دُمانی کے دامن میں
یہاں آکر ہم خدا سے اور قریب ہوجاتے ہیں
(دوسری قسط)
قراقرم کا برف زار
راکاپوشی سے دیران کی چوٹی تک گلیشیئر کی ایک دیوار سی کھڑی ہے جسے ''آئس وال'' یا ''آئس وال آف راکاپوشی'' بھی کہا جاتا ہے۔ اب اگلے پانچ گھنٹوں تک ہمارا سفر اسی برف زار میں ہوگا۔
یہاں پہنچ کر جب ہمیں ہوا کے تھپیڑوں نے ستایا تو ہم نے سامان سے اپنے اپنے گرم کپڑے برآمد کرلیے اور سفر شروع کیا۔ سورج کی وجہ سے برف اپنی جگہ جمی ہوئی تھی جو ہمارے لیے اچھی بات تھی لیکن راستے میں آنے والے نالوں کا پاٹ اتنا چوڑا تھا کہ ہمیں کراس کرنے کے لیے کچھ آگے جانا پڑتا اور تنگ پاٹ سے چھلانگ لگانی پڑتی۔ ان نالوں کے پانی کی شدت تو آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ سارا گلیشیئر کا پانی تھا۔
ایسی جگہوں پر آ کر ہم خدا سے اور قریب ہو جاتے ہیں شاید اس لیے کہ شہروں کی تیزرفتار اور چکاچوند زندگی ہمیں قدرت کی باریکیوں اور عجائب کی طرف غور کرنے کا موقع کم کم ہی دیتی ہے۔ اس لیے میں اکثر کوشش کرتا ہوں کہ ٹریکنگ کے دوران موسیقی کم سنوں اور ذکر اللہ زیادہ سے زیادہ ہو۔ سو یہاں بھی میری زبان ذکر اور اپنوں کے لیے دعاؤں سے رواں تھی۔
اب تک راکاپوشی ہمارے ساتھ ساتھ تھا لیکن جیسے جیسے راستہ طے ہوتا گیا ہم مناپن گلیشیئر کے ہم سفر بن گئے اور دیران کی چوٹی ہمیں دکھائی دینے لگی، جب کہ ہماری ایک جانب ہنزہ کے پہاڑ تھے جو سورج کی روشنی سے چمک رہے تھے۔
تین گھنٹے بعد بھی یہ ٹریک ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا اور اب برف دیکھ دیکھ کہ ایک کوفت سی ہونے لگ گئی تھی۔ اتنے میں دھڑام کی آواز آئی
دیکھا تو مہدی پھسل کر گرا تھا اور اس کے ہاتھ سے کُکر چھوٹ کر ایک بڑے نالے میں جا گرا۔
اس سے پہلے کہ ہمارا اکلوتا پکانے کا برتن بہہ کے دور نکل جاتا اور ہم دیران جا کر ہاتھ ملتے رہ جاتے نعیم نے دوڑ لگائی اور کچھ نیچے جا کر اسے پکڑ لیا۔ الحمد لِلہ پڑھ کر ہم اور احتیاط سے چلنے لگے۔ کچھ دیر بعد بارش شروع ہوگئی۔
اب مجھے پریشانی ہوئی کہ آگے کا راستہ آسانی سے نہیں کٹنے والا۔ جیکٹ کے نیچے ہاف سلیو شرٹ کی وجہ سے ٹھنڈ بھی لگ رہی تھیم سو میرے ذکر اور دعاؤں میں شدت آگئی۔ شاید اتنی پڑھائی تو میں نے پچھلے دو تین مہینوں میں نہیں کی ہوگی۔
کرم خُدا کا کہ بیس منٹ تک ہونے والی ہلکی بارش یک دم رک گئی اور ہم سب کے قدم تیز ہو گئے تاکہ یہ برف زار جلد از جلد پار کر سکیں۔ اس ٹریک پر جس چیز کی اہمیت کا سب سے زیادہ اندازہ ہوا وہ پانی تھا۔ حلق میں کانٹے پڑنے پر جب دو گھونٹ ٹھنڈا پانی اندر جاتا تو جسم میں ایک بجلی سی دوڑ جاتی۔ سچ کہا کسی نے وہ بے رنگ مائع جو زمین پر صرف آب ہوتا ہے، پہاڑوں پر آب حیات ہوتا ہے۔
برف زار سے ایک جانب مڑ کہ پتھریلا ٹریک شروع ہو گیا جس سے آگے برف کی کریوز (گلیشیئر میں پڑی برف کی دراڑیں جو اکثر بہت گہری ہوتی ہیں) ہمارے انتظار میں تھیں۔ کریوز کے بارے میں کافی پڑھ اور سن رکھا تھا، سو اس خطرناک جگہ کو تکنیکی طور پر پار کرنا تھا۔ اکثر کریوز لگتی چھوٹی ہی لیکن پورا پورا بندہ نگل لیتی ہیں۔
دوسرا ان کے کنارے اکثر پھسلن والے ہوتے ہیں اس لیے خود کو سنبھالنا پڑتا ہے۔ کچھ کریوز خود پار کیں کچھ میں پورٹرز نے ہماری مدد کی اور یوں ہم یہ حصہ بھی پار کرگئے۔ سلمان نے بتایا کہ اب صرف دو چڑھائیاں ہیں اور پھر بیس کیمپ آپ کا۔ سلمان چوںکہ میدانی علاقے کا بندہ ہے سو مجھے یقین آگیا کہ واقعی اب دو چڑھائیاں ہوں گی۔
لیکن۔۔۔غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا۔
ایک کے بعد دوسری چڑھائی سے جب سانس پھول گیا تو کچھ دیر دم لینے کو رکے۔ سلمان سے میں نے پھر پوچھا کہ مجھے بتاؤ واقعی میں کتنا فاصلہ رہ گیا ہے؟ لیکن سلمان نے پکے پٹھانوں (جو اکثر آپ کو دو تین گھنٹے کے ٹریک کو آدھا گھنٹہ کہہ کر بہکاتے ہیں) کی طرح مجھ سے کہا کہ بس عظیم بھائی کچھ ہی آگے ہے، ایک دو چڑھائیاں اور جو پندرہ منٹ کی ہیں۔ لیکن یہ پندرہ منٹ جب آدھا گھنٹہ بن گئے تو میں نے بھی صبر کرلیا۔
چھے سات چڑھائیاں چڑھنے اترنے کے بعد ایک دلدل کو پار کیا تو سامنے ہماری آخری چڑھائی تھی جس کے بعد سلمان کے بقول ہماری منزل تھی۔ ہمارے دونوں پورٹر مہدی اور نعیم کب کے آگے جا چکے تھے اور یہ پہاڑ اتنا زیادہ ڈھلوانی سطح کا تھا کہ سلمان نے پکڑ کہ وجہیہ کو پار کروایا اور مجھے بھی کہیں کہیں اس کی مدد لینی پڑی۔
وجہیہ اتر گیا تھا، میں جب اوپر چڑھ گیا تو کچھ دور بیس کیمپ میں لگا ہوا گلابی خیمہ مجھے نظر آیا۔ یہاں میں نے سلمان کو آگے جانے کا کہا اور خود اس پہاڑ کے اوپر بیٹھ گیا۔ آسمان کو دیکھا اور اوپر بیٹھے تخت نشین کو کچھ آنسوؤں کا نذرانہ پیش کیا۔ وہ مجھے بارش، گلیشیئر، بڑے پتھروں، برفانی درزوں، دلدل اور ڈھلوانوں سے بچا کر صحیح سلامت یہاں تک لے آیا تھا۔ کچھ دیر بعد میں نیچے اترا اور بیس کیمپ جہاں گھاس کا قالین بچھا تھا وہاں جوتے اتار کر چلنے لگ گیا۔
دیران بیس کیمپ
خیمے کے قریب پہنچ کر میں میٹ پر ڈھے گیا اور دیران کو دیکھنے لگا۔
راکاپوشی کے مشرق میں واقع دیران کی چوٹی 7،266 میٹر اونچی ہے جو قراقرم کے پہاڑی سلسلے کا حصہ ہے۔ اہرام کی شکل کی یہ چوٹی نگر اور وادیٔ بگروٹ میں واقع ہے۔ یہ دنیا کی سات ہزار دو سو میٹر سے بلند 108 چوٹیوں میں 93 نمبر پر ہے جسے سب سے پہلے 1968 میں سر کیا گیا تھا۔
نعیم کے مطابق اسے سر کرنا بہت مشکل ہے کہ برف سے ڈھکے ہونے کی وجہ سے یہاں اکثر برفشار آتے رہتے ہیں۔ برطانوی، جرمن اور اطالوی ٹیموں کی ناکامی کے بعد اسے ایک آسٹرین ٹیم نے سر کیا تھا۔ یہاں خیمے لگانے کے بعد نعیم اور مہدی نے فٹافٹ سلنڈر پر نوڈلز بنا کر ہمیں پیش کیے اور کھانے کے لیے لکڑیاں ڈھونڈنے چلے گئے جب کہ میں قدرت کے عجائبات کی تصویرکشی میں مشغول ہوگیا۔
دیران بیس کیمپ اصل میں دیران چوٹی کے دامن میں ایک خوب صورت سرسبز میدان ہے جس کے ایک طرف دیران، ایک جانب سرسبز پہاڑ اور ایک سائیڈ پر گلیشیئر کی دیوار واقع ہے۔ رنگا رنگ پھولوں سے مہکتی اس جگہ پر دریا نما ایک بڑا نالا بھی بہہ رہا ہے جو ہماری پانی کی ضروریات پوری کرنے میں مددگار ثابت ہوا۔
ہمارے گلابی خیمے کے عقب میں بادلوں سے سورج کی آنکھ مچولی دیکھتے اور خدا کی قدرت کو سراہتے سراہتے وقت کیسے گزرا معلوم نہیں، شام سے پہلے دسترخوان پر کھانا چن دیا گیا اور میں ''چکن پلاؤ'' سامنے دیکھ کہ جذباتی ہوگیا۔
یہ سب ہمارے پورٹرز کی محنت تھی کہ آبادی سے دوردراز کے اس ویرانے میں ہمیں کھانے پینے کے حوالے سے کوئی تکلیف نہ ہوئی۔ مزے دار سا چکن پلاؤ جی بھر کے کھایا اور میں نے ''کبرو'' سے بھی شیئر کیا جو اب اکثر میرے آگے پیچھے منڈلا رہا تھا۔
کھانے سے فراغت پا کر ہم نے کچھ دیر آرام کیا اور پھر رات کو ایک بار دیران کے دامن میں محفل جمائی۔ رات کو اس چوٹی کا نظارہ ہی کچھ اور تھا۔ آسمان پر بادل تھے لیکن میں نے انہیں لفٹ نہ کرائی۔
رات کو شاید ہم گیارہ بجے خیمے میں سونے چلے گئے کہ کل کچیلی جھیل سے ہو کر واپس راکاپوشی بیس کیمپ جانا تھا۔ لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
دیران کی دشواری
رات کا ایک بجا تھا کہ بارش شروع ہوگئی۔ میں سمجھا یہ ابھی رک جائے گی لیکن مسلسل بارش نے مجھے الرٹ کردیا۔ سلمان اور وجیہہ شاید نیند کی وادیوں میں تھے لیکن میں جاگ رہا تھا۔ کچھ دیر میں میری بھی آنکھ لگ گئی۔
رات کے کسی پہر پاؤں میں گیلا پن محسوس ہوا تو اٹھ بیٹھا، کیا دیکھتا ہوں کہ تین گھنٹوں کی مسلسل بارش سے کچھ پانی اندر آ گیا ہے جس نے میرے سلیپنگ بیگ تک رسائی حاصل کرلی ہے۔ قریب رکھا ہوا سامان بھی بھیگنے لگا تو اسے دوسری طرف رکھ کر آنکھیں بند کر لیں۔
بارش مجھے بہت پسند ہے، کسے پسند نہیں ہوتی؟ سوائے ان کے جن کے گھر کچے ہوتے ہیں یا پھر فصلوں پر جس باپ کی بیٹی بیاہی جانی ہوتی ہے۔ آج کی بارش مجھے شاید اچھی نہیں لگ رہی تھی کہ اس کی وجہ سے ٹریک اور دشوار ہوجانا تھا۔
اتنے میں باہر کچھ آواز ہوئی، کبرو کو نعیم کیمپ کے اندرونی و بیرونی حصے کے بیچ لِٹا کر جا چکا تھا۔ کبرو بھی ادھر ادھر کروٹ لے رہا تھا۔ اتنے میں صبح کی سپیدی نمودار ہوئی اور میں نے موبائل پر تلاوت سننی شروع کردی۔ اللہ سے دعا کی کہ اس بارش کو روک دے لیکن شاید اس میں کوئی مصلحت تھی۔
سلمان اٹھا تو اسے کہہ کر میں نے کبرو کو اندر لٹالیا۔ بے چارہ بھیگا ہوا کتا اندر آتے ہی سلیپنگ بیگ پر سوگیا۔ ہم آج کی پلاننگ کرتے رہے کہ نعیم آ گیا۔ فیصلہ یہ ہوا کہ اس وقت ناشتے میں جو بن سکتا ہے وہ کھا پی کر فوراً نکلا جائے کیوںکہ بارش کے رکنے کے کوئی آثار نہیں تھے۔
کچھ دیر بعد ابلے انڈے، کل کے بچے چاول اور گرما گرم چائے خیمے میں بچھے دسترخوان پر رکھ دی گئی۔ چائے کو دیکھ میری باچھیں کھل گئیں جس نے اس سردی میں بہت حد تک توانائی فراہم کردی تھی۔
دیران اپنا حسن نیلام نہیں کرتی
ناشتہ کر کے ہم نے اپنا سامان پیک کیا، کپڑے بدلے اور خیمے سے باہر آ نکلے۔ دیران کی چوٹی بادلوں کے گھونگھٹ میں دلہن کی طرح چھپی بیٹھی تھی۔
جناب مستنصر حسین تارڑ دیران کے بارے لکھتے ہیں؛
''پہاڑوں کے شیدائیوں کا کہنا ہے کہ راکاپوشی کے حسن کے چرچے صرف اس لیے ہوتے ہیں کہ وہ شاہراہِ قراقرم سے، نگر سے، ہنزہ سے۔۔۔ ہر وادی اور مقام سے نظر آتی ہے۔ عیاں ہوتی ہے، اپنا روپ برہنہ کرتی ہے جب کہ دیران پیک اس کی نسبت چٹانی بناوٹ، برفانی سجاوٹ اور جمال کے ساتھ جلال میں بھی اُس سے کہیں برتر اور افضل ہے۔ صرف یہ کہ اس نے اپنے حسن کو ہر مقام اور وادی میں ظاہر کر کے نیلام نہیں کیا۔ وہ پردہ پوش رہتی ہے، صرف اسے اپنا حسن دکھاتی ہے جو اس کی چاہت میں طویل مسافتیں طے کر کے، صعوبتیں سہہ کر یہاں تک چلا آئے۔''
اور میں انہیں عاشقوں میں سے ایک تھا۔
یہ بات تو نعیم بھی کہہ چکا تھا کہ مناپن آنے والے پانچ سو لوگوں میں سے سو راکاپوشی تک آتے ہیں اور ان میں سے کوئی دو دیران پیک تک، اور آپ انہی دو خوش نصیبوں میں سے ہیں۔
تب تک بارش کچھ ہلکی ہوچکی تھی اور پہاڑی علاقہ ہونے کے باعث پانی کسی جگہ جمع بھی نہ ہوا تھا۔ بارش کی وجہ سے کچیلی جھیل کو کینسل کرنا پڑا سو اب راکاپوشی بیس کیمپ سے ہو کر ہپاکن جا کر رات بسر کرنی تھی۔ نعیم اور مہدی سامان باندنے میں جُت گئے اور ہم نے اپنا واپسی کا ٹریک شروع کیا لیکن اس بار دوسرے راستے سے جو نعیم کے مطابق آسان اور چھوٹا تھا۔
جب آپ کسی ایسے علاقے، جہاں نصیب والے ہی پہنچ سکتے ہیں، کو الوداع کہتے ہیں تو دل رنج و الم سے بھر جاتا ہے۔ میں نے بھی ایک آخری الوداعی نظر دیران پر ڈالی، الوداع کہا اور اپنا رخ موڑ لیا۔
ایک اور طوفان کا سامنا تھا مُجھ کو
آسمان پر چاروں طرف بادل تھے
زمین پر چاروں طرف پہاڑ اور برف تھی
سرسبز پہاڑ کی پگڈنڈیوں پر کچھ چیونٹے رینگ رہے تھے
جن کی منزل راکاپوشی کا دامن تھا
لیکن ایک وسیع برف زار ابھی ان کا منتظر تھا۔
چلتے چلتے دونوں پورٹرز ہم سے آملے۔ یہ ٹریک قدرے آسان تھا جو سرسبز پہاڑوں کے کنارے چھوٹی سی پگڈنڈی پر مشتمل تھا جس کے کنارے کِھلے ہوئے رنگ برنگے پھول میری توجہ بار بار اپنی جانب کھینچ لیتے تھے۔
اس علاقے میں پھولوں کی جتنی ورائٹی تھی وہ میں نے پہلے کہیں نہیں دیکھی۔ قسم قسم اور رنگ ہا رنگ پھول جو بار بار میرا دل لبھاتے اور بیچ ٹریکنگ رک کہ عکاسی کرنے پہ مجبور کرتے۔
بارش تیز ہوتی جا رہی تھی ساتھ میری دعائیں بھی لیکن اس بار قسمت میں امتحان لکھا جاچکا تھا۔ بھاری بھرکم ٹریکنگ شوز گیلے ہو کر اور بھاری ہوگئے سو رفتار کچھ کم ہوگئی۔ اس ٹریک میں بھی کئی آبشاریں ملیں جنہیں چھلانگیں لگا کر پار کیا۔ نعیم نے بتایا کہ اس پہاڑ کہ دوسری طرف دو گھنٹے کی مسافت پر کچیلی جھیل ہے جہاں آج ہمیں جانا تھا۔
وہ برف زار جسے ہم آتے ہوئے پار کر کے آئے تھے ہمارے کہیں نیچے ساتھ ساتھ چل رہا تھا، اور دیکھ کر حیرت ہو رہی تھی کہ یار یہ ہم نے طے کیا ہے؟
شارٹ کٹ کی لالچ میں جو راستہ ہم نے چنا تھا وہ آگے جا کر بارش کی وجہ سے کئی جگہوں پر ختم ہوچکا تھا۔ سو اب کبھی ہم اوپر تو کبھی نیچے ڈھلوانوں پر اُگی گھاس اور جھاڑیوں کا سہارا لے کر چل رہے تھے۔ کرتے کرتے دو گھنٹے بیت گئے اور اب گلیشیئر کا ٹریک آنے والا تھا۔ لیکن وہاں تک پہنچیں کیسے؟
آگے پھر راستہ گم ہوچکا تھا۔
یہ میری اب تک کی کوہ نوردی کا اذیت ناک ترین دن ثابت ہو رہا تھا۔
اس بارش میں واپسی کیسے ہو گی؟
ہم آگے پھنس گئے اور راستہ نہ ملا تو؟
یہ سوچ سوچ کر میں مایوسی کی کھائی میں گرنے والا تھا۔
یہ وہ وقت تھا جب میرے ماں باپ کے چہرے میری نظروں کے سامنے گھومنے لگے اور ایک تیسرا چہرہ بھی تھا، میری ننھی بھتیجی کا، جیسے مجھے بار بار مسکراتی ہوئی کہہ رہی تھی ''چاچو! آپ فکر نہ کریں۔'' یک دم مایوسی کے بادل چھٹ گئے اور دل سے آواز آئی؛
اے ناشکرے انسان
تیرے رب ذوالجلال نے تجھے اکیلا چھوڑا ہے کیا؟ جو تجھے یہاں تک لایا ہے وہ آگے بھی لے جائے گا۔ بس امید کا دامن تھامے رکھنا۔
نعیم اور مہدی آگے جا کر کہیں سے راستہ کھوج آئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب اس پہاڑ کی بہت ڈھلوان ہے اتر جاؤ گے؟ اور میں نے یقین سے کہا بالکل۔
اس بھربھری مٹی کے پہاڑ کی عمودی ڈھلوان اترنے اور کچھ آگے جانے کے بعد راستہ پھر غائب۔ اب؟
اتنے میں مہدی راستہ ڈھونڈتے دور جا چکا تھا، جسے ہاتھ کے اشارے سے واپس آنے کا کہا اور ہم دھیرے دھیرے آگے بڑھتے اپنا راستہ بناتے گئے۔ یہاں تک کہ ہم گلیشیئر پر پہنچ گئے، وہی جہاں سے دیران پہنچے تھے۔
بارش کی وجہ سے برف پر کافی پھسلن تھی سو آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے کریوز پار کرتے رہے۔ کئی بار ایسا ہوتا کہ بڑی کریوز کی وجہ سے ہمیں کافی پیچھے آنا پڑتا اور اسے تنگ جگہ سے پار کرکے واپس آگے جانا ہوتا جس کی وجہ سے وقت اور انرجی دونوں ضائع ہو رہے تھے۔
میں اپنے ہی خیالوں میں تھا کہ ایک جگہ پھسلا اور اپنا گھٹنا مڑوا بیٹھا۔
اللہ اکبر، یہ تو وہی گھٹنا تھا جو ایک رات پہلے درد کر رہا تھا۔ اللہ نے اگر امتحان میں ڈالا تو ساتھ ہمت بھی دی۔ میں نے درد کو محسوس نہ کرتے ہوئے ٹریکنگ جاری رکھی کچھ دیر بعد درد کا احساس ختم ہوگیا۔ میرے بعد وجیہہ بھی گرا اور اس طرح قدم قدم چلتے ہم نے اس برف زار کو پار کرلیا۔
آگے پتھروں کا صحرا تھا، بارش ختم ہوچکی تھی سو ہمت بڑھ گئی اور وہ بھی پار کر لیا۔ اب ایک آخری چڑھائی جس کے بعد تغافری ہمارا منتظر تھا۔ نعیم تب تک کسی ہرن کی طرح قلانچیں بھرتا دوسری طرف اتر چکا تھا۔
وجہیہ کے ساتھ سلمان اور میرے ساتھ مہدی، ہاتھ پکڑ کر آہستہ آہستہ اوپر چڑھتے گئے اور پھر اس پہاڑی کے اوپر پہنچ کر آخری بار قراقرم کے اس برف زار کو دیکھا جس نے دمانی کے دیدار کی اچھی خاصی قیمت وصولی تھی مجھ سے۔
یہاں میں یہ بتاتا چلوں کہ چوںکہ دیران کا پلان آخری لمحے بنا تھا اور مجھے اس کے ٹریک کا اندازہ نہیں تھا سو میں نے آنے سے پہلے کوئی ورزش یا پرہیز وغیرہ کرکے خود کو تیار نہیں کیا تھا۔ نیز میرے پاس ایک جیکٹ تھی جو اب بھیگ چکی تھی۔ واحد عقل مندی جو میں نے کی تھی وہ یہ کہ ایک عدد اضافی جوگرز کا جوڑا ساتھ رکھ لیا تھا جس نے بہت مدد کی۔
دوسری جانب اتر کر جب میں نے تغافری کی ہری بھری گھاس اور خیموں کو دیکھا تو سب سے پہلے سجدۂ شکر ادا کیا۔ تین گھنٹے کا ٹریک ہم نے بارش کے باعث ساڑھے چار گھنٹوں میں مکمل کیا تھا۔ ہم کچیلی کے کنارے کِھلے پھول نہ دیکھ سکے لیکن کوئی بات نہیں، ہر خواب پورا نہیں ہوتا۔ اگر ہوجائے تو زندگی میں ایک عجیب سا خالی پن در آتا ہے۔ کچھ چیزوں کو ادھورا بھی رہنا چاہیے اور میں کچیلی ادھوری چھوڑ آیا تھا دوبارہ جانے کے لیے۔
میں نے اور وجیہہ نے اپنے دونوں پورٹرز کو انعام دیا جو ان کی بہادری کے آگے کچھ بھی نہ تھا۔
اصلی ہیرو
اس تمام ایڈونچر کے اصلی ہیرو ہمارے پورٹر بھائی نعیم اور مہدی تھے، جنہوں نے کئی کلو سامان لاد کر نہ صرف ہمیں بحفاظت پہنچایا بلکہ کئی جگہوں پر ہمارے لیے راستہ بنایا اور انتظار کیا۔
کسی بھی بڑے ٹریک پر آپ کے پورٹر آپ کا اصلی اثاثہ ہوتے ہیں۔ یہ خوش اور ٹھیک ہوں گے تو آپ خوش رہیں گے۔ سو ان کا خیال رکھیں، ٹریک کے دوران ہمیشہ ان کے مشوروں پر عمل کریں اور ان کے ساتھ فضول میں مت الجھیں (اکثر دوست ایسا کرتے ہیں)۔
سلمان نے بھی اس ٹریک پر گائیڈ ہونے کا بھرپور فرض ادا کیا اور اپنی تیزرفتاری کے باوجود ہمارے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلتا رہا اور میرے تمام سوالوں کا خندہ پیشانی سے جواب دیا۔
میں نے اسے ٹریک پر کہا بھی تھاسلمان یہ مشکلات گزر جائیں گی لیکن خوش گوار یادیں ہمیشہ رہ جائیں گی۔
تغافری سے ہپاکن اور مناپن
تغافری پہنچ کر ہم نے اپنے جوتے اتارے اور کپڑے بدل کر چائے پی۔ اس کے بعد کچن میں آگ کے پاس بیٹھ کر گرماگرم نوڈلز (جو جلدی بن جانے کی وجہ سے یہاں کی سب سے عام خوراک ہے) اندر کیے اور ٹریک پر ہونے والے واقعات پر تبادلۂ خیال کیا۔ دو گھنٹے بعد ہم تینوں ہپاکن کے لیے عازمِ سفر ہوئے۔ نعیم اور کبرو بعد میں روانہ ہوئے۔
ایک تو اتنا لمبا اور مشقت بھرا ٹریک کر کے واپس پہنچے تھے دوسرا اب ہپاکن تک اترائی تھی۔ سو یہ ٹریک سوا ایک گھنٹے میں مکمل کر کے عین مغرب کے وقت ہم ہپاکن اپنے خیمے میں براجمان تھے۔
اللہ کا شکر ادا کر کے فوراً سلیپنگ بیگ میں گھس گئے۔ تب تک کھانا تیار ہوتا رہا۔
