سادگی سے نالاں پاکستانی حکمران
مجبوری میں سادگی اختیار کرنا، چھوٹے گھروں، جھونپڑیوں اور کھلے آسمان تلے زندگی گزارنا غریبوں کا مقدر رہ گیا ہے
دنیا بھر میں بھارتی حکمران سادگی میں اور عرب حکمران اپنے عربی لباس کے لیے مشہور ہیں اور بھارت کے بانی گاندھی جی تو تمام بھارتی حکمرانوں پر سادہ زندگی گزارنے پر فوقیت رکھتے ہیں۔
چین کے حکمرانوں نے بھی اپنے لیے ایک مخصوص لباس کا انتخاب کیا تھا اور چینی صدر ماؤزے تنگ اور وزیر اعظم چو این لائی کی تقلید وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کی تھی اور وہ اور ان کی کابینہ چین جیسے لباس پہنتے تھے جس پر انھیں اپوزیشن کی طرف سے بینڈ ماسٹروں جیسے لباس کے طعنے بھی سننے پڑتے تھے۔
بھٹو صاحب عوامی جلسوں میں سوٹ کے بجائے شلوار قمیص پہنتے تھے اور جذبات میں ان کی قمیص کے بٹن بھی کھل جاتے تھے اور قائد عوام اسی سادگی کے باعث کہلاتے تھے۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین نے بھی اقتدار میں آ کر سوٹ نہیں پہنا اور غیر ملکی دوروں میں بھی وہ عالمی حکمرانوں سے اپنے قومی لباس ہی میں ملتے تھے۔ بھارتی اور عرب حکمران بھی عالمی دوروں میں سوٹ نہیں پہنتے ہیں اور ایران سمیت بعض دیگر ممالک جن میں ہمارا ہمسایہ ملک افغانستان بھی شامل ہے اپنا قومی لباس پہنتے ہیں اور طالبان حکمرانوں نے تو سادگی کا ریکارڈ قائم کیا اور ان کے وزیروں کو سادہ کھانا کھاتے اور سادہ زندگی گزارتے ہی دیکھا ہے۔
طالبان رہنما اور حکمرانوں نے غیر ملکی دورے کم کیے اور جہاں بھی گئے وہ اپنے سادہ لباس ہی میں گئے اور انھوں نے اپنے لباس میں کوئی شرمندگی محسوس نہیں کی۔
اپنی 54 سالہ صحافتی زندگی میں راقم نے ملک کے کسی وزیر اعظم کو سادہ زندگی گزارتے اور شاہانہ حکمرانی سے گریز کرتے نہیں دیکھا۔ پاکستانی حکمرانوں میں مہنگے اور قیمتی سوٹ پہننے کے مقابلے ضرور دیکھے ہیں جن کے سوٹ ملک میں نہیں بنوائے جاتے تھے بلکہ عالمی سطح پر بہترین اور مہنگے سوٹ سینے والی کمپنیاں بھی پاکستانی حکمرانوں کو مہنگے سے مہنگے اور بہترین سوٹ سی کر دیتی تھیں اور حیران ہوتی ہیں کہ قرضوں میں ڈوبے اور غریب عوام کی اکثریت والے ملک پاکستان کے حکمران کس قدر کے پروٹوکول میں سفر کرتے ہیں۔
مہنگے سوٹ، قیمتی لباس اور جوتے پہنتے ہیں۔ پاکستانی حکمران شاہی محلات جیسی عمارتوں میں رہتے ہیں اور مہنگے سے مہنگے لباس پہننے کا مقابلہ بھی پاکستانی صدور اور وزرائے اعظم میں ہوتا آ رہا ہے جب کہ پاکستان کے عوام کی اکثریت کو معمولی کپڑے اور دو وقت کا کھانا بھی بہ مشکل میسر آتا ہے۔
بڑے بڑے محلات میں رہنے والے صدور اور وزرائے اعظم کے علاوہ پاکستان کے جج، وزرا ہی کیا کمشنر اور ڈپٹی کمشنر بڑے بڑے بنگلوں اور سرکاری طور پر ملی ہوئی کوٹھیوں میں سرکاری طور پر ملنے والے عملے اور قیمتی گاڑیوں کے جھرمٹ میں اپنے ملک کے غریبوں پر حکومت کرتے ہیں۔
ضلع سے وفاق تک کے حکمران عوام سے الگ تھلگ رہنے کے لیے قیمتی سوٹ پہنتے اور مہنگی گاڑیوں میں ہی سفر نہیں کرتے بلکہ انھیں سرکاری طور پر خدمت کے لیے درجنوں ملازم، حفاظت کے لیے سیکیورٹی اہلکار ہی نہیں ملتے بلکہ انھیں بجلی، گیس و پانی کے بل بھی نہیں دینا پڑتا۔ یہ صاحب لوگ ہی نہیں ان کی فیملیز بھی وی وی آئی پیز کی طرح سرکاری سہولیات استعمال کرتی ہیں اور ان کو قیمتی گاڑیاں اور بے دریغ پٹرول بھی مفت ملتا ہے۔
جس ملک میں بجلی و گیس کی قلت ہو وہاں سرکاری افسروں اور وی آئی پیز کے رہائشی علاقے اور دفاتر بجلی و گیس کی لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ ہیں۔ گرمیوں میں ان کے دفاتر خالی ہونے کے باوجود وہاں دن بھر اے سی کمروں کو ٹھنڈا اور سردیوں میں دفاترکو گرم رکھتے ہیں کیونکہ انھیں پٹرول، گیس، بجلی سرکاری طور پر مفت فراہم کی جاتی ہے اور چند ہزار روپے کے بجلی و گیس کے بل وقت پر ادا نہ ہونے پر عام لوگوں کے کنکشن منقطع کر دیے جاتے ہیں مگر سرکاری دفاتر پر بجلی و گیس کے لاکھوں روپے واجب الادا ہونے کے باوجود وہ محفوظ رہتے ہیں۔
سادگی ہمارے حکمرانوں کی سرشت میں ہی شامل نہیں ہے اور وہ اقتدار میں آتے ہی شاہانہ زندگی گزارنے، بیرون ملک جائیدادیں بنانے، اپنوں کو نوازنے اور اقتدار میں رہ کر کاروبار کرنے آتے ہیں۔ ہر سابق حکمران پر بیرون ملک جائیدادیں بنانے کے الزامات ہیں اور وہ اقتدار کے بغیر بھی زیادہ وقت ملک سے باہر ہی گزارتے ہیں اور اقتدار کے لیے پاکستان میں رہتے ہیں۔
پاکستان میں سیاستدان، ججز ہی نہیں ایک اسسٹنٹ کمشنر بھی خود کو اپنے علاقے کا بادشاہ سمجھتا ہے اور سادگی سے رہنے کے لیے نہیں وہ سرکاری پروٹوکول اور ٹھاٹ باٹ کے لیے ہی بیورو کریٹ بنتا ہے۔ حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک وڈیو وائرل ہے جس میں ایک کروڑ روپے کی سرکاری گاڑی پر اسسٹنٹ کمشنر نمایاں طور پر لکھا ہے۔
حال ہی میں پنجاب کی نگران حکومت نے اپنے افسروں کو نئی اور مہنگی گاڑیاں دینے کے لیے ایک ارب روپے سے زائد کی رقم مختص کی ہے۔
اسی ملک میں سارے جج قاضی فائز عیسیٰ نہیں جو پیدل ہی سپریم کورٹ آتے ہوں۔ اعلیٰ سرکاری افسران ہوں یا چیئرمین سطح کے عوامی نمایندے سب وی آئی پی بننے کے خواہاں ہوتے ہیں اور سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال اپنا حق سمجھتے ہیں اور سادگی اختیار کرنے کو کوئی تیار نہیں۔ وہ شاہانہ زندگی گزارنا اپنا اور سادہ زندگی غریبوں کا حق سمجھتے ہیں۔
بھارت سے برابری کے دعویدار پاکستانی حکمران سادگی میں وہاں کے حکمرانوں کا مقابلہ کیوں نہیں کرتے۔ تین سو کنال کے بنی گالا، رائیونڈ اور ماڈل ٹاؤن کے عالی شان محلوں اور جدید اور وسیع بلاول ہاؤس میں رہنے والے برطانوی وزیر اعظم کی طرح چھوٹے گھر میں رہنے، بغیر پروٹوکول سفر کے عادی نہیں ہیں۔
مجبوری میں سادگی اختیار کرنا، چھوٹے گھروں، جھونپڑیوں اور کھلے آسمان تلے زندگی گزارنا غریبوں کا مقدر رہ گیا ہے جن کے حکمران ان کے زبانی ہمدرد ہیں اور انھیں جھوٹے خواب دکھا کر انھیں مزید برباد کرنے اقتدار میں آتے رہے ہیں اور آتے رہیں گے۔
چین کے حکمرانوں نے بھی اپنے لیے ایک مخصوص لباس کا انتخاب کیا تھا اور چینی صدر ماؤزے تنگ اور وزیر اعظم چو این لائی کی تقلید وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کی تھی اور وہ اور ان کی کابینہ چین جیسے لباس پہنتے تھے جس پر انھیں اپوزیشن کی طرف سے بینڈ ماسٹروں جیسے لباس کے طعنے بھی سننے پڑتے تھے۔
بھٹو صاحب عوامی جلسوں میں سوٹ کے بجائے شلوار قمیص پہنتے تھے اور جذبات میں ان کی قمیص کے بٹن بھی کھل جاتے تھے اور قائد عوام اسی سادگی کے باعث کہلاتے تھے۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین نے بھی اقتدار میں آ کر سوٹ نہیں پہنا اور غیر ملکی دوروں میں بھی وہ عالمی حکمرانوں سے اپنے قومی لباس ہی میں ملتے تھے۔ بھارتی اور عرب حکمران بھی عالمی دوروں میں سوٹ نہیں پہنتے ہیں اور ایران سمیت بعض دیگر ممالک جن میں ہمارا ہمسایہ ملک افغانستان بھی شامل ہے اپنا قومی لباس پہنتے ہیں اور طالبان حکمرانوں نے تو سادگی کا ریکارڈ قائم کیا اور ان کے وزیروں کو سادہ کھانا کھاتے اور سادہ زندگی گزارتے ہی دیکھا ہے۔
طالبان رہنما اور حکمرانوں نے غیر ملکی دورے کم کیے اور جہاں بھی گئے وہ اپنے سادہ لباس ہی میں گئے اور انھوں نے اپنے لباس میں کوئی شرمندگی محسوس نہیں کی۔
اپنی 54 سالہ صحافتی زندگی میں راقم نے ملک کے کسی وزیر اعظم کو سادہ زندگی گزارتے اور شاہانہ حکمرانی سے گریز کرتے نہیں دیکھا۔ پاکستانی حکمرانوں میں مہنگے اور قیمتی سوٹ پہننے کے مقابلے ضرور دیکھے ہیں جن کے سوٹ ملک میں نہیں بنوائے جاتے تھے بلکہ عالمی سطح پر بہترین اور مہنگے سوٹ سینے والی کمپنیاں بھی پاکستانی حکمرانوں کو مہنگے سے مہنگے اور بہترین سوٹ سی کر دیتی تھیں اور حیران ہوتی ہیں کہ قرضوں میں ڈوبے اور غریب عوام کی اکثریت والے ملک پاکستان کے حکمران کس قدر کے پروٹوکول میں سفر کرتے ہیں۔
مہنگے سوٹ، قیمتی لباس اور جوتے پہنتے ہیں۔ پاکستانی حکمران شاہی محلات جیسی عمارتوں میں رہتے ہیں اور مہنگے سے مہنگے لباس پہننے کا مقابلہ بھی پاکستانی صدور اور وزرائے اعظم میں ہوتا آ رہا ہے جب کہ پاکستان کے عوام کی اکثریت کو معمولی کپڑے اور دو وقت کا کھانا بھی بہ مشکل میسر آتا ہے۔
بڑے بڑے محلات میں رہنے والے صدور اور وزرائے اعظم کے علاوہ پاکستان کے جج، وزرا ہی کیا کمشنر اور ڈپٹی کمشنر بڑے بڑے بنگلوں اور سرکاری طور پر ملی ہوئی کوٹھیوں میں سرکاری طور پر ملنے والے عملے اور قیمتی گاڑیوں کے جھرمٹ میں اپنے ملک کے غریبوں پر حکومت کرتے ہیں۔
ضلع سے وفاق تک کے حکمران عوام سے الگ تھلگ رہنے کے لیے قیمتی سوٹ پہنتے اور مہنگی گاڑیوں میں ہی سفر نہیں کرتے بلکہ انھیں سرکاری طور پر خدمت کے لیے درجنوں ملازم، حفاظت کے لیے سیکیورٹی اہلکار ہی نہیں ملتے بلکہ انھیں بجلی، گیس و پانی کے بل بھی نہیں دینا پڑتا۔ یہ صاحب لوگ ہی نہیں ان کی فیملیز بھی وی وی آئی پیز کی طرح سرکاری سہولیات استعمال کرتی ہیں اور ان کو قیمتی گاڑیاں اور بے دریغ پٹرول بھی مفت ملتا ہے۔
جس ملک میں بجلی و گیس کی قلت ہو وہاں سرکاری افسروں اور وی آئی پیز کے رہائشی علاقے اور دفاتر بجلی و گیس کی لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ ہیں۔ گرمیوں میں ان کے دفاتر خالی ہونے کے باوجود وہاں دن بھر اے سی کمروں کو ٹھنڈا اور سردیوں میں دفاترکو گرم رکھتے ہیں کیونکہ انھیں پٹرول، گیس، بجلی سرکاری طور پر مفت فراہم کی جاتی ہے اور چند ہزار روپے کے بجلی و گیس کے بل وقت پر ادا نہ ہونے پر عام لوگوں کے کنکشن منقطع کر دیے جاتے ہیں مگر سرکاری دفاتر پر بجلی و گیس کے لاکھوں روپے واجب الادا ہونے کے باوجود وہ محفوظ رہتے ہیں۔
سادگی ہمارے حکمرانوں کی سرشت میں ہی شامل نہیں ہے اور وہ اقتدار میں آتے ہی شاہانہ زندگی گزارنے، بیرون ملک جائیدادیں بنانے، اپنوں کو نوازنے اور اقتدار میں رہ کر کاروبار کرنے آتے ہیں۔ ہر سابق حکمران پر بیرون ملک جائیدادیں بنانے کے الزامات ہیں اور وہ اقتدار کے بغیر بھی زیادہ وقت ملک سے باہر ہی گزارتے ہیں اور اقتدار کے لیے پاکستان میں رہتے ہیں۔
پاکستان میں سیاستدان، ججز ہی نہیں ایک اسسٹنٹ کمشنر بھی خود کو اپنے علاقے کا بادشاہ سمجھتا ہے اور سادگی سے رہنے کے لیے نہیں وہ سرکاری پروٹوکول اور ٹھاٹ باٹ کے لیے ہی بیورو کریٹ بنتا ہے۔ حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک وڈیو وائرل ہے جس میں ایک کروڑ روپے کی سرکاری گاڑی پر اسسٹنٹ کمشنر نمایاں طور پر لکھا ہے۔
حال ہی میں پنجاب کی نگران حکومت نے اپنے افسروں کو نئی اور مہنگی گاڑیاں دینے کے لیے ایک ارب روپے سے زائد کی رقم مختص کی ہے۔
اسی ملک میں سارے جج قاضی فائز عیسیٰ نہیں جو پیدل ہی سپریم کورٹ آتے ہوں۔ اعلیٰ سرکاری افسران ہوں یا چیئرمین سطح کے عوامی نمایندے سب وی آئی پی بننے کے خواہاں ہوتے ہیں اور سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال اپنا حق سمجھتے ہیں اور سادگی اختیار کرنے کو کوئی تیار نہیں۔ وہ شاہانہ زندگی گزارنا اپنا اور سادہ زندگی غریبوں کا حق سمجھتے ہیں۔
بھارت سے برابری کے دعویدار پاکستانی حکمران سادگی میں وہاں کے حکمرانوں کا مقابلہ کیوں نہیں کرتے۔ تین سو کنال کے بنی گالا، رائیونڈ اور ماڈل ٹاؤن کے عالی شان محلوں اور جدید اور وسیع بلاول ہاؤس میں رہنے والے برطانوی وزیر اعظم کی طرح چھوٹے گھر میں رہنے، بغیر پروٹوکول سفر کے عادی نہیں ہیں۔
مجبوری میں سادگی اختیار کرنا، چھوٹے گھروں، جھونپڑیوں اور کھلے آسمان تلے زندگی گزارنا غریبوں کا مقدر رہ گیا ہے جن کے حکمران ان کے زبانی ہمدرد ہیں اور انھیں جھوٹے خواب دکھا کر انھیں مزید برباد کرنے اقتدار میں آتے رہے ہیں اور آتے رہیں گے۔