نگری نگری
دلچسپ اور مختصر خبریں
'کُل وقتی اولاد' کی 'ملازمت' کا سلسلہ!
چینی معیشت بھی 'کورونا' یا 'کوویڈ 19' کے بعد پیدا ہونے والی معاشی ابتری سے نبرد آزما ہے۔ اس وقت چین کے شہروں میں ہر پانچ میں سے ایک نوجوان بے روزگار ہے۔
ایسے میں وہاں ایک 31 سالہ 'ولاگر' ژنگ جیائی نے 'کُل وقتی بیٹی' کی ملازمت کے حوالے سے اپنی ایک ویڈیو بنائی ہے، جس میں وہ اپنے روز مرہ کے معمولات اس طرح 'فلم بند' کرتی ہیں کہ صبح اٹھ کر والدین سے باتیں کرنا، پھر ان کے ساتھ بازار جا کر سودا سلف لانا، واپس آکر کھانا وغیرہ تیار کرنا، بھر گھر کے کام کاج کر کے آرام کرنا۔ یہ دراصل 'کُل وقتی بیٹی' کا تصور ہے۔
چین بھر میں نوجوانوں کی بے روزگاری ریکارڈ سطح کو چھو رہی ہے۔ 'ژنگ جیائی' 'کورونا' کی وبا سے پہلے ملبوسات کی فروخت کا کام کرتی تھیں، وہ اکثر اپنے والدین سے چہل قدمی کے دوران گفتگو کرتے ہوئے 'ویڈیو' بناتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے والدین انھیں ان سارے کاموں کے عوض آٹھ ہزار چینی 'ین' (یعنی ڈیڑھ ہزار امریکی ڈالر) ادا کرتے ہیں۔
'کُل وقتی بچے' کی نہ صرف تنخواہ ملتی ہے، بلکہ حقیقی طور پر اپنے والدین کے ساتھ رہنے کا لطف بھی ملتا ہے۔ ژنگ جیائی کہتی ہیں کہ ابتداً ان کے لیے گھر کا سودا سلف لانا، گاڑی چلانا اور کھانا وغیرہ پکانا بہت اچنبھے کا کام لگتا تھا، حتیٰ کہ انھیں مختلف قسم کی سبزیوں کے ناموں میں تمیز بھی کرنا نہیں آتی تھی، لیکن اب یہ ان کے لیے مشکل نہیں۔ یہ سب لوگ 'کل وقتی' ملازمت کے طور پر نہیں کرتے، بلکہ بہت سے کم تنخواہ پانے والے اپنے گھر پہنچنے کے بعد یہ انجام دیتے ہیں۔
میرے اہل خانہ میرے اس فیصلے میں میرا کافی ساتھ دیتے ہیں۔ ان کے لیے میری کم آمدن سے بھی زیادہ میرا جذباتی اطمینان اہمیت رکھتا ہے۔ دوسری طرف ماہرین اس صورت حال کی وجہ 'کورونا' کی وبائی صورت حال میں عائد ہونے والی طویل کاروباری بندشوں کو قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''کُل وقتی اولاد کا رجحان 'کورونا' کے دوران اپنے کاموں سے طویل عرصے تک کٹے رہنے کے بعد پیدا ہوا ہے۔''
علاوہ ازیں تعلیمی داخلوں میں 2012ء میں 30 فی صد اور پچھلے سال تقریباً 60 فی صد اضافے نے بھی بے روزگاری بڑھائی ہے، کیوں کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بَڑھیا ملازمتوں کے متمنی ہوتے ہیں۔ مارکیٹنگ کی پروفیسر زہو ہانگ کہتی ہیں کہ ہماری صنعتیں جدید ٹیکنالوجی کو مکمل طور پر نہیں اپنا سکی ہیں، اس لیے انھیں خدشہ ہے کہ نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 46.5 فی صد تک پہنچ سکتی ہے۔
بہت سے ماسٹرز کیے ہوئے نوجوان گاڑیاں چلا رہے ہیں، یا گھروں پر کھانے پہنچانے کا کام کر رہے ہیں، حتیٰ کہ خاکروب کی ملازمتوں کے لیے بھی ایسے اعلیٰ تعلیم یافتہ امیدوار سامنے آئے، جس کے لیے اسکول کی تعلیم کافی تھی۔ بیجنگ یونیورسٹی کے ایک گریجویٹ نوجوان کا خیال تھا کہ آج کل چین میں نوجوان قابل قدر آمدن تو چاہتے ہیں، لیکن اس کے لیے زائد کام کرنا نہیں چاہتے یا پھر ان کے پاس پہلے ہی سے کام کا بوجھ زیادہ ہوتا ہے۔
چینی 'قومی شماریاتی ادارے' کے اعداد وشمار کے مطابق شہروں میں 16 سے 24 سال کی عمر میں بے روزگاری کی شرح 21.3 فی صد بڑھ چکی ہے، 25 سے 59 سال کی عمر تک یہ تناسب 4.1 فی صد ہے۔ 11.6 ملین نئے گریجویٹ کی افرادی قوت سامنے آنے کے بعد یہ شرح اور بڑھے گی۔
بنگلا دیش میں ججوں کا کال، مقدمات دُگنے!
بنگلادیش میں 'لا کمیشن' کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وہاں تقریباً 95 ہزار لوگوں کے لیے ایک جج موجود ہے۔ گذشتہ 15 برسوں میں ججوں کی کمی کے سبب وہاں زیر التوا مقدمات دُگنے ہوگئے ہیں۔ بنگلا دیش کی مختلف عدالتوں میں اس وقت 4.2 ملین مقدمات زیرسماعت ہیں، وہاں 94 ہزار 444 شہریوں پر ایک جج دست یاب ہے۔
ہندوستان میں 47 ہزار 619 افراد اور پاکستان میں 50 ہزار افراد پر ایک جج کا حساب بیٹھتا ہے، اسی طرح برطانیہ میں تین ہزار 186، اور امریکا میں ہر 10 ہزار شہریوں کے لیے ایک جج موجود ہے۔ یہ رپورٹ 'پارلیمانی کمیٹی' کے سامنے پیش کی گئی اور اس کی وجوہات ججوں کی کمی قرار دی گئی ہے۔
یہ اعداد وشمار ضلعی، سیشن اور دیگر عدالتوں کے جج کو ملکی آبادی پر تقسیم کرنے کے بعد سامنے آئے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ اگر مقدمات کا یہ بوجھ کم نہ ہوا تو عوام کا عدالتی نظام پر سے اعتماد اٹھ جائے گا۔
مقدمات جلد نمٹانے کی سفارش کرتے ہوئے تجویز کیا گیا ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر معقول تعداد میں جج متعین کیے جائیں، یا پھر عارضی طور پر سبک دوش ججوں کی خدمات حاصل کرلی جائیں، تاکہ عوام اور ججوں کی تعداد میں یہ تفاوت ختم ہو سکے۔ بتایا گیا ہے کہ اگر پانچ ہزار جج مقرر کیے جاتے ہیں، تو زیر التوا مقدمات کی تعداد 'قابل برداشت' حد تک کم ہو سکتی ہے۔
انگریزی کے ٹیسٹ میں 88 فی صد جاپانی بچے ناکام!
جاپان میں تیسری کلاس میں انگریزی کے زبانی ٹیسٹ میں تقریباً 88 فی صد بچے ناکام ہوگئے، جب کہ صرف 12.4 فی صد بچے درست جواب دے سکے۔
یہ نتائج پچھلے سال کے ٹیسٹ سے 18.4 فی صد کم ہیں۔ اس ٹیسٹ میں 60 فی صد سے زائد بچے انگریزی کے ایک سوال کا بھی درست جواب نہ دے سکے! اگرچہ یہ ٹیسٹ سالانہ بنیادوں پر ہوتا ہے، لیکن اس بار یہ چار سال بعد منعقد ہوا۔ انگریزی بول چال میں 46.1 فی صد سوالات کے جواب درست مل سکے، جو پڑھنے، سننے اور لکھنے کے حوالے سے تھے، جو گذشتہ ٹیسٹ سے 10.4 فی صد کم تھے۔
بتایا جاتا ہے کہ اس ٹیسٹ میں انگریزی بول چال کے حصے کے پانچ سوالات میں سے ایک سوال ماحولیاتی مسائل پر ایک ویڈیو دیکھنے کے بعد انگریزی میں اس پر اپنے خیالات کے اظہار پر مبنی تھا۔ انگریزی پڑھنے اور سننے کے حوالے سے ٹیسٹ کی درستی کا تناسب 50 فی صد، جب کہ تحریری انگریزی میں اوسط 24.1 فی صد رہی۔
دوسری جانب جاپانی حکام اس ٹیسٹ کو مشکل قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ جاپانی بچوں کی انگریزی زبان کی صلاحیت گری ہے، اس ٹیسٹ کا پچھلے ٹیسٹ سے موازنہ بے محل ہے۔ بعض ماہرین نے یہ بھی کہا ہے کہ جدید مواد پر مبنی یہ ٹیسٹ بچوں کی لسانی صلاحیت جانچنے کے لیے غیرمناسب تھا۔
امریکا:
نوجوانوں کی موت کی سب سے بڑی وجہ آتشیں اسلحہ!
امریکی محکمۂ انسداد امراض کے مطابق 2021ء میں امریکا میں بچوں اور نوجوانوں کی موت کی سب سے بڑی وجہ فائرنگ قرار پائی ہے۔
امریکی اکادمی برائے طب اطفال کے جریدے میں بتایا گیا ہے کہ ایک سال میں 19 سال کی عمر تک کے چار ہزار 752 جَنے موت کا شکار ہوئے، جن میں 64 فی صد کو گولی ماری گئی، 30 فی صد نے خودکُشی کی، جب کہ 3.5 فی صد حادثاتی طور پر اس کی زد میں آگئے۔
یہ تعداد تین سال کے دوران 41.5 فی صد زیادہ دیکھی گئی ہے۔ بہت سے ماہرین بچوں کی آتشیں اسلحے سے ان ہلاکتوں میں اضافے کو 'کورونا' کی وبائی صورت حال کے بعد پیدا ہونے والے خوف اور ذہنی کیفیات کا نتیجہ بھی قرار دے رہے ہیں۔
جب کہ رواں برس کے اب تک کے اعداد وشمار کے مطابق اسلحے کے استعمال سے اب تک ایک ہزار 187 بچے اور نوجوان جان سے گزر چکے ہیں۔
نیپال میں 'غیرقانونی تراجم' کی بھرمار
ہندوستان میں مقیم بنگلادیش کی متنازع مصنفہ تسلیمہ نسرین نے نیپالی زبان میں ترجمہ کرکے چھاپی گئی اپنی کتب کو چوری اور غیرقانونی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی کتب کے ناشر نے ایسے کسی ترجمے کی اجازت نہیں دی، نہ ہی ان سے کسی نے اجازت لی اور نہ ہی اس کا انھیں کوئی معاوضہ دیا گیا۔
دنیا کے دیگر ممالک کی طرح نیپال میں بھی مصنف کی اجازت کے بغیر کتاب کا ترجمہ یا اشاعت قابل سزا جرم ہے، لیکن نیپال کے بازار ایسی کتب سے بھرے ہوئے ہیں۔ ایسے تراجم کے ناقص ہونے پر تنقید بھی ہوتی ہے، جیسا کہ 1200 صفحات کی ایک کتاب ترجمے کے بعد سُکڑ کر 200 صفحات تک محدود ہو جاتی ہے۔ وہاں سوال یہ بھی کیا جاتا ہے کہ نام وَر امریکی ماہر اسٹیو جوبز پر لکھی گئی کتاب کے نیپالی ترجمے کے لیے اب کس سے رابطہ کیا جائے؟
انگریزی میں ماسٹرز کی حامل ایک مترجم اچھیت کوئیرالا جو ایک روزنامے سے بھی وابستہ ہیں، 'غیرقانونی ترجمے' کا اعتراف کرتی ہیں، لیکن دوسری طرف ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ فقط ترجمہ تو نہیں ہوتا، بلکہ ایک تخلیقی تحریر بھی ہوتی ہے۔ تاہم بین الاقوامی ناشرین نے بھی ایسے تراجم کو 'جعلی' اور 'چوری شدہ' قرار دیا ہے۔
نیپال کے ایک اور معروف لیکھک اور مترجم باسنتا تھاپا اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ اس عمل سے پیسے تو کھرے کر لیے جاتے ہیں، لیکن وہ قاری جو اصل کتاب سے نا آشنا ہوتا ہے، تو وہ ترجمہ شدہ کتاب کے نقائص اور کمیوں سے بھی واقف نہیں ہو پاتا۔
سنگاپور میں کیمروں کی تنصیب لازمی!
سنگاپور میں یکم جولائی 2024ء تک تمام پِری اسکول مراکز کے لیے 'کیمرے' لازمی قرار دے دیے گئے ہیں۔ یہ ویڈیو والدین بھی حاصل کر سکیں گے، بشرطے کہ وہ کوئی معقول وجہ دے سکیں یا کوئی بہت سنجیدہ معاملہ درپیش ہو۔
کیمرے لازمی کرنے کا یہ اقدام بچوں کے تحفظ کے ادارے کی جانب سے اٹھایا گیا ہے، یہ کیمرے تدریسی کمروں، کھیل کی جگہ اور دیگر سرگرمیوں کے حصوں وغیرہ میں نصب کیے جائیں گے، جب کہ اس میں تخلیے کا مکمل خیال رکھتے ہوئے بیت الخلا اور عملے کے کمروں کو استثنا حاصل ہوگا۔
اس اقدام کے پیچھے یہ تاثر پایا جاتا ہے یہ کیمرے لگوانے کی وجہ دو بچوں کے حوالے سے بدسلوکی کے الزامات سامنے آنا ہیں، جس کی ویڈیو میں استاد کی جانب سے بچوں سے ناروا برتائو دیکھا جا سکتا ہے، جس کے بعد انھیں حراست میں بھی لے لیا گیا ہے، تاہم سنگاپور میں بچوں کے تحفظ کے ادارے نے اپنے اس حکم کو ان واقعات سے جوڑنے کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ ان کا کیمرے کا یہ منصوبہ تو پچھلے برس کا ہے۔
چینی معیشت بھی 'کورونا' یا 'کوویڈ 19' کے بعد پیدا ہونے والی معاشی ابتری سے نبرد آزما ہے۔ اس وقت چین کے شہروں میں ہر پانچ میں سے ایک نوجوان بے روزگار ہے۔
ایسے میں وہاں ایک 31 سالہ 'ولاگر' ژنگ جیائی نے 'کُل وقتی بیٹی' کی ملازمت کے حوالے سے اپنی ایک ویڈیو بنائی ہے، جس میں وہ اپنے روز مرہ کے معمولات اس طرح 'فلم بند' کرتی ہیں کہ صبح اٹھ کر والدین سے باتیں کرنا، پھر ان کے ساتھ بازار جا کر سودا سلف لانا، واپس آکر کھانا وغیرہ تیار کرنا، بھر گھر کے کام کاج کر کے آرام کرنا۔ یہ دراصل 'کُل وقتی بیٹی' کا تصور ہے۔
چین بھر میں نوجوانوں کی بے روزگاری ریکارڈ سطح کو چھو رہی ہے۔ 'ژنگ جیائی' 'کورونا' کی وبا سے پہلے ملبوسات کی فروخت کا کام کرتی تھیں، وہ اکثر اپنے والدین سے چہل قدمی کے دوران گفتگو کرتے ہوئے 'ویڈیو' بناتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے والدین انھیں ان سارے کاموں کے عوض آٹھ ہزار چینی 'ین' (یعنی ڈیڑھ ہزار امریکی ڈالر) ادا کرتے ہیں۔
'کُل وقتی بچے' کی نہ صرف تنخواہ ملتی ہے، بلکہ حقیقی طور پر اپنے والدین کے ساتھ رہنے کا لطف بھی ملتا ہے۔ ژنگ جیائی کہتی ہیں کہ ابتداً ان کے لیے گھر کا سودا سلف لانا، گاڑی چلانا اور کھانا وغیرہ پکانا بہت اچنبھے کا کام لگتا تھا، حتیٰ کہ انھیں مختلف قسم کی سبزیوں کے ناموں میں تمیز بھی کرنا نہیں آتی تھی، لیکن اب یہ ان کے لیے مشکل نہیں۔ یہ سب لوگ 'کل وقتی' ملازمت کے طور پر نہیں کرتے، بلکہ بہت سے کم تنخواہ پانے والے اپنے گھر پہنچنے کے بعد یہ انجام دیتے ہیں۔
میرے اہل خانہ میرے اس فیصلے میں میرا کافی ساتھ دیتے ہیں۔ ان کے لیے میری کم آمدن سے بھی زیادہ میرا جذباتی اطمینان اہمیت رکھتا ہے۔ دوسری طرف ماہرین اس صورت حال کی وجہ 'کورونا' کی وبائی صورت حال میں عائد ہونے والی طویل کاروباری بندشوں کو قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''کُل وقتی اولاد کا رجحان 'کورونا' کے دوران اپنے کاموں سے طویل عرصے تک کٹے رہنے کے بعد پیدا ہوا ہے۔''
علاوہ ازیں تعلیمی داخلوں میں 2012ء میں 30 فی صد اور پچھلے سال تقریباً 60 فی صد اضافے نے بھی بے روزگاری بڑھائی ہے، کیوں کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بَڑھیا ملازمتوں کے متمنی ہوتے ہیں۔ مارکیٹنگ کی پروفیسر زہو ہانگ کہتی ہیں کہ ہماری صنعتیں جدید ٹیکنالوجی کو مکمل طور پر نہیں اپنا سکی ہیں، اس لیے انھیں خدشہ ہے کہ نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 46.5 فی صد تک پہنچ سکتی ہے۔
بہت سے ماسٹرز کیے ہوئے نوجوان گاڑیاں چلا رہے ہیں، یا گھروں پر کھانے پہنچانے کا کام کر رہے ہیں، حتیٰ کہ خاکروب کی ملازمتوں کے لیے بھی ایسے اعلیٰ تعلیم یافتہ امیدوار سامنے آئے، جس کے لیے اسکول کی تعلیم کافی تھی۔ بیجنگ یونیورسٹی کے ایک گریجویٹ نوجوان کا خیال تھا کہ آج کل چین میں نوجوان قابل قدر آمدن تو چاہتے ہیں، لیکن اس کے لیے زائد کام کرنا نہیں چاہتے یا پھر ان کے پاس پہلے ہی سے کام کا بوجھ زیادہ ہوتا ہے۔
چینی 'قومی شماریاتی ادارے' کے اعداد وشمار کے مطابق شہروں میں 16 سے 24 سال کی عمر میں بے روزگاری کی شرح 21.3 فی صد بڑھ چکی ہے، 25 سے 59 سال کی عمر تک یہ تناسب 4.1 فی صد ہے۔ 11.6 ملین نئے گریجویٹ کی افرادی قوت سامنے آنے کے بعد یہ شرح اور بڑھے گی۔
بنگلا دیش میں ججوں کا کال، مقدمات دُگنے!
بنگلادیش میں 'لا کمیشن' کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وہاں تقریباً 95 ہزار لوگوں کے لیے ایک جج موجود ہے۔ گذشتہ 15 برسوں میں ججوں کی کمی کے سبب وہاں زیر التوا مقدمات دُگنے ہوگئے ہیں۔ بنگلا دیش کی مختلف عدالتوں میں اس وقت 4.2 ملین مقدمات زیرسماعت ہیں، وہاں 94 ہزار 444 شہریوں پر ایک جج دست یاب ہے۔
ہندوستان میں 47 ہزار 619 افراد اور پاکستان میں 50 ہزار افراد پر ایک جج کا حساب بیٹھتا ہے، اسی طرح برطانیہ میں تین ہزار 186، اور امریکا میں ہر 10 ہزار شہریوں کے لیے ایک جج موجود ہے۔ یہ رپورٹ 'پارلیمانی کمیٹی' کے سامنے پیش کی گئی اور اس کی وجوہات ججوں کی کمی قرار دی گئی ہے۔
یہ اعداد وشمار ضلعی، سیشن اور دیگر عدالتوں کے جج کو ملکی آبادی پر تقسیم کرنے کے بعد سامنے آئے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ اگر مقدمات کا یہ بوجھ کم نہ ہوا تو عوام کا عدالتی نظام پر سے اعتماد اٹھ جائے گا۔
مقدمات جلد نمٹانے کی سفارش کرتے ہوئے تجویز کیا گیا ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر معقول تعداد میں جج متعین کیے جائیں، یا پھر عارضی طور پر سبک دوش ججوں کی خدمات حاصل کرلی جائیں، تاکہ عوام اور ججوں کی تعداد میں یہ تفاوت ختم ہو سکے۔ بتایا گیا ہے کہ اگر پانچ ہزار جج مقرر کیے جاتے ہیں، تو زیر التوا مقدمات کی تعداد 'قابل برداشت' حد تک کم ہو سکتی ہے۔
انگریزی کے ٹیسٹ میں 88 فی صد جاپانی بچے ناکام!
جاپان میں تیسری کلاس میں انگریزی کے زبانی ٹیسٹ میں تقریباً 88 فی صد بچے ناکام ہوگئے، جب کہ صرف 12.4 فی صد بچے درست جواب دے سکے۔
یہ نتائج پچھلے سال کے ٹیسٹ سے 18.4 فی صد کم ہیں۔ اس ٹیسٹ میں 60 فی صد سے زائد بچے انگریزی کے ایک سوال کا بھی درست جواب نہ دے سکے! اگرچہ یہ ٹیسٹ سالانہ بنیادوں پر ہوتا ہے، لیکن اس بار یہ چار سال بعد منعقد ہوا۔ انگریزی بول چال میں 46.1 فی صد سوالات کے جواب درست مل سکے، جو پڑھنے، سننے اور لکھنے کے حوالے سے تھے، جو گذشتہ ٹیسٹ سے 10.4 فی صد کم تھے۔
بتایا جاتا ہے کہ اس ٹیسٹ میں انگریزی بول چال کے حصے کے پانچ سوالات میں سے ایک سوال ماحولیاتی مسائل پر ایک ویڈیو دیکھنے کے بعد انگریزی میں اس پر اپنے خیالات کے اظہار پر مبنی تھا۔ انگریزی پڑھنے اور سننے کے حوالے سے ٹیسٹ کی درستی کا تناسب 50 فی صد، جب کہ تحریری انگریزی میں اوسط 24.1 فی صد رہی۔
دوسری جانب جاپانی حکام اس ٹیسٹ کو مشکل قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ جاپانی بچوں کی انگریزی زبان کی صلاحیت گری ہے، اس ٹیسٹ کا پچھلے ٹیسٹ سے موازنہ بے محل ہے۔ بعض ماہرین نے یہ بھی کہا ہے کہ جدید مواد پر مبنی یہ ٹیسٹ بچوں کی لسانی صلاحیت جانچنے کے لیے غیرمناسب تھا۔
امریکا:
نوجوانوں کی موت کی سب سے بڑی وجہ آتشیں اسلحہ!
امریکی محکمۂ انسداد امراض کے مطابق 2021ء میں امریکا میں بچوں اور نوجوانوں کی موت کی سب سے بڑی وجہ فائرنگ قرار پائی ہے۔
امریکی اکادمی برائے طب اطفال کے جریدے میں بتایا گیا ہے کہ ایک سال میں 19 سال کی عمر تک کے چار ہزار 752 جَنے موت کا شکار ہوئے، جن میں 64 فی صد کو گولی ماری گئی، 30 فی صد نے خودکُشی کی، جب کہ 3.5 فی صد حادثاتی طور پر اس کی زد میں آگئے۔
یہ تعداد تین سال کے دوران 41.5 فی صد زیادہ دیکھی گئی ہے۔ بہت سے ماہرین بچوں کی آتشیں اسلحے سے ان ہلاکتوں میں اضافے کو 'کورونا' کی وبائی صورت حال کے بعد پیدا ہونے والے خوف اور ذہنی کیفیات کا نتیجہ بھی قرار دے رہے ہیں۔
جب کہ رواں برس کے اب تک کے اعداد وشمار کے مطابق اسلحے کے استعمال سے اب تک ایک ہزار 187 بچے اور نوجوان جان سے گزر چکے ہیں۔
نیپال میں 'غیرقانونی تراجم' کی بھرمار
ہندوستان میں مقیم بنگلادیش کی متنازع مصنفہ تسلیمہ نسرین نے نیپالی زبان میں ترجمہ کرکے چھاپی گئی اپنی کتب کو چوری اور غیرقانونی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی کتب کے ناشر نے ایسے کسی ترجمے کی اجازت نہیں دی، نہ ہی ان سے کسی نے اجازت لی اور نہ ہی اس کا انھیں کوئی معاوضہ دیا گیا۔
دنیا کے دیگر ممالک کی طرح نیپال میں بھی مصنف کی اجازت کے بغیر کتاب کا ترجمہ یا اشاعت قابل سزا جرم ہے، لیکن نیپال کے بازار ایسی کتب سے بھرے ہوئے ہیں۔ ایسے تراجم کے ناقص ہونے پر تنقید بھی ہوتی ہے، جیسا کہ 1200 صفحات کی ایک کتاب ترجمے کے بعد سُکڑ کر 200 صفحات تک محدود ہو جاتی ہے۔ وہاں سوال یہ بھی کیا جاتا ہے کہ نام وَر امریکی ماہر اسٹیو جوبز پر لکھی گئی کتاب کے نیپالی ترجمے کے لیے اب کس سے رابطہ کیا جائے؟
انگریزی میں ماسٹرز کی حامل ایک مترجم اچھیت کوئیرالا جو ایک روزنامے سے بھی وابستہ ہیں، 'غیرقانونی ترجمے' کا اعتراف کرتی ہیں، لیکن دوسری طرف ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ فقط ترجمہ تو نہیں ہوتا، بلکہ ایک تخلیقی تحریر بھی ہوتی ہے۔ تاہم بین الاقوامی ناشرین نے بھی ایسے تراجم کو 'جعلی' اور 'چوری شدہ' قرار دیا ہے۔
نیپال کے ایک اور معروف لیکھک اور مترجم باسنتا تھاپا اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ اس عمل سے پیسے تو کھرے کر لیے جاتے ہیں، لیکن وہ قاری جو اصل کتاب سے نا آشنا ہوتا ہے، تو وہ ترجمہ شدہ کتاب کے نقائص اور کمیوں سے بھی واقف نہیں ہو پاتا۔
سنگاپور میں کیمروں کی تنصیب لازمی!
سنگاپور میں یکم جولائی 2024ء تک تمام پِری اسکول مراکز کے لیے 'کیمرے' لازمی قرار دے دیے گئے ہیں۔ یہ ویڈیو والدین بھی حاصل کر سکیں گے، بشرطے کہ وہ کوئی معقول وجہ دے سکیں یا کوئی بہت سنجیدہ معاملہ درپیش ہو۔
کیمرے لازمی کرنے کا یہ اقدام بچوں کے تحفظ کے ادارے کی جانب سے اٹھایا گیا ہے، یہ کیمرے تدریسی کمروں، کھیل کی جگہ اور دیگر سرگرمیوں کے حصوں وغیرہ میں نصب کیے جائیں گے، جب کہ اس میں تخلیے کا مکمل خیال رکھتے ہوئے بیت الخلا اور عملے کے کمروں کو استثنا حاصل ہوگا۔
اس اقدام کے پیچھے یہ تاثر پایا جاتا ہے یہ کیمرے لگوانے کی وجہ دو بچوں کے حوالے سے بدسلوکی کے الزامات سامنے آنا ہیں، جس کی ویڈیو میں استاد کی جانب سے بچوں سے ناروا برتائو دیکھا جا سکتا ہے، جس کے بعد انھیں حراست میں بھی لے لیا گیا ہے، تاہم سنگاپور میں بچوں کے تحفظ کے ادارے نے اپنے اس حکم کو ان واقعات سے جوڑنے کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ ان کا کیمرے کا یہ منصوبہ تو پچھلے برس کا ہے۔