کراچی کراچی نہیں ہے

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی شہر ہی نہیں ایک ایسا میٹروپولیٹن سٹی بھی ہے جہاں ملک بھر سے ہی نہیں ...


Zaheer Akhter Bedari May 12, 2014
[email protected]

جس ملک میں حکمران طبقات اور سیاسی اہلکار صرف اپنی ذات اور اپنے طبقاتی مفادات سے آگے نہیں دیکھتے اور ملک و قوم کے بہتر مستقبل کے حوالے سے ان کا کوئی ویژن نہیں ہوتا اور ملک چلانے میں ہر کردار خود ہی ادا کرنا چاہتے ہیں، عقل و دانش جن کو چھو کر نہیں جاتی ایسے ملکوں میں مسائل اندر ہی اندر روئی کی آگ کی طرح پھیلتے رہتے ہیں۔

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی شہر ہی نہیں ایک ایسا میٹروپولیٹن سٹی بھی ہے جہاں ملک بھر سے ہی نہیں دنیا کے مختلف ملکوں سے آنے والے لاکھوں لوگ بھی رہتے ہیں جن کی زبانیں الگ الگ ہیں، جو نسلی اعتبار سے مختلف ہیں، جن کے کلچر الگ الگ ہیں، یہ رنگا رنگی بادی النظر میں تو بہت دلکش نظر آتی ہے لیکن اس رنگا رنگی کے نیچے اقتصادی مفادات کی جو دھیمی دھیمی آگ جل رہی ہے اگر یہ شعلہ جوالہ بن جائے تو کیا ہوگا؟ اس سوال کے جواب سے حکمران طبقات اور اہل سیاست کو تو کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ ان کی نظریں صرف اپنے سیاسی مفادات پر لگی رہتی ہیں کہ انتخابات کے موقع پر ان تارکین وطن اور مختلف صوبوں سے آئے ہوئے لوگوں سے ووٹ کس طرح لیں اور ووٹ کے بھوکے، عقل کے یہ اندھے، تارکین وطن اور دوسرے صوبوں سے آئے ہوئے لوگوں کے جائز و ناجائز حقوق کی حمایت آنکھ بند کر کے کرتے رہتے ہیں۔

لیکن وہ لوگ جو طبقاتی سیاست کرتے ہیں اور انسانوں کو صرف غریب اور امیر کی حیثیت سے دیکھتے ہیں، وہ کراچی کے مختلف النوع عوام کے اندر سلگتی ہوئی اقتصادی آگ سے سخت تشویش میں مبتلا ہیں۔ وہ اس خوف سے سخت پریشان رہتے ہیں کہ اگر خدانخواستہ عوام کے اقتصادی مفادات انھیں ایک دوسرے کے سامنے کھڑا کر دیں تو اس شہر کا کیا حال ہوگا؟

پچھلے ایک عشرے اور اس سے پہلے کراچی قتل و غارت، دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ کی ایسی آگ میں جل رہا ہے جس میں اس شہر کا رہنے والا ہر شخص اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتا ہے اور اس کی پہلی ترجیح اپنی اور اپنے خاندان کی جان کا تحفظ ہے۔ ایسی صورتحال میں اس شہر میں رہنے والوں کے اقتصادی مفادات پس منظر میں چلے گئے ہیں لیکن اہل خرد جانتے ہیں کہ وہ اقتصادی مفادات جو بھائی کو بھائی سے باپ کو بیٹے سے لڑا دیتے ہیں وہ اس شہر میں بوجوہ رہائش پذیر کروڑوں لوگوں کو کب تک ایک دوسرے کے سامنے آنے سے روک سکیں گے۔

اگر غریب عوام ایک دوسرے کے سامنے آ جائینگے تو نقصان کس کا ہو گا اور کتنا بڑا ہو گا، اس ممکنہ صورتحال کے پیدا ہونے سے اس طبقاتی یکجہتی کا کیا ہو گا جو پہلے ہی سے پارہ پارہ ہے اور جو اقتصادی اور طبقاتی استحصال کا شکار ہے۔ غریب طبقات کے درمیان ٹکرائو معاشی اور سیاسی دونوں ایلیٹ کے لیے فائدہ مند ہے، اس لیے یہ ایلیٹ 'لڑائو اور حکومت کرو، تقسیم کرو اور مال بنائو' کے فارمولے پر عمل پیرا رہتی ہے، لیکن اس قسم کے ٹکرائو سے پہلے سے کمزور طبقات اور کمزور ہو جاتے ہیں۔

قیام پاکستان کے بعد ہندوستان کے اقلیتی صوبوں سے لاکھوں مسلمان ہجرت کر کے پاکستان آنے لگے، مشرقی پنجاب سے آنیوالے مہاجر تو کلچر اور زبان کی ہم آہنگی کی وجہ سے مغربی پنجاب میں ضم ہو گئے لیکن بھارت کے دوسرے علاقوں سے آنیوالوں کا رخ کراچی اور سندھ کی طرف ہو گیا، اس کی 3بڑی وجوہات تھیں، ایک یہ کہ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی شہر تھا جہاں روزگار کے وافر مواقع موجود تھے، دوسری وجہ یہ تھی کہ یہ شہر ملک کا دارالحکومت اور ساحلی شہر تھا۔

ابتدا میں سندھی بھائیوں نے کشادہ دلی سے مہاجروں کا استقبال کیا لیکن جیسے جیسے انھیں احساس ہونے لگا کہ باہر سے آنیوالوں کی وجہ سے ان کے لیے ملازمتوں اور کاروبار کے مواقع کم ہونے لگے ہیں تو نئے اور پرانے سندھیوں کے درمیان تضاد ابھرنے لگا اور یہ تضاد مقامی سندھی سیاست دانوں کو قوم پرستی کی سیاست کی طرف لے آیا۔ اس تضاد کو بڑھتا دیکھ کر کراچی کے مہاجر اور چند سندھی دانشوروں نے دونوں کمیونٹیز کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوششیں کیں۔

دنیا کے ہر بڑے صنعتی شہر میں پسماندہ علاقوں سے بے روزگاروں کے قافلے آتے رہتے ہیں لیکن ان ملکوں کے حکمران طبقات باہر سے آنے والوں پر نظر رکھتے ہیں کہ حصول روزگار کے بہانے جرائم پیشہ سماج دشمن عناصر تو نہیں آرہے ہیں۔ ان ملکوں میں یہ اہتمام بھی حکومت کرتی ہے کہ باہر سے آنے والوں کو روزگار اور رہائش کی سہولتیں مہیا ہوں، یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ پسماندہ علاقوں سے آنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ نہ ہو جائے کہ آبادی کا توازن ہی بگڑ جائے اور شہر کے اصل باشندوں کو یہ شکایت نہ پیدا ہو جائے کہ پسماندہ علاقوں سے آنے والوں کی وجہ سے ان کے روزگار اور کاروبار متاثر ہو رہے ہیں، کیونکہ روزگار اور کاروبار کا تعلق معاشی ضرورتوں سے ہوتا ہے اور معاشی ناانصافی بھائی کو بھائی کے سامنے، بیٹے کو باپ کے سامنے کھڑا کر دیتی ہے۔

ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے حکمران طبقے کو ان خطرناک مسائل کا ادراک ہی نہیں، اگر ہے بھی تو یہ مسئلہ ان کے سیاسی مفادات کے نیچے دب جاتا ہے۔ ہمارے اعلیٰ ظرف حکمران نتائج و عواقب کی پرواہ کیے بغیر یہ اعلان کرتے رہتے ہیں کہ ''کراچی سب کا شہر ہے'' اور جب ان سب کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جرائم پیشہ لوگ ڈکیتوں کے گروہ، اغوا برائے تاوان کے گینگ، بھتہ مافیا، دہشت گرد اور ٹارگٹ کلر بڑی تعداد میں آ جاتے ہیں تو بڑے صنعتی شہر جرائم کے اڈوں میں بدل جاتے ہیں۔ آج کراچی اسی صورتحال سے گزر رہا ہے، بینک ڈکیتیاں، اغوا برائے تاوان، بھتہ مافیا، دہشتگرد، ٹارگٹ کلر شہر کے چپے چپے میں پھیل گئے ہیں۔ حکومت بے دست و پا بنی بیٹھی ہے۔

پسماندہ علاقوں سے جو لوگ درحقیقت روزگار کے لیے آ رہے ہیں حکومت کی طرف سے ان کے روزگار اور رہائش کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے یہ غریب لینڈ مافیا، روزگار مافیا قسم کی کئی مافیائوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور ہر طرف رشوت، غیر قانونیت کا راج ہو جاتا ہے۔ کراچی جسے کسی زمانے میں روشنیوں کا شہر اور عروس البلاد کہا جاتا تھا آج سناٹوں اور خوف و دہشت کا شہر بن گیا ہے، رات بھر جاگنے والا یہ شہر اب سر شام ہی اجڑنا شروع ہو جاتا ہے، ہر شخص کی پہلی ترجیح یہی ہوتی ہے کہ وہ خیریت سے اپنے گھر پہنچ جائے۔

اس صورت حال سے نمٹنے کے دو طریقے ہیں، ایک یہ کہ پسماندہ صوبوں میں صنعتوں کا جال پھیلا دیا جائے، کاروبار کے مواقع پیدا کیے جائیں تا کہ نہ صرف ترک سکونت کا خطرناک سلسلہ رک جائے بلکہ کراچی کی غیر یقینی اور دہشت زدہ زندگی سے تنگ آئے ہوئے لوگ اپنے شہروں کو واپس جا سکیں۔ اس حوالے سے دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کراچی اور حیدرآباد کے درمیان خالی پڑی ہوئی لاکھوں ایکڑ زمین پر ماڈرن اور شہری سہولتوں سے آراستہ ایسی بستیاں بسائی جائیں جو کراچی کا نعم البدل بن جائیں۔

کراچی کے ارد گرد اگرچہ بہت ساری بستیاں بسائی جا رہی ہیں لیکن یہ کام وہ کنسٹرکشن مافیائیں اور ڈیولپرز انجام دے رہے ہیں جن کے سامنے صرف لوٹ مار اور منافع خوری ہے، نہ ان آبادیوں میں بنیادی ضرورتوں کا اہتمام ہوتا ہے نہ یہ آبادیاں کسی جامع منصوبہ بندی اور پلاننگ کے ساتھ بنائی جا رہی ہیں، چونکہ سارا کام رشوت پر چل رہا ہے لہٰذا ان لٹیروں سے کوئی پوچھنے والا نہیں کہ ان کے منافع کی شرح کیا ہے؟ ان آبادیوں میں ٹرانسپورٹ اور دوسری بنیادی ضرورتوں کی فراہمی کا کیا انتظام ہے؟ بجلی، گیس، پانی جیسی سہولتوں کی کیا ضمانت ہے؟

اس ابتری اور افراتفری کی وجہ یہ ہے کہ حکمران طبقات کو ان اہم ترین مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں، ان کی دلچسپی ان اربوں، کھربوں کے پروجیکٹس میں ہوتی ہے جن میں اربوں کے الٹ پھیر کی گنجائش ہوتی ہے۔ ہمارے حکمران ہر دوسرے روز یہ بیان داغتے رہتے ہیں کہ ''ہم کراچی کو امن کا گہوارہ بنا دیں گے، کراچی کو پھر سے روشنیوں کا شہر بنا دیں گے'' لیکن یہ سارے وعدے، یہ ساری بیان بازیاں صرف زیب داستان ہوتی ہیں، حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

اگر حکومت میں مخلص لوگ ہیں تو وہ سب سے پہلے یہ دیکھیں کہ شہر کی صنعت کن لوگوں کے ہاتھوں میں ہے، تجارت، ٹرانسپورٹ پر کس کا قبضہ ہے، سرکاری اور نجی اداروں میں مختلف کمیونٹیز کی شرح کیا ہے، شہر میں ہونے والے مختلف قسم کے سنگین جرائم میں مقامی اور غیر مقامی کا تناسب کیا ہے؟ اگر حکومت یہ اعداد و شمار حاصل کر لے تو شہر کے حالات کو بہتر بنانے میں اسے کافی مدد مل سکتی ہے اور نئے اور پرانے سندھیوں کا پرانا تنازع بھی خوش اسلوبی سے طے ہو سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں