مہرؔ و سالکؔ کی جوڑی اور غالبؔ
غالبؔ کی سوانح حیات سب سے پہلے مولانا حالیؔ نے مرتب کی تھی۔ اور وہ مستند سمجھی جاتی ہے ...
ہمارے آرٹ' ادب اور سیاست کی دنیا میں کچھ جوڑیاں گزری ہیں یعنی دو روحیں اس طرح آپس میں جڑیں کہ من تو شدم تو من شدی مثلاً مولانا محمد علی' شوکت علی' نزاکت علی' سلامت علی' مہر و سالک' موخر الذکر جوڑی لاہور کی اردو صحافت کی دین ہے یعنی مولانا غلام رسول مہر نے جب صحافت کی دنیا میں قدم رکھا تو مولانا عبدالمجید سالک سے ان کی رفاقت نے یہ شکل اختیار کر لی کہ یک جان دو قالب لیکن اب جو ہم نے مہر صاحب کا ایک بیان پڑھا ہے تو اس سے پتہ چلا کہ صحافت سے گزر کر شعر و ادب کے حوالے سے بھی ان کی جوڑی پروان چڑھی تھی۔
خاص طور پر غالبؔ کے حوالے سے۔ مہرؔ صاحب کہتے ہیں کہ ''میں ہوش سنبھالتے ہی کسی دوسرے شاعر کی عقیدت کا حلقہ اپنی گردن میں ڈالے بغیر غالبؔ کا معتقد بن گیا تھا لیکن سالکؔ صاحب اپنے ذوق صحیح کی رہنمائی میں مختلف مراحل سے گزر کر غالبؔ کے آستانہ پر پہنچے تھے۔ شرعی اصطلاح میں میری حیثیت عامی مقلد کی تھی لیکن سالکؔ صاحب محقق و مجتہد کے مرتبہ پر فائز ہو چکے تھے۔ یا تصوف کی زبان میں میں مجذوب تھا اور وہ سالک تھے''۔
یہ موازنہ بر حق مگر یہ لطیفۂ غیبی بھی خوب ہوا کہ سالکؔ صاحب تو صحافت میں پھنسے رہ گئے اور مہرؔ صاحب نے مطالعہ و تحقیق کے مراحل طے کرتے ہوئے غالبؔ کے نمایندہ محققوں کی صف میں بڑا مقام بنا لیا۔ ایسا ہی ان کا ایک تحقیقی کام اس وقت ہمارے پیش نظر ہے۔ یہ ان کی مرتب کردہ غالبؔ کی سوانح حیات ہے جو پہلی مرتبہ 1936ء میں شایع ہوئی تھی۔ پھر اس کے بعد باری باری تین ایڈیشن اور شایع ہوئے۔ 41ء میں' 44ء میں 46ء میں۔ پھر تقسیم کے بعد یہ کتاب پس منظر میں چلی گئی۔ پانچواں ایڈیشن اب جا کر شایع ہوا ہے۔ اشاعتی ادارہ وہی ہے اگرچہ اب شیخ مبارک علی زندہ نہیں ہیں جنہوں نے لگا تار اس کے چار آڈیشن شایع کیے تھے اور اب خود مہرؔ صاحب بھی مدت ہوئی اس دنیا سے سدھار چکے ہیں۔
اور مہرؔ صاحب کی شان استغنا دیکھو کہ غالبؔ کی سو سالہ یاد گار کے موقعہ پر 1944ء میں اس کی اشاعت کی تقریب پیدا ہوئی تھی تو انھوں نے اپنے اس کام کی طرف غالبؔ کی یاد منانے والوں کو توجہ ہی نہیں دلائی۔ ان کی فرمائش پھر غالبؔ کے بارے میں ایک اور تحقیقی کام اپنے ذمے لے لیا۔ خیر اس بہانے غالبؔ کے حساب میں ان کے دو تحقیقی کارنامہ لکھے گئے۔
اصل میں اس زمانے میں پروفیسر حمید احمد خاں پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے۔ وہ جب حکومت پاکستان کو قائل نہ کر سکے کہ غالبؔ اس کا مستحق ہے کہ پاکستان میں سرکاری سطح پر اس کی یاد گار منائی جائے تو پھر انھوں نے پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے یہ یاد گار منانے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد سے ایک کمیٹی مجلس یاد گار غالبؔ کے نام سے قائم کی گئی۔ خوش قسمتی سے اس وقت غالبؔ کے کتنے جانے مانے محقق اور نقاد لاہور میں جمع تھے۔
ایک تو خود مہرؔ صاحب۔ پھر موج کوثر رود کوثر والے شیخ محمد اکرام' پروفیسر وزیر الحسن عابدی' ڈاکٹر سید عبداللہ' پروفیسر وقار عظیم' ڈاکٹر آفتاب احمد خاں اور ہاں مصور غالبؔ عبدالرحمن چغتائی۔ ان سب کو حمید احمد خاں نے اس مجلس میں سمیٹ لیا اور ان سب ہی سے کام لیا۔ مہرؔ صاحب نے اپنے پچھلے کام کی طرف یاد دہانی کرانے کے بجائے ایک نیا کام اپنے ذمے لے لیا۔ یعنی اب تک غالبؔ کے جتنے خطوط دریافت ہو چکے ہیں ان کی تاریخ وار ترتیب اور مہر صاحب کو غالبؔ کے خطوط پر تو اتنا عبور تھا کہ انھیں بنیاد بنا کر غالبؔ کی سوانح حیات مرتب کر ڈالی۔ جہاں تہاں غالبؔ نے اپنے بارے میں جو بیان دے رکھے ہیں انھیں کس دیدہ ریزی سے خطوط کے بیچ سے چنا ہے اور کس سلیقہ سے انھیں برتا ہے کہ پوری سوانح خود غالبؔ کے بیانات سے عبارت نظر آتی ہے۔
غالبؔ کی سوانح حیات سب سے پہلے مولانا حالیؔ نے مرتب کی تھی۔ اور وہ مستند سمجھی جاتی ہے۔ مولانا مہر بھی اس کے بہت قائل ہیں۔ اس کے باوجود ان کا خیال ہے کہ ''یاد گار غالبؔ اپنی تمام تر خوبیوں کے باوجود غالبؔ کی صحیح مفصل اور مستند سرگزشت نہیں''۔ وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''یاد گار' ان توقعات کو پورا نہیں کرتی جو حالیؔ اور غالبؔ کے گہرے تعلقات کی بنا پر اس کتاب سے وابستہ کی جا سکتی ہیں۔ غالبؔ کی تصانیف کے مطالعہ کے دوران میں جا بجا جو سوالات پیدا ہوتے ہیں ان کے لیے مشتاق نگاہیں 'یاد گار' کے صفحات کی طرف بے اختیار اٹھتی ہیں تو زیادہ تر ناکام واپس لوٹتی ہیں۔...ان سے بعض حیرت انگیز سہو سرزد ہوئے ہیں...''۔
اپنی تصنیف کے سلسلہ میں کہتے ہیں ''میرے بیانات زیادہ تر خود غالبؔ کی تحریرات پر مبنی ہیں۔ اس لیے اس کتاب کو ایک لحاظ سے غالبؔ کی تزک کہا جا سکتا ہے۔ البتہ تشریحات میری ہیں''۔ مزید تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں ''غالبؔ کے خطوط اور دوسری تصانیف سے ان حالات کو جمع کرنا آسان نہ تھا۔ ایک ایک مطلب کے لیے ایک ایک صفحہ کو کھول کھول ایک ایک سطر کی تفتیش غیر ممکن ہونے کے علاوہ مفید بھی نہ تھی۔ نیز میری صحت اس قدر دیدہ ریزی کے لیے مساعد نہ تھی۔ لہٰذا میں نے زیادہ تر حافظہ اور استحضار پر اعتماد کیا''۔
مولانا نے بطور خاص چند شخصیتوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے انھیں غالبؔ کے متعلق قیمتی مواد فراہم کیا ان میں سب سے بڑھ کر مولوی رجب علی مخاطب بہ ارسطو جاہ کی اولاد میں سے ایک بزرگ سید آغا حسین نائب تحصیلدار ساکن جگرائوں ضلع لدھیانہ تھے۔ پھر مولانا ابوالکلام آزاد ہیں ''جنہوں نے وسیع تر مصروفیات کے باوجود اپنے اوقات گرامی کا ایک حصہ 'غالبؔ' کے ملاحظہ میں صرف کیا اور عبارت و اسلوب نگارش کے متعلق گراں بہا مشورے دینے کے علاوہ متعدد نئے مطالب خود قلم بند فرمائے جو غالبؔ کی سیرت و سوانح کے بارے میں معلومات کا نہایت قیمتی ذخیرہ ہیں۔ یہ مطالب میں نے حضرت کی اجازت سے متعلقہ مقامات پر حرف بہ حرف درج کر دیے ہیں''۔
مہر صاحب نے حالات زندگی بیان کرتے ہوئے خطوط سے بہت مدد لی ہے۔ آخری دنوں میں جتنی خوراک رہ گئی تھی اس کی تفصیل سنئے۔
''بہتر برس کا آدمی۔ پھر رنجور دائمی۔ غذا لحم یک قلم مفقود۔ آٹھ پہر میں ایک بار آب گوشت پی لیتا ہوں۔ نہ روٹی نہ بوٹی نہ پلائو نہ خشکہ''۔
دوسرا بیان۔ ''غذا مفقود ہے۔ صبح کو قند اور شیرۂ بادام مقشر۔ دوپہر کو گوشت کا پانی۔ سرشام گوشت کے تلے ہوئے چار کباب۔ سوتے ہوئے پانچ روپے بھر شراب اور اسی قدر گلاب۔ خرف ہوں' پوچ ہوں' عاصی ہوں' فاسق ہوں' روسیاہ ہوں''۔
آخری عمر میں یہ شعر اکثر پڑھتے تھے ؎
دم واپسیں برسر راہ ہے
عزیز و اب اللہ ہی اللہ ہے
اس ایڈیشن میں ناشر نے اشاریہ کا خاص اہتمام کیا ہے جو اردو کی کتابوں میں بالعموم نہیں ہوتا۔ اس کی تفصیل یہ ہے۔
اسماء الرجال۔ اسماء اماکن۔ اسماء کتب و اخبارات و رسائل۔ انگریز شخصیات۔
خاص طور پر غالبؔ کے حوالے سے۔ مہرؔ صاحب کہتے ہیں کہ ''میں ہوش سنبھالتے ہی کسی دوسرے شاعر کی عقیدت کا حلقہ اپنی گردن میں ڈالے بغیر غالبؔ کا معتقد بن گیا تھا لیکن سالکؔ صاحب اپنے ذوق صحیح کی رہنمائی میں مختلف مراحل سے گزر کر غالبؔ کے آستانہ پر پہنچے تھے۔ شرعی اصطلاح میں میری حیثیت عامی مقلد کی تھی لیکن سالکؔ صاحب محقق و مجتہد کے مرتبہ پر فائز ہو چکے تھے۔ یا تصوف کی زبان میں میں مجذوب تھا اور وہ سالک تھے''۔
یہ موازنہ بر حق مگر یہ لطیفۂ غیبی بھی خوب ہوا کہ سالکؔ صاحب تو صحافت میں پھنسے رہ گئے اور مہرؔ صاحب نے مطالعہ و تحقیق کے مراحل طے کرتے ہوئے غالبؔ کے نمایندہ محققوں کی صف میں بڑا مقام بنا لیا۔ ایسا ہی ان کا ایک تحقیقی کام اس وقت ہمارے پیش نظر ہے۔ یہ ان کی مرتب کردہ غالبؔ کی سوانح حیات ہے جو پہلی مرتبہ 1936ء میں شایع ہوئی تھی۔ پھر اس کے بعد باری باری تین ایڈیشن اور شایع ہوئے۔ 41ء میں' 44ء میں 46ء میں۔ پھر تقسیم کے بعد یہ کتاب پس منظر میں چلی گئی۔ پانچواں ایڈیشن اب جا کر شایع ہوا ہے۔ اشاعتی ادارہ وہی ہے اگرچہ اب شیخ مبارک علی زندہ نہیں ہیں جنہوں نے لگا تار اس کے چار آڈیشن شایع کیے تھے اور اب خود مہرؔ صاحب بھی مدت ہوئی اس دنیا سے سدھار چکے ہیں۔
اور مہرؔ صاحب کی شان استغنا دیکھو کہ غالبؔ کی سو سالہ یاد گار کے موقعہ پر 1944ء میں اس کی اشاعت کی تقریب پیدا ہوئی تھی تو انھوں نے اپنے اس کام کی طرف غالبؔ کی یاد منانے والوں کو توجہ ہی نہیں دلائی۔ ان کی فرمائش پھر غالبؔ کے بارے میں ایک اور تحقیقی کام اپنے ذمے لے لیا۔ خیر اس بہانے غالبؔ کے حساب میں ان کے دو تحقیقی کارنامہ لکھے گئے۔
اصل میں اس زمانے میں پروفیسر حمید احمد خاں پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے۔ وہ جب حکومت پاکستان کو قائل نہ کر سکے کہ غالبؔ اس کا مستحق ہے کہ پاکستان میں سرکاری سطح پر اس کی یاد گار منائی جائے تو پھر انھوں نے پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے یہ یاد گار منانے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد سے ایک کمیٹی مجلس یاد گار غالبؔ کے نام سے قائم کی گئی۔ خوش قسمتی سے اس وقت غالبؔ کے کتنے جانے مانے محقق اور نقاد لاہور میں جمع تھے۔
ایک تو خود مہرؔ صاحب۔ پھر موج کوثر رود کوثر والے شیخ محمد اکرام' پروفیسر وزیر الحسن عابدی' ڈاکٹر سید عبداللہ' پروفیسر وقار عظیم' ڈاکٹر آفتاب احمد خاں اور ہاں مصور غالبؔ عبدالرحمن چغتائی۔ ان سب کو حمید احمد خاں نے اس مجلس میں سمیٹ لیا اور ان سب ہی سے کام لیا۔ مہرؔ صاحب نے اپنے پچھلے کام کی طرف یاد دہانی کرانے کے بجائے ایک نیا کام اپنے ذمے لے لیا۔ یعنی اب تک غالبؔ کے جتنے خطوط دریافت ہو چکے ہیں ان کی تاریخ وار ترتیب اور مہر صاحب کو غالبؔ کے خطوط پر تو اتنا عبور تھا کہ انھیں بنیاد بنا کر غالبؔ کی سوانح حیات مرتب کر ڈالی۔ جہاں تہاں غالبؔ نے اپنے بارے میں جو بیان دے رکھے ہیں انھیں کس دیدہ ریزی سے خطوط کے بیچ سے چنا ہے اور کس سلیقہ سے انھیں برتا ہے کہ پوری سوانح خود غالبؔ کے بیانات سے عبارت نظر آتی ہے۔
غالبؔ کی سوانح حیات سب سے پہلے مولانا حالیؔ نے مرتب کی تھی۔ اور وہ مستند سمجھی جاتی ہے۔ مولانا مہر بھی اس کے بہت قائل ہیں۔ اس کے باوجود ان کا خیال ہے کہ ''یاد گار غالبؔ اپنی تمام تر خوبیوں کے باوجود غالبؔ کی صحیح مفصل اور مستند سرگزشت نہیں''۔ وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''یاد گار' ان توقعات کو پورا نہیں کرتی جو حالیؔ اور غالبؔ کے گہرے تعلقات کی بنا پر اس کتاب سے وابستہ کی جا سکتی ہیں۔ غالبؔ کی تصانیف کے مطالعہ کے دوران میں جا بجا جو سوالات پیدا ہوتے ہیں ان کے لیے مشتاق نگاہیں 'یاد گار' کے صفحات کی طرف بے اختیار اٹھتی ہیں تو زیادہ تر ناکام واپس لوٹتی ہیں۔...ان سے بعض حیرت انگیز سہو سرزد ہوئے ہیں...''۔
اپنی تصنیف کے سلسلہ میں کہتے ہیں ''میرے بیانات زیادہ تر خود غالبؔ کی تحریرات پر مبنی ہیں۔ اس لیے اس کتاب کو ایک لحاظ سے غالبؔ کی تزک کہا جا سکتا ہے۔ البتہ تشریحات میری ہیں''۔ مزید تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں ''غالبؔ کے خطوط اور دوسری تصانیف سے ان حالات کو جمع کرنا آسان نہ تھا۔ ایک ایک مطلب کے لیے ایک ایک صفحہ کو کھول کھول ایک ایک سطر کی تفتیش غیر ممکن ہونے کے علاوہ مفید بھی نہ تھی۔ نیز میری صحت اس قدر دیدہ ریزی کے لیے مساعد نہ تھی۔ لہٰذا میں نے زیادہ تر حافظہ اور استحضار پر اعتماد کیا''۔
مولانا نے بطور خاص چند شخصیتوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے انھیں غالبؔ کے متعلق قیمتی مواد فراہم کیا ان میں سب سے بڑھ کر مولوی رجب علی مخاطب بہ ارسطو جاہ کی اولاد میں سے ایک بزرگ سید آغا حسین نائب تحصیلدار ساکن جگرائوں ضلع لدھیانہ تھے۔ پھر مولانا ابوالکلام آزاد ہیں ''جنہوں نے وسیع تر مصروفیات کے باوجود اپنے اوقات گرامی کا ایک حصہ 'غالبؔ' کے ملاحظہ میں صرف کیا اور عبارت و اسلوب نگارش کے متعلق گراں بہا مشورے دینے کے علاوہ متعدد نئے مطالب خود قلم بند فرمائے جو غالبؔ کی سیرت و سوانح کے بارے میں معلومات کا نہایت قیمتی ذخیرہ ہیں۔ یہ مطالب میں نے حضرت کی اجازت سے متعلقہ مقامات پر حرف بہ حرف درج کر دیے ہیں''۔
مہر صاحب نے حالات زندگی بیان کرتے ہوئے خطوط سے بہت مدد لی ہے۔ آخری دنوں میں جتنی خوراک رہ گئی تھی اس کی تفصیل سنئے۔
''بہتر برس کا آدمی۔ پھر رنجور دائمی۔ غذا لحم یک قلم مفقود۔ آٹھ پہر میں ایک بار آب گوشت پی لیتا ہوں۔ نہ روٹی نہ بوٹی نہ پلائو نہ خشکہ''۔
دوسرا بیان۔ ''غذا مفقود ہے۔ صبح کو قند اور شیرۂ بادام مقشر۔ دوپہر کو گوشت کا پانی۔ سرشام گوشت کے تلے ہوئے چار کباب۔ سوتے ہوئے پانچ روپے بھر شراب اور اسی قدر گلاب۔ خرف ہوں' پوچ ہوں' عاصی ہوں' فاسق ہوں' روسیاہ ہوں''۔
آخری عمر میں یہ شعر اکثر پڑھتے تھے ؎
دم واپسیں برسر راہ ہے
عزیز و اب اللہ ہی اللہ ہے
اس ایڈیشن میں ناشر نے اشاریہ کا خاص اہتمام کیا ہے جو اردو کی کتابوں میں بالعموم نہیں ہوتا۔ اس کی تفصیل یہ ہے۔
اسماء الرجال۔ اسماء اماکن۔ اسماء کتب و اخبارات و رسائل۔ انگریز شخصیات۔