدکی کرن باقی ہے، یہ ملک ان بحرانوں سے نکل سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا موڑ ہے جہاں سے ایک بھرپور سیاسی قیادت جس کی جڑیں عوام میں پیوستہ ہوں، جنم لے گی۔ یہ معیشت جو اس وقت گماشتہ سرمایہ داروں، ٹھیکیداروں، ذخیرہ اندوز، بلڈرمافیا، آٹا و چینی مافیا، تیل، منشیات اور اسلحہ بیچنے والی مافیا ا ور ان کے جیسی تمام مافیائوں کے چنگل سے نکلے گی۔
پاکستان کی اشرافیہ ہی پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ یہ اشرافیہ ارتقا اورمیرٹ کے اصول پر امیر نہیں ہوئی بلکہ ریاست کا خون چوس کر بغیر محنت کے امیر ہوئی ہے۔ عمران خان چند لوگوں کا پروجیکٹ تھا۔ یہ ایک غلط سوچ ہے کہ حکمران اور سیاستدان کرپٹ ہیں بلکہ یہ بیانیہ اس لیے دیا گیا کہ ان کو اقتدار سے دور رکھا جائے۔
یہ سخن جو ہم نے رقم کیے، یہ ہیں سب ورق تیری یاد کے
کوئی لمحہ صبحِ وصال کا، کوئی شامِ ہجرکی مدتیں