نہ رکنے والی پولیس گردی
غیر قانونی حرکات پر معطل ہونے والے پولیس افسر کچھ دنوں بعد ہی بحال ہوجاتے ہیں ...
ملک بھر خاص طور پر سندھ اور پنجاب میں پولیس گردی عروج پر ہے اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے ملک کے دو بڑے اداروں کے حوالے سے نیشنل انٹیگریٹی سسٹم مطالعاتی رپورٹ جاری کی ہے جس میں پاکستان کے 13 مختلف سرکاری اداروں کو بہتر بنانے کے لیے تجاویز بھی دی ہیں، رپورٹ میں پاکستان میں سب سے زیادہ کرپشن محکمہ پولیس میں قرار دی گئی ہے۔ سندھ کے نئے آئی جی پولیس اقبال محمود نے بھی تسلیم کیا ہے کہ پولیس میں کرپشن اور غلط اہلکار اور افسر بھی موجود ہیں، پولیس کا ہر اعلیٰ افسر محکمے میں کرپشن کی موجودگی اور غلط اہلکاروں کو تسلیم کرتے ہوئے یہ کہہ کر جان چھڑا لیتا ہے کہ پولیس بھی اسی معاشرے کا حصہ ہے اور دیگر محکموں کی طرح محکمہ پولیس بھی کرپشن سے محفوظ نہیں ہے۔
سابق صدر ایوب خان اور جنرل یحییٰ خان کے دور تک ملک میں محکمہ پولیس میں اتنی کرپشن نہیں تھی جتنی مارشل لا کے طویل ترین دور کے بعد 1971 میں قائم ہونے والی سیاسی حکومت کے بعد شروع ہوئی جس کے بعد 1977 اور 1999 میں دو بار آمرانہ حکومتیں آئیں مگر 1971 کے بعد جتنی سیاسی حکومتیں آئیں ان سب میں سیاسی بنیاد پر جو بھرتیاں کی گئی تھیں ان کو ضیا الحق اور پرویز مشرف کی آمرانہ حکومتوں نے برقرار رکھا بلکہ اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف پولیس کو خود بھی استعمال کیا اور بعد کی سیاسی حکومتوں میں پولیس گردی مسلسل بڑھی اور اب محکمہ پولیس کو ملک کا سب سے بڑا کرپٹ ادارہ قرار دیا گیا ہے۔ سندھ کے اعلیٰ پولیس افسران نے متعدد بار یہ تسلیم کیا ہے کہ پولیس میں کالی بھیڑیں موجود ہیں مگر ان کالی بھیڑوں کے خلاف کارروائی کی جرأت کسی کو نہیں ہوئی۔
کراچی پولیس کے اعلیٰ افسر الطاف علی خان مرحوم نے 1978 میں راقم کو بتایا تھا کہ پولیس میں ایسے لاتعداد اہلکار اور افسر ہیں جو سنگین مقدمات میں ملوث ہیں اور اپنے مقدمات میں حاضری کے لیے چھٹیاں لے کر اپنے علاقوں میں جاکر مقدمات بھگتاتے ہیں۔ پولیس میں ہر ایرے غیرے کو سیاسی بنیاد پر بھرتی کرلیا جاتا ہے اور بھرتی ہونیوالے کی نہ کوئی تحقیقات کرائی جاتی ہے نہ معلومات لی جاتی ہیں جس کی وجہ سے پولیس میں نہ صرف جرائم پیشہ عناصر بھرتی ہوگئے ہیں بلکہ ایسے جرائم پیشہ عناصر کو پولیس میں بھرتی ہوکر تحفظ بھی حاصل ہو گیا ہے اور وہ پولیس میں ہوتے ہوئے نہ صرف جرائم کی سرپرستی کرتے ہیں بلکہ خود بھی وارداتیں کرتے ہیں۔
حال ہی میں گلشن اقبال میں پولیس کا ایک معطل اے ایس آئی بم دھماکے میں ہلاک کیا گیا جسے دو ہفتے قبل ہی اپنے علاقے سے باہر جاکر کسی بنگلے میں لوٹ مار اور غیر قانونی گرفتاریوں کے باعث موجودہ آئی جی پولیس نے معطل کیا تھا، یہ اے ایس آئی انسپکٹر سے تنزلی کے بعد سب انسپکٹر پھر اے ایس آئی بنادیا گیا تھا جو متعدد سنگین مقدمات میں بھی ملوث تھا اور اپنے علاقے میں اس کی دہشت تھی اور اس کے استعمال میں 65 لاکھ روپے مالیت کی گاڑی تھی جب کہ اس کی جائیداد کا کوئی شمار نہیں تھا۔ اس جیسے پولیس افسر عوامی شکایات، غیر قانونی اقدامات پر معطل ہو جاتے ہیں مگر اپنے سیاسی اثر و رسوخ کے باعث نہ صرف بحال ہوجاتے ہیں بلکہ مرضی کے عہدے بھی حاصل کرلیتے ہیں۔
مرحوم الطاف علی نے اپنے پولیس اہلکاروں سے متعلق جو بات 36 سال قبل کی تھی اس میں کمی کے بجائے تشویشناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے اور ملک بھر کی پولیس سیاسی ہوچکی ہے۔ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے دعویٰ کیا ہے کہ صوبہ کے پی کے میں پولیس کو غیر سیاسی بنادیا گیا ہے اور ارکان اسمبلی، پارٹی عہدیداروں کی سفارش کی بجائے پولیس میں تقرریاں اور تبادلے میرٹ پر کیے جا رہے ہیں۔ اعلیٰ عدالتوں میں پولیس اہلکاروں اور اعلیٰ افسروں تک کے لیے نامناسب ریمارکس دیے جاتے ہیں مگر کسی پر کوئی اثر نہیں ہوتا اور بعض پولیس افسر اس قدر بے حس ہوچکے ہیں کہ رشوت لے کر 11 ماہ تک کے بچے کو جھوٹے مقدے میں ملوث کر دیتے ہیں اور 6 سال کے بچے کو پولیس پر حملے کا ملزم بنا دیتے ہیں۔
بعض پولیس افسر بغیر کسی مقدمے اور انٹری کے بیگناہوں کو لاک اپ میں رکھتے ہیں اور عدالتی بیلف کے چھاپے پر رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پر بھی نہیں چھوڑتے۔ روزنامہ ایکسپریس کی ایک حالیہ خبر کے مطابق پولیس کے ایک اے ایس آئی نے رشوت لینے کے لیے اپنے ایک 15 سال پرانے تاجر دوست کو ایئرپورٹ پر پولیس سے گرفتار کرواکر 2 لاکھ روپے پولیس کو دلائے اور مزید 3لاکھ کے لیے بغیر کسی مقدمے کے تھانے میں محبوس رکھا اور ڈسٹرکٹ جج کی ہدایت پر عدالتی بیلف نے چھاپہ مارا تو تاجر موجود تھا اور اس کے خلاف کوئی انٹری تک نہیں تھی۔ ڈیوٹی افسر نے عدالتی احکام کے باوجود تاجر کو رہا نہیں کیا اور بعد میں 15 منٹ پہلے کے وقت میں کسی تھانے پر لے جاکر تاجر کو ڈکیتی کے مقدمے میں فٹ کرا دیا۔
پولیس کی اس ڈھٹائی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پولیس لا قانونیت کے معاملے میں کس انتہا پر پہنچ چکی ہے اور پولیس کے بعض کرپٹ افسروں کو عدلیہ، میڈیا سمیت اپنے اعلیٰ افسران کا بھی کوئی خوف نہیں ہے۔ ملک بھر میں پولیس کی زیادتیوں کے واقعات ہر ٹی وی چینل اور اخبارات میں رپورٹ ہو رہے ہیں اور میڈیا کے جدید کیمرے پولیس کی ہر غیر قانونی حرکت کو آشکار کر رہے ہیں جس کے بعد ان کے خلاف کارروائی کا بھی اعلان ہوتا ہے مگر رشوت کے حصول کو ایمان بنانے والے پولیس افسروں کو اپنے محکمے کی انضباتی کارروائی کا خوف ہے نہ اﷲ کی گرفت کا احساس۔ ہر پولیس افسر کی پشت پر کوئی نہ کوئی سیاسی شخصیت ہے جو انھیں محکمہ پولیس میں مکمل تحفظ فراہم کرتی ہے۔
غیر قانونی حرکات پر معطل ہونے والے پولیس افسر کچھ دنوں بعد ہی بحال ہوجاتے ہیں جن افسروں کی بطور سزا تنزلی ہوتی ہے وہ دوبارہ ترقی حاصل کرلیتے ہیں۔ لے کر رشوت پھنس گیا ہے دے کے رشوت چھوٹ جا، اب سزا سے بچنے کا اہم ذریعہ بن چکا ہے۔ جعلی مقابلوں اور غلط گرفتاریوں پر ترقیاں لینے والوں کے خلاف محکمہ جزا دینے میں بڑا سخی ہوتا ہے مگر جب جعلی گرفتاری والے عدم ثبوت پر عدلیہ سے رہا ہوجاتے ہیں تب بھی ان کی غلط ترقیاں واپس نہیں ہوتیں۔ حکیم محمد سعید کیس میں متحدہ کے تینوں کارکن 16 سال بعد عدالت سے رہا ہوگئے مگر اس کیس میں جن پولیس افسروں کو ترقیاں ملی تھیں وہ مزید ترقی پاکر ریٹائر بھی ہوگئے اور جو موجود ہیں ان کے خلاف بھی کارروائی کا امکان نہیںِ۔ ایسے حالات میں پولیس گردی فروغ ہی پا رہی ہے اور عوام تماشا دیکھ رہے ہیں۔