جبر کے رشتے

عائشہ برطانیہ میں پیدا ہوئی۔ اس کے والدین گجرات سے تعلق رکھتے تھے۔عائشہ کی تعلیم و تربیت لندن میں برطانوی انداز میں...


[email protected]

پاکستان سے لاکھوں کی تعداد میں ہمارے شہری بیرون ملک جا بسے ہیں۔یو۔ کے، امریکا، مشرق وسطیٰ اور افریقہ! ہمارے لوگ ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ آپ یو۔ کے کی مثال لیجیے۔ وہاں بارہ سے پندرہ لاکھ پاکستانی موجود ہیں۔ یہ لندن، برمنگھم، مانچسٹر، گلاسگو یعنی ہر شہر میں آباد ہیں۔ ان میں سے کچھ خاندان تو اب تیسری نسل سے مقیم ہیں۔ کئی پاکستان بننے سے پہلے برطانیہ چلے گئے تھے۔ مگر اکثریت1947ء کے بعد نقل مکانی کر کے اس ملک میں پہنچی تھی۔ مگر ایک سماجی المیہ ان لوگوں کے لیے کافی مشکلات پیدا کرتا ہے۔ یہ نکتہ لڑکیوں کی پاکستان یا پاکستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان لڑکوں سے شادی سے منسلک ہے۔

میں کسی بحث کا حصہ بنے بغیر یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ پچاس ساٹھ برس سے بھی زیادہ وقت برطانیہ، امریکا یا کینیڈا گزارنے کے باوجود ان لوگوں کی اکثریت اپنی بچیوں کی شادی کے لیے انگریز نسل کے نوجوانوں سے اجتناب کرتی ہے۔ ان کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی نورچشمی کسی پاکستان نوجوان سے ہی رشتہ ازواج میں منسلک ہو۔ وہ شعوری طور پر ابھی تک پاکستانی روایات کو اپنے ذہن سے نہیں نکال سکے۔ مگر ان کی نوجوان نسل، پاکستانی کلچر اور روایات سے بالکل نا آشنا ہے۔ ان میں سے اکثریت مغربی ممالک میں ہی پیدا ہوئی۔ وہ اپنے آپ کو برطانوی یا امریکی شہری گردانتے ہیں۔

یہ فکر اس لحاظ سے ٹھیک ہے کہ وہ جس ملک میں اپنے والدین کی بدولت پلے بڑھے، فطری طور پر وہ اس کے طور اطوار اور تہذیب کو ہی اپنا سمجھتے ہیں۔ مگر اس صورت حال کو متضاد انسانی رویے بہت پیچیدہ بنا دیتے ہیں۔ بزرگ ذہنی طور پر پاکستانی ہیں مگر نوجوان نسل ہمارے ملک کی روایتی سوچ سے بالکل مختلف ہے۔ یہ ندی کے دو کنارے ہیں جو ساتھ ساتھ چلتے ہوئے بھی آپس میں صدیوں کے فاصلے پر ہیں۔ ان تمام ذہنی گنجلوں میں ایک مسئلہ اب دیو بن کر سب کے سامنے کھڑا ہے۔ اکثر والدین اپنی بچیوں کو جذباتی طور پر مجبور کرنے کے بعد، ان کی رضا مندی کے بغیر ان کی شادیاں پاکستان میں کر دیتے ہیں۔

ان بزرگوں کو بالکل ادراک نہیں کہ ان نوجوان لڑکیوں پر کیا قیامت گزرتی ہے۔یہ اتنا مشکل اور سنجیدہ قدم ہے کہ اس کو کسی تعصب کے بغیر غیر جذباتی طریقے سے پرکھنا بہت ضروری ہے۔ آپ اندازہ کیجیے کہ یو۔ کے میں زبردستی شادی کروانے کے سالانہ1400 سے1500 واقعات ہوتے ہیں۔ ان میں سے پچاس فیصد کے قریب المیے پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ باریکی سے دیکھا جائے تو اس پچاس فیصد میں سے اکثریت کا تعلق آزاد کشمیر اور گجرات سے ہوتا ہے۔

عائشہ برطانیہ میں پیدا ہوئی۔ اس کے والدین گجرات سے تعلق رکھتے تھے۔عائشہ کی تعلیم و تربیت لندن میں برطانوی انداز میں ہوئی۔ اس کے اسکول میں مختلف نسلوں کے بچے اور بچیاں پڑھتی تھیں۔ اس کو بچپن سے برطانوی پولیس میں جانے کا شوق تھا۔ جب وہ اٹھارہ برس کی ہوئی تو اس کے لیے تمام دنیا تبدیل ہو گئی۔ اس کے والدین اسے چھٹیوں میں پاکستان لے آئے۔ ایک دن بتایا گیا کہ اس کی سالگرہ کی تقریب ہے اور بہت سے مہمان مدعو کیے گئے ہیں۔ یہ سالگرہ نہیں بلکہ اس کے نکاح اور رخصتی کی تقریب تھی۔ عائشہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ ایک اجنبی شخص کے ساتھ اس کی مرضی پوچھے بغیر والدین اس کی زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ صادر کر دینگے۔ والدہ نے اس کے پیروں پر اپنا دوپٹہ رکھ دیا۔

عائشہ نے اپنے ہونے والے خاوند کو دیکھے بغیر ہاں کر دی۔ رخصتی کے بعد وہ پنڈی چلی گئی۔ اس کا خاوند اس سے بارہ سال بڑا تھا اور وہ بالکل اَن پڑھ تھا۔ یہ اس کا دور پار کا رشتہ دار بھی تھا۔ اسے لندن میں کاروبار کرنے کا شوق تھا۔ یہ شادی دراصل ایک معاہدہ تھا کہ اس کا شوہر لندن آ سکے اور پھر وہ دونوں ایک ساتھ رہیں۔ عائشہ نے تمام کوشش کر لی مگر وہ اس شخص کے ساتھ نباہ نہ کر پائی۔ تعلیمی، اخلاقی اور سماجی فرق اتنا زیادہ تھا کہ وہ ذہنی طور پر بیمار ہو گئی۔ خاوند کی برطانوی شہریت کو ایک سال کا عرصہ لگ گیا۔ وہ مسلسل پاکستان آتی رہی۔ ایک سا ل کے بعد عائشہ اپنے خاوند کو لے کر لندن واپس آ گئی۔ یہ شادی مکمل بے جوڑ تھی اور عائشہ کی مرضی کے خلاف تھی۔ اس کے خاوند کو ایک اسٹور پر کام مل گیا۔ عائشہ پڑھنا چاہتی تھی مگر اس کو اس کی اجازت نہیں دی گئی۔

عائشہ نے تمام مخالفت کے باوجود لندن کی ایک یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ اس کے خاوند نے اس گستاخی پر اس پر روز تشدد کرنا شروع کر دیا۔ ایک دن اس نے یونیورسٹی میں کلاس ختم ہونے کے بعد تمام لوگوں کے سامنے اس پر ہاتھ اٹھایا۔ یہ عائشہ کے لیے زندگی کا وہ لمحہ تھا جس نے ہر چیز تبدیل کر دی۔ وہ ہاسٹل منتقل ہو گئی۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ اب وہ اپنی زندگی ضایع نہیں کرے گی۔ اس نے شادی ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس کا خاوند عائشہ کے والدین کے پاس گیا اور ان لوگوں نے فیصلہ کیا کہ عائشہ کو ہر قیمت پر واپس آنا چاہیے۔ انکار پر، اس کے شوہر اور والدین نے اس پر چوری کا پرچہ کروا دیا۔ پولیس نے عائشہ کو گرفتار کر لیا۔ مگر دو تین دن کے بعد پولیس کو پتہ چل گیا کہ کوئی چوری نہیں ہوئی اور عائشہ مکمل بے گناہ ہے۔

اب پولیس نے اس تمام معاملے پر نظر رکھنی شروع کر دی۔ عائشہ واپس ہاسٹل آ گئی۔ اس نے عدالت میں ایک کیس کیا کہ وہ اس زبردستی کی شادی کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ عدالت نے اس کے حق میں فیصلہ کر دیا۔ فیصلہ کی شام کو وہ اپنے ہاسٹل سے نکل کر لائبریری جا رہی تھی کہ خاوند اور بھائی نے پیچھے سے کار اس کی سائیکل پر چڑھا دی۔ وہ اسے زندہ کچلنا چاہتے تھے۔ عائشہ کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئیں۔ اسے اسپتال لے جایا گیا۔ پولیس پہنچی۔ برطانوی پولیس نے تفتیش کے بعد اس کے والد، بھائی اور سابقہ شوہر کو گرفتار کر لیا۔ ان پر اقدام قتل کا الزام لگایا گیا۔ یہ نومبر 2000ء کا واقعہ تھا۔

اسے ٹھیک ہونے میں ایک سال لگا لیکن عائشہ نے اپنے قتل کرنے کی کوشش کو معاف کر دیا۔ کیونکہ اس کے سامنے اس کے قریب ترین رشتے مجرم کی حیثیت سے کھڑے ہوئے تھے۔ عائشہ نے اپنی تعلیم مکمل کی اور ایک بینک میں کام کرنا شروع کر دیا۔ اس کا اپنے گھر والوں سے تعلق ختم ہو چکا تھا۔ 2002ء میں اسے پتہ چلا کہ اس کی دادی کو کینسر ہو گیا ہے۔ وہ اپنے گھر طویل عرصے کے بعد گئی۔ یہ اس کا اپنے والدین سے تقریباً آٹھ سال کے بعد پہلا رابطہ تھا۔ وہ ہر تین چار ماہ بعد اپنی دادی کی عیادت کے لیے گھر ضرور جاتی تھی۔ مگر گھر میں کسی نے بھی اس کے آنے پر خوشی کا اظہار نہیں کیا۔

جب وہ گھر جاتی تھی تو سارے ادھر اُدھر ہو جاتے تھے۔ 2012ء میں عائشہ کو بتایا گیا کہ اس کے والد کو گردوں کا مرض لاحق ہو چکا ہے۔ وہ ڈائلیسس پر زندہ تھے۔ عائشہ اسپتال جانا شروع ہو گئی۔ اس کے والد کو گردہ کی ضرورت تھی۔ اس کے بھائی نے اپنے والد کو گردہ عطیہ کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ عائشہ نے سرجن کے سامنے اپنی مرضی سے اپنے والد کو گردہ عطیہ کیا۔ آپریشن ہوا۔ دونوں کی زندگی بچ گئی۔ مگر چھ ماہ بعد عائشہ کا والد فوت ہو گیا۔ عائشہ کا آج اپنے گھر سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ وہ لندن میں رہتی ہے۔ مگر اب اس کا ذہن کرچی کرچی ہو چکا ہے۔

وہ رات کو سوتے وقت اپنے تکیہ کے نیچے چاقو رکھتی ہے۔ وہ ہر وقت اس خوف میں رہتی ہے کہ اس کو اس کا سابقہ خاوند یا کوئی رشتہ دار قتل کر دیگا۔ وہ کئی کئی دن کھانا نہیں کھاتی اور اگر کھائے تو مسلسل کھاتی رہتی ہے۔ اس نے اپنی تکلیف اور دکھ کو کم کرنے کے لیے لندن میں ایک ادارہ قائم کیا ہے جو زبردستی شادی ہونے پر پاکستانی لڑکیوں کو قانونی تحفظ اور دیگر امداد بہم پہنچاتا ہے۔ اس نے اپنی زندگی اس مقصد کے لیے وقف کر دی ہے ، وہ کسی اور کے ساتھ نہ ہو۔ اسے اپنے والدین سے شدید محبت تھی مگر صرف ایک غلط اور بے جوڑ فیصلے نے ہر چیز برباد کر ڈالی۔

میرے سامنے اس وقت لندن کے ایک اخبار Gaurdian کی تفصیلی رپورٹ پڑی ہوئی ہے جس میں عائشہ کی طرح کے بہت سے واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ برطانوی حکومت زبردستی کی شادیوں کو ایک فوجداری جرم قرار دینا چاہ رہی ہے۔ اس کے لیے اس وقت قانون سازی جاری ہے۔ شائد اب تک یہ مکمل بھی ہو چکی ہو۔ لندن میں ہر پانچویں یا چھٹے پاکستانی گھر کی یہی کہانی ہے۔ ہمارے بیرون ملک رہنے والے پاکستانی بھول جاتے ہیں کہ وہ لندن یا نیو یارک میں میر پور، گجرات یا کسی اور پاکستانی شہر کی سماجی روایات کے حساب سے زندگی نہیں گزار سکتے۔ غیر ممالک میں رہنے والی ہماری نوجوان نسل مکمل طور پر ذہنی انتشار کا شکار ہے۔

دراصل ان ممالک میں گھر اور باہر کی زندگی میں قیامت کا فرق ہے۔ میں کس فریق کو ٹھیک کہوں اور کس کو غلط! پتہ نہیں! مجھے تو سچ اور جھوٹ کی متضاد رسی میں مضبوطی سے بندھے ہوئے ان نوجوان بچے اور بچیوں پر ترس آتا ہے! مگر کسی کو یہ نہیں حق نہیں پہنچتا کہ وہ سب سے خوبصورت انسانی بندھن کی بنیاد ظلم کی اینٹ سے رکھے۔ اس کو منافقت کے مصالحہ سے جوڑے اور جذباتیت کی عمارت میں قید کر دے ! یہ تعلق تو پائیدار خوشبو کے لباس ہیں نہ کہ ظلم اور جبر کے رشتے!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں