سندھ کیا سوچ رہا ہے
وہ سندھ جو سیاسی تجربات کی سرزمین بھی مانی جاتی ہے وہ اب اپنے مکمل شعور اور آگہی کے ساتھ ماضی کی ساری ...
ساحل سمندر سے لے کر صحرائے تھر تک موسم گرما کی وجہ سے سندھ سلگ رہا ہے۔ لیکن سلگتا ہوا سندھ کچھ سوچ رہا ہے۔ مگر اس سوچ میں سیاست کے پیچ و تاب نہیں ہے۔ کیوں کہ یہ دور اس آمریت کا دور نہیں ہے جس میں جمہوریت کی قیادت سندھ کے سپرد تھی۔ اس وقت کی یادیں آتی ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ ہم اس دور کو بہت پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ وہ دور جس میں سندھ سراپا سیاست تھا۔ میں مانتا ہوں کہ اس ملک میں مشہور ''بغاوت کیس'' کے بعد بائیں بازو کی سیاست نہ معلوم کس جرم میں قید ہوگئی؟ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ قید خود ساختہ نہیں تو اور کیا ہے؟ جب آزادی اظہار پر پابندی تھی اس دور میں سائیکلوسٹائل پمفلٹ بولا کرتے تھے۔
دیواروں پر لکھی ہوئی تحریریں اس سرزمین کے انسانوں کے شعور کا عکس پیش کرتی تھیں۔ مگر اب تو میڈیا سرحدوں سے ماورا ہوگیا ہے۔ اب تو ٹی وی چینلوں پر ایسے مباحثے ہو رہے ہیں اور ایسے موضوعات کو چھیڑا جارہا ہے جن کے بارے میں کبھی ہم سرگوشیوں میں بات کرتے ہوئے بھی ڈرتے تھے۔ اس آزادی کے ماحول میں وہ فکر و دانش اب کہیں نہیں جو اس دور میں سندھ کی پہچان تھی، جو سندھ بائیں بازو کی سیاست کا محور سمجھا جاتا تھا۔ ہم اس دور کو نوجوانی میں کی جانے والی چاہت کی طرح بھول چکے ہیں۔ مگر یادیں پھر بھی آتی ہیں اور دل کو تڑپا جاتی ہیں۔ کیوں کہ اس سیاست کی موجودہ دور میں بہت کمی محسوس ہوتی ہے جس سیاست کا تعلق قلم اور کتاب سے تھا۔ اب سیاست دانائی کی دین نہیں بلکہ چالاکی کا مظاہرہ ہے۔
چالاکی کے اس دور میں سندھ سوچ رہا ہے کہ وہ کل درست تھا یا آج صحیح ہے؟ اس سوال کا جواب کب اور کس وقت آئے گا؟ کہنا بہت مشکل ہے۔ اور ان حالات میں رہنا اس بھی زیادہ کٹھن ہے، جن حالات کا شکار موجودہ سندھ عرصہ دراز سے دکھ میں ایک ایسی شمع کی مانند جلتا دکھائی دے رہا ہے جو مسلسل پگھل کر ختم ہونے کے قریب تو پہنچ چکا ہے لیکن یہ اداسی اور اداسی سے بڑھ کر مایوسی کی رات ڈھلنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے۔ کسی ایسی رات کے سیاہ سینے میں سلگتے ہوئے فیض احمد فیض نے لکھا تھا کہ:
رات ڈھلنے لگی ہے سینوں میں
آگ سلگائو آبگینوں میں
دل عشاق کی خبر لینا
پھول کھلتے ہیں ان مہینوں میں
مگر موسم اپنی انگڑائیوں سے ہر ماہ ایک قدم آگے بڑھتا اور تبدیلی کے راستوں پر گامزن دکھائی تو دیتا ہے لیکن وہ وعدے والے پھول ابھی تک نہیں کھلے، جن کے بارے میں شیخ ایاز نے لکھا تھا کہ:
بارشیں ہوںگی رہ ہستی پہ تھم جائے گی دھول
اور دونوں طرف گہرے سرخ پھول
جب کھلیں گے، تب ملیں گے
اور اب ہمارا حشر ایسا ہے جیسا اس شعر میں بیان کیا گیا ہے کہ:
نہ گل کھلے ہیں، نہ ان سے ملے، نہ مئے پی ہے
عجیب رنگ میں اب کے بہار گزری ہے
ان سارے احساسات کو اپنے سینے میں سما کر سندھ سوچ رہا ہے، ساحل سمندر سے صحرائے تھر تک!
میرا گھر اس سمندر کے کنارے ہے، جہاں چہل قدمی کرتے ہوئے مجھے آسمان میں چہکتے ہوئے پرندوں کی آوازیں کبھی اس دور میں لے جاتی ہیں جس دور میں اسی سمندر کی لہروں پر آجاتے تھے ایسے لوگ جن کے ہاتھوں میں تلواریں ہوا کرتی تھیں اور وہ ہنستے اور مسکراتے ہوئے شہروں کو بھسم کردیا کرتے تھے۔ ان پرندوں کی آوازوں میں اس دور کی بازگشت بھی موجود ہوتی ہیں جس کو گزرے ہوئے ابھی اتنا وقت نہیں بیتا کہ ہم اسے یاد کرنے کے لیے اپنے ماتھے پر شکن ڈالیں۔ ابھی تھوڑے برس پہلے کی بات ہے کہ شہر قائد کے لوگ ساحل سمندر پر بھیگی ہوئی ریت سے سپنوں کے گھر بنایا کرتے تھے اور لاحاصل لوگوں کو چاہا کرتے تھے۔ مگر وہ سمندر جس پر منیر نیازی نے یہ خوبصورت نظم لکھی تھی کہ:
نیلا گرم سمندر
اوپر دھوپ کا شیشہ چمکے
موتی اس کے اندر
کیا کیا باتیں یاد آئی ہیں
بیٹھ کے اس ساحل پر
اک نامعلوم عمر کے قصے
بوجھ ہیں اب جو دل پر
اس ملک میں ایسے لوگ ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں میں ہیں جنہوں نے آج تک سمندر کو دیکھا تو نہیں مگر یہ سوچا ضرور ہے کہ وہ کسی شام اس سمندر کے کنارے بیٹھ کر بھولے ہوئے لمحات کی سیپیوں کو جمع کریں اور سوچیں کہ عمر کے اس سفر میں کیا کھویا؟ کیا پایا؟ لیکن اس سمندر کو اب گندگی کے زہر سے مارنے کی مسلسل کوششیں جاری ہیں۔ اس لیے وہ سمندر جو صرف دیکھنے میں نہیں بلکہ اپنی مخصوص بو کی وجہ سے ہمیں بہت کچھ دیا کرتا تھا اب تو وہ خود بھی ایک ایسے فریادی کے مانند اپنی لہروں کے سر کنارے سے ٹکرا کر ہم سب سے کہتا ہے کہ ''مجھے بچائو... یہ لوگ مجھے قتل کردیں گے''
جس دھرتی کے بارے میں شیخ ایاز نے لکھا تھا کہ:
سر پہ آگ برستی دیکھو
بوند بوند کو میری دھرتی
اک مدت سے ترستی دیکھو
وہ پیاس ابھی تک وادی سندھ کے ہونٹوں پر فریاد کر رہی ہے۔ جس سندھ نے تاریخ میں تمدن کے چراغ روشن کیے اور جس سندھ نے صدیوں کی غلامی کے بعد ایک ایسے ملک کے جنم میں کلیدی کردار ادا کیا جو ملک قدرتی ذخائر سے مالا مال ہے اور اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ ان ذخائر کا زیادہ تر حصہ سندھ کے سرزمین سے نکل رہا ہے۔ وہ صحرائے تھر جو پانی کی اک اک بوند کے لیے ترس رہا ہے اس میں کوئلے کے اتنے ذخائر ہیں جن کی انرجی سعودی عرب کے تیل کے ذخائر سے زیادہ قرار دی جا رہی ہے۔
سندھ کی سرزمین سے ہر روز تیل اور گیس نکل رہے ہیں لیکن سندھ کو کیا مل رہا ہے؟ سندھ تو آج بھی اس تھر کے لوگوں کی سرزمیں ہے جس کے درد ختم کرنے کے بجائے ان کا چیف منسٹر اسمبلی میں وہاں کی پردہ دار خواتین اور وہاں کے تعلیم سے محروم لوگوں پر طنزیہ فقرے کس رہا ہے اور اس کا ایک ایک لفظ اس شعور کو ڈس رہا ہے جو شعور کبھی سیاست کی قیادت کیا کرتا تھا اور اب وہ شعور ریت پر اڑتے ہوئے بگولوں کی طرح بھی نظر نہیں آتا۔
وہ سندھ جو سیاسی تجربات کی سرزمین بھی مانی جاتی ہے وہ اب اپنے مکمل شعور اور آگہی کے ساتھ ماضی کی ساری جدوجہدیں یاد کر کے ایک انجانے دکھ میں سلگ رہا ہے اور سوچ رہا ہے کہ کیا اس کا سیاسی سفر غلط سمت میں تھا؟ کیوں کہ ''یہ وہ منزل تو نہیں جس کی آرزو لے کر چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل'' اس سندھ کو تو اک ختم نہ ہونے والی ایسی کڑی دھوپ مل گئی ہے، جس میں جو جہنم کی طرح اسے جلائے جارہی ہے اور اس جہنم میں جلتے ہوئے سندھ سوچ رہا ہے کہ اگر یہ ظالم دھوپ والا دن ختم ہوگیا اور شام چھاگئی تو وہ کس سمندر کے کنارے بیٹھ کر سوچے گا؟ کیوں کہ اس سمندر کو تو گندگی کے زہر سے قتل کرلیا گیا ہے۔