یومِ شہداء کی تقریب کے ثمرات
یومِ شہداء کی تقریب کے دوران کوئی لمحہ ایسا نہ تھا جس میں لوگوں نے جی کھول کر اپنے شہداء کو داد نہ دی ہو ...
مَیں یومِ شہداء کی تقریب میں اہلِ ملتان کی نمایندگی کے لیے گیا تھا لیکن مجھے کیا معلوم تھا اس تقریب سے واپسی پر مجھے اپنے دامن کو آنسوؤں سے تر دیکھنا ہو گا۔ وجہ یہ ہے کہ جب تقریب کے منتظمین نے مجھے کہا کہ ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ملتان والوں کی طرف سے آپ شہداء کو خراجِ تحسین پیش کریں گے تو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ مَیں بات کا آغاز کہاں سے کروں۔ کس شہید کی ماں کو دلاسہ دوں، بہن کے سر پر ہاتھ کیسے رکھوں؟ بوڑھے باپ کی آنکھوں میں جدائی کی کہانی مَیں کیسے لکھ سکتا تھا؟ اور پھر معصوم بچوں کو کس طرح بتاؤں کہ اب ان کے والد ٹافیاں اور کھلونے لے کر کبھی نہیں آئیں گے۔ ان تمام سوالات کے لیے جب مَیں ملتان میں پاک فوج کے زیرِ اہتمام یومِ شہداء میں پہنچا تو اداسی کا منظر ناصر کاظمی کے اس شعر کا منشور بنا ہوا تھا:
ہمارے گھر کی دیواروں پر ناصر
اُداسی بال کھولے سو رہی ہے
نہ کہیں سے مسکرانے کی آواز آئی نہ کسی نے قہقہہ لگایا۔ سوگواری کا عالم تھا کہ 30 اپریل کو پورے ملک میں نم آنکھوں سے شہداء کو یاد کیا جا رہا تھا۔ بگل کے بجتے ہی کور کمانڈر ملتان جنرل عابد پرویز تشریف لائے، قومی ترانہ ہوا، پھر شہداء کے لواحقین نے اسٹیج پر آنا شروع کیا۔ کوئی باپ اپنے بیٹے کی شبیہ بنے ہوا تھا تو کوئی بیوہ سیاہ برقعے کے ساتھ آ کر جیون ساتھی کی کہانی بتا رہی تھی۔ ایک بہن نے بڑے حوصلے سے بتایا کہ میرا بھائی شروع سے شہید ہونے کی باتیں کرتا تھا۔ خدا کا شکر ہے شہادت کا تاج ہمارے گھر میں اتارا۔ مجھے اب کسی اور اعزاز کی ضرورت نہیں اب ہمارے گھر کے لیے بھائی کا شہید ہونا ایک بڑا اعزاز ہے۔
ایک اور منظر جس نے میری آنکھوں سے آنسو رواں کر دیے جب کمپیئر حسن سیّد اور شانِ زہرا نے یہ اعلان کیا کہ اب پنڈال میں موجود شہداء کے تمام لواحقین یادگارِ شہداء پر پھولوں کا نذرانہ پیش کرینگے تو تقریب کے تمام شرکاء نے بھرپور خراجِ عقیدت پیش کیا اور لواحقین (جن میں بوڑھے، جوان، بچے اور خواتین شامل تھیں) کے ہاتھوں میں سرخ گلدستے تھے۔ یادگار کو مختلف روشنیوں سے سجایا گیا تھا۔ لواحقین کے ہاتھوں میں پھول، آنکھوں میں آنسو اور لبوں سے دُعائیں رواں تھیں۔ پس منظر میں ''اے راہِ حق کے شہیدو تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں'' کا میوزک چل رہا تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ تقریب میں ہزاروں خواتین و حضرات کی موجودگی اس بات کا ثبوت تھی کہ پاک فوج اور عوام ایک ہیں لیکن اس تقریب کی خاص بات کور کمانڈر ملتان جنرل عابد پرویز کی وہ تقریر تھی جس میں انھوں نے بتایا کہ بظاہر یہ تقریب پاک فوج کر رہی ہے لیکن ہم ہر سال اس تقریب کے ذریعے پاک فوج کے علاوہ دیگر تمام فورسز کے شہداء کو یاد کرتے ہیں۔ انھوں نے شہداء کے لواحقین کے لیے پاک فوج کے اقدامات کا جہاں ذکر کیا وہاں انھوں نے یہ بھی کہا کہ شہداء کے لواحقین کے لیے ان کے دروازے ہمیشہ کھلے رہیں گے۔ یومِ شہداء پر ہم نے شیرخوار بچوں سے لے کر لاٹھی کا سہارا لے کر چلنے والے بزرگوں کو بھی دیکھا جو اپنے پیاروں کا ذکر کرنے اور سننے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ شہر کے تمام طبقۂ فکر سے اہم افراد کی شرکت نے اس تقریب کو مزید پُروقار بنا دیا تھا۔
تقریب کا بیشتر دورانیہ شہداء کے رشتہ داروں کے ساتھ مکالمہ تھا جس میں وہ اپنے شہید ہونیوالوں کا ذکر کر کے آبدیدہ ہوتے رہے اور تقریب کے شرکاء کو رلاتے رہے۔ تقریب کے انتظام وانصرام کی اگرچہ بہت دنوں سے تیاری کی جا رہی تھی۔ آخرکار جب 30 اپریل کو اس تقریب کا انعقاد ہوا تو تقریباً سوا دو گھنٹے کی تقریب اتنی جلدی ختم ہو گئی جیسے آنکھ جھپکنے میں ایک پل لگتا ہے۔ تقریب کے اختتام پر شرکاء کا رخ شہداء کے لواحقین کی طرف تھا۔ کوئی ان کے معصوم بچوں کے ساتھ کھڑا تصویر بنوا رہا تھا، کوئی کسی شہید کی ماں کا ماتھا چوم رہا تھا۔ کوئی شہیدوں کی یادگار پر جا کر گروپ فوٹو بنوا رہا تھا تو کوئی دور تنہائی میں کھڑا اپنے جیون ساتھی کی یاد میں آنکھوں سے بہتا ہوا کاجل صاف کر رہا تھا۔
مجھے یہ کہنے دیجیے کہ ملتان میں ہونے والی یومِ شہداء کی تقریب میں ہر دردِ دل رکھنے والا اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کے بیٹھا رہا اور سوچتا رہا کہ شہید ہونیوالے کتنے دلیر تھے جنہوں نے اپنی جان کی قربانی دے دی لیکن وطن پر آنچ نہ آنے دی جو تقریب ڈھلتے دن کے وقت شروع ہوئی جب اس کا اختتام ہوا تو آسمان پر تارے چمک رہے تھے چاند دور دور تک کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا کہ یہ تقریب ان چاند تاروں کے نام تھی جو عین چودھویں کے چاند کے جوبن پر تھے لیکن ان کو وطن دشمنوں نے گرہن لگا دیا لیکن سلام ہے ان کے اداروں کو جو اپنے شہداء کا جی جان سے خیال رکھتے ہیں۔ اس موقعہ پر پورے ملک میں شہداء کی تصاویر لگائی جاتی ہیں۔ ان کی جرأت و شجاعت کے واقعات کو بار بار یاد کیا جاتا ہے تاکہ آنیوالی نسلوں کو معلوم ہو سکے کہ ان کے سانسوں کے لیے وطن کے جوانوں نے کتنی بڑی قیمت دی ہے۔
یومِ شہداء کی تقریب کے دوران کوئی لمحہ ایسا نہ تھا جس میں لوگوں نے جی کھول کر اپنے شہداء کو داد نہ دی ہو۔ اس موقعہ پر ایک سوال بار بار ذہن میں آتا رہا کہ جس طرح پاک فوج تمام فورسز کے شہداء کو یاد کر رہی ہے اسی طرح پولیس، رینجرز اور دیگر فورسز کے شہداء کے لیے ان کے ادارے سالانہ یومِ شہداء کا اہتمام کریں۔ اسی طرح آئی ایس پی آر کے کرنل اعجاز اور میجر اسد کے حوالے سے بریگیڈیئر جاوید حسن ہاشمی سے بار بار ملاقات نے ایک اچھے دوست میں اضافہ کیا جو مختار مسعود کے نہ صرف عاشق ہیں بلکہ ملکی سیاست کے ساتھ اُردو ادب پر خصوصی نظر رکھتے ہیں۔
کرنل باسط کی خوبصورت اُردو نے جب متاثر کیا تو معلوم ہوا کہ وہ ملک کے نامور نعت گو شاعر سیّد ہلال جعفری کے نواسے اور تحریکِ پاکستان کے نامور کارکن مولوی عرفان احمد انصاری کے قریبی ہیں جب کہ میجر شہریار سے جب بھی بات چیت ہوئی تو یوں لگا کہ جیسے وہ ہمارے قبیلے کے فرد ہیں۔ دو چار ملاقاتوں میں جب معاملات کھلے تو علم ہوا کہ وہ عبدالمجید سالک کے پڑنواسے اور بابائے صحافت ڈاکٹر عبدالسلام خورشید کے نواسے ہیں اور وہ اپنے دونوں بزرگوں کی نایاب کتب کے وارث بھی ہیں۔ کیپٹن یوسف جمال کا ذکر اس لیے بھی ضروری ہے کہ وہ ماضی کی افسانہ نگار ناہید نانو قریشی کے بیٹے ہیں تو اس اعتبار سے وہ میرا بھی بیٹا ہے۔
ہمارے گھر کی دیواروں پر ناصر
اُداسی بال کھولے سو رہی ہے
نہ کہیں سے مسکرانے کی آواز آئی نہ کسی نے قہقہہ لگایا۔ سوگواری کا عالم تھا کہ 30 اپریل کو پورے ملک میں نم آنکھوں سے شہداء کو یاد کیا جا رہا تھا۔ بگل کے بجتے ہی کور کمانڈر ملتان جنرل عابد پرویز تشریف لائے، قومی ترانہ ہوا، پھر شہداء کے لواحقین نے اسٹیج پر آنا شروع کیا۔ کوئی باپ اپنے بیٹے کی شبیہ بنے ہوا تھا تو کوئی بیوہ سیاہ برقعے کے ساتھ آ کر جیون ساتھی کی کہانی بتا رہی تھی۔ ایک بہن نے بڑے حوصلے سے بتایا کہ میرا بھائی شروع سے شہید ہونے کی باتیں کرتا تھا۔ خدا کا شکر ہے شہادت کا تاج ہمارے گھر میں اتارا۔ مجھے اب کسی اور اعزاز کی ضرورت نہیں اب ہمارے گھر کے لیے بھائی کا شہید ہونا ایک بڑا اعزاز ہے۔
ایک اور منظر جس نے میری آنکھوں سے آنسو رواں کر دیے جب کمپیئر حسن سیّد اور شانِ زہرا نے یہ اعلان کیا کہ اب پنڈال میں موجود شہداء کے تمام لواحقین یادگارِ شہداء پر پھولوں کا نذرانہ پیش کرینگے تو تقریب کے تمام شرکاء نے بھرپور خراجِ عقیدت پیش کیا اور لواحقین (جن میں بوڑھے، جوان، بچے اور خواتین شامل تھیں) کے ہاتھوں میں سرخ گلدستے تھے۔ یادگار کو مختلف روشنیوں سے سجایا گیا تھا۔ لواحقین کے ہاتھوں میں پھول، آنکھوں میں آنسو اور لبوں سے دُعائیں رواں تھیں۔ پس منظر میں ''اے راہِ حق کے شہیدو تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں'' کا میوزک چل رہا تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ تقریب میں ہزاروں خواتین و حضرات کی موجودگی اس بات کا ثبوت تھی کہ پاک فوج اور عوام ایک ہیں لیکن اس تقریب کی خاص بات کور کمانڈر ملتان جنرل عابد پرویز کی وہ تقریر تھی جس میں انھوں نے بتایا کہ بظاہر یہ تقریب پاک فوج کر رہی ہے لیکن ہم ہر سال اس تقریب کے ذریعے پاک فوج کے علاوہ دیگر تمام فورسز کے شہداء کو یاد کرتے ہیں۔ انھوں نے شہداء کے لواحقین کے لیے پاک فوج کے اقدامات کا جہاں ذکر کیا وہاں انھوں نے یہ بھی کہا کہ شہداء کے لواحقین کے لیے ان کے دروازے ہمیشہ کھلے رہیں گے۔ یومِ شہداء پر ہم نے شیرخوار بچوں سے لے کر لاٹھی کا سہارا لے کر چلنے والے بزرگوں کو بھی دیکھا جو اپنے پیاروں کا ذکر کرنے اور سننے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ شہر کے تمام طبقۂ فکر سے اہم افراد کی شرکت نے اس تقریب کو مزید پُروقار بنا دیا تھا۔
تقریب کا بیشتر دورانیہ شہداء کے رشتہ داروں کے ساتھ مکالمہ تھا جس میں وہ اپنے شہید ہونیوالوں کا ذکر کر کے آبدیدہ ہوتے رہے اور تقریب کے شرکاء کو رلاتے رہے۔ تقریب کے انتظام وانصرام کی اگرچہ بہت دنوں سے تیاری کی جا رہی تھی۔ آخرکار جب 30 اپریل کو اس تقریب کا انعقاد ہوا تو تقریباً سوا دو گھنٹے کی تقریب اتنی جلدی ختم ہو گئی جیسے آنکھ جھپکنے میں ایک پل لگتا ہے۔ تقریب کے اختتام پر شرکاء کا رخ شہداء کے لواحقین کی طرف تھا۔ کوئی ان کے معصوم بچوں کے ساتھ کھڑا تصویر بنوا رہا تھا، کوئی کسی شہید کی ماں کا ماتھا چوم رہا تھا۔ کوئی شہیدوں کی یادگار پر جا کر گروپ فوٹو بنوا رہا تھا تو کوئی دور تنہائی میں کھڑا اپنے جیون ساتھی کی یاد میں آنکھوں سے بہتا ہوا کاجل صاف کر رہا تھا۔
مجھے یہ کہنے دیجیے کہ ملتان میں ہونے والی یومِ شہداء کی تقریب میں ہر دردِ دل رکھنے والا اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کے بیٹھا رہا اور سوچتا رہا کہ شہید ہونیوالے کتنے دلیر تھے جنہوں نے اپنی جان کی قربانی دے دی لیکن وطن پر آنچ نہ آنے دی جو تقریب ڈھلتے دن کے وقت شروع ہوئی جب اس کا اختتام ہوا تو آسمان پر تارے چمک رہے تھے چاند دور دور تک کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا کہ یہ تقریب ان چاند تاروں کے نام تھی جو عین چودھویں کے چاند کے جوبن پر تھے لیکن ان کو وطن دشمنوں نے گرہن لگا دیا لیکن سلام ہے ان کے اداروں کو جو اپنے شہداء کا جی جان سے خیال رکھتے ہیں۔ اس موقعہ پر پورے ملک میں شہداء کی تصاویر لگائی جاتی ہیں۔ ان کی جرأت و شجاعت کے واقعات کو بار بار یاد کیا جاتا ہے تاکہ آنیوالی نسلوں کو معلوم ہو سکے کہ ان کے سانسوں کے لیے وطن کے جوانوں نے کتنی بڑی قیمت دی ہے۔
یومِ شہداء کی تقریب کے دوران کوئی لمحہ ایسا نہ تھا جس میں لوگوں نے جی کھول کر اپنے شہداء کو داد نہ دی ہو۔ اس موقعہ پر ایک سوال بار بار ذہن میں آتا رہا کہ جس طرح پاک فوج تمام فورسز کے شہداء کو یاد کر رہی ہے اسی طرح پولیس، رینجرز اور دیگر فورسز کے شہداء کے لیے ان کے ادارے سالانہ یومِ شہداء کا اہتمام کریں۔ اسی طرح آئی ایس پی آر کے کرنل اعجاز اور میجر اسد کے حوالے سے بریگیڈیئر جاوید حسن ہاشمی سے بار بار ملاقات نے ایک اچھے دوست میں اضافہ کیا جو مختار مسعود کے نہ صرف عاشق ہیں بلکہ ملکی سیاست کے ساتھ اُردو ادب پر خصوصی نظر رکھتے ہیں۔
کرنل باسط کی خوبصورت اُردو نے جب متاثر کیا تو معلوم ہوا کہ وہ ملک کے نامور نعت گو شاعر سیّد ہلال جعفری کے نواسے اور تحریکِ پاکستان کے نامور کارکن مولوی عرفان احمد انصاری کے قریبی ہیں جب کہ میجر شہریار سے جب بھی بات چیت ہوئی تو یوں لگا کہ جیسے وہ ہمارے قبیلے کے فرد ہیں۔ دو چار ملاقاتوں میں جب معاملات کھلے تو علم ہوا کہ وہ عبدالمجید سالک کے پڑنواسے اور بابائے صحافت ڈاکٹر عبدالسلام خورشید کے نواسے ہیں اور وہ اپنے دونوں بزرگوں کی نایاب کتب کے وارث بھی ہیں۔ کیپٹن یوسف جمال کا ذکر اس لیے بھی ضروری ہے کہ وہ ماضی کی افسانہ نگار ناہید نانو قریشی کے بیٹے ہیں تو اس اعتبار سے وہ میرا بھی بیٹا ہے۔