ڈنر کا بلاوا آیا اور ہم کچن ٹینٹ کے چبوترے پر جا بیٹھے۔ میرے پسندیدہ گرماگرم دال چاول سامنے تھے اور یقین کریں دال تو بہت لذیذ تھی۔ ساتھ ایک سرپرائز یعنی میٹھا بھی تھا۔ ہم جو صبح سے بسکٹ، پانی اور نوڈلز پر چل رہے تھے، کھانے کے بعد تازہ دم ہوگئے۔ ہپاکن میں موبائل کی دو کمپنیوں کے تھوڑے بہت سگنل بھی آتے ہیں، سو گھر بھی بات ہوگئی۔
سلمان کو کوئی ایمرجنسی تھی تو وہ ایک مقامی ساتھی کے ساتھ اسی وقت نیچے مناپن نکل گیا۔ ہم نے رات دیر تک گپ شپ کی اور سونے چل دیے۔
اگلی صبح بارش سے آنکھ کھلی اور سوچا کہ امتحان ابھی بھی باقی ہے۔ گذشتہ بارش نے ہمیں ذہنی اور جسمانی طور پر تیار کر دیا تھا سو میں، نعیم اور وجہیہ ناشتہ کر کے نو بجے نکل کھڑے ہوئے۔
ہپاکن کی اترائی کے بعد آگے ٹریک کھلا اور صاف تھا۔ کچھ دیر میں بارش بھی رک گئی۔ چلتے چلتے، گپ شپ کرتے، تصاویر بناتے، راستے میں دیگر سیاحوں سے مصافحہ کرتے ہم گیارہ بارہ بجے مناپن پہنچ ہی گئے۔
خوبانی کے درخت دیکھ کر منہ میں پانی بھر آیا لیکن میں نے خود کو باز رکھا۔ اگرچہ یہاں کے لوگ بہت اچھے اور مہمان نواز ہیں لیکن میں نے بغیر اجازت راہ چلتے خوبانی توڑ کر کھانے سے پرہیز کیا۔
مناپن پہنچ کر ہم باہر لان میں رکھے تخت پر ڈھے گئے اور میں نے اپنے ہوٹل مالک سے خوبانی کھانے کی اجازت طلب کی جو ظاہر ہے دے دی گئی۔ تازہ خوبانیاں توڑ کر دھوئیں اور پہلی ہی خوبانی پر پورا جسم شکر الحمد لِلہ پڑھنے لگا۔
تین بجے کے قریب سو کر اٹھا اور فریش ہوکر باہر آیا تو سلمان کو سامنے دیکھ خوش گوار حیرت ہوئی۔ وہ اپنا کام کر کے واپس پہنچ چکا تھا۔ سلمان کے بڑے بھائی عثمان بھی ساتھ تھے جن کے ساتھ ہم نے دوپہر کا کھانا کھایا اور گپ شپ کی۔ ان دونوں کے جانے پر ہم نے کمرے کا رخ کیا۔
اوشو تھنگ اور تیان شورو
آج کا ڈنر ہمارا اوشو تھنگ میں تھا جو یہاں کا سب سے مشہور اور زبردست ہوٹل ہے۔ اس کی یوں تو کئی خصوصیات ہیں جن میں سرفہرست اس کے منگولیائی خیمے، جناب مستنصر حسین تارڑ اور کئی غیرملکی سیاحوں کی اس جگہ سے وابستگی ہے۔ یہاں تارڑ صاحب کے نام سے ایک بلاک ہے جہاں کمروں کے نام ان کی کتب پر رکھے گئے ہیں۔
یہ ہوٹل کئی دنوں سے پیک تھا جہاں یورپی سیاح بھی نظر آ رہے تھے۔ اس کے مرکزی ہال میں تارڑ صاحب کی مختلف تصاویر، علاقائی ہتھیار اور نوادرات سیاحوں کی توجہ کھینچ رہے تھے۔ ایک جانب گوشۂ کتب تھا جہاں مجھے کئی جاننے والے مصنفین کی کتابیں بھی نظر آئیں۔
اسرار بھائی سے مل کر اپنا تعارف کروایا اور لان کی ہلکی روشنی میں فوارے کے پاس ایک میز پر ہم بیٹھ گئے۔ عثمان آیا تو اس سے پتا چلا سلمان کسی ضروری کام سے اسلام آباد کے لیے نکل چکا ہے سو وہ ہمیں جوائن نہیں کرسکے گا۔
ڈنر میں ہم نے ''غوڑکن'' کا آرڈر دیا جس کی سلمان نے بہت تعریف کی تھی۔ غوڑکن، ایک قدیم پتھر کے برتن میں پکایا جانے والا بکرے کا سالن ہے جسے یہاں کے روایتی پکوانوں میں عظیم مقام حاصل ہے۔ نگر کے باسی کئی صدیوں سے ایک خاص قسم کے پتھر سے بنے برتنوں میں کھانا پکاتے آ رہے ہیں اور اسی روایت کو اسرار بھائی نے اوشو تھنگ میں زندہ رکھا تھا۔ گرم گرم شوربے سے آنے والی آواز ''غڑ غڑ غڑ'' کی وجہ سے اسے یہ نام دیا گیا ہے۔
کھانا لگنے کے بعد اسرار بھائی بھی ہمارے ساتھ بیٹھ گئے اور گپ شپ کرنے لگے۔ اس دوران میں نے ان کو اپنی دونوں کتب ''شاہنامہ'' اور ''حیرت سرائے پاکستان'' دکھائیں جن میں گلگت بلتستان کی موسیقی، کھانوں، قلعوں اور عجائب گھروں سے متعلق مضامین کو انہوں نے تنقیدی نگاہ سے پرکھا اور میرا حوصلہ بڑھایا۔
''یہ کتابیں کل مجھے سائن کر کے دینا۔'' وہ بولے اور میں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔
یوں تو غوڑکن منفرد سا تھا لیکن میں نے یہاں آلو کو بہت مس کیا۔ آپ جانتے ہیں نہ آلو کھانے کے بعد بندہ آلو سا لگنے لگتا ہے۔ عشائیے کے بعد ہمیں یہاں کا قہوہ اعزازی طور پر پیش کیا گیا جس کے بعد ہم نے واپس ہوٹل کی راہ لی۔
اوشو تھنگ جانے سے پہلے میں یہاں کی تمام نوادرات کی دکانیں چھان چکا تھا اور اس وقت اشکین، خشک خوبانی، اخروٹ کا تیل، نگر کا قہوہ، لکڑی کے چمچ اور چھوٹی کے لیے ایک خوب صورت دستکاری والا سوٹ میرے بیگ میں تھا۔
کل کا دن میری روانگی (اور امتحان) کا دن تھا اور وجیہہ کو آگے ہنزہ چلے جانا تھا۔
صبح ہمارا استقبال پھر سے بارش نے کیا۔ یہ بارش دیران سے میرے تعاقب میں تھی۔ مجھے ساڑھے آٹھ تک اوشو تھنگ پہنچنا تھا لیکن ہوٹل سمیت سارا مناپن خالی لگ رہا تھا۔ ایک تو شدید بارش اوپر سے آج یہاں عیدغدیر تھی، بڑی کوشش کے بعد ایک ٹیکسی ہاتھ آئی جس نے مجھے ہوٹل سے کچھ نیچے اوشو تھنگ چھوڑا۔
یہاں آکر سیدھا کچن کا رخ کیا، اسرار بھائی سے ملا اور ناشتے کا آرڈر دے کہ ہال میں ایک ٹیبل پر آ بیٹھا۔
اتنے میں اسرار بھائی بھی آگئے اور میرے بارے میں مزید دریافت کرنے لگے۔ یوں تو ہمارے کئی مشترکہ دوست اور شوق تھے لیکن ایک بڑا حوالہ لاہور کے ''تکیہ تارڑ'' کا تھا جس سے ہم دونوں جڑے ہوئے ہیں۔ اپنی اصلی نفاست کے ساتھ ویٹر نے ناشتہ سرو کرنا شروع کیا۔
مقامی طور پر تیار کیا گیا خوبانی کا جیم، پراٹھا اور ایک ڈش میں سجا ''تیان شورو۔''
اگر میں یہ کہوں کہ اس برستی بارش میں، میں خصوصاً اس ڈش کے لیے اوشو تھنگ آیا تھا تو غلط نہ ہوگا۔ تیان شورو یہاں کا روایتی کھابا ہے جو انڈوں سے تیار کیا جاتا ہے۔ انڈے کی موٹی تہہ کو رول کر کے بیچ میں ٹماٹر کی کھٹی چٹنی بھری جاتی ہے اور اوپر دھنیا گارنش کر کے سلاد کہ پتوں پر پیش کیا جاتا ہے۔ سواد ایسا کہ دل خوش ہوجائے اور خوشبو ایسی کہ جی اور للچائے۔ اسے میں نے دونوں طریقوں سے کھایا یعنی پراٹھے کے ساتھ بھی اور روکھا بھی۔
تیان شورو سے دودو ہاتھ کرنے کے بعد چائے پیش کی گئی اور میں نے تب تک اپنی کتب پر اسرار بھائی کے لیے دل کی باتیں لکھنا شروع کر دیں۔ ( جاری ہے )
قراقرم کا برف زار
راکاپوشی سے دیران کی چوٹی تک گلیشیئر کی ایک دیوار سی کھڑی ہے جسے ''آئس وال'' یا ''آئس وال آف راکاپوشی'' بھی کہا جاتا ہے۔ اب اگلے پانچ گھنٹوں تک ہمارا سفر اسی برف زار میں ہوگا۔
یہاں پہنچ کر جب ہمیں ہوا کے تھپیڑوں نے ستایا تو ہم نے سامان سے اپنے اپنے گرم کپڑے برآمد کرلیے اور سفر شروع کیا۔ سورج کی وجہ سے برف اپنی جگہ جمی ہوئی تھی جو ہمارے لیے اچھی بات تھی لیکن راستے میں آنے والے نالوں کا پاٹ اتنا چوڑا تھا کہ ہمیں کراس کرنے کے لیے کچھ آگے جانا پڑتا اور تنگ پاٹ سے چھلانگ لگانی پڑتی۔ ان نالوں کے پانی کی شدت تو آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ سارا گلیشیئر کا پانی تھا۔
ایسی جگہوں پر آ کر ہم خدا سے اور قریب ہو جاتے ہیں شاید اس لیے کہ شہروں کی تیزرفتار اور چکاچوند زندگی ہمیں قدرت کی باریکیوں اور عجائب کی طرف غور کرنے کا موقع کم کم ہی دیتی ہے۔ اس لیے میں اکثر کوشش کرتا ہوں کہ ٹریکنگ کے دوران موسیقی کم سنوں اور ذکر اللہ زیادہ سے زیادہ ہو۔ سو یہاں بھی میری زبان ذکر اور اپنوں کے لیے دعاؤں سے رواں تھی۔
اب تک راکاپوشی ہمارے ساتھ ساتھ تھا لیکن جیسے جیسے راستہ طے ہوتا گیا ہم مناپن گلیشیئر کے ہم سفر بن گئے اور دیران کی چوٹی ہمیں دکھائی دینے لگی، جب کہ ہماری ایک جانب ہنزہ کے پہاڑ تھے جو سورج کی روشنی سے چمک رہے تھے۔
تین گھنٹے بعد بھی یہ ٹریک ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا اور اب برف دیکھ دیکھ کہ ایک کوفت سی ہونے لگ گئی تھی۔ اتنے میں دھڑام کی آواز آئی
دیکھا تو مہدی پھسل کر گرا تھا اور اس کے ہاتھ سے کُکر چھوٹ کر ایک بڑے نالے میں جا گرا۔
اس سے پہلے کہ ہمارا اکلوتا پکانے کا برتن بہہ کے دور نکل جاتا اور ہم دیران جا کر ہاتھ ملتے رہ جاتے نعیم نے دوڑ لگائی اور کچھ نیچے جا کر اسے پکڑ لیا۔ الحمد لِلہ پڑھ کر ہم اور احتیاط سے چلنے لگے۔ کچھ دیر بعد بارش شروع ہوگئی۔
اب مجھے پریشانی ہوئی کہ آگے کا راستہ آسانی سے نہیں کٹنے والا۔ جیکٹ کے نیچے ہاف سلیو شرٹ کی وجہ سے ٹھنڈ بھی لگ رہی تھیم سو میرے ذکر اور دعاؤں میں شدت آگئی۔ شاید اتنی پڑھائی تو میں نے پچھلے دو تین مہینوں میں نہیں کی ہوگی۔
کرم خُدا کا کہ بیس منٹ تک ہونے والی ہلکی بارش یک دم رک گئی اور ہم سب کے قدم تیز ہو گئے تاکہ یہ برف زار جلد از جلد پار کر سکیں۔ اس ٹریک پر جس چیز کی اہمیت کا سب سے زیادہ اندازہ ہوا وہ پانی تھا۔ حلق میں کانٹے پڑنے پر جب دو گھونٹ ٹھنڈا پانی اندر جاتا تو جسم میں ایک بجلی سی دوڑ جاتی۔ سچ کہا کسی نے وہ بے رنگ مائع جو زمین پر صرف آب ہوتا ہے، پہاڑوں پر آب حیات ہوتا ہے۔
برف زار سے ایک جانب مڑ کہ پتھریلا ٹریک شروع ہو گیا جس سے آگے برف کی کریوز (گلیشیئر میں پڑی برف کی دراڑیں جو اکثر بہت گہری ہوتی ہیں) ہمارے انتظار میں تھیں۔ کریوز کے بارے میں کافی پڑھ اور سن رکھا تھا، سو اس خطرناک جگہ کو تکنیکی طور پر پار کرنا تھا۔ اکثر کریوز لگتی چھوٹی ہی لیکن پورا پورا بندہ نگل لیتی ہیں۔
دوسرا ان کے کنارے اکثر پھسلن والے ہوتے ہیں اس لیے خود کو سنبھالنا پڑتا ہے۔ کچھ کریوز خود پار کیں کچھ میں پورٹرز نے ہماری مدد کی اور یوں ہم یہ حصہ بھی پار کرگئے۔ سلمان نے بتایا کہ اب صرف دو چڑھائیاں ہیں اور پھر بیس کیمپ آپ کا۔ سلمان چوںکہ میدانی علاقے کا بندہ ہے سو مجھے یقین آگیا کہ واقعی اب دو چڑھائیاں ہوں گی۔
لیکن۔۔۔غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا۔
ایک کے بعد دوسری چڑھائی سے جب سانس پھول گیا تو کچھ دیر دم لینے کو رکے۔ سلمان سے میں نے پھر پوچھا کہ مجھے بتاؤ واقعی میں کتنا فاصلہ رہ گیا ہے؟ لیکن سلمان نے پکے پٹھانوں (جو اکثر آپ کو دو تین گھنٹے کے ٹریک کو آدھا گھنٹہ کہہ کر بہکاتے ہیں) کی طرح مجھ سے کہا کہ بس عظیم بھائی کچھ ہی آگے ہے، ایک دو چڑھائیاں اور جو پندرہ منٹ کی ہیں۔ لیکن یہ پندرہ منٹ جب آدھا گھنٹہ بن گئے تو میں نے بھی صبر کرلیا۔
چھے سات چڑھائیاں چڑھنے اترنے کے بعد ایک دلدل کو پار کیا تو سامنے ہماری آخری چڑھائی تھی جس کے بعد سلمان کے بقول ہماری منزل تھی۔ ہمارے دونوں پورٹر مہدی اور نعیم کب کے آگے جا چکے تھے اور یہ پہاڑ اتنا زیادہ ڈھلوانی سطح کا تھا کہ سلمان نے پکڑ کہ وجہیہ کو پار کروایا اور مجھے بھی کہیں کہیں اس کی مدد لینی پڑی۔
وجہیہ اتر گیا تھا، میں جب اوپر چڑھ گیا تو کچھ دور بیس کیمپ میں لگا ہوا گلابی خیمہ مجھے نظر آیا۔ یہاں میں نے سلمان کو آگے جانے کا کہا اور خود اس پہاڑ کے اوپر بیٹھ گیا۔ آسمان کو دیکھا اور اوپر بیٹھے تخت نشین کو کچھ آنسوؤں کا نذرانہ پیش کیا۔ وہ مجھے بارش، گلیشیئر، بڑے پتھروں، برفانی درزوں، دلدل اور ڈھلوانوں سے بچا کر صحیح سلامت یہاں تک لے آیا تھا۔ کچھ دیر بعد میں نیچے اترا اور بیس کیمپ جہاں گھاس کا قالین بچھا تھا وہاں جوتے اتار کر چلنے لگ گیا۔
دیران بیس کیمپ
خیمے کے قریب پہنچ کر میں میٹ پر ڈھے گیا اور دیران کو دیکھنے لگا۔
راکاپوشی کے مشرق میں واقع دیران کی چوٹی 7،266 میٹر اونچی ہے جو قراقرم کے پہاڑی سلسلے کا حصہ ہے۔ اہرام کی شکل کی یہ چوٹی نگر اور وادیٔ بگروٹ میں واقع ہے۔ یہ دنیا کی سات ہزار دو سو میٹر سے بلند 108 چوٹیوں میں 93 نمبر پر ہے جسے سب سے پہلے 1968 میں سر کیا گیا تھا۔
نعیم کے مطابق اسے سر کرنا بہت مشکل ہے کہ برف سے ڈھکے ہونے کی وجہ سے یہاں اکثر برفشار آتے رہتے ہیں۔ برطانوی، جرمن اور اطالوی ٹیموں کی ناکامی کے بعد اسے ایک آسٹرین ٹیم نے سر کیا تھا۔ یہاں خیمے لگانے کے بعد نعیم اور مہدی نے فٹافٹ سلنڈر پر نوڈلز بنا کر ہمیں پیش کیے اور کھانے کے لیے لکڑیاں ڈھونڈنے چلے گئے جب کہ میں قدرت کے عجائبات کی تصویرکشی میں مشغول ہوگیا۔
دیران بیس کیمپ اصل میں دیران چوٹی کے دامن میں ایک خوب صورت سرسبز میدان ہے جس کے ایک طرف دیران، ایک جانب سرسبز پہاڑ اور ایک سائیڈ پر گلیشیئر کی دیوار واقع ہے۔ رنگا رنگ پھولوں سے مہکتی اس جگہ پر دریا نما ایک بڑا نالا بھی بہہ رہا ہے جو ہماری پانی کی ضروریات پوری کرنے میں مددگار ثابت ہوا۔
ہمارے گلابی خیمے کے عقب میں بادلوں سے سورج کی آنکھ مچولی دیکھتے اور خدا کی قدرت کو سراہتے سراہتے وقت کیسے گزرا معلوم نہیں، شام سے پہلے دسترخوان پر کھانا چن دیا گیا اور میں ''چکن پلاؤ'' سامنے دیکھ کہ جذباتی ہوگیا۔
یہ سب ہمارے پورٹرز کی محنت تھی کہ آبادی سے دوردراز کے اس ویرانے میں ہمیں کھانے پینے کے حوالے سے کوئی تکلیف نہ ہوئی۔ مزے دار سا چکن پلاؤ جی بھر کے کھایا اور میں نے ''کبرو'' سے بھی شیئر کیا جو اب اکثر میرے آگے پیچھے منڈلا رہا تھا۔
کھانے سے فراغت پا کر ہم نے کچھ دیر آرام کیا اور پھر رات کو ایک بار دیران کے دامن میں محفل جمائی۔ رات کو اس چوٹی کا نظارہ ہی کچھ اور تھا۔ آسمان پر بادل تھے لیکن میں نے انہیں لفٹ نہ کرائی۔
رات کو شاید ہم گیارہ بجے خیمے میں سونے چلے گئے کہ کل کچیلی جھیل سے ہو کر واپس راکاپوشی بیس کیمپ جانا تھا۔ لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
دیران کی دشواری
رات کا ایک بجا تھا کہ بارش شروع ہوگئی۔ میں سمجھا یہ ابھی رک جائے گی لیکن مسلسل بارش نے مجھے الرٹ کردیا۔ سلمان اور وجیہہ شاید نیند کی وادیوں میں تھے لیکن میں جاگ رہا تھا۔ کچھ دیر میں میری بھی آنکھ لگ گئی۔
رات کے کسی پہر پاؤں میں گیلا پن محسوس ہوا تو اٹھ بیٹھا، کیا دیکھتا ہوں کہ تین گھنٹوں کی مسلسل بارش سے کچھ پانی اندر آ گیا ہے جس نے میرے سلیپنگ بیگ تک رسائی حاصل کرلی ہے۔ قریب رکھا ہوا سامان بھی بھیگنے لگا تو اسے دوسری طرف رکھ کر آنکھیں بند کر لیں۔
بارش مجھے بہت پسند ہے، کسے پسند نہیں ہوتی؟ سوائے ان کے جن کے گھر کچے ہوتے ہیں یا پھر فصلوں پر جس باپ کی بیٹی بیاہی جانی ہوتی ہے۔ آج کی بارش مجھے شاید اچھی نہیں لگ رہی تھی کہ اس کی وجہ سے ٹریک اور دشوار ہوجانا تھا۔
اتنے میں باہر کچھ آواز ہوئی، کبرو کو نعیم کیمپ کے اندرونی و بیرونی حصے کے بیچ لِٹا کر جا چکا تھا۔ کبرو بھی ادھر ادھر کروٹ لے رہا تھا۔ اتنے میں صبح کی سپیدی نمودار ہوئی اور میں نے موبائل پر تلاوت سننی شروع کردی۔ اللہ سے دعا کی کہ اس بارش کو روک دے لیکن شاید اس میں کوئی مصلحت تھی۔
سلمان اٹھا تو اسے کہہ کر میں نے کبرو کو اندر لٹالیا۔ بے چارہ بھیگا ہوا کتا اندر آتے ہی سلیپنگ بیگ پر سوگیا۔ ہم آج کی پلاننگ کرتے رہے کہ نعیم آ گیا۔ فیصلہ یہ ہوا کہ اس وقت ناشتے میں جو بن سکتا ہے وہ کھا پی کر فوراً نکلا جائے کیوںکہ بارش کے رکنے کے کوئی آثار نہیں تھے۔
کچھ دیر بعد ابلے انڈے، کل کے بچے چاول اور گرما گرم چائے خیمے میں بچھے دسترخوان پر رکھ دی گئی۔ چائے کو دیکھ میری باچھیں کھل گئیں جس نے اس سردی میں بہت حد تک توانائی فراہم کردی تھی۔
دیران اپنا حسن نیلام نہیں کرتی
ناشتہ کر کے ہم نے اپنا سامان پیک کیا، کپڑے بدلے اور خیمے سے باہر آ نکلے۔ دیران کی چوٹی بادلوں کے گھونگھٹ میں دلہن کی طرح چھپی بیٹھی تھی۔
جناب مستنصر حسین تارڑ دیران کے بارے لکھتے ہیں؛
''پہاڑوں کے شیدائیوں کا کہنا ہے کہ راکاپوشی کے حسن کے چرچے صرف اس لیے ہوتے ہیں کہ وہ شاہراہِ قراقرم سے، نگر سے، ہنزہ سے۔۔۔ ہر وادی اور مقام سے نظر آتی ہے۔ عیاں ہوتی ہے، اپنا روپ برہنہ کرتی ہے جب کہ دیران پیک اس کی نسبت چٹانی بناوٹ، برفانی سجاوٹ اور جمال کے ساتھ جلال میں بھی اُس سے کہیں برتر اور افضل ہے۔ صرف یہ کہ اس نے اپنے حسن کو ہر مقام اور وادی میں ظاہر کر کے نیلام نہیں کیا۔ وہ پردہ پوش رہتی ہے، صرف اسے اپنا حسن دکھاتی ہے جو اس کی چاہت میں طویل مسافتیں طے کر کے، صعوبتیں سہہ کر یہاں تک چلا آئے۔''
اور میں انہیں عاشقوں میں سے ایک تھا۔
یہ بات تو نعیم بھی کہہ چکا تھا کہ مناپن آنے والے پانچ سو لوگوں میں سے سو راکاپوشی تک آتے ہیں اور ان میں سے کوئی دو دیران پیک تک، اور آپ انہی دو خوش نصیبوں میں سے ہیں۔
تب تک بارش کچھ ہلکی ہوچکی تھی اور پہاڑی علاقہ ہونے کے باعث پانی کسی جگہ جمع بھی نہ ہوا تھا۔ بارش کی وجہ سے کچیلی جھیل کو کینسل کرنا پڑا سو اب راکاپوشی بیس کیمپ سے ہو کر ہپاکن جا کر رات بسر کرنی تھی۔ نعیم اور مہدی سامان باندنے میں جُت گئے اور ہم نے اپنا واپسی کا ٹریک شروع کیا لیکن اس بار دوسرے راستے سے جو نعیم کے مطابق آسان اور چھوٹا تھا۔
جب آپ کسی ایسے علاقے، جہاں نصیب والے ہی پہنچ سکتے ہیں، کو الوداع کہتے ہیں تو دل رنج و الم سے بھر جاتا ہے۔ میں نے بھی ایک آخری الوداعی نظر دیران پر ڈالی، الوداع کہا اور اپنا رخ موڑ لیا۔
ایک اور طوفان کا سامنا تھا مُجھ کو
آسمان پر چاروں طرف بادل تھے
زمین پر چاروں طرف پہاڑ اور برف تھی
سرسبز پہاڑ کی پگڈنڈیوں پر کچھ چیونٹے رینگ رہے تھے
جن کی منزل راکاپوشی کا دامن تھا
لیکن ایک وسیع برف زار ابھی ان کا منتظر تھا۔
چلتے چلتے دونوں پورٹرز ہم سے آملے۔ یہ ٹریک قدرے آسان تھا جو سرسبز پہاڑوں کے کنارے چھوٹی سی پگڈنڈی پر مشتمل تھا جس کے کنارے کِھلے ہوئے رنگ برنگے پھول میری توجہ بار بار اپنی جانب کھینچ لیتے تھے۔
اس علاقے میں پھولوں کی جتنی ورائٹی تھی وہ میں نے پہلے کہیں نہیں دیکھی۔ قسم قسم اور رنگ ہا رنگ پھول جو بار بار میرا دل لبھاتے اور بیچ ٹریکنگ رک کہ عکاسی کرنے پہ مجبور کرتے۔
بارش تیز ہوتی جا رہی تھی ساتھ میری دعائیں بھی لیکن اس بار قسمت میں امتحان لکھا جاچکا تھا۔ بھاری بھرکم ٹریکنگ شوز گیلے ہو کر اور بھاری ہوگئے سو رفتار کچھ کم ہوگئی۔ اس ٹریک میں بھی کئی آبشاریں ملیں جنہیں چھلانگیں لگا کر پار کیا۔ نعیم نے بتایا کہ اس پہاڑ کہ دوسری طرف دو گھنٹے کی مسافت پر کچیلی جھیل ہے جہاں آج ہمیں جانا تھا۔
وہ برف زار جسے ہم آتے ہوئے پار کر کے آئے تھے ہمارے کہیں نیچے ساتھ ساتھ چل رہا تھا، اور دیکھ کر حیرت ہو رہی تھی کہ یار یہ ہم نے طے کیا ہے؟
شارٹ کٹ کی لالچ میں جو راستہ ہم نے چنا تھا وہ آگے جا کر بارش کی وجہ سے کئی جگہوں پر ختم ہوچکا تھا۔ سو اب کبھی ہم اوپر تو کبھی نیچے ڈھلوانوں پر اُگی گھاس اور جھاڑیوں کا سہارا لے کر چل رہے تھے۔ کرتے کرتے دو گھنٹے بیت گئے اور اب گلیشیئر کا ٹریک آنے والا تھا۔ لیکن وہاں تک پہنچیں کیسے؟
آگے پھر راستہ گم ہوچکا تھا۔
یہ میری اب تک کی کوہ نوردی کا اذیت ناک ترین دن ثابت ہو رہا تھا۔
اس بارش میں واپسی کیسے ہو گی؟
ہم آگے پھنس گئے اور راستہ نہ ملا تو؟
یہ سوچ سوچ کر میں مایوسی کی کھائی میں گرنے والا تھا۔
یہ وہ وقت تھا جب میرے ماں باپ کے چہرے میری نظروں کے سامنے گھومنے لگے اور ایک تیسرا چہرہ بھی تھا، میری ننھی بھتیجی کا، جیسے مجھے بار بار مسکراتی ہوئی کہہ رہی تھی ''چاچو! آپ فکر نہ کریں۔'' یک دم مایوسی کے بادل چھٹ گئے اور دل سے آواز آئی؛
اے ناشکرے انسان
تیرے رب ذوالجلال نے تجھے اکیلا چھوڑا ہے کیا؟ جو تجھے یہاں تک لایا ہے وہ آگے بھی لے جائے گا۔ بس امید کا دامن تھامے رکھنا۔
نعیم اور مہدی آگے جا کر کہیں سے راستہ کھوج آئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب اس پہاڑ کی بہت ڈھلوان ہے اتر جاؤ گے؟ اور میں نے یقین سے کہا بالکل۔
اس بھربھری مٹی کے پہاڑ کی عمودی ڈھلوان اترنے اور کچھ آگے جانے کے بعد راستہ پھر غائب۔ اب؟
اتنے میں مہدی راستہ ڈھونڈتے دور جا چکا تھا، جسے ہاتھ کے اشارے سے واپس آنے کا کہا اور ہم دھیرے دھیرے آگے بڑھتے اپنا راستہ بناتے گئے۔ یہاں تک کہ ہم گلیشیئر پر پہنچ گئے، وہی جہاں سے دیران پہنچے تھے۔
بارش کی وجہ سے برف پر کافی پھسلن تھی سو آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے کریوز پار کرتے رہے۔ کئی بار ایسا ہوتا کہ بڑی کریوز کی وجہ سے ہمیں کافی پیچھے آنا پڑتا اور اسے تنگ جگہ سے پار کرکے واپس آگے جانا ہوتا جس کی وجہ سے وقت اور انرجی دونوں ضائع ہو رہے تھے۔
میں اپنے ہی خیالوں میں تھا کہ ایک جگہ پھسلا اور اپنا گھٹنا مڑوا بیٹھا۔
اللہ اکبر، یہ تو وہی گھٹنا تھا جو ایک رات پہلے درد کر رہا تھا۔ اللہ نے اگر امتحان میں ڈالا تو ساتھ ہمت بھی دی۔ میں نے درد کو محسوس نہ کرتے ہوئے ٹریکنگ جاری رکھی کچھ دیر بعد درد کا احساس ختم ہوگیا۔ میرے بعد وجیہہ بھی گرا اور اس طرح قدم قدم چلتے ہم نے اس برف زار کو پار کرلیا۔
آگے پتھروں کا صحرا تھا، بارش ختم ہوچکی تھی سو ہمت بڑھ گئی اور وہ بھی پار کر لیا۔ اب ایک آخری چڑھائی جس کے بعد تغافری ہمارا منتظر تھا۔ نعیم تب تک کسی ہرن کی طرح قلانچیں بھرتا دوسری طرف اتر چکا تھا۔
وجہیہ کے ساتھ سلمان اور میرے ساتھ مہدی، ہاتھ پکڑ کر آہستہ آہستہ اوپر چڑھتے گئے اور پھر اس پہاڑی کے اوپر پہنچ کر آخری بار قراقرم کے اس برف زار کو دیکھا جس نے دمانی کے دیدار کی اچھی خاصی قیمت وصولی تھی مجھ سے۔
یہاں میں یہ بتاتا چلوں کہ چوںکہ دیران کا پلان آخری لمحے بنا تھا اور مجھے اس کے ٹریک کا اندازہ نہیں تھا سو میں نے آنے سے پہلے کوئی ورزش یا پرہیز وغیرہ کرکے خود کو تیار نہیں کیا تھا۔ نیز میرے پاس ایک جیکٹ تھی جو اب بھیگ چکی تھی۔ واحد عقل مندی جو میں نے کی تھی وہ یہ کہ ایک عدد اضافی جوگرز کا جوڑا ساتھ رکھ لیا تھا جس نے بہت مدد کی۔
دوسری جانب اتر کر جب میں نے تغافری کی ہری بھری گھاس اور خیموں کو دیکھا تو سب سے پہلے سجدۂ شکر ادا کیا۔ تین گھنٹے کا ٹریک ہم نے بارش کے باعث ساڑھے چار گھنٹوں میں مکمل کیا تھا۔ ہم کچیلی کے کنارے کِھلے پھول نہ دیکھ سکے لیکن کوئی بات نہیں، ہر خواب پورا نہیں ہوتا۔ اگر ہوجائے تو زندگی میں ایک عجیب سا خالی پن در آتا ہے۔ کچھ چیزوں کو ادھورا بھی رہنا چاہیے اور میں کچیلی ادھوری چھوڑ آیا تھا دوبارہ جانے کے لیے۔
میں نے اور وجیہہ نے اپنے دونوں پورٹرز کو انعام دیا جو ان کی بہادری کے آگے کچھ بھی نہ تھا۔
اصلی ہیرو
اس تمام ایڈونچر کے اصلی ہیرو ہمارے پورٹر بھائی نعیم اور مہدی تھے، جنہوں نے کئی کلو سامان لاد کر نہ صرف ہمیں بحفاظت پہنچایا بلکہ کئی جگہوں پر ہمارے لیے راستہ بنایا اور انتظار کیا۔
کسی بھی بڑے ٹریک پر آپ کے پورٹر آپ کا اصلی اثاثہ ہوتے ہیں۔ یہ خوش اور ٹھیک ہوں گے تو آپ خوش رہیں گے۔ سو ان کا خیال رکھیں، ٹریک کے دوران ہمیشہ ان کے مشوروں پر عمل کریں اور ان کے ساتھ فضول میں مت الجھیں (اکثر دوست ایسا کرتے ہیں)۔
سلمان نے بھی اس ٹریک پر گائیڈ ہونے کا بھرپور فرض ادا کیا اور اپنی تیزرفتاری کے باوجود ہمارے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلتا رہا اور میرے تمام سوالوں کا خندہ پیشانی سے جواب دیا۔
میں نے اسے ٹریک پر کہا بھی تھاسلمان یہ مشکلات گزر جائیں گی لیکن خوش گوار یادیں ہمیشہ رہ جائیں گی۔
تغافری سے ہپاکن اور مناپن
تغافری پہنچ کر ہم نے اپنے جوتے اتارے اور کپڑے بدل کر چائے پی۔ اس کے بعد کچن میں آگ کے پاس بیٹھ کر گرماگرم نوڈلز (جو جلدی بن جانے کی وجہ سے یہاں کی سب سے عام خوراک ہے) اندر کیے اور ٹریک پر ہونے والے واقعات پر تبادلۂ خیال کیا۔ دو گھنٹے بعد ہم تینوں ہپاکن کے لیے عازمِ سفر ہوئے۔ نعیم اور کبرو بعد میں روانہ ہوئے۔
ایک تو اتنا لمبا اور مشقت بھرا ٹریک کر کے واپس پہنچے تھے دوسرا اب ہپاکن تک اترائی تھی۔ سو یہ ٹریک سوا ایک گھنٹے میں مکمل کر کے عین مغرب کے وقت ہم ہپاکن اپنے خیمے میں براجمان تھے۔
اللہ کا شکر ادا کر کے فوراً سلیپنگ بیگ میں گھس گئے۔ تب تک کھانا تیار ہوتا رہا۔
ڈنر کا بلاوا آیا اور ہم کچن ٹینٹ کے چبوترے پر جا بیٹھے۔ میرے پسندیدہ گرماگرم دال چاول سامنے تھے اور یقین کریں دال تو بہت لذیذ تھی۔ ساتھ ایک سرپرائز یعنی میٹھا بھی تھا۔ ہم جو صبح سے بسکٹ، پانی اور نوڈلز پر چل رہے تھے، کھانے کے بعد تازہ دم ہوگئے۔ ہپاکن میں موبائل کی دو کمپنیوں کے تھوڑے بہت سگنل بھی آتے ہیں، سو گھر بھی بات ہوگئی۔
سلمان کو کوئی ایمرجنسی تھی تو وہ ایک مقامی ساتھی کے ساتھ اسی وقت نیچے مناپن نکل گیا۔ ہم نے رات دیر تک گپ شپ کی اور سونے چل دیے۔
اگلی صبح بارش سے آنکھ کھلی اور سوچا کہ امتحان ابھی بھی باقی ہے۔ گذشتہ بارش نے ہمیں ذہنی اور جسمانی طور پر تیار کر دیا تھا سو میں، نعیم اور وجہیہ ناشتہ کر کے نو بجے نکل کھڑے ہوئے۔
ہپاکن کی اترائی کے بعد آگے ٹریک کھلا اور صاف تھا۔ کچھ دیر میں بارش بھی رک گئی۔ چلتے چلتے، گپ شپ کرتے، تصاویر بناتے، راستے میں دیگر سیاحوں سے مصافحہ کرتے ہم گیارہ بارہ بجے مناپن پہنچ ہی گئے۔
خوبانی کے درخت دیکھ کر منہ میں پانی بھر آیا لیکن میں نے خود کو باز رکھا۔ اگرچہ یہاں کے لوگ بہت اچھے اور مہمان نواز ہیں لیکن میں نے بغیر اجازت راہ چلتے خوبانی توڑ کر کھانے سے پرہیز کیا۔
مناپن پہنچ کر ہم باہر لان میں رکھے تخت پر ڈھے گئے اور میں نے اپنے ہوٹل مالک سے خوبانی کھانے کی اجازت طلب کی جو ظاہر ہے دے دی گئی۔ تازہ خوبانیاں توڑ کر دھوئیں اور پہلی ہی خوبانی پر پورا جسم شکر الحمد لِلہ پڑھنے لگا۔
تین بجے کے قریب سو کر اٹھا اور فریش ہوکر باہر آیا تو سلمان کو سامنے دیکھ خوش گوار حیرت ہوئی۔ وہ اپنا کام کر کے واپس پہنچ چکا تھا۔ سلمان کے بڑے بھائی عثمان بھی ساتھ تھے جن کے ساتھ ہم نے دوپہر کا کھانا کھایا اور گپ شپ کی۔ ان دونوں کے جانے پر ہم نے کمرے کا رخ کیا۔
اوشو تھنگ اور تیان شورو
آج کا ڈنر ہمارا اوشو تھنگ میں تھا جو یہاں کا سب سے مشہور اور زبردست ہوٹل ہے۔ اس کی یوں تو کئی خصوصیات ہیں جن میں سرفہرست اس کے منگولیائی خیمے، جناب مستنصر حسین تارڑ اور کئی غیرملکی سیاحوں کی اس جگہ سے وابستگی ہے۔ یہاں تارڑ صاحب کے نام سے ایک بلاک ہے جہاں کمروں کے نام ان کی کتب پر رکھے گئے ہیں۔
یہ ہوٹل کئی دنوں سے پیک تھا جہاں یورپی سیاح بھی نظر آ رہے تھے۔ اس کے مرکزی ہال میں تارڑ صاحب کی مختلف تصاویر، علاقائی ہتھیار اور نوادرات سیاحوں کی توجہ کھینچ رہے تھے۔ ایک جانب گوشۂ کتب تھا جہاں مجھے کئی جاننے والے مصنفین کی کتابیں بھی نظر آئیں۔
اسرار بھائی سے مل کر اپنا تعارف کروایا اور لان کی ہلکی روشنی میں فوارے کے پاس ایک میز پر ہم بیٹھ گئے۔ عثمان آیا تو اس سے پتا چلا سلمان کسی ضروری کام سے اسلام آباد کے لیے نکل چکا ہے سو وہ ہمیں جوائن نہیں کرسکے گا۔
ڈنر میں ہم نے ''غوڑکن'' کا آرڈر دیا جس کی سلمان نے بہت تعریف کی تھی۔ غوڑکن، ایک قدیم پتھر کے برتن میں پکایا جانے والا بکرے کا سالن ہے جسے یہاں کے روایتی پکوانوں میں عظیم مقام حاصل ہے۔ نگر کے باسی کئی صدیوں سے ایک خاص قسم کے پتھر سے بنے برتنوں میں کھانا پکاتے آ رہے ہیں اور اسی روایت کو اسرار بھائی نے اوشو تھنگ میں زندہ رکھا تھا۔ گرم گرم شوربے سے آنے والی آواز ''غڑ غڑ غڑ'' کی وجہ سے اسے یہ نام دیا گیا ہے۔
کھانا لگنے کے بعد اسرار بھائی بھی ہمارے ساتھ بیٹھ گئے اور گپ شپ کرنے لگے۔ اس دوران میں نے ان کو اپنی دونوں کتب ''شاہنامہ'' اور ''حیرت سرائے پاکستان'' دکھائیں جن میں گلگت بلتستان کی موسیقی، کھانوں، قلعوں اور عجائب گھروں سے متعلق مضامین کو انہوں نے تنقیدی نگاہ سے پرکھا اور میرا حوصلہ بڑھایا۔
''یہ کتابیں کل مجھے سائن کر کے دینا۔'' وہ بولے اور میں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔
یوں تو غوڑکن منفرد سا تھا لیکن میں نے یہاں آلو کو بہت مس کیا۔ آپ جانتے ہیں نہ آلو کھانے کے بعد بندہ آلو سا لگنے لگتا ہے۔ عشائیے کے بعد ہمیں یہاں کا قہوہ اعزازی طور پر پیش کیا گیا جس کے بعد ہم نے واپس ہوٹل کی راہ لی۔
اوشو تھنگ جانے سے پہلے میں یہاں کی تمام نوادرات کی دکانیں چھان چکا تھا اور اس وقت اشکین، خشک خوبانی، اخروٹ کا تیل، نگر کا قہوہ، لکڑی کے چمچ اور چھوٹی کے لیے ایک خوب صورت دستکاری والا سوٹ میرے بیگ میں تھا۔
کل کا دن میری روانگی (اور امتحان) کا دن تھا اور وجیہہ کو آگے ہنزہ چلے جانا تھا۔
صبح ہمارا استقبال پھر سے بارش نے کیا۔ یہ بارش دیران سے میرے تعاقب میں تھی۔ مجھے ساڑھے آٹھ تک اوشو تھنگ پہنچنا تھا لیکن ہوٹل سمیت سارا مناپن خالی لگ رہا تھا۔ ایک تو شدید بارش اوپر سے آج یہاں عیدغدیر تھی، بڑی کوشش کے بعد ایک ٹیکسی ہاتھ آئی جس نے مجھے ہوٹل سے کچھ نیچے اوشو تھنگ چھوڑا۔
یہاں آکر سیدھا کچن کا رخ کیا، اسرار بھائی سے ملا اور ناشتے کا آرڈر دے کہ ہال میں ایک ٹیبل پر آ بیٹھا۔
اتنے میں اسرار بھائی بھی آگئے اور میرے بارے میں مزید دریافت کرنے لگے۔ یوں تو ہمارے کئی مشترکہ دوست اور شوق تھے لیکن ایک بڑا حوالہ لاہور کے ''تکیہ تارڑ'' کا تھا جس سے ہم دونوں جڑے ہوئے ہیں۔ اپنی اصلی نفاست کے ساتھ ویٹر نے ناشتہ سرو کرنا شروع کیا۔
مقامی طور پر تیار کیا گیا خوبانی کا جیم، پراٹھا اور ایک ڈش میں سجا ''تیان شورو۔''
اگر میں یہ کہوں کہ اس برستی بارش میں، میں خصوصاً اس ڈش کے لیے اوشو تھنگ آیا تھا تو غلط نہ ہوگا۔ تیان شورو یہاں کا روایتی کھابا ہے جو انڈوں سے تیار کیا جاتا ہے۔ انڈے کی موٹی تہہ کو رول کر کے بیچ میں ٹماٹر کی کھٹی چٹنی بھری جاتی ہے اور اوپر دھنیا گارنش کر کے سلاد کہ پتوں پر پیش کیا جاتا ہے۔ سواد ایسا کہ دل خوش ہوجائے اور خوشبو ایسی کہ جی اور للچائے۔ اسے میں نے دونوں طریقوں سے کھایا یعنی پراٹھے کے ساتھ بھی اور روکھا بھی۔
تیان شورو سے دودو ہاتھ کرنے کے بعد چائے پیش کی گئی اور میں نے تب تک اپنی کتب پر اسرار بھائی کے لیے دل کی باتیں لکھنا شروع کر دیں۔ ( جاری ہے )