کارِاصلاح ہے گرچہ دشوار دوسری اور آخری قسط

اردو شاعری کی چند نادر اصلاحات کی داستان


اردو شاعری کی چند نادر اصلاحات کی داستان

دوسری اور آخری قسط

میرزا رفیع سودا ؔکے زمانے ایک شاعرمیر محمد المتخلص تقی ؔ نے واقعہ کربلا سے متعلق ''سبیل ہدایت'' کے عنوان سے ایک مثنوی تحریر کی جس کا پہلا بند اس طرح لکھا:

؎بجا ہے کہ لوہو کے دریا بہائے

یہ کشتی فلک کے لہو میں ڈوبائے

شہہ تشنہ لب کا کسے غم سنائے

یہ کس منہ سے کہیے کہ وہ خشک لب ہے

دونوں اشعار مرزا سوداؔ تک پہنچے تو انہوں نے ایک کاغذ پر درج ذیل اصلاح تحریر کر کے بھیجی:

؎بجا ہے کہ لوہو کے دریا بہاؤں

یہ کشتی فلک کے لہو میں ڈوباوں

شہ تشنہ لب کا کسے غم سناؤں

یہ کس منہ سے بولوں کہ وہ خشک لب ہے

اصلاح کے ساتھ ہی انہوں نے اس کی منظوم توجیہہ بھی تحریر کرکے بھیجی:

؎کسے کہتے ہو؟ کون ہے؟ وہ کہاں ہے؟

کہیں ہر سہ مصرع میں اس کا نشاں ہے

جو اپنے پہ اس گفتگو کا گماں ہے

تو یوں کہیے کہنے کا اس کے یہ ڈھب ہے

یعنی سودا یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ مذکورہ اشعار میں محمد تقی کے مذکورہ دونوں شعروں میں پتا نہیں چلتا کہ شاعر کا مخاطب کون ہے؟ اصلاح سے شعر کا مفہوم کچھ اس طرح واضح ہوا جس سے نہ صرف مخاطب کا پتا چل جاتا ہے بلکہ روئے سخن بھی صاف دکھائی دیتا ہے۔

ہندوستان کے مشہور ادیب اور شاعر ملا آنندؔ نرائن اپنی نثری تخلیقات کے مجموعے کچھ نثر میں بھی خواجہ حیدر علی آتشؔ کی شاعری پر تحریر اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:

خواجہ حیدر علی آتش ؔ کے شاگرد خلیل ؔنے اپنا درج ذیل شعر استاد کے حضور پڑھا:

؎مدت کے بعد تم مجھے یوں مہرباں ملے

کچھ عرض میں کروں گا جو جاں کی اماں ملے

استاد نے شعر سنا اور بولے،'کہ مصرعہ ثانی میں ''جو جاں'' کے الفاظ سننے میں کانوں کو بھلے نہیں لگتے، اسے یوں بنا دو':

؎مدت کے بعد تم مجھے یوں مہرباں ملے

دل کی کہوں گا جان کی لیکن اماں ملے

حضرت داغ ؔمرحوم نے ایک شام اپنے پاس بیٹھے شاگرد محمود ؔرام پوری کو مخاطب کرتے ہوئے بولیِ'' میاں محمودؔ! ایک مطلع ہوا ہے، سنو!!

؎کیا کہوں تجھ کو جو بے مہر و ستمگر نہ کہوں

جو زمانہ کہے اس بات کو کیونکر نہ کہوں؟

میاں محمود ؔمطلع سن کر بولے ''استاد آپ ہی کا حصہ ہے'' یہ کہہ کر خاموش ہوگئے۔ حضرت داغ ؔمسکرائے اور کہنے لگے،''بولو!!کیا کہنا چاہتے ہو؟؟''تو انہوں نے ڈرتے ڈرتے کہا ''استاد !!مصرع ثانی کو یوں کرلیجیے'':

؎کیا کہوں تجھ کو جو بے مہر و ستمگر نہ کہوں

جس کو دنیا کہے اس بات کو کیونکر نہ کہوں؟

داغؔ سن کر خاموش ہو گئے۔ تھوڑی دیر بعد بولے،''لو مقطع سنو'':

؎ حرفِ بد منہ سے نکلا تو تمہیں جانو گے

داغ ؔپھر مجھ کو نہ کہنا جو برابر نہ کہوں

اس مقطع پہ حضرت محمود ؔ خاموش رہے۔ استاد نے پوچھا،''کیا بات ہے؟ تو انہوں نے معافی چاہ کر عرض کی،''استاد !! مقطع کے پہلے مصرعے میں لفظ 'بد' کھٹکتا ہے۔'' استاد نے کہا،''پھر آپ ہی کوئی لفظ رکھ دیجیے۔'' یہ سن کر میاں محمود ؔجان گئے کہ بطور آزمائش حکم دیا جارہا ہے۔ چند لمحے توقف کیا، پھر مسکرائے اور شعر کو اس طرح پڑھا:

؎ اب کے کچھ منہ سے نکالا تو تمہیں جانو گے

داغ ؔپھر مجھ کو نہ کہنا جو برابر نہ کہوں

شعر کا پڑھنا تھا کہ استاد نے بے ساختہ اٹھ کر شاگرد کو سینے سے لگایا اور بولے،''بالکل!! یہ ہے ہماری زبان۔''

نواب سراج الدین سائل ؔدہلوی داغ کی منہ بولی بیٹی لاڈلی بیگم کے شوہر تھے۔ انہوں نے اپنی یہ شان اپنے ایک شعر کے مصرعے میں لکھی :

؎ انگلیاں اٹھنے لگیں داغ کا داماد آیا

تو ان کے حریف بیخود ؔدہلوی بولے ''کہ لکھنے والے نے یہ بھی نہ سوچا کہ انگلیاں برے معنوں میں اٹھتی ہیں۔'' اس پہ احسن ؔمارھروی بولے یہ ''غلطی تو خود استاد داغ ؔکے ہاں بھی ہے:''

؎انگلیاں سرو کی اٹھتی ہیں کہ وہ آتے ہیں

باغ میں گُل کھلے جاتے ہیں کہ وہ آتے ہیں

تو بیخوؔد بولے،''داغ کا بچپن تو قلعے میں گزرا مگر اٹھنا بیٹھنا رہا لونڈی کے بچوں میں ۔۔۔تو یہ اس صحبت کا اثر ہے۔ اسی لیے طوطی کو مذکر باندھ گئے:

؎خوب طوطی بولتا ہے آج کل صیاد کا

ادبی جریدے پروانہ کے مدیر ادریس احمد حسن شوکت میرٹھی تھے۔ یہ رسالہ ستمبر ۱۸۹۵ء میں جاری ہوا۔ اس رسالے میں مدیر نے مئی کے شمارے کی جلد ۶ میں جلیلؔ مانک پوری کی ایک مشہور غزل کی تصحیح کی۔ قارئین کے ادبی ذوق کی نظر:

جو سن ہے کم تو وہ کچھ واقفِ عتاب نہیں دمِ سحر ہے ابھی گرم آفتاب نہیں

(وہ کمسنی کے سبب واقفِ عتاب نہیں)

نگاہ برق نہیں چہرہ آفتاب نہیں

وہ آدمی ہے مگر دیکھنے کی تاب نہیں

(نگہ جو برق نہیں چہرہ آفتاب نہیں)

( وہ آدمی ہے تو کیوں دیکھنے کی تاب نہیں)

زباں کو سوزِ جگر کہنے میں حجاب نہیں

ہماری شمع پہ گھونگھٹ نہیں نقاب نہیں

(زباں بیاں جو کرے سوز ِ دل حجاب نہیں )

(یہ شمع وہ ہے جسے حاجتِ نقاب نہیں)

ہر ایک آنکھ میں شکل ان کی ہے سمائی ہوئی

بہت سے پردے ہیں کچھ ، ایک ہی نقاب نہیں

(ہر ایک آنکھ میں صورت تری سمائی ہے )

(بہت ہیں پردے مگر ایک بھی نقاب نہیں)

معروف ہندوستانی شاعر، ادیب اور براڈکاسٹر زبیر رضوی اپنی آپ بیتی کے پہلے حصے ''گردش پا'' میں لکھتے ہیں کہ حیدرآباد کے نظام میر عثمان علی ذی جاہ کے دربار میں ایک درباری شاعر نے والیٔ حیدرآباد کی شان میں درج ذیل شعر پڑھا:

؎سلاطینِِ سلف سب ہوگئے نذرِ اجل عثماں ؔ

مسلمانوں کا تیری سلطنت سے ہے نشاں باقی

شعر میں موجود اس بے جا تعلی پر دربار میں موجود ایک شاعر خاصا جزبز ہوا اور بعد از دربار قصیدہ گو شعر کو شعر کے دوسرے مصرعے میں ''مسلمانوں کا'' کے بجائے ''مسلمانوں سے تیری سلطنت کا ہے نشاں باقی'' کرنے کا مشورہ دیا جو من و عن نظام تک پہنچا دیا گیا، جس کی پاداش میں اصلاح دینے والے شاعر کو ریاست بدر کردیا گیا۔

محمد باقر شمس لکھنوی اپنی کتاب ''لکھنؤ کی شاعری'' میں بیان کرتے ہیں کہ جوشؔ صاحب نے ایک محفل میں شعر پڑھا:

؎جوش سحر ورنگ گل و نالہ بلبل

شاعر کے لے صبح کا ہنگام بھی کیا ہے

اس پر محفل میں موجود عزیزؔ لکھنوی نے اصلاحیہ انداز میں فرمایا،''میاں یوں بھی ٹھیک ہے مگر اس طرح کہہ لو تو شعر کی رومانویت بڑھ جائے گی'' اور بولے:

؎ ؎جوش سحر ورنگ گل و نالہ بلبل

عاشق کے لیے صبح کا ہنگام بلا ہے

قدیر لکھنوی کے شاگرد معراج قدیری نے بذریعہ خط اپنا شعر استاد کو لکھ کے روانہ کیا:

؎آنکھ ملتے ہی بکھر جاتا ہے شیرازۂ دل

برق رفتارِمحبت کا اثر ہوتا ہے

قدیر لکھنوی نے شعر پر اصلاح دیتے ہوئے شعر کے دوسرے مصرعے میں درج ذیل ترمیم کی تجویز دی:

؎آنکھ ملتے ہی تڑپ ہوتی ہے دل میں پیدا

برق رفتار محبت کا اثر ہوتا ہے ۰۰۰۰

داغ ؔدہلوی کے معروف شاگرد اور اپنے وقت کے استاد پنڈت لبھو رام جوش ؔملیسانی، اپنے شاگردوں کے کلام پر دی جانی والی اصلاحوں پر مبنی کتاب ''آئینہ اصلاح '' میں بیان کرتے ہیں کہ ان کے شاگرد شری لکشمی چند نسیم ؔجالندھری نے اپنا درج ذیل شعر برائے اصلاح بذریعہ خط ارسال کیا:

؎اس سکون ظاہری سے میرا اندازہ نہ کر

ایک بحر بیکران شوق میرے دل میں ہے

شعر کے بیان میں زور پیدا کرنے اور سکون کے پسِ پردہ متحرک جذبات کی خوب صورت عکاسی کرتے ہوئے شعر کے دوسرے مصرعے پر جوش ؔملیسانی نے یوں صلاح دی:۔

؎اس سکون ظاہری سے میرا اندازہ نہ کر

ایک طوفانِ قیامت خیز میرے دل میں ہے

ماہرؔ القادری کے تحریرشدہ خاکوں پر مبنی، طالب الہاشمی کی مرتب کردہ کتاب یاد رفتگاں کی جلد دوم میں ہندوستان سے تعلق رکھنے والے بزرگ شاعر محمد ایوب ذوقی ؔ کا خاکہ تحریر کرتے ہوئے ماہرؔ القادری لکھتے ہیں کہ ذوقیؔ صاحب نے شعر و سخن کی ایک نجی محفل میں اپنا کہا گیا ایک شعر صفی ؔلکھنوی مرحوم کے گوش گزار کیا:

؎ یہ سب کسی نئے طوفاں کا پیش خیمہ ہے

فضا میں شور، ہوا تند، آسماں تاریک

صفی ؔلکھنوی مرحوم نے شعر کے مصرع ثانی کو بدلتے ہوئے شعر کو یوں کردیا:

؎ یہ سب کسی نئے طوفاں کا پیش خیمہ ہے

فضا میں حبس، ہوا بند،آسماں خاموش

سیمابؔ اکبر آبادی اپنی کتاب ''دستور الاصلاح'' میں فانی ؔبدایونی کے مختلف اشعار پر اصلاح دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ کہ فانی ؔکا شعر ہے:

؎عادتِ غم رفتہ رفتہ میری فطرت بن گئی

اضطرابِ دل ہے فانیؔ اضطرارِ دل مجھے

اس شعر کا مصرع ثانی بااعتبارِ مفہوم غلط ہے۔ اضطرابِ دل اور اضطرارِدل میں فرق روا رکھنا جائز نہیں! شعر کے معنوی مفہوم کے اعتبار سے مصرع ثانی اگر یوں ہوتا تو بہت خوب ہوتا:

؎عادتِ غم رفتہ رفتہ میری فطرت بن گئی

اضطرابِ د ل ہے اے فانیؔسکونِ دل مجھے

جگن ناتھ آزادؔ ، معروف ادیب اور شاعر علامہ تاجور ؔنجیب آبادی کے حوالے سے اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے اپنے ایک مضمون میں تحریر کرتے ہیں،''علامہ سے میرے تعلقات نیازمندی کے علاوہ باقاعدہ استادی شاگردی کا حوالہ بھی رکھتے تھے۔ ان کی محافل میں گاہے گاہے میں اصلاح کی خاطر اپنا کلام انہیں سنایا کرتا تھا جس پر وہ نہایت مختصر ترمیمی تجاویز دیا کرتے تھے۔ ایک بار میں اپنا درج ذیل شعر انہیں سنایا:

؎آیا زمانہ ایسا کہ الفت تو درکنار!!!

پہلی سی دشمنوں میں عداوت نہیں رہی

اس پر علامہ نے حسبِ عادت فرمایا ''آیا'' کو''بدلا'' کردو تو شعر زیادہ بہتر ہوجائے گا:

؎''بدلا'' زمانہ ایسا کہ الفت تو درکنار!!!

پہلی سی دشمنوں میں عداوت نہیں رہی

کتا ب ''شہرِ جگر کےؔ چراغ'' کی مصنفہ قمر قدیر ارم کتاب میں جگر ؔمراد آبادی کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کرتی ہیں کہ''جگرؔصاحب اپنی گو نہ بے خودی اور مشاعروں کی مصروفیات کے باوجود کثیر تعداد میں موجود اپنے شاگردوں سے بالمشافہ یا بذریعہ خط و کتابت رابطے میں رہتے۔ ان کے چہیتے شاگرد شمس ؔلکھنوی نے اپنا شعر برائے اصلاح جگر صاؔحب کو ارسال کیا:

؎ہائے وہ پہلی ملاقات کی بے گانہ روش

چاہتا ہوں کہ پھر ہوجائے ملاقات نئی

جگر صاؔحب نے شعر کے دونوں مصرعوں کو اس طرح بدل دیا اور شعر کے معنی کو نئے آہنگ میں ڈھال دیا:

؎ہائے وہ پہلی ملاقات کی بے گانہ روی

کاش ہوتی ہی رہے ایسی ملاقات نئی

اخلاق احمد دہلوی کی کتاب ''اور پھر بیاں اپنا'' میں تحریر ہے کہ فیض احمد فیض ؔکا ایک شعر ہے:

؎ویراں ہے میکدہ، خم و ساغر اُداس ہیں

تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے

مرزا محمد حسن ؔصاحب نے اس شعر کی اصلاح کرتے ہوئے لکھا کہ صنعت مراۃالنظیر کے تناظر میں بہار کی رعایت سے اس کے شعری لوازمات کچھ یوں ہونا چاہیے:

؎ ویراں ہے گلستاں، گل و بلبل اداس ہیں

تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے

حکیم معشوق علی خان جوہر ؔاپنے زمانے کے باکمال شاعر، اول اول غالب کے شاگرد اور بعد ازآں اساتذہ فن میں شمار کیے جاتے تھے۔ ان کے شاگردوں کا ایک وسیع حلقہ ہم وقت ان کے ساتھ رہتا اور یونہی چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے اصلاح سخن کا کام بھی جاری رہتا۔ ان کے ایک شاگرد شاکر علی خان شاکر ؔ نے ایک شعر برائے نظرثانی ان کے گوش گزار کیا:

؎ زبانِ حال سے کہتے ہیں گل یہ مرجھا کر

چمن میں فصل خزاں کی بہار ہم بھی ہیں

اس پر حکیم صاحب کہنے لگے،''میاں! پیچھے کان سے ہاتھ لاکر ناک کیوں پکڑتے ہو؟، سیدھی بات کیوں نہیں کہتے؟'':

؎ بتا رہا ہے ہر اک پھول کا یہ مرجھانا

خزاں رسیدہ چمن کی بہار ہم بھی ہیں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں