محنت کشوں کے حل طلب مسائل
بچوں سے کام لینا یقینا غلط ہے مگر جس ملک میں روزانہ صرف بھوک سے 1132 بچے مر جاتے ہوں وہاں بچوں کو زندہ ...
SIALKOT:
جہاں کی ملیں ریشم کے ڈھیر بنتی ہوں
وہاں کے دخترانے وطن تار تار کو ترسیں
کیا اسی لیے زمین نے اناج اگلا تھا
کہ اولاد آدم وحوا بلک بلک کے مرے
صنعتی تعلقات کے تسلیم شدہ اقدار کی پامالی کی بنا پر آج پاکستان میں محنت کشوں کے حالات ابتر ہیں۔ طویل اوقات کار، کم اجرتیں، صحت وسلامتی کی ناقص سہولتیں، یونین سازی اور اجتماعی سوداکاری پر بڑھتی ہوئی پابندیاں اور عدم سماجی تحفظ کارکنان کی خراب صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں۔ چاروں صوبوں نے سب سے پہلے انڈسٹریل ریلیشنز ایکٹ اپنے طور پر وضع کیا۔ یہ بھی ہوا کہ مزدور دشمن شق کے ذریعے یونین سازی حق کو مزید محدود کر دیا گیا اور یہ بھی ہوا کہ صوبہ سندھ نے زراعتی کارکنوں کو پاکستان کی تاریخ میں پہلی بارکاغذوں میں یونین سازی اوراجتماعی سوداکاری کا حق دیا۔
پاکستان میں لیبر پالیسی قانون سازی سے جدا رہی ہے۔ گزشتہ 66 برسوں میں 6 لیبر پالیسیاں بنائی گئیں لیکن یہ مزدور دوست قوانین کی شکل میں نہ ڈھل سکیں۔ کسی لیبر پالیسی میں تمام محنت کشوں کے یونین سازی کے حقوق کو تسلیم نہیں کیا گیا اور نہ ہی زراعت اور غیرمنظم شعبے کے کارکنوں کو بنیادی حقوق دیے گئے۔ صنعت وتجارتی اداروں میں کارکنوں کی صحت وسلامتی ایک نہایت اہم اور بنیادی مسئلہ ہے۔ 2012ء دسمبر کو بلدیہ ٹائون کراچی کی گارمنٹ فیکٹری میں آتشزدگی کے واقعے نے اس مسئلے کی سنگینی کا احساس دلایا۔
موجودہ قوانین کے تحت مزدوروں کو صحت وسلامتی کے سلسلے میں جو حقوق حاصل ہیں وہ نہ صرف محدود ہیں بلکہ ان کا اطلاق ان گنے چنے مزدوروں پر ہوتا ہے جو صرف منظم تجارتی اداروں میں کام کرتے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق73 فیصد افرادی قوت غیرمنظم شعبے میں سرگرم عمل ہے یعنی مزدوروں کی بڑی اکثریت جائز حقوق سے صرف اس لیے محروم ہے کہ حکومت غیررسمی شعبے کا اندراج کرنے میں ناکام ہے۔ اس ضمن میں کئی سماجی تحفظ کے لیے قانون بنائے گئے ہیںجن کے تحت متعلقہ ادارے بھی قائم کیے گئے لیکن اس کے باوجود سماجی تحفظ کی اسکیموں کا دائرہ انتہائی محدود ہے۔
سماجی تحظ کے اداروں اور ان کی اسکیموں کے لیے حکومت کا بجٹ مسلسل کم ہوتا جا رہا ہے جو 2009ء سے 2010ء میں مجموعی ملکی پیداوار کا صرف ۸۱۰ فیصد تھا۔ سماجی تحفظ کی کسی اسکیم میں زرعی مزدور، غیرمنظم شعبے کے کارکن اور یومیہ اجرت پر کام کرنیوالے محنت کش شامل نہیں ہیں جن کی تعداد اور ملک کی افرادی قوت میں اب سے زیادہ ہے۔
معیشت کے تمام شعبوں کو سماجی تحفظ اسکیموں کے دائرے میں لانا، کارکنوں کو خود رجسٹر کرانے کا اختیار دینا، ون ونڈوآپریشن کے ذریعے خدمات اور سہولتوں کو مستحکم بنانا، ان اداروں کے لیے مستقل بنیاد پر مالی وسائل فراہم کرنا۔ جن سے ان اداروں کی تشکیل نو کا آغاز کیا جا سکتا ہے اور عوامی فلاح وبہبود کے نظام کو مستحکم کیا جا سکتا ہے گوکہ پاکستان نے زراعت کو اب تک صنعت کا درجہ نہیں دیا ہے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ حکومت یہ اقدامات سرانجام دے۔ آج ترقی یافتہ ممالک کے شہری اور کارکنان یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ آیا ٹیکسٹائل کی مصنوعات جن ممالک سے خریدی جا رہی ہیں، وہاں کپاس کاشت کرنے والوں اور کپاس کی چنائی کرنیوالے مزدوروں کو ان کا حق مل رہا ہے یا نہیں۔
سندھ نے2013 آئی آر اے میں زراعت کے شعبے سے منسلک کارکنوں کو یونین سازی اور اجتماعی سوداکاری کا حق دیا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ آئی ایل او لیبر انسپیکشن (زراعت) کنوینشن نمبر 129 کی بھی توثیق کرے۔ آئین و قانون کے مطابق جبری مشقت کروانا ایک جرم ہے لیکن اس کے باوجود زراعت اور اینٹوں کے بھٹے میں جبری مشقت پائی جاتی ہے۔ پاکستان نے آئی ایل او کے جبری مشقت کنوینشن نمبر 105 کی توثیق کرنے کے بعد لاگو کیا لیکن اس پر مکمل طور پر عمل درآمد ابھی تک نہ ہو سکا۔ جبری مشقت کے حوالے سے یورپی ممالک کا اور شہریوںکا ردوعمل سنگین ہو سکتا ہے لہٰذا حکومت کو جبری مشقت کو ختم کرنے کے لیے سخت اقدام کرنے ہونگے۔ بچوںکی مشقت ایک ایسا مسئلہ ہے جسکی وجہ سے ماضی میں بڑا نقصان اٹھایا۔
بچوں سے کام لینا یقینا غلط ہے مگر جس ملک میں روزانہ صرف بھوک سے 1132 بچے مر جاتے ہوں وہاں بچوں کو زندہ رہنے کے لیے کام تو کرنا ہی ہے یا پھر ان کے والدین کو این جی اوز (سیلانی، ایدھی یا عالمگیر) کے خیراتی بنانے کے بجائے مل، کارخانوں کا قیام عمل میں لانا ہو گا جس میں ان کے والدین فاقوں کے بجائے روٹی تو حاصل کر سکیں۔ گزشتہ دنوں 26 اپریل 2014ء کو ہمارے ایک بزرگ مزدور رہنما کامریڈ مقبول احمد ہم سے جدا ہو گئے۔ ان کی پیدائش تو ۹۳۹۱ء میں سیالکوٹ میں ہوئی تھی لیکن ان کے والد نذر دین نے کامریڈ مقبول سمیت اپنے خاندان کو ساتھ لے کر سیالکوٹ سے بدین منتقل ہوگئے اور کھیتی باڑی کرنے لگے۔ جب وہ بڑے ہوئے تو سب سے پہلے این سی (نیشنل کنسٹرکشن کمپنی) میں کام شروع کیا۔
بعدازاں شوگر ملز اور پھر ایک اور شوگر ملز بدین میں ملازمت اختیار کی۔ وہاں انھوں نے مزدوروں کی یونین میں شمولیت اختیار کی اور یونین سازی میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی سلسلے میں پاکستان ورکرز فیڈریشن کے رہنما کامریڈ شمیم واسطی سے حیدرآباد کے ٹریڈ یونین آفس میں ان کی ملاقات ہوئی۔ وہی ان کے پہلے انقلابی (کمیونسٹ) استاد تھے۔ انھوں نے سب سے پہلے جو کتاب پڑھی تھی اس کا نام تھا انسان بڑا کیسے بنا۔ کامریڈ مقبول احمد تادم مرگ محنت کشوں کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔ ان کے قریبی ساتھیوں میں سے بدین کے ڈاکٹر صفدر عباسی، محمد جمن اور عظیم پورہ کراچی کے ساتھی ڈاکٹر رمضان ہیں۔ مقبول احمد کا شعر وشاعری سے بھی لگائو تھا، وہ حسین شاہ، استاد دامن، فیض احمد فیض اور ساحر لودھیانوی کو شوق سے پڑھا کرتے تھے۔
ان کی نجی ڈائری سے حاصل شدہ ایک واقعہ میں لکھتے ہیں کہ 29 دسمبر 1976ء بوقت 8بجے صبح شوگر ملز کے گیٹ پہ ایک جلسہ ہوا جس میںتقریبا 4سو مزدوروں نے شرکت کی اور ڈیمانڈ نوٹس پڑھ کر سنایا گیا اور 10 روز کا نوٹس دیا۔ ایک اور مجلس عاملہ کے اجلاس کا ذکر ہے جس میں درج ہے کہ صدر ظہور احمد، نائب صدر غلام حسین اور جنرل سیکریٹری مقبول احمد سمیت 8عہدیدار منتخب ہوئے۔ وہ طبقاتی جدوجہد رسالہ پڑھا کرتے تھے، وہ انتقال سے 4 ماہ قبل شدید علالت میںبھی دسمبر 2013ء کی مارکسسٹ اسکولینگ منعقدہ میمن گوٹھ ملیر کراچی میں شرکت کی۔ ملیر کراچی سے ایک دردمندانہ خط۔
میرے والد 6 سال قبل شوگر اور بلڈپریشر کے عارضہ میں انتقال کر گئے۔ ایک بوڑھی ماں اور بہن کے ساتھ رہائش پزیر ہوں اور گھر کا واحد کفیل ہوں۔ ایک پرائیوٹ اور عارضی ملازمت کے علاوہ کوئی مستقل ذریعہ معاش نہیںہے۔ اس وقت درپیش پریشان کن مسئلہ میری شادی کا ہے جس میں رکاوٹ میرے گھر کی نامکمل تعمیر ہے جو کہ اس اعصاب شکن مہنگائی میں روزانہ کے اخراجات کے ساتھ مختصر تنخواہ میں کسی صورت بھی گذارا ممکن نہیں ہے۔ غربت کی انھیںمجبوری کی وجہ سے 70ہزار روپے کا مقروض بھی ہو چکا ہوں۔ اگر کوئی صاحب حیثیت مجھ سے تعاون کرنا چاہے تو فون نمبر 0323-2838649 پہ رابطہ کر سکتے ہیں۔ عبدللہ ملیر، کراچی۔