داتا صاحب کی نصیحت اور آج کا پاکستان
کیا حضرت داتا علیہ رحمہ کی تعلیمات عالیہ میں اس چیز کا کوئی تصور ہے بھی کہ نہیں؟
مکالمہ کیا ہے اور اسے کیوں ہونا چاہیے؟ ان سوالوں پر ہم ذرا ٹھہر کر غور کرتے ہیں کیوں کہ اس سوال کی اہمیت کلیدی ہے کہ کیا حضرت داتا علیہ رحمہ کی تعلیمات عالیہ میں اس چیز کا کوئی تصور ہے بھی کہ نہیں؟
اپنے تھوڑے بہت مطالعے کے ذریعے میں جس نتیجے پر پہنچا ہوں، یہ ہے کہ داتا صاحب ؒایسا کوئی تصور پیش نہیں کرتے۔ اگر مکالمے جیسے شان دار تصور جس کا پھریرا ہمارے اس عہد روشن خیال میں سب سے زیادہ بلند ہے۔
داتا صاحب اس کے قائل نہیں ہیں تو پھر کس چیز کے قائل ہیں؟ مجھے لگتا ہے کہ یہ سوال پہلے سوال سے بھی بڑھ کر پیچیدہ ہو سکتا ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ ہم کسی بڑی پیچیدگی میں الجھنے کے بجائے براہ راست حضور داتا صاحب ؒ سے رجوع کریں۔
جویان تہلیل و تزکیہ کامل ایک ہزار برس سے کشف المحجوب سے کسب فیض کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ان بزرگوں نے سلاسل تصوف کی اس ام الکتاب سے جو کچھ سیکھا، وہ معمولی نہیں۔ فیض کا یہی دریا ہے جس پر آپ کو گنج بخش فیض عالم تسلیم کیا گیا۔
اس گنجینہ علم سے فیض کے جو اسباب پیدا ہوئے، ان کی برکت سے علم و فضل کے ایسے ایسے نایاب خزینے پیدا ہوئے جنھیں ہم دیکھتے ہیں اور ان سے فیض اٹھائیں نہ اٹھائیں، سر ضرور جھکاتے ہیں۔
تو بس مجھے آپ کے سامنے داتا صاحب کی کہی ہوئی چند کہانیاں پیش کرنی ہیں۔ حضور داتا صاحبؒ فرماتے ہیں کہ دوران سفر ان کا گزر کسی گاؤں سے ہوا جہاں ایک کچی دیوار سے ٹیک لگائے کوئی بوڑھی اماں گریہ کرتی تھی۔ حضور علیہ رحمہ نے سبب دریافت فرمایا تو گویا دبستاں کھل گیا۔
بڑھیا نے بتایا کہ اِس صبح ایک شاہین اڑتا ہوا آیا اور ذرا ٹھیکی لینے کے لیے اس کے گھر کی منڈیر پر آن بیٹھا۔ آن کی آن میں گاؤں والے بھی جمع ہو گئے۔
دیکھنے والوں میں سے کچھ اس پرندے کے شاہانہ انداز سے مبہوت ہوئے کچھ مرعوب لیکن کچھ ایسے بھی تھے جو خوشبو دینے والے خوش نما پھول سے لطف اندوز ہونے کے بجائے اس کی خوب صورتی کا راز جاننے کی جستجو میں اسے پرزہ پرزہ کر ڈالتے ہیں۔
بالکل اسی طرح گاؤں کے کچھ لوگ اس بحث میں الجھ گئے کہ ہو نہ ہو یہ پرندہ نہیں زمین پرچلنے والا کوئی جانور ہے، جھاڑ جھنکار نے چمٹ کر جس کی یہ صورت بنا دی ہے۔ بس، انھوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، اس شہباز کے پر نوچ کر اسے زمین پر پٹخ دیا جو لہو لہان ہو کر اب اپنی آخری سانسیں لیتا ہے۔داتا صاحب نے ایک آہ سرد بھری اور فرمایا کہ حیف اس جہالت پر جو انسان کو اتنا گرا دیتی ہے۔
داتا صاحب ؒ نے اپنی ایک اور کہانی یا حکایت میں کتابوں کی جلد بندی اور دستار کی کلاہ بنانے والے دو مزدوروں کا ذکر بھی کیا ہے۔
دونوں عقل سے پیدل تھے اور ایک جیسا سوچتے تھے۔ انھیں کلاہ اور جلد سازی کے استر کے لیے ردی کے کاغذ درکار تھے۔ ایک ویران کتب خانہ انھیں دکھائی دیا تو اس پر چڑھ دوڑے اور اِس خزینہ علم و حکمت کو انھوں نے ردی کی جگہ استعمال کر کے برباد کر ڈالا۔
ان دو کہانیوں، افسانوں یا حکایتوں کے پس پشت وہ کیا حرف حکمت ہے ، حضور داتا صاحب جس کی طرف ہمیں متوجہ کرنا چاہتے ہیں؟ کوئی حرج نہیں کہ اس کی تفہیم کے لیے اگر ہم تھوڑی زحمت اپنے ذہن کو بھی دے لیں لیکن ہمارے داتا جانتے تھے کہ ہم اگر بے ذوق نہیں تو کم کوش ضرور ہیں، اس لیے انھوں نے ہمیں زحمت سے بچانے کے لیے بار بار اور انداز بدل بدل کر بتا دیا کہ یہ ماجرا علم کی کمی کا ہے۔
آپ نے ارشاد فرمایا ہے:'لوگ ہوا و ہوس میں مبتلا ہو کر رضائے حق سے منحرف ہو گئے ہیں۔ علمائے زمانہ ہوں یا طریقت کے دعوے دار، حصول ِمعرفت کی خواہش ان میں ختم ہو چکی ہے۔ یہ لوگ حال کو چھوڑ کر قال پر قانع ہو گئے ہیں اور تحقیق کو چھوڑ کر تقلید پر۔'اس طرز عمل کا نتیجہ کیا نکلا ؟
اس سوال کا جواب بھی داتا صاحبؒ نے ہی عنایت فرمایا ہے:'حقیقت گم ہو گئی اور خواہشات نفسانی زور پکڑ گئیں'۔جب حقیقت گم ہو جائے اور خواہشات نفسانی زور پکڑلیں تو کیا ہوتا ہے؟ حضرت فرماتے ہیں:'بندگانِ خدا حجاب اعظم کا شکار ہو جاتے ہیں اور حجاب اعظم کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔ یہ منبع ہے شر کا، بدکاری کا اور نفس امارہ کا۔'
نفسِ امارہ کیا غضب ڈھاتا ہے؟ حضرت اقبالؒ سر سید علیہ رحمہ کی لوحِ تربت سے ٹیک لگا کر کھڑے ہوئے تو انھیں ان تمام کمزوریوں اور کوتاہیوں کی وجہ سمجھ میں آگئی، قوم جس میں مبتلا تھی۔ آپ ذرا داتا صاحبؒ کی بابرکت چوکھٹ سے کان لگا کر سننے کی کوشش کیجیے اور نگاہ آئینہ ساز کو ذرا وا کیجیے، آپ کو جڑانوالہ کے مناظر دکھائی دیں گے اور یقیناً ان مظلوموں کی چیخیں بھی سنائی دے جائیں گی جن کے گھر ہمارے ہاتھوں نذر آتش ہوئے اور وہ غریب الدیار ہو کر کھیتوں اور جنگلوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔
ہو سکتا ہے کہ یہی وہ سانحہ اور اسی سانحے کی تپش ہو جس نے ہمیں داتا صاحب کی تعلیمات میں مکالمے کی اہمیت کو تلاش کرنے پر مجبور کیا ہو لیکن ذرا توقف کیجیے۔ میں اب بھی نہیں چاہتا کہ آپ مکالمے کا اسٹیج سجا کر بیٹھیں اور دعویٰ کریں کہ ہم ایسے ہیں اور ایسے ہیں۔ اس لیے کہ داتا صاحب کا چلن ذرا مختلف تھا اور وہ ہماری طرح زمانے کے تھپیڑوں سے گھبرا کر اپنے عہد کی غالب تہذیب اور اصطلاحات کے سائے میں پناہ نہیں لیتے تھے بلکہ دنیا سے کچھ مختلف کرتے تھے۔
داتا صاحب ؒکا چلن کیا تھا؟ مولانا سید محمد متین ہاشمی نے نہایت سلیس زبان میں اسے بیان کر دیا ہے ۔
میرے خیال میں اب وقت آ گیا ہے کہ مولانا متین ہاشمی سے راہ نمائی حاصل کی جائے۔ وہ فرماتے ہیں کہ حضور داتا صاحب علیہ الرحمہ کا مسلک تھا:': محبت سب کے لیے'۔پھر فرمایا:'آپ کا آستانہ ہندو، مسلم، عیسائی، غرض ہر مذہب کے پیروکار کے لیے کھلا تھا۔ وہ ہر ایک کے دکھ درد میں شریک ہوتے اور اس کی پریشانی دور فرماتے۔ ان کا یہی اخلاص ، اخلاق اور درد مندی تھی جس کی برکت سے ہر کس و نا کس ان کی طرف کھچا چلا آتا۔ '
بس، میں نے یہیں تک سوچا تھا کہ داتا صاحب ؒکی ایک نصیحت یاد آئی کہ ہر بات ہر جگہ کہنے کی نہیں ہوتی۔ پس، میں نے لکھنا چھوڑا اور گزشتہ شب اِس دربار چوکھٹ کی بائیں جانب ایک خاموش ستون سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر خاموشی رہی پھر ایک مہرباں آواز نے چونکا دیا:' ایسے لوگوں سے تو کوئی مصافحہ بھی نہیں کرتا تم گفتگو اور مکالمے کی بات کرتے ہو'۔
الجھن بڑھ گئی تو مسکرائے اور فرمایا:''جو قتال کے نعرے لگاتے ہوں، عبادت گاہیں جلاتے اور گھر اجاڑ ڈالتے ہوں،وہ تنہا کر دیے جاتے ہیں۔''
پھر اس مرض کا علاج کیا ہے، اے حضرت داتاؒ؟ میں نے دل ہی دل میں سوال کیا۔حکم ہوا: 'حسن سلوک اور فقط حسن سلوک۔ یہ ہو گیا تودعوت، تبلیغ اور مکالمہ، ان سب کی نوبت بعد میں آئے گی۔'
اتنا جاننے کے بعد میری کہانیوں اور افسانہ طرازیوں کو جانے دیجیے۔ آخری بات کو دانتوں سے پکڑ لیجیے۔ یہ حروف نصیحت میرے نہیں اس عالی شان بزرگ کے ہیں جس کی کشش ہمیں یہاں کھینچ لائی ہے اور زبان حال سے کہہ رہی ہے کہ اصل میں تو یہی راستہ ہے اور سارے راستے اسی ایک رستے سے کھلتے ہیں۔
( حضرت علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج ؒ علیہ رحمہ کے 980 ویں عرس کے موقع پر داتا صاحب کے افکار میں مکالمے کی اہمیت کے موضوع پر بین الاقوامی کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں پیش کیا گیا)۔