آئی ایم ایف کی شرائط اتنی سخت کیوں

آئی ایم ایف کومعلوم ہے کہ پاکستانی عوام کی حالت انتہائی دگرگوں ہے اور وہ بجلی کے یہ بل ادا کرنے کے قابل بھی نہیں ہیں

mnoorani08@hotmail.com

دنیا میں شاید ہی کسی ملک پرآئی ایم ایف نے اتنی کڑی شرائط لگائی ہوں جتنی پاکستان پر لگائی ہیں۔ ہم نے اس کی تمام کی تمام شرائط مان بھی لیں لیکن وہ ایک قسط جاری کرنے کے بعد دوسری قسط جاری کرنے کے لیے پھر سے نئی نئی شرائط لاگو کر رہا ہے۔

آئی ایم ایف کو معلوم ہے کہ پاکستانی عوام کی حالت انتہائی دگرگوں ہے اور وہ بجلی کے یہ بل ادا کرنے کے قابل بھی نہیں ہیں اورپٹرول مہنگا ہونے سے مہنگائی اور بڑھے گی۔ لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہو رہا۔ آئی ایم ایف جس طرح بجلی، پٹرول اورگیس کے دام بڑھانے پر زور دیتا ہے' خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کو پرائیوٹائز کرنے پرزور نہیں دیتا۔

حالانکہ وہ اگر اس بات پر ڈٹ جائے تو ہمارے یہاں پیپلز پارٹی سمیت وہ سیاسی پارٹیاں جو عوام اور مزدور کے حقوق کا بہانہ کر کے اُنہیں پرائیوٹائز ہونے سے روکتی رہی ہیں اسی طرح خاموش ہوجائیں گی جیسے وہ بجلی کے بلوں پر خاموش ہیں۔

مسلم لیگ نون نے جب جب چاہا کہ خسارے میں چلنے والے اداروں سے چھٹکارا حاصل کیا، جب کہ سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سے دیکھی گئی۔ مزدور کے حقوق کی آڑ میں یہاں عرصہ دراز سے سیاست کی جا رہی ہے، لیکن آج وہی مزدور جب بجلی کے بلوں کی ادائیگی کرنے سے قاصر ہے تو یہ جماعتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔

اسی طرح یہ سیاسی پارٹیاں چھوٹے صوبوں کے استحصال کے نعرے لگا کر ہمارے یہاں بڑے بڑے ڈیم بنانے کی راہ میں بھی روڑے اٹکاتی رہی ہیں۔ حالانکہ اگر کالاباغ جیسے ڈیمز اگر بروقت بن جاتے تو آج ہمیں سستی بجلی بھی دستیاب ہوتی اور ہم آئی پی پیز کے من مانے معاہدوں کے عذاب سے بھی دوچار نہیں ہوتے۔

اِن ڈیموں سے ہمارے یہاں وہ سیلاب بھی نہیں آتے جو اکثر ہمارے دیہاتوں کو نیست ونابود کررہے ہوتے ہیں اور ہماری فصلوں کی تباہی نہ صرف بچ جاتی بلکہ ضرورت کے وقت اُنہیں مطلوبہ پانی بھی دستیاب ہوجاتا، مگر ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ اِن ڈیموں کے خلاف کون سب سے بڑا مخالف ہے۔

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام پاکستان پیپلزپارٹی نے شروع کیاجس کا مقصد غریب عوام کو ہر ماہ چند ہزار روپے دے کر اُن کی دلجوئی کی جاسکے۔

450 ارب روپے ہر سال قومی بجٹ میں اس مد میں رکھے جاتے جن سے غریب عوام کا شاید ہی گھرکا خرچہ پورا ہوتا ہوگا، لیکن یہی 450 ارب روپوں سے فیکٹریاں لگا کر غریب نوجوانوں کو اگر نوکریاں دی جاتیں تو نہ صرف وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوجاتے بلکہ ملک بھی ترقی کرتا۔ اُنہیں دو تین ہزار روپے ماہانہ دے کر بھیک کا عادی بنانے سے تو یہ بہت ہی بہتر ہوتا۔


دلچسپ بات یہ ہے کہ IMF کو یہ سب کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ وہ بھی جانتی ہے کہ یہی تو اخراجات ہیں جن کی وجہ سے پاکستان ہمیشہ اُن کا محتاج اور غلام رہے گا اور وہ اسے جس طرح چاہیں دبا کر اپنا کام نکلواتے رہیں گے۔ شاید اسی لیے وہ خسارے میں چلنے والے اداروں کی نج کاری پر بھی زور نہیں دیتا۔

سری لنکا چند ماہ پہلے اعلانیہ ڈیفالٹ کر گیا لیکن اس پر IMF نے وہ پابندیاں نہیں لگائیں جیسی ہم پر لگا رہا ہے۔ اس کی واضح اور دوٹوک وجہ یہ ہے کہ وہ ایک اسلامی ملک نہیں ہے، دوسرے اس کے پاس نیوکلر پروجیکٹ بھی نہیں ہے اور تیسرے اس کے یہاں سی پیک جیسا کوئی عظیم منصوبہ بھی نہیں ہے جو عالمی طاقتوں کی نظروں میں کھٹکتا ہو۔

اسی لیے اسے قرض دینے کے لیے IMF نے ایسی کوئی کڑی شرط نہیںلگائی جیسی وہ ہم پر لگا رہا ہے۔ ہمارے ساتھ اس کا رویہ آج کل بہت سخت ہے حالانکہ سابق وزیراعظم شہبازشریف نے انھیں رام کرنے کے لیے پورازور بھی لگادیا لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوا۔

شوکت ترین نے اپنے آخری دنوں میں IMF کے جس معاہدے پر دستخط کر دیے تھے اس میں بھی اتنی سخت اورکڑی شرائط نہ تھیں جتنی کہ اسحاق ڈار نے قبول کر لیں۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ اس وقت پٹرول پر لیوی لگانے کی شرط عائد کی گئی تھی اورکہا گیا تھا کہ یہ 30 روپے ہوگی اور وہ بھی ہر ماہ چار روپے کی قسط کی صورت میں، مگر جب اسحاق ڈار نے معاہدے پر دستخط کردیے تو معلوم ہوا کی یہ لیوی 50 روپے ہوگی اور قسطوں کی شکل میں بھی نہیں۔ اب ہمیں بتایا جارہا ہے کہ یہ لیوی 60 روپے فی لٹر ہے۔

سمجھ نہیں آرہا کہ IMF سے کیے گئے معاہدوں کو اتنا خفیہ کیوں رکھا جاتا ہے کہ عوام کے پتا ہی نہیں چلتا کہ اس پر ہونے والے مظالم کی حدیں کہاں تک جاتی ہیں اور کہاں جا کر رکیں گی۔

ہمارے یہاں کے کچھ لوگ بھی شاید نہیں چاہتے کہ ہم IMF کی بیساکھیوں سے چھٹکارا حاصل کریں۔ ہمارا دائمی دوست چین ہماری مدد کو ہر وقت تیار رہتا ہے لیکن ہمارے یہاں کے یہی لوگ یا ادارے امریکا بہادر کی خوشامد کی وجہ سے چین کے ساتھ مکمل روابط قائم کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار رہتے ہیں۔ دوکشتیوں میں سوار ہونے کی خواہش نے ہمیں آج اس ڈگر پر پہنچا دیا ہے کہ ہم کھل کر کسی ایک فریق کا ساتھ نبھانے کو تیار نہیں ہوتے ہیں۔

اس وقت ہم جن حالات سے گزر رہے ہیں اس میں دور دور تک ہمیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔ افق پرانتہائی مایوسیوں اور نا اُمیدیوں کے گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں۔

روز افزوں گرانی اور مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھرکردیا ہے اور نگرانوں کا یہ حال ہے کہ اُنہیں کسی کی کوئی پرواہ نہیں، چونکہ اُنہیں عوام سے ووٹ بھی نہیں لینا ہے لہٰذا اُنہیں اس سے کوئی سروکار بھی نہیں ہے کہ لوگ اُنہیں کیا کہتے ہیں۔ وہ جس مقصد سے لائے گئے ہیں وہیں اُن کا اصل ہدف اورمقصد ہے جسے پورا کر کے وہ پتلی گلی سے چپ چاپ نکل جائیں گے۔
Load Next Story