آئی ایم ایف اور کیپسٹی چارجز حکومت بجلی کے بھاری بلوں کے سامنے بے بس

دوبرسوں میں بجلی کی قیمت 16روپے سے30 روپے یونٹ ہوگئی،ہربل کے ساتھ 40 سے 50 فیصد دیگرٹیکس وصول کیے جاتے ہیں


Zafar Bhutta/رضوان شہزاد September 04, 2023
ملک گیرعوامی احتجاجی اور مظاہروں کے بعد وزیراعظم نے لگاتاراجلاس بلائے لیکن بے سود۔ فوٹو: اے پی پی

ایسے موقع پر جبکہ نگران حکومت کو بجلی کی غیرمعمولی حد تک بڑھتی ہوئی قیمتوں اور بھاری بلوں کی وجہ سے سخت عوامی ردعمل کا سامنا ہے اور پورے ملک میں لوگ احتجاجی مظاہرے کررہے ہیں۔

وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے صورتحال سے نمٹنے کے لیے لگاتار ہنگامی اجلاس بلائے ہیں اور عوام کوریلیف دینے کے وعدے بھی کیے ہیں لیکن مالی مجبوریوں اور آئی ایم ایف کے دباؤکی وجہ سے وزیراعظم کچھ بھی کر نہیں پارہے۔

آخرکار وزیراعظم کو یہی کہنا پڑا ہے کہ'' لوگوں کو بل تو دینا پڑیں گے ''کیونکہ حکومت کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔اسے موقع پر جبکہ بجلی کے بل عوام کی قوت سے باہر ہورہے ہیں اور ان کا پیمانہ صبرلبریز ہورہاہے ان پر کیپسٹی چارجزکی مد میں 1.3ٹریلین روپے کا مزید بوجھ ڈالا جارہا ہے جو اسی سال بند پڑے پاور پلانٹس کو ادا کیے جانے ہیں۔

اس حقیقت کے برعکس جبکہ بجلی کی قیمت گزشتہ دوبرسوں کے دورا ن 16روپے سے دوگنا بڑھ کر تقریباً 30 روپے ہوچکی ہے عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بھی مزید بڑھا دیا گیا ہے۔ان میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے علاوہ سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ بھی شامل ہے،عوام کو اس وقت جو بل وصول ہورہے ہیں ان میں صرف بجلی کی قیمت میں اضافہ ہی شامل نہیں بلکہ حکومت کی طرف سے بجلی کے استعمال پر لگائے جانے والے ٹیکس بھی بڑھا دیئے گئے ہیں جوہربل کا 40 سے 50 فیصد ہوتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم نے بجلی بلوں سے متعلق اپنے بیان کی وضاحت کردی

ان میں الیکسٹرسٹی ڈیوٹی،ٹی وی فیس، جنرل سیلزٹیکس(جی ایس ٹی) فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ پر جی ایس ٹی،فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ پر ایکسائزڈیوٹی شامل ہیں۔

اس پر مستزاد یہ کہ حکومت نے بلوں پر 0.5 فیصد کے حساب سے الیکٹرسٹی ڈیوٹی بھی لگا رکھی ہے جو بجلی صارفین سے وصول کرکے صوبوں کو دی جاتی ہے۔اس کے علاوہ پورے ملک کے عوام کو یکساں قیمت پر بجلی دینے کیلئے فی یونٹ 5 سے 7 روپے ریشنلائز سرچارج بھی وصول کیا جارہا ہے۔

حکومت 0.43 روپے فی یونٹ فنانشل سرچارج بھی وصول کرتی ہے۔کمرشل اور انڈسٹریل سرچارج انکم ٹیکس کے دائرہ کار میں آتے ہیں لیکن18 فیصد جنرل سیلزٹیکس بجلی کے بلوں پر لگا دیا گیا ہے۔فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ پرجی ایس ٹی کے ساتھ ایکسائز ڈیوٹی بھی وصول کی جارہی ہے۔بجلی کی تقسیم کارکمپنیاں بھی بجلی کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ ایڈجسٹمنٹ کی صورت میں رواں بلوں پر وصول کرتی ہیں۔

ان حالات میں بجلی کے بل بڑھ کر 42 روپے یونٹ تک پہنچ گئے ہیںاورصارفین نے دھائی دینا شروع کردی ہے۔تاہم ماہرین نے نگران حکومت کی سوچ پر تنقید کرتے ہوئے اقتصادی چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے کچھ اقدامات تجویز کیے ہیں جن پر موثر عملدرآمد کرکے حکومت حالات پر قابو پاسکتی ہے۔

ان میں ایک تو یہ ہے کہ حکومت اپنے اخراجات کو کم کرے،جیسا کہ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) میں بلاوجہ کے اخراجات کو منجمد کیا جاسکتا ہے۔اس کے علاوہ بجلی پیدا کرنے والی کمیپنوں (IPPs) کے ساتھ مذاکرات کیلئے ایکسپرٹس کا پینل بنایا جائے۔اگرچہ آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے وعدوں کی وجہ سے حکومت کے پاس آپشن محدود ہیں تاہم حکومت کوکارباری طبقے کوحوصلہ دلانا چاہیے کہ حالات پر قابو پالیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: بجلی کے بلوں میں ریلیف؛ اکتوبرمیں 300 یونٹ والے بل میں 3 ہزارروپے تک کمی ہوگی

بورڈ آف انویسٹمنٹ کے سابق چیئرمین ہارون شریف نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ حکومت بال آئی ایم ایف کے کورٹ میں ہی پھینک رہی ہے ،اپنے غیرضروری اخراجات کم نہیں کررہی جو عوام کو منتقل کرکے بجلی کے بھاری بلوں میں کمی لائی جاسکتی ہے۔حیرت کی بات ہے کہ ایک غیر سیاسی حکومت آئی ایم ایف پر الزام لگا رہی ہے کہ اس کی وجہ سے وہ غریب لوگوں کو ریلیف دینے سے قاصر ہے۔ہنگامی حالات میں حکومت اپنے غیرضروری اخراجات کو منجمد بھی تو کرسکتی ہے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ بجلی کی تقسیم کارکمپنیوںاور ڈسکوزکی گورننس میں بھی بہتری لانے کی ضرورت ہے۔حکومت IPPs کے ساتھ مذاکرات کیلئے ماہرین کا پینل تشکیل کیوں نہیں دے رہی۔ ہارون شریف کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب تک الیکشن کا اعلان نہیں ہوجاتا اور حکومتی ترجیحات سامنے نہیں آتیں بدقسمتی سے حالات بدسے بدتر ہی ہوتے نظر آرہے ہیں۔

سیاسی تجزیہ کار ضیغم خان کا کہنا تھا کہ سابقہ حکومتوں کے وعدوں کی وجہ سے نگران حکومت کے ہاتھ آئی ایم ایف کے سامنے قدرے بندھے ہوئے ہیں،حکومت سبسڈی دے سکتی تھی الیکشن اس کیلئے اس کے پاس پیسے نہیں۔حالات خرابی کی طرف ہی جارہے ہیں۔

نگران حکومت مختصر عرصہ کیلئے آئی ہے ان کا مینڈیٹ محدود ہے ،وہ کوئی طویل المیعاد وعدے نہیں کرسکتی،آئین اسے صرف روزمرہ کے معاملات نمٹانے کی اجازت دیتا ہے،جب ایک عبوری حکومت کے سامنے بہت سے زیرالتوا معاملات پڑے ہوں اوران سے نمٹنے کیلئے اس کے پاس سپیشلائزٹیم بھی نہ ہو او ر پتہ بھی نہ ہوکہ بیورکریسی محدود وقت میں ان سارے معاملات کو کیسے نمٹا سکتی ہے تووہ کیا کرے گی۔نگران حکومت کے سامنے تو ایشوزبھی ایسے ہیں جو پورے مینڈیٹ والی حکومتیں بھی نہیں نمٹا سکیں۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں وزیرخزانہ کو ماہرین معیشت کے ساتھ بات کرنی چاہیے۔ان حالات میں کاروباری طبقے سے بھی رابطہ کرنا چاہیے،حالات اس لیے خراب ہیں کہ بنیادی اقتصادی معاملات ہی نہیں چلائے جارہے۔کچھ نفسیاتی عوامل بھی معیشت پر اثرانداز ہورہے ہیں،ان حالات میں کاروباری طبقے کوحوصلہ دلانے کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں