حسن منظر پستے طبقوں کی آواز دوسراحصہ
جس نے حسن منظر کی کتابیں نہیں پڑھیں۔ اس نے اپنا بہت بڑا نقصان کیا ہے
یہ 27 جولائی 2023 کا دن تھا جب مجھے برادرم حسن منظر کی خود نوشت '' گزرے دن'' موصول ہوئی۔ میرا گمان تھا کہ یہ ابتدا سے زندگی کے شب و روز ہوں گے لیکن وہ نائیجیریا کے گھنے جنگلوں اور شہروں میں گزارے ہوئے زندگی کے چار سال کا منظر تھا۔
اس کتاب کو بک کارنر کے گگن شاہد اور امر شاہد نے اپنے اعلیٰ ذوق کے مطابق سنوارا اور سجا کر پیش کیا ہے۔ یہ کتاب منظر بھائی نے اپنی شریک حیات طاہرہ منظر حسن کے نام کی ہے۔ وہ بریلی کی مٹی تھیں، کراچی میں سپرد خاک ہوئیں۔ جس کے بعد حسن منظرکوکسی پل چین نہیں پڑتا۔ انھوں نے گزرے دن کو الحاجی سر، میرا نیم بیلو اور الحاجی سر ابوبکر، تفاوابلیواد وزیر اعظم مملکت نائیجریا کی نذرکیا ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ یہ لوگ سیاست کو سدھارنے کا تہیہ کر کے سیاست کے میدان میں اترتے ہیں۔ نائیجیریا ان کے دور میں مہذب، پرسکون ملک تھا، سب مذاہب اور زبانوں والوں کے لیے۔ لیکن مذہبی جلاپا، سیاسی اقتدار کی ہوس جو ملکی خزانے کا منہ اقتدار پا جانے والے کے لیے کھول دیتی ہے اور مغربی دنیا کی سازش نے جس میں مغربی گرجا کسی سے پیچھے نہیں ہے، کبھی نہ ختم ہونے والی لاقانونیت کی تاریکی ایک '' کو'' ملٹری بغاوت سے اس کی کل فضا پر پھیلا دی اور خون خرابے کے ساتھ ساتھ سازش اور رشوت رائج الوقت سکے بن گئے۔
اس بغاوت کے بعد جو خانہ جنگی ہوئی اور سابق باغی قبیلوں کے بے گناہ افراد کو جانی نقصان بھگتنا پڑا، فکشن نویس، تاریخ نویس اور جرنلسٹ جو مغربی رجحان رکھتے ہیں وہ ساری کہانی 15 جنوری 1966 سے شروع نہیں کرتے۔ وہاں سے کرتے ہیں جب شمال کے سپاہی بدلہ لینے پر اتر آئے کیونکہ انھیں چڑانے کے لیے ہر اہم جگہ پر وہ پوسٹر لگے تھے جنھیں الحاجی سر احمدو بیلوسردونا آف سوکوٹو کا خون میں نہایا ہوا سر زمین پر پڑا تھا اور کسی کا فوجی بوٹ میں پیر ان کے سر پر۔
وہ اپنے نائیجیریا جانے کا قصہ یوں بیان کرتے ہیں۔ '' اگر رزق کسی کو، جہاں کا ہو، وہاں کھینچ کر لے جاتا ہے تو یہ سلوک اس نے ہمارے ساتھ بھی کیا، جب نائیجیریا کے سرخ گیہوں کے آٹے نے ہمارے چار افراد کے کنبے کو الخبر، سعودی عرب سے کھینچ کر فروری 1964 میں '' کانو'' شمالی نائیجیریا پہنچا دیا۔
میری پہلی پوسٹنگ شمالی نائیجیریا کے کیپٹل '' کدونا'' میں ہوئی تھی۔ بطور میڈیکل آفیسر آف ہیلتھ۔ وہ شہر میرے مزاج کا تھا۔ اب شاید ویسا نہ رہا ہو۔ میں کم ضرورتوں کا آدمی ہوں، اور آہستہ رو۔ خاموشی پسند شہر ان سب کو پوری کررہا تھا۔ وہاں لائبیریاں تھیں، جیسے بھی تھے سینما ہال تھے۔ سوئمنگ پول تھا، کدونا ندی اور اس کا نمائشی '' لوگارڈ برج '' پارک، صاف ستھری تقریباً بے شور سڑکیں۔ میں اور کیا چاہ سکتا تھا۔
میں '' اگالا '' اور ضلع '' اڈوما '' یونی سیف پروجیکٹ کا دیہی میڈیکل آفیسر انچارج تھا اور میرا ایک کام تھا، برص (کوڑھ) اور '' یاز'' کے مریضوں کی ٹوہ میں رہنما کہ کہاں ابھی تک ان دو کے غیر متشخص افراد موجود ہیں۔ ان کو زیر علاج لانا۔ نئے مریضوں کو دریافت کرنے کی جگہ قصبوں اور گائوں میں لگنے والے ہفتہ بازار تھے۔ وہاں ان کو پانا اور اس طرح زیر علاج رکھنا کہ ان کا کام نہ رکنے پائے۔ یہ اس مہم کی خصوصیت تھی۔ کام رکتا تو وہ کیوں خود کو ظاہر ہونے دیتے۔
ان کے علاوہ ہیلتھ سینٹر، ڈسپنسریاں، کرسچن مشنری ہوم، ننوں کے کانوینٹ سب کو میرا تعاون درکار ہوتا تھا اور مجھے ان کا۔ جاتے جاتے ایک کانوینٹ میں جھانکا ( یا مشن ہوم میں) مجھ سے سسٹر نے کسی زچہ کی صفائی کروائی اور تواضع کے طور پر ایک گلاس سر کو گھما نہ دینے والا، نوشیدنی پیش کیا۔
1965کی جنگ ہم نے کراچی اور حیدرآباد سندھ میں سہی، وہ ہماری چھٹیاں تھیں جنھیں لیگوس میں نئی تعیناتی سے پہلے ماں باپ کے ساتھ گزارنے پاکستان گئے تھے۔ جنگ ہوئی، زندگی کا سارا کاروبار معطل ہوا اور لگنے لگا کہ ہم لیگوس نہیں جا پائیں گے جہاں ہم سارا سامان اور کار چھوڑ کر آئے تھے۔ آخر کار راستے کھلے، ہمارے ہوائی سفر کے ٹکٹ آئے اور ہم لبنان اور دمشق میں ایک ہفتہ سستا کر لیگوس پہنچے ۔ وہ ہمارا لیگوس سٹی کائونسل سروس کا پہلا ٹوور تھا اور ہم تازہ دم تھے۔
وہ کوڑھ کے حوالے سے ایک جلسے کا احوال کچھ اس طرح لکھتے ہیں۔ '' ایک دن میں سٹی کائونسل کے ایک جلسے میں تھا، جہاں برص کے حوالے سے ایک نائیجیرین مقرر نے پھر وہی بات کہی '' کوڑھی قابل نفرت ہیں اور انھیں شہر سے دور رکھنا چاہیے۔'' ان صاحب کی تقریر کے بعد میں نے اٹھ کر اپنی جگہ پر کھڑے کھڑے کہا۔ '' قابل نفرت چیز کوڑھ ہے، نہ کہ کوڑھی۔''
الفانسو سعید ایک مصری ڈبلیو ایچ او آفیسر لیگوس سٹی کونسل سے منسلک تھے۔ ان کا فون اگلے دن آیا '' ڈاکٹر حسن ہمارا ایک چھوٹا سا گروپ فکرمندوںکا ہے اور ہم ہوٹل ایکسلسیئر میں جمع ہوتے ہیں کیا آپ کل شام وہاں آسکتے ہیں۔ میں وہاں گیا۔ مجھ سے ان اصحاب کو کوڑھ کے بارے میں کچھ بتانے کی درخواست کی گئی جو وہاں آئے تھے۔ تقریباً ! سب کے سب غیر ملکی تھے۔ میں نے عام زبان میں برص کی تاریخ پر گفتگو کی۔
برص سے آخری یاد گار میرا واسطہ اس دن ہوا جب میں اپنے آفس میں میٹنگ میں مصروف تھا اور پولینڈ کے یہودی ڈاکٹرز گمنڈ گیلس کا فون آیا تھا، وہ آدمی جس کے بارے میں بہت شور شرابا رہا ہے، آپ کے دفتر لایا گیا ہے، نیچے ایمبولینس میں ہے جا کر دیکھ سکتے ہیں؟ '' پھر دبے لفظوں میں بولے '' آپ سمجھ سکتے ہیں، اسے کیا مرض ہے'' اس کے بعد اور بھی دھیمی آواز میں کہا ''مجھے بتائیے گا کیا تشخیص ہے۔''
میں نے ڈرائیور اور اس کے ہمراہ ہیلتھ انسپکٹر سے مریض کو متعدی امراض کے اسپتال لے جانے کے لیے کہا اور سسٹر انچارج '' وکٹوریا آریو'' کے نام پرچہ لکھ دیا : مریض کو کیا چاہیے ہوگا اور دوائیں۔ اگلے دن جب میں اسپتال کا دورہ کرنے گیا تو کل کے مریض کا حال جاننے کے لیے مجھے ایک کمرے تک لے جایا گیا۔ جو دوسرے وارڈوں سے ذرا ہٹ کر تھا۔
میں اکیلا اندر داخل ہوا اور یہ دیکھ کر چکرا گیا کہ مریض زمین پر پڑا ہے، تن تنہا اور بعض ''پھوڑوں'' سے رس لگ جانے کی وجہ سے خون نکل آیا ہے وہ بے سدھ تھا بے ہوش نہیں۔ میں نے سسٹر ''آریو'' سے پوچھا: '' مریض اس طرح کیوں پڑا ہے، بستر پر کیوں نہیں ہے۔'' سسٹر نے کہا '' میرا اسٹاف اسے ہاتھ نہیں لگائے گا۔'' کوڑھی کو کوئی ہاتھ نہیں لگائے گا۔ یہ اسپتال اسٹال کی ہیڈ کا فیصلہ کن جواب تھا۔
میں نے اسٹاف سے ضروری چیزیں، دوائیں، بیڈ شیٹ اور میٹریس لانے کے لیے کہا اور خود مریض کے پاس بیٹھ کر اس سے باتیں کرنے کی کوشش کی۔ شاید اسکول ماسٹر تھا اور اپنی حالت کی وجہ سے لاوارث۔ اسپتال کا عملہ دروازے کے سامنے قطار میں مجھ سے تین چار گز کے فاصلے پرکھڑا تھا اور ڈر رہا تھا کہ نجانے کیا ہونے والا ہے؟
میں بچوں گا یا کوئی دیر جاتی ہے وہیں مریض کے برابر پڑا ہوں گا۔ صفائی کے لیے ایک بڑے پیالے میں انٹی سپیٹک لوشن بنا کر روئی کے بڑے بڑے پھویوں کو اس میں ڈبو کر میں مریض کے جسم کو پونچھنا شروع کیا۔ مجھ میں اور اسٹاف کی لائن میں فاصلہ کچھ کم ہوچکا تھا۔ پھر میں نے اینٹی سپیٹک (لگانے کی دوا ) مانگی، وہ آئی اور ایک مرد نرس نے آگے بڑھ کر مجھے دی۔ میں نے مریض کو، جہاں تک میری قوت ساتھ دے سکتی تھی، پہلوئوں پر کرتے ہوئے دوا سب جگہ لگائی۔ اس کی آنکھیں بند ہوئی جارہی تھیں۔
اگلا قدم تھا گدے کو زمین پر پھیلانے اور اس پر چادر بچھانے کا۔ ناتوانی سے میں ٹھیل اور الٹا کر مریض کو ان پر لٹانے لگا۔ اس مرد نرس نے آگے بڑھ کر چادر کا ایک کونا پکڑا اور میری مدد سے مریض کے پہلو میں چادر کو لے گیا۔ پھر مجھے یاد نہیں کیسے، کیا ہوا لیکن اتنا یاد ہے کسی نے کہا '' ڈاکٹر چھوڑیے، باقی کام ہم کرلیں گے۔''مریض اب بستر پر لیٹا تھا۔
چند دن بعد باس یعنی ٹنجی نے مجھے اپنے دفتر بلایا اور اس واقعے کے بارے میں اتنا پوچھا جتنا ان تک پہنچانے والی نے پہنچایا تھا۔ سسٹر انچارج اور اسٹاف نے میرے حکم کی خلاف ورزی کی۔
ڈاکٹر ٹنجی نے پوچھا: '' منظر آپ نے اس واقعے کی رپورٹ کیوں نہیں کی۔'' میں نے کہا ''کیسی رپورٹ؟ میرے حکم کو ماننے سے کسی نے انکار نہیں کیا۔''ٹنجی نے تفصیل بتائی۔ میں نے کہا '' وہ حکم کی خلاف ورزی نہیں کر رہے تھے، ڈر رہے تھے اور جب ان کا ڈر دور ہوگیا تو اپنا کام کرنے لگے۔ رپورٹ کس بات کی کرتا۔
میں تو یہی کہوں گی کہ جس نے حسن منظر کی کتابیں نہیں پڑھیں۔ اس نے اپنا بہت بڑا نقصان کیا ہے۔ (جاری ہے)
اس کتاب کو بک کارنر کے گگن شاہد اور امر شاہد نے اپنے اعلیٰ ذوق کے مطابق سنوارا اور سجا کر پیش کیا ہے۔ یہ کتاب منظر بھائی نے اپنی شریک حیات طاہرہ منظر حسن کے نام کی ہے۔ وہ بریلی کی مٹی تھیں، کراچی میں سپرد خاک ہوئیں۔ جس کے بعد حسن منظرکوکسی پل چین نہیں پڑتا۔ انھوں نے گزرے دن کو الحاجی سر، میرا نیم بیلو اور الحاجی سر ابوبکر، تفاوابلیواد وزیر اعظم مملکت نائیجریا کی نذرکیا ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ یہ لوگ سیاست کو سدھارنے کا تہیہ کر کے سیاست کے میدان میں اترتے ہیں۔ نائیجیریا ان کے دور میں مہذب، پرسکون ملک تھا، سب مذاہب اور زبانوں والوں کے لیے۔ لیکن مذہبی جلاپا، سیاسی اقتدار کی ہوس جو ملکی خزانے کا منہ اقتدار پا جانے والے کے لیے کھول دیتی ہے اور مغربی دنیا کی سازش نے جس میں مغربی گرجا کسی سے پیچھے نہیں ہے، کبھی نہ ختم ہونے والی لاقانونیت کی تاریکی ایک '' کو'' ملٹری بغاوت سے اس کی کل فضا پر پھیلا دی اور خون خرابے کے ساتھ ساتھ سازش اور رشوت رائج الوقت سکے بن گئے۔
اس بغاوت کے بعد جو خانہ جنگی ہوئی اور سابق باغی قبیلوں کے بے گناہ افراد کو جانی نقصان بھگتنا پڑا، فکشن نویس، تاریخ نویس اور جرنلسٹ جو مغربی رجحان رکھتے ہیں وہ ساری کہانی 15 جنوری 1966 سے شروع نہیں کرتے۔ وہاں سے کرتے ہیں جب شمال کے سپاہی بدلہ لینے پر اتر آئے کیونکہ انھیں چڑانے کے لیے ہر اہم جگہ پر وہ پوسٹر لگے تھے جنھیں الحاجی سر احمدو بیلوسردونا آف سوکوٹو کا خون میں نہایا ہوا سر زمین پر پڑا تھا اور کسی کا فوجی بوٹ میں پیر ان کے سر پر۔
وہ اپنے نائیجیریا جانے کا قصہ یوں بیان کرتے ہیں۔ '' اگر رزق کسی کو، جہاں کا ہو، وہاں کھینچ کر لے جاتا ہے تو یہ سلوک اس نے ہمارے ساتھ بھی کیا، جب نائیجیریا کے سرخ گیہوں کے آٹے نے ہمارے چار افراد کے کنبے کو الخبر، سعودی عرب سے کھینچ کر فروری 1964 میں '' کانو'' شمالی نائیجیریا پہنچا دیا۔
میری پہلی پوسٹنگ شمالی نائیجیریا کے کیپٹل '' کدونا'' میں ہوئی تھی۔ بطور میڈیکل آفیسر آف ہیلتھ۔ وہ شہر میرے مزاج کا تھا۔ اب شاید ویسا نہ رہا ہو۔ میں کم ضرورتوں کا آدمی ہوں، اور آہستہ رو۔ خاموشی پسند شہر ان سب کو پوری کررہا تھا۔ وہاں لائبیریاں تھیں، جیسے بھی تھے سینما ہال تھے۔ سوئمنگ پول تھا، کدونا ندی اور اس کا نمائشی '' لوگارڈ برج '' پارک، صاف ستھری تقریباً بے شور سڑکیں۔ میں اور کیا چاہ سکتا تھا۔
میں '' اگالا '' اور ضلع '' اڈوما '' یونی سیف پروجیکٹ کا دیہی میڈیکل آفیسر انچارج تھا اور میرا ایک کام تھا، برص (کوڑھ) اور '' یاز'' کے مریضوں کی ٹوہ میں رہنما کہ کہاں ابھی تک ان دو کے غیر متشخص افراد موجود ہیں۔ ان کو زیر علاج لانا۔ نئے مریضوں کو دریافت کرنے کی جگہ قصبوں اور گائوں میں لگنے والے ہفتہ بازار تھے۔ وہاں ان کو پانا اور اس طرح زیر علاج رکھنا کہ ان کا کام نہ رکنے پائے۔ یہ اس مہم کی خصوصیت تھی۔ کام رکتا تو وہ کیوں خود کو ظاہر ہونے دیتے۔
ان کے علاوہ ہیلتھ سینٹر، ڈسپنسریاں، کرسچن مشنری ہوم، ننوں کے کانوینٹ سب کو میرا تعاون درکار ہوتا تھا اور مجھے ان کا۔ جاتے جاتے ایک کانوینٹ میں جھانکا ( یا مشن ہوم میں) مجھ سے سسٹر نے کسی زچہ کی صفائی کروائی اور تواضع کے طور پر ایک گلاس سر کو گھما نہ دینے والا، نوشیدنی پیش کیا۔
1965کی جنگ ہم نے کراچی اور حیدرآباد سندھ میں سہی، وہ ہماری چھٹیاں تھیں جنھیں لیگوس میں نئی تعیناتی سے پہلے ماں باپ کے ساتھ گزارنے پاکستان گئے تھے۔ جنگ ہوئی، زندگی کا سارا کاروبار معطل ہوا اور لگنے لگا کہ ہم لیگوس نہیں جا پائیں گے جہاں ہم سارا سامان اور کار چھوڑ کر آئے تھے۔ آخر کار راستے کھلے، ہمارے ہوائی سفر کے ٹکٹ آئے اور ہم لبنان اور دمشق میں ایک ہفتہ سستا کر لیگوس پہنچے ۔ وہ ہمارا لیگوس سٹی کائونسل سروس کا پہلا ٹوور تھا اور ہم تازہ دم تھے۔
وہ کوڑھ کے حوالے سے ایک جلسے کا احوال کچھ اس طرح لکھتے ہیں۔ '' ایک دن میں سٹی کائونسل کے ایک جلسے میں تھا، جہاں برص کے حوالے سے ایک نائیجیرین مقرر نے پھر وہی بات کہی '' کوڑھی قابل نفرت ہیں اور انھیں شہر سے دور رکھنا چاہیے۔'' ان صاحب کی تقریر کے بعد میں نے اٹھ کر اپنی جگہ پر کھڑے کھڑے کہا۔ '' قابل نفرت چیز کوڑھ ہے، نہ کہ کوڑھی۔''
الفانسو سعید ایک مصری ڈبلیو ایچ او آفیسر لیگوس سٹی کونسل سے منسلک تھے۔ ان کا فون اگلے دن آیا '' ڈاکٹر حسن ہمارا ایک چھوٹا سا گروپ فکرمندوںکا ہے اور ہم ہوٹل ایکسلسیئر میں جمع ہوتے ہیں کیا آپ کل شام وہاں آسکتے ہیں۔ میں وہاں گیا۔ مجھ سے ان اصحاب کو کوڑھ کے بارے میں کچھ بتانے کی درخواست کی گئی جو وہاں آئے تھے۔ تقریباً ! سب کے سب غیر ملکی تھے۔ میں نے عام زبان میں برص کی تاریخ پر گفتگو کی۔
برص سے آخری یاد گار میرا واسطہ اس دن ہوا جب میں اپنے آفس میں میٹنگ میں مصروف تھا اور پولینڈ کے یہودی ڈاکٹرز گمنڈ گیلس کا فون آیا تھا، وہ آدمی جس کے بارے میں بہت شور شرابا رہا ہے، آپ کے دفتر لایا گیا ہے، نیچے ایمبولینس میں ہے جا کر دیکھ سکتے ہیں؟ '' پھر دبے لفظوں میں بولے '' آپ سمجھ سکتے ہیں، اسے کیا مرض ہے'' اس کے بعد اور بھی دھیمی آواز میں کہا ''مجھے بتائیے گا کیا تشخیص ہے۔''
میں نے ڈرائیور اور اس کے ہمراہ ہیلتھ انسپکٹر سے مریض کو متعدی امراض کے اسپتال لے جانے کے لیے کہا اور سسٹر انچارج '' وکٹوریا آریو'' کے نام پرچہ لکھ دیا : مریض کو کیا چاہیے ہوگا اور دوائیں۔ اگلے دن جب میں اسپتال کا دورہ کرنے گیا تو کل کے مریض کا حال جاننے کے لیے مجھے ایک کمرے تک لے جایا گیا۔ جو دوسرے وارڈوں سے ذرا ہٹ کر تھا۔
میں اکیلا اندر داخل ہوا اور یہ دیکھ کر چکرا گیا کہ مریض زمین پر پڑا ہے، تن تنہا اور بعض ''پھوڑوں'' سے رس لگ جانے کی وجہ سے خون نکل آیا ہے وہ بے سدھ تھا بے ہوش نہیں۔ میں نے سسٹر ''آریو'' سے پوچھا: '' مریض اس طرح کیوں پڑا ہے، بستر پر کیوں نہیں ہے۔'' سسٹر نے کہا '' میرا اسٹاف اسے ہاتھ نہیں لگائے گا۔'' کوڑھی کو کوئی ہاتھ نہیں لگائے گا۔ یہ اسپتال اسٹال کی ہیڈ کا فیصلہ کن جواب تھا۔
میں نے اسٹاف سے ضروری چیزیں، دوائیں، بیڈ شیٹ اور میٹریس لانے کے لیے کہا اور خود مریض کے پاس بیٹھ کر اس سے باتیں کرنے کی کوشش کی۔ شاید اسکول ماسٹر تھا اور اپنی حالت کی وجہ سے لاوارث۔ اسپتال کا عملہ دروازے کے سامنے قطار میں مجھ سے تین چار گز کے فاصلے پرکھڑا تھا اور ڈر رہا تھا کہ نجانے کیا ہونے والا ہے؟
میں بچوں گا یا کوئی دیر جاتی ہے وہیں مریض کے برابر پڑا ہوں گا۔ صفائی کے لیے ایک بڑے پیالے میں انٹی سپیٹک لوشن بنا کر روئی کے بڑے بڑے پھویوں کو اس میں ڈبو کر میں مریض کے جسم کو پونچھنا شروع کیا۔ مجھ میں اور اسٹاف کی لائن میں فاصلہ کچھ کم ہوچکا تھا۔ پھر میں نے اینٹی سپیٹک (لگانے کی دوا ) مانگی، وہ آئی اور ایک مرد نرس نے آگے بڑھ کر مجھے دی۔ میں نے مریض کو، جہاں تک میری قوت ساتھ دے سکتی تھی، پہلوئوں پر کرتے ہوئے دوا سب جگہ لگائی۔ اس کی آنکھیں بند ہوئی جارہی تھیں۔
اگلا قدم تھا گدے کو زمین پر پھیلانے اور اس پر چادر بچھانے کا۔ ناتوانی سے میں ٹھیل اور الٹا کر مریض کو ان پر لٹانے لگا۔ اس مرد نرس نے آگے بڑھ کر چادر کا ایک کونا پکڑا اور میری مدد سے مریض کے پہلو میں چادر کو لے گیا۔ پھر مجھے یاد نہیں کیسے، کیا ہوا لیکن اتنا یاد ہے کسی نے کہا '' ڈاکٹر چھوڑیے، باقی کام ہم کرلیں گے۔''مریض اب بستر پر لیٹا تھا۔
چند دن بعد باس یعنی ٹنجی نے مجھے اپنے دفتر بلایا اور اس واقعے کے بارے میں اتنا پوچھا جتنا ان تک پہنچانے والی نے پہنچایا تھا۔ سسٹر انچارج اور اسٹاف نے میرے حکم کی خلاف ورزی کی۔
ڈاکٹر ٹنجی نے پوچھا: '' منظر آپ نے اس واقعے کی رپورٹ کیوں نہیں کی۔'' میں نے کہا ''کیسی رپورٹ؟ میرے حکم کو ماننے سے کسی نے انکار نہیں کیا۔''ٹنجی نے تفصیل بتائی۔ میں نے کہا '' وہ حکم کی خلاف ورزی نہیں کر رہے تھے، ڈر رہے تھے اور جب ان کا ڈر دور ہوگیا تو اپنا کام کرنے لگے۔ رپورٹ کس بات کی کرتا۔
میں تو یہی کہوں گی کہ جس نے حسن منظر کی کتابیں نہیں پڑھیں۔ اس نے اپنا بہت بڑا نقصان کیا ہے۔ (جاری ہے